انسان دنیا میں جو بھی کوشش، محنت کرتا ہے اس کی بنیادی وجہ خوشی کی تلاش ہوتی ہے ۔ یہ خوشی آخر کیا جذبہ ہے؟ اس کی وضاحت سے شاید سبھی مطمئن نہ ہوں کیونکہ خوشی کی اقسام انسانوں کی طرح مختلف ہوسکتی ہیں۔ ایک نارمل انسان کی خوشی کا تعلق اپنی زندگی کے مقصد سے منسلک ہوتا ہے اگر مقصد ہی غیر فطری ہوگا تو خوