ساحر زیرِ تعمیر بلڈنگ سے باہر نکلا تو چلچلاتی دھوپ نے استقبال کیا۔ تپتی دھوپ میں تیزی سے گزرتا ہو&ٔا گاڑی میں بیٹھا اور سکون کا سانس لیا ۔اے سی کی ٹھنڈک سے کچھ اوسان ٹھکانے آئے۔ آج رمضان المبارک کا دوسرا روزہ تھا۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ وہ اپنے تعمیراتی کام کا معائنہ کرنے اپنے عملہ کو ہی بھیجتا تھا ۔البتہ گزشتہ کچھ دن سے متواتراس کی میٹنگ سائٹ پر ہی ہورہی تھی۔ آج دھوپ بھی خوب تیز تھی،اتنی سی دیر میں ہی وہ گرمی سے بےحال ہوگیا تھا۔ اس نے پانی کی بوتل کو منہ لگایا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ سامنے نظر پڑی تو بے اختیار ماتھے کو چھوا۔ فائل تو وہ اوپر ہی بھول آیا تھا!
اب واپس ٹھنڈی ٹھار گاڑی سے نکل کر پانچویں منزل تک جانا سوہانِ روح تھا۔رمضان کی وجہ سے کام رکا ہؤا تھا، مزدور بھی نہیں تھے۔ اس نے ارد گرد نظر دوڑائی ۔ اس کا یہ پلازہ جہاں بن رہا تھا یہ نچلے متوسط طبقے کا رہائشی علاقہ تھا۔کچھ دور ایک قدرےپرانا بنا ہؤا مکان تھا جس کے نیلے رنگ کے دروازے کے آگے چھجے تلے ایک بچہ بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے آواز لگائی۔
’’ہیلو چیمپئن!‘‘
بچے نے چونک کر اوپر دیکھا اور مسکراتا ہؤا قریب آگیا۔
’’جی چاچو!‘‘
کیا غضب کا اعتماد تھا۔ نہ گاڑی سے متاثر ہؤا نہ حلیہ سے ،سیدھا رشتہ ہی بنالیا۔ پر ساحر کو اس کے منہ سے چاچو اچھا لگا۔
’’یار میرا ایک کام کردو، میں اپنی ایک کالی جلد والی فائل اوپر پانچویں منزل پر بھول آیا ہوں، وہیں دروازے کے ساتھ تختے پر رکھی ہے تم لادوگے؟‘‘
’’جی لادیتا ہوں‘‘ وہ سعادت مندی سے سر ہلاتا ہؤا چلاگیا۔ ساحر نے شکر پڑھا ۔آجکل بچے اتنے سعادت مند کب ہوتے ہیں کہ کسی اجنبی کا کام اتنی آسانی سے کردیں۔چند منٹ میں ہی وہ فائل لے کر آگیا اس کی سانس پھولی ہوئی تھی اور ماتھے پر پسینہ چمک رہا تھا۔
’’شکریہ چیمپئن‘‘ساحر نے خود پانی پیتے ہوئے دوسری بوتل اس کی طرف بڑھائی۔
’’نہیں میرا روزہ ہے‘‘۔
بچے نے بوتل کو ہاتھ سے پرے کیا تو ساحر کے دل میں ایکدم سے ملال جاگا۔اتنے سے بچے کو روزے میں پانچویں منزل بھیج دیا تھا پہلے پتہ ہوتا روزے سے ہے تو ہرگز نہ بھیجتا۔
’’ابھی تو تم اتنے چھوٹے ہو چڑی روزہ ہے نا‘‘ اس نے تسلی چاہی۔
’’نہیں چاچو میں کوئی اتنا بچہ تھوڑی ہوں جو چڑی روزہ رکھوں گا، نو سال کا ہوچکا ہوں پورا روزہ رکھتا ہوں‘‘ بچے نے فخر سے بتایا جیسے نو سال کا بچہ نہیں کڑیل جوان ہو۔
اگر بچے کا روزہ نہ ہوتا تو وہ اسے کچھ پیسے دیتا انعام کے طور پر اور چلا جاتا مگر اب اس کو افسوس ہورہا تھا بچے کو پسینہ پسینہ دیکھ کر ۔وہ ویسے بھی بہت نرم دل تھا پوری کوشش کرتا کہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ کردے۔ اپنے دفتری عملہ میں وہ ایک مہربان باس کے طور پر مشہور تھا۔
’’آجاؤ گاڑی میں بیٹھ جاؤ میں تمہیں ایک گاڑی کا چکر دلاکے لاتا ہوں تمہارا پسینہ بھی خشک ہو جائے گا ‘‘ساحر نے مسکرا کر کہا تو بچے نے ایک لمحہ کے لیے سوچا پھر ساحر کی برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔بیٹھتے ہوئے اس نے قرینےسے دروازہ بند کیا جیسے گاڑی میں بیٹھنے کا عادی ہو۔ساحر نے اے سی کی کولنگ تیز کی اور گاڑی اسٹارٹ کردی۔
’’ویسے تو میں نے تم کو خود ہی گاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دی ہے
پر یوں کسی بھی اجنبی کی گاڑی میں نہیں بیٹھتے میں تمہیں اغوابھی کرسکتا ہوں‘‘ساحر نے گاڑی سڑک پر ڈالتے ہوئے کہا۔
’’جی مجھے معلوم ہے کہ کبھی کسی اجنبی پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے اور میں کبھی کسی کے ساتھ نہیں جاتا اور نہ ہی کبھی کسی سے کوئی چیز لے کر کھاتا ہوں ۔پرآپ کو میں دو تین روز سےآتے ہوئےدیکھ رہا ہوں۔ مجھے آپ کی گاڑی بہت اچھی لگی تھی ۔مجھے گاڑیاں بہت پسند ہیں میرے پاس جو کھلونا گاڑیاں ہیں ان میں اس ماڈل کی گاڑیاں بھی ہیں۔ تو صبح میں نے اللہ میاں سے دعا کی کہ مجھے ایک دفعہ اس گاڑی میں بٹھا دیں مجھے اس گاڑی کی سواری کرنی ہے اور اب آپ نے آفر کردی ۔اس کا مطلب کہ میری دعا قبول ہوئی ہے۔ اب اگر میں انکار کرتا تو یہ اللہ کی ناشکری ہوتی کیونکہ اللہ نے تو میری خواہش پوری کرنے کی ہی سبیل نکالی ہے ورنہ نہ آپ فائل بھولتے اور نہ مجھے بلاتے‘‘۔
بچہ کس یقین سے کہہ رہا تھا ۔ساحر کو بچے کے ایمان پر حیرت ہوئی۔
اس نے موبائل کا کیمرہ آن کر کے سامنے ونڈ اسکرین کے ساتھ رکھ دیا ۔اس کے لیے یہ بچہ دلچسپی کا باعث بن گیا تھا، ایک ایڈونچر جس کی کوئی انوکھی بات سوشل میڈیا پر وائرل کرکے واہ واہ سمیٹی جا سکے۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’ارقم‘‘۔
وہ مختصر جواب دے کر باہر دیکھنے لگا۔
’’اچھا ارقم ایک بات بتاؤ تم نے روزہ کیوں رکھا ہے؟ ابھی تو تم چھوٹے ہو اور تم پر روزہ فرض نہیں ہے۔ جب فرض ہوجاتا تب رکھ لیتے۔ ابھی سے سارا دن بھوکے پیاسے رہنا اتنی مشقت جھیلنا جب کہ تمہیں پڑھائی بھی کرنی ہوتی ہے‘‘ساحر نے اس کے ہاتھ میں پکڑی چہارم کلاس کی سائنس کی کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’آپ نے روزہ کیوں نہیں رکھا جب کہ آپ پر تو فرض ہوچکا ؟‘‘اس نے پلٹ کر سوال کرتے ہوئے ساحل کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ نگاہیں چرا کر سامنے دیکھنے لگا۔ تو گویا بچے نے اسے پانی پیتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
’’میرا دن بہت مصروف گزرتا ہے میری روٹین بھی بہت ٹف ہے مجھے وقت ہی نہیں ملتا روزہ رکھنے کا‘‘۔
’’بچپن میں رکھتے تھے؟‘‘ ارقم باقاعدہ اس کی طرف رخ کرکے بیٹھ گیا گویا انٹرویو کا ارادہ ہو۔
’’نہیں اس کول لائف کالج لائف یونیورسٹی بزنس کبھی فری رہا ہی نہیں کہ روزہ رکھنے کے بارے میں سوچتا‘‘۔
ساحر کو بچے کے سامنے شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔ اس کی سوسائٹی میں عموماً لوگ روزہ نہیں رکھتے تھے اور نہ کبھی کسی نے اس سے روزہ کے بارے میں سوال کیا تھا۔
’’اس کا مطلب ہے روزہ فرض ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے ارادے کی وجہ سے رکھا جاتا ہے ۔تائی امی کہتی ہیں عبادات کو صرف اس لیے کیا جائے کہ وہ فرض ہیں تو وہ مزہ نہیں دیتیں مجبوری بن جاتی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی عنایتوں کو دیکھوگے اس سے محبت کروگے تو خود بخود اس کی ماننے کو دل چاہے گا۔ عبادت کرتے ہوئے فرض، نفل یا عمر ،حالات وغیرہ نہیں دیکھے جاتے فقط محبوب دیکھا جاتا ہے‘‘۔
ساحر کو لگا واقعی وہ نو سال کا بچہ نہیں کڑیل جوان ہی ہو۔ اس نے پہلی دفعہ اس کو غور سے دیکھا۔کھڑے کھڑے نقوش گندمی چمکدار رنگت صاف ستھرا حلیہ آنکھوں پر نظر کا چشمہ کپڑے قدرے پرانے مگر استری شدہ اور سب سے خاص بات مسکراتے ہوئے رخساروں پر ابھرنے والے بھنور ۔
اف کیاسادگی اتنی خوبصورت بھی ہوسکتی ہے؟ اس نے ایک بے تکی بات سوچی پھر سر جھٹک دیا۔
’’اچھا تو تمہارا مطلب ہے اگر روزہ یا اور کوئی فرض عبادت میری ترجیحات میں شامل نہیں ہے تو خدا میرا محبوب نہیں ہے ؟جبکہ میں انسانیت کی اتنی خدمت کرتا ہوں فلاحی کاموں میں پیسہ لگاتا ہوں غریب اداروں کو فنڈ دیتا ہوں مسجد کو چندہ دیتا ہوں عموماً لوگوں کی مالی امداد کر دیتا ہوں کیا یہ سب نیکی نہیں ہے؟‘‘
ساحر کو بچے کا اللہ پر حق جتانا اچھا نہیں لگا تھا مانا کہ مذہب اس کی
زندگی میں کوئی خاص عمل دخل نہیں رکھتا تھا پر وہ پیدائشی مسلمان تھا اور اس کو اللہ سے محبت تھی۔ اگر اللہ ارقم کو محبوب تھا تو اس کو بھی محبوب تھا۔
’’یہ تو بہت بڑی بڑی نیکیاں ہیں چاچو اور بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ دینے والے ہاتھ چن لیتا ہے۔ یہ نیکیاں ہماری جنت کا آرائشی سامان ہوتی ہیں ۔پر تائی امی کہتی ہیں عبادات ہماری طرف سے اللہ کو شکریہ کہنے کا طریقہ ہوتی ہیں اور جو جنت ہم اپنی چھوٹی بڑی نیکیوں سے سجا رہے ہوتے ہیں اس جنت کی بنیاد ہوتی ہیں ۔ اتنا آرائشی سامان جمع کرتے ہیں تو اس کو رکھنے کے لیے ایک مضبوط بنیادوں والا گھر بنانے کی بھی تو فکر کریں نا‘‘۔
ارقم نے ناک سے پھسلتا چشمہ انگلی سے اوپر کیا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
ارقم کی سادگی سے کہی ہوئی بات اس کے دل کی گہرائی میں کہیں اتری تھی۔ روزہ تو خیر کبھی رکھا ہی نہیں تھا نماز بھی بس عید کے عید ہی پڑھتا تھا یا کبھی کبھار جمعہ کو مسجد چلا جاتا ۔
ساحر ایک کامیاب بزنس مین تھا ۔پاکستان کے چار شہروں میں اس کا کاروبار پھیلا تھا۔ بہت نرم خو خوش گفتار اور مہربان دل…. بے شمار فلاحی اور امدادی کام کرتا ،کئی ملکوں کی سیر کرچکا تھا کبھی دوستوں کے ساتھ کبھی گھر والوں کے ساتھ، پھر بھی اس کو لگتا کہ اس کی زندگی میں کچھ بےسکونی سی ہے اور آج اس بچے سے بات کرتے ہوئے ادراک ہؤا تھا کہ شاید یہ بے سکونی اس لیے ہے کیونکہ اس کی روح بے سکون ہےجسکی وجہ فرائض سے دوری ہے۔
ایک بڑا سا چکر کھاکے وہ لوگ واپس ارقم کے گھر پہنچ چکے تھے ۔ ساحر نے گاڑی کا لاک کھولنے سے پہلے پرس سے کچھ پیسے نکال کے ارقم کی طرف بڑھائے۔
’’یہ لو چیمپئن کوئی چیز لے لینا‘‘۔
’’نہیں مجھے کوئی چیز نہیں چاہیے آپ نے گاڑی کی سیر کرادی یہ ہی کافی ہے۔ ابھی تو امی سے گاڑی میں بیٹھنے پر ہی بڑی ڈانٹ پڑنی ہے‘‘۔
’’چلو ایسا کرنا اپنی امی کے لیے کوئی چیز لے لینا وہ خوش ہوجائیں گی یا پھر اپنے ابو کے لیے بلکہ ایسا کرنا اپنی تائی امی کے لیے کوئی تحفہ لے لینا جنھوں نے تمہیں اتنی اچھی باتیں سکھائیں‘‘۔
ساحر کا ہاتھ ہنوز بڑھا ہؤا تھا پر ارقم نے نفی میں سر ہلا دیا ۔
’’میں ان پیسوں سے کسی کے لیے کچھ بھی لونگا تو کوئی خوش نہیں ہوگا ۔ابا کہتے ہیں زندگی میں چاہے کتنی بھی پریشانیاں کیوں نہ آئیں کبھی بھی لینے والا ہاتھ نہ بننا ہمیشہ دینے والا ہاتھ ہی رہنا اور جہاں تک تائی امی کی بات ہے تو میں تو ویسے بھی روز ان کو تحفہ دیتا ہوں وہ اسی میں خوش ہوجاتی ہیں‘‘۔
’’روز ؟‘‘ساحر نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں نا! جب میں دو سال کا تھا تو تائی امی نے مجھے کلمہ سکھایا تھا، چھ سال کا تھا تو نماز سکھائی اور سات سال کا ہؤا تو میری روزہ کشائی کروائی۔ اس کے علاوہ بھی وہ مجھے کافی کچھ سکھاتی بتاتی رہتی ہیں ۔تو میں جب بھی کوئی نیکی کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ سے کہتا ہوں اس نیکی کاسارا ثواب امی ابا اور تائی امی کو دے دیں اور تھوڑا تھوڑا میری دونوں بہنوں کو بھی، یہ روز کا تحفہ ہوتا ہے میری طرف سے میرے اپنوں کے لیے‘‘۔
ارقم دروازے پر ہاتھ رکھے لاک کھلنے کے انتظار میں بیٹھا تھا پر ساحر کو اتنے پیارے بچے کو رخصت کرنے کی کوئی جلدی نہیں تھی جس کی سادگی بھری انوکھی باتیں دل کو بھارہی تھیں۔
’’ اگر سارا اجر و ثواب اپنوں میں بانٹ دیتے ہو تو اپنے لیے کیا رکھتے ہو؟ تم تو خالی ہاتھ ہی رہ جاتے ہو اتنی محنت کر کے بھی‘‘۔
’’آپ کی کوئی تائی امی ہیں؟‘‘سوال کے جواب میں سوال کرنا شاید اس کی عادت تھی۔
’’نہیں‘‘ ساحر نے نفی میں سر ہلایا۔
’’تب ہی تو کسی نے آپ کو یہ ہی نہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کبھی کسی کا احسان نہیں رکھتے۔ جب کوئی بندہ کسی بھی اللہ کے بندے کو کچھ دیتا ہے تو اللہ اسے دس گنا بڑھا کر واپس کرتے ہیں اور رمضان میں تو ایک نیکی ستر نیکیاں بن جاتی ہیں یعنی میں جب ایک نیکی کا ثواب کسی کو گفٹ دیتا ہوں
تو اللہ مجھے دس نیکی اور رمضان میں ستر سے ضرب دے کر سات سو ….اور ایک نیکی اتنے سارے لوگوں کو بانٹنے پر سات ہزار یا ستر ہزار یا سات لاکھ یا پتہ نہیں کتنے….سارا مشکل والا حساب اللہ میاں خود ہی کر لیتے ہونگے پر مجھے ہمیشہ نفع ہی ملتا ہوگا مجھے معلوم ہے ، پھر میں خالی ہاتھ کیسے ہؤا؟‘‘
اس لمحہ ساحر کو اپنے پیسوں سے بھرے ہوئے ہاتھ خالی محسوس ہوئے۔۔۔ بالکل خالی! اس نے گھبرا کر لاک کھولا ۔
ارقم اتر کر سلام کرتا ہؤا چلا گیا پر ساحل کتنے ہی لمحہ ساکت بیٹھا رہا ۔وہ تعلیم کے لیے ملکوں ملکوں گھوما تھا پر اتنے مختصر وقت میں اتنا جامع اور مدلل سبق کسی نے نہیں سکھایا تھا۔پندرہ منٹ میں ہی وہ کیا کیا نہ پڑھا گیا تھا۔ بڑوں کا احترام ، دعاپر یقین، عنایتوں پر شکر، الله سے محبت ، فرض عبادت کی اہمیت ، قناعت ، اور سب سے بڑھ کر اپنوں کو دعاؤں میں یاد رکھنا۔
اس کے ذہن میں ہلکی سی بچپن کی شبیہہ لہرائی۔پھوپھی کی آواز کانوں میں گونجی۔
’’ تم اتنے بڑے ہوگئے ہو ساحر روزہ رکھا کرو ،تم پورا دن روزہ دار کے سامنے کھاتے پیتے ہو ، دیکھو جب میں صحن میں جاتی ہوں تو سامنے بیٹھی چڑیاں بھی کونڈی سے دور چلی جاتی ہیں ان کو بھی اللہ نے عقل دی ہے کہ روزہ دار کے سامنے پانی نہیں پینا آپ تو پھر بہت ذہین اور عقلمند بچے ہو‘‘۔
’’اوہو آپا بچے کے ذرا سے کھانا کھالینے سے کون سا آپ کا روزہ خراب ہوگیا صبح کا بھوکا پیاسا سکول گیا ہؤا تھا ابھی تھکا ہارا آیا ہے اور آپ نے وعظ شروع کر دیا۔ابھی بچہ ہے جب عمر ہوگی تو روزہ بھی رکھ لےگا‘‘۔
ساحر پر پھوپھی کی بات کا اثر ہونے ہی لگتا کہ مما ہمیشہ اس کو لے جاتیں ۔بچپن میں نماز اور قرآن پھوپھی نے ہی پڑھایا تھا پر جب پھوپھی نے اس کی روزہ کشائی کروانی چاہی تو مما آڑے آگئیں ۔اتنے چھوٹے بچے کو روزہ رکھوانا مما کو ظلم لگتا۔ پھر کچھ ہی عرصے میں وہ لوگ پھوپھی کا برابر والا گھر چھوڑ کر بڑے شہر شفٹ ہوگئے گویا بڑے آدمی بن گئے اور پھوپھی چھوٹے شہر میں ہمیشہ چھوٹے لوگ بن کر ہی رہیں ۔ملنا ملانانہ رہا۔
دن مہینوں سے ہوتےہوئےسالوں پر محیط ہوگئے ،ساحر بچپن چھوڑ کر بڑا ہوگیا، اتنا بڑا کہ خود ایک سال کی بیٹی کا باپ بن گیا ،پر مما کی نظر میں شاید کبھی بڑا ہؤا ہی نہیں۔ جب ہی مما نے کبھی اسے روزہ رکھنے کو نہیں کہا۔ خود بھی ساحر کوروزہ مشقت بھرا کام لگتا تھا۔شادی کے بعد پچھلے سال پہلا رمضان آیا تھا ۔سبرینہ کی طبیعت کچھ خراب تھی مگر اس نے پہلا روزہ رکھ لیا تھا۔ ساحر کو پتہ چلا تو بہت ناراض ہؤا ،اس کی صحت کی وجہ سے فکر مندی ظاہر کی اور مزید روزے رکھنے سےمنع کردیا تھا ۔سبرینہ کسی حد تک مذہبی رجحان رکھتی تھی گھر میں عموماً نماز پڑھتی ہوئی نظر آتی اگرچہ ساحرکے طرزِ زندگی میں وہ بھی ڈھل گئی تھی۔
کل ساحر کسی میٹنگ کے سلسلہ میں شہر سے باہر تھا پر آج جب صبح ناشتہ میں سبرینہ نظر نہ آئی تو اس کو لگا سبرینہ نے روزہ رکھا ہوگا۔ ابھی اس کی بیٹی اتنی چھوٹی تھی وہ روزہ کیسے رکھ سکتی تھی ۔صبح وہ جلدی میں تھا پر شام کو سبرینہ کو روزہ رکھنے سے منع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر شام تک ارادے ایسے ٹوٹیں گے اور سوچ ایک نیا رخ اختیار کر لے گی، کسے معلوم تھا!
رات کو ساحر جائے نماز پر کھڑا تھا اور سبرینہ حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ نہ باہر سورج نکلا ہؤا تھا اور نہ ہی آج جمعہ کا دن تھا عید بھی ابھی دور تھی پھر ایسا کیا ہؤا تھا جس نے ساحر کو رب کے روبرو کر دیا تھا۔نماز کے بعد وہ لیپ ٹاپ لے کر بیٹھا تو سبرینہ نے کچھ پوچھنا چاہا پھر رک گئی۔ اب کسی سے یہ پوچھنا آپ نے نماز کیوں پڑھی ہے اچھا لگتا ہے کیا!
’’تم سحری میں اٹھتی ہو؟‘‘
’’ہاں…. وہ…. نہیں ، خیریت کوئی کام ہے؟‘‘ ساحر نے اچانک ہی لیپ ٹاپ سے چہرہ اٹھا کے پوچھا تو سبرینہ گھبرا گئی۔
’’مجھے بھی اٹھا دینا میں روزہ رکھوں گا‘‘۔
’’کیا روزہ…. مگر کیوں؟‘‘سبرینہ نے حیرت میں بڑا ہی بے تکا سوال پوچھ لیا تھا۔
ساحر جانتا تھا اتنی حیرت تو بنتی تھی۔ وہ کوئی بھی جواب دیے بغیر واپس لیپ ٹاپ پر جھک گیا۔
’’سنو جب ہمارا بیٹا ہوگا تو ہم اس کا نام ارقم رکھیں گے‘‘۔
سبرینہ بیٹی کو سلاتے ہوئے خود بھی اونگھ رہی تھی کہ ساحر کی آواز سنائی دی ۔اس نے آنکھیں کھول کر ساحر کو دیکھا تو وہ لیپ ٹاپ بند کیے خلا میں دیکھتا ہؤا نہ جانے کیا سوچ کر مسکرا رہا تھا۔
’’اچھا اچانک سے یہ نام کیوں اچھا لگ گیا؟‘‘
’’نام اچھا نہیں لگا ارقم اچھا لگ گیا…. بہت دل کے قریب محسوس ہؤا ….میری دعا ہے کہ میرا بیٹا بالکل ارقم کے جیسا ہو، حساس ذہین سعادت مند….نہایت نیک اولاد جو ماں باپ کے دل کی ٹھنڈک ہوتی ہے ۔اور ہاں، جب وہ مسکرائے تو اس کے رخساروں پر بھی بھنور بنیں‘‘۔
’’کون ہے ارقم ؟میں تو پہلے کبھی نہیں ملی‘‘ سبرینہ نے بیٹی کا تکیہ صحیح کرتے ہوئے پوچھا ۔
’’کیسے ملوگی میں تو خود آج اس بچہ سے پہلی دفعہ ملا تھا وہ بھی صرف پندرہ منٹ کے لیے‘‘۔
’’ارے پندرہ منٹوں میں ایک بچے نے آپ کو اتنا متاثر کردیا کہ آپ کو اپنا بیٹا ہو بہو اس کے جیسا چاہیے….پہلی ملاقات میں شخصیت کا ہر پہلو کب اجاگر ہوتا ہے انسان کو سمجھنے پرکھنے میں تو کافی وقت لگتا ہے‘‘۔
اگرچہ سبرینہ کا تجزیہ درست تھا پر یہ معاملہ الگ تھا ساحر مسکرا دیا ۔
’’جس بچے نے چند منٹوں میں مجھے دین کی طرف مائل کرلیا اگر اس کا عکس میری اولاد کے روپ میں آجائے تو کیا ایسی اولاد ہمارے لیے صدقہِ جاریہ نہ بنے گی‘‘۔
ساحر موبائل نکال کر سبرینہ کو آج کاواقعہ بتانے کے ساتھ ساتھ گاڑی میں بنائی ہوئی وڈیو دکھانے لگا۔
سبرینہ کے دل سے شکر کا کلمہ نکلا۔ اللہ نے ساحر کو ہدایت دینے کے لیے اس بچے کو وسیلہ بنایا تھا۔
صبح ساحر نے مما پاپا کو کال کر کے خصوصی دعوت دی کہ شام کو افطار میرے گھر پہ کریں۔شام کو جب مما ساحر کے گھر آئیں تو کھانے کی میز پہ اچھا خاصا اہتمامِ تھا مگر کوئی مہمان نہیں آیا ہؤا تھا۔
’’میں تو سمجھی اس دفعہ تم نے افطار پارٹی رمضان کے شروع میں ہی رکھ لی جب ہی بلایا ہے پر یہاں تو کوئی آیا ہؤا ہی نہیں ہے‘‘ مما نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’مما آج کوئی افطار پارٹی نہیں ہے آج بہت خاص دن ہے کیونکہ آج روزہ کشائی ہے‘‘ساحر مما کی برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’روزہ کشائی ؟مگر کس کی‘‘ مما نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
’’میری! ‘‘ساحر ایک لفظی جواب دے کر خاموش ہوگیا ۔جانے کیوں حلق میں نمی سی گھل گئی تھی۔
’’ساحر ! ‘‘مما نے پریشان ہوکر اس کے بازو پر ہاتھ رکھا۔
’’ہاں مما میری روزہ کشائی… وہ روزہ کشائی جو سات سال کی عمر میں ہو جانی چاہیے تھی پرآج ستائیس سال کی عمر میں ہورہی ہے۔ بہت دیر ہوگئی مما ،بہت دیر….میں بیس سال اس سعادت سے محروم رہا‘‘ ۔ ساحر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا ’’دنیا سمیٹتے سمیٹتے تھک گیا مما پر یہ ہاتھ خالی کے خالی ہی رہے۔ اللہ کو کیا جواب دوں گا کہ میں اس کی دی ہوئی نعمتوں پر ذرا سا شکر کرنے کے قابل بھی نہیں تھا…. بہت بد نصیب ہوتے ہیں میرے جیسے بیٹے جو اپنے والدین کے لیے صدقہِ جاریہ نہیں بن پاتے‘‘۔
ساحر مما سے شکوہ نہیں کر رہا تھا ۔وہ شکوہ کرنا بھی نہیں چاہتا تھا پر ان کو اس کی آنکھوں میں شکوہ نظر آرہا تھا۔
’’ساحر کیا تم اپنی پھوپھی سے ملنے گئے تھے ؟‘‘وہ جب بھی پھوپھی سے مل کے آتا تو کچھ مضطرب لگتا پھر کچھ دن میں صحیح ہوجاتا ،اس بار شاید کچھ زیادہ پریشان ہوگیا تھا۔
’’نہیں میں ڈیڑھ سال سے ان سے نہیں ملا مگر اب ملنے کا ارادہ ہے اس عید پر جاؤں گا انشاء اللہ میرا تو دل تھا میں آج ہی ملنے چلا جاؤں پھر سوچا عید پر جاؤں گاکچھ خاص تحفہ لے کے‘‘ساحر خود کو نارمل کرتے ہوئے آنسو پونچھنے لگا۔پھوپھی کےذکر پر وہ مسرور لگنے لگا تھا۔
ان کو کچھ کھو جانے کا احساس ہؤا ۔کیا ان کی حد سے بڑھی ہوئی ممتا اور لاڈ پیار نے ساحر کا واقعی میں نقصان کردیا تھا؟
’’تم ناراض ہو مجھ سے؟‘‘
’’نہیں مما میں کسی سے ناراض نہیں ہوں بس اتنے دن تک فرائض چھوڑنے کی جو کوتاہی ہوئی ہے اس سے دل پریشان ہوگیا تھا۔ جو وقت فالتو ضائع ہوگیا اس پر نادم ہوں اب میں ایک اچھا مسلمان بننا چاہتا ہوں آپ میرے لیے دعا کیجئے گا‘‘۔
ساحر نے مما کے کندھے پر سر رکھ دیا ،وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے سوچوں میں غرق ہوگئیں۔ آج ان کے بیٹے نے ان کو نئی اور مثبت سوچ عطا کی تھی۔ بدلنے کا عمل تو کسی بھی عمر میں ممکن ہے۔ دور سے اذان کی آواز آرہی تھی ساحر ان کی طرف کھجور بڑھا رہا تھا۔ آج ان کا روزہ نہیں تھا تو کیا، کل تو رکھ سکتی تھیں۔
عید کی صبح ہی ساحر مما پاپا سے مل کے سبرینہ اور بیٹی کے ہمراہ پھوپھی سے ملنے کے لیے نکل گیا۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بے شمار تحائف اور سوغاتیں بھری تھیں پھوپھی کے بہو بیٹے کے علاوہ پھوپھی کے سسرال والوں کے لیے بھی اس نے کافی کچھ لیا تھا جو ان کے برابر میں ہی مقیم تھے ۔ ساحر پھوپھی سے ملنے کے لیے نہایت پرجوش تھا۔ جب اس کی بڑی سی گاڑی پھوپھی کی تنگ گلی میں آکر رکی تو ارد گرد کے کتنے ہی بچے اس کی گاڑی کے گرد آکر کھڑے ہوگئے عید پر تیار رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بچے جو ساحر کو بہت ہی پیارے لگے اس نے گلی کے سب بچوں میں عیدی بانٹی اور گاڑی سے سارے تحائف نکال کر لدا پھندا پھوپھی کے گھر میں داخل ہؤا اور زور سے سلام کیا۔
پھوپھی سامنے ہی تخت پر گلابی چکن کا جوڑا پہنے ہوئے بیٹھی تھیں، سامنے ناشتہ کا سامان رکھا تھا اور پھوپھا کے لیے سلائس پہ مکھن لگا رہی تھیں۔ یوں اچانک اس کو سامنے دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگئیں۔ کھڑے ہو کے ہاتھ میں مکھن پکڑے پکڑے ساحر کو لگے لگایا۔
’’عید مبارک پھوپھو ،ماشاءاللہ سے آپ ابھی تک پھوپھا کو مکھن لگاتی ہیں، ذرا اس سبرینہ کو بھی کچھ سکھا دیں اس نے تو کبھی مجھے مکھن نہیں لگایا‘‘ ساحر نے شرارت سے کہا۔
’’چل پگلے‘‘ پھوپھو نے ہنستے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا اور مکھن تخت پر رکھتے ہوئے سبرینہ سے ملنے بڑھ گئیں۔ ساحر بھی پھوپھا اور ان کے بیٹے سے ملنے لگا ۔پھوپھو کی نئی نویلی بہو بھی وہیں آگئی پھوپھی نے سب سے اس کا تعارف کرایا ۔سبرینہ نے اس کو تحفہ دیا تو پھوپھی ناراض ہونے لگیں ۔
’’اتنے قیمتی تحائف لانے کی کیا ضرورت تھی تم لوگ آگئے بس یہ ہی میرے دل کے لیے ٹھنڈک ہے‘‘۔
’’ارے پھوپھی یہ تو دنیا کی معمولی چیزیں ہیں قیمتی تحفہ تو میں آپ کے لیے آیا ہوں جو آپ کو یقیناَ بہت پسند آئے گا‘‘ساحر پھوپھی کو بازو کے حصار میں لیتا ہؤا تخت پربیٹھ گیا۔
پھوپھی سوالیہ نظروں سے اس کا چہرہ دیکھنے لگیں ۔ساحر نے کچھ کہنا چاہا تو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے پھوپھی پریشان ہوگئیں۔
’’کیا ہؤا میرا بچہ‘‘ انھوں نے اس کا چہرہ ہاتھ میں لیا ۔
’’میں نے اس بار روزے رکھے پھوپھو…. پورے اٹھائیس روزے…. اور ہر روزہ افطار کرتے وقت میں نے آپ کے لیے بہت دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ سے کہا میرے ہر روزہ کا ثواب میری پھوپھو کو دے دیں ‘‘ساحر بھیگی آواز میں بول رہا تھا۔
پھوپھونے بے اختیار ساحر کو گلے لگایا۔ منہ سے کوئی لفظ نہ نکل پایا، حلق میں آنسوؤں کا پھندہ اٹک گیا تھا۔ اطراف کھڑے باقی لوگ نم مسکراہٹ کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔
’’بچپن میں آپ نے مجھے روزہ رکھوانے کی کتنی کوشش کی مگر مجھے یہ سعادت نصیب ہوتے ہوتے بہت دیر ہوگئی‘‘۔
’’اللہ نے وقت رہتے تمہیں ہدایت بخش دی بچے یہ شکر کا مقام ہے اور کون کہتا ہے دیر ہوگئی ابھی بھی تمہارا بچپن ہی ہے دیکھو روتے ہوئے تمہاری ناک اب تک بہتی ہے ‘‘پھوپھی خود کو نارمل کرتے ہوئے پیچھے ہوئیں ۔ان کی آواز کھنک رہی تھی واقعی یہ ان کے لیے بہت قیمتی تحفہ تھا۔
ساحر نے جلدی سے اپنی ناک کو چھوا تو سب ہنس دیے۔ساحر خود بھی روتے روتے مسکرا دیا۔
’’ارے چاچو آپ؟‘‘
پیچھے سے کسی بچے کی آواز آئی تو گویا ساحر میں زندگی دوڑ گئی۔ وہ کرنٹ کھا کے کھڑا ہؤا تو پیچھے ارقم کھڑا تھا ۔
’’چیمپئن تم یہاں کیسے؟‘‘ وہ آگے بڑھ کر مسرت کے ساتھ اس سے گلے ملا۔
’’وہ ہی تو مجھے پوچھنا ہے آپ یہاں کیسے ؟‘‘وہ ہی سوال کے جواب میں سوال۔
’’یہ میری پھوپھی کاگھر ہے اور یہ میری پھوپھی ہیں‘‘ ساحر نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
’’اور یہ ہی تو میری تائی امی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا تھا‘‘ ارقم نے ناک سے پھسلتا چشمہ درست کیا۔
’’ارے واہ یہ تو کمال ہوگیا ہم دونوں کی تو رشتہ داری نکل آئی ۔ پر تم یہاں کیسے تم تو کراچی میں تھے؟‘‘
’’وہ تو میں اپنی نانی کے گھر گیا ہؤا تھا امی کے ساتھ ایک ہفتہ کے لیے ، ہمارا گھر تو یہ برابر والا ہے اور یہ دیکھیں یہ میری بہنیں ہیں ‘‘اس نے دو پیاری پیاری بچیوں کی طرف اشارہ کیا ۔
ساحر نے جھک کر دونوں بچیوں کو گود میں اٹھا لیا اور ارقم کو سبرینہ اور اپنی بیٹی سے ملانے لگا۔وہ سب کو اپنی اور ارقم کی پہلی ملاقات کا قصہ بھی سنا رہا تھا۔سب چہک رہے تھے اورپھوپھی اشتیاق سے اپنے بھتیجے کو تک رہی تھیں جیسے بیچ کوئی دوری آئی ہی نہ ہو وہ ابھی بھی بچپن والا ساحر ہو جو ہر وقت پھوپھی کی گود میں گھسا رہتا تھا ۔
اور پھروہ اچانک ہی دروازے سے بھائی بھابھی کو داخل ہوتا دیکھ کر نہال ہوگئیں۔ ساحر بھی حیرت سے ان کی طرف بڑھا۔
’’مما پاپا آپ لوگوں کو آنا تھا تو آپ ہمارے ساتھ ہی آجا تے ‘‘۔
’’تم نے ہم سے پوچھا ہی کب….تمہارے جانے کے بعد ہم نے سوچا چلو ہم بھی آپا کو سرپرائز دے کر عید کی خوشیاں دوبالا کرلیں‘‘ پاپا نے ساحر کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
مما تیزی سے پھوپھی کی طرف بڑھ گئیں کسی بھی گلے شکوے کے بغیر…. برسوں کی دوریا ں پل بھر میں دور ہوگئیں۔
’’پھوپھو عیدی تو دیں میری‘‘ایکدم ہی ساحر پھوپھی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہوگیا۔
پھوپھی اک لمحہ کو گھبرا گئیں، اتنے بڑے بزنس مین کو وہ کیا عیدی دے سکتی تھیں۔ پھر خیال آیا آج وہاں کوئی بزنس مین نہیں تھا صرف ان کا چھوٹا سا ساحر تھا ۔انھوں نے اپنے بٹوے سے سو کا نوٹ نکال کے ساحر کی ہتھیلی پر رکھ دیا جسے اس نے کسی قیمتی متاع کی طرح سنبھال لیا۔
ارقم فوراًساحر کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا ۔
’’اب آپ مجھے عیدی دیں چاچو‘‘۔
’’ارے واہ اس دن دے رہا تھا تو لے نہیں رہے تھے اور اب خود سے مانگ رہے ہو‘‘ ۔
’’اس دن آپ اجنبی تھے نا اب تو آپ میرے اپنے ہوگئے ہیں اپنوں سے تو میں لڑ کر بھی لے لیتا ہوں‘‘۔
’’اچھا بیٹا یہ بات ہے تو اب میں تو نہیں دے رہا ہمت ہے تو لڑ کر ہی لے لو‘‘۔
ساحر جیب پر ہاتھ رکھتا ہؤا صحن کی طرف بھاگ گیا۔ ارقم شور مچاتا پیچھے بھاگا اس کی دونوں بہنیں بھی بھائی کی نقل میں پیچھے پیچھے تھیں۔ ساحر کی بیٹی بھی آواز یں نکالتی ہوئی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی چل دی۔ سب ہنس دیے ۔پھوپھی جانثار نظروں سے اپنے گھر میں اتری عید کی رونقوں کو دیکھ رہی تھیں۔ آج بچپن والی عید ان کے آنگن میں پھر سے اتر آئی تھی۔ سبرینہ بھی آج ساحر کو مصنوعی خول سے نکل کر حقیقی خوشی کے حصار میں دیکھ کر بہت مسرور تھی۔ جو دل کا سکون وہ دنیا میں نگری نگری ڈھونڈتا پھرتا تھا وہ سکون تو کچھ پرخلوص اپنوں کی سنگت میں تھا۔
٭٭٭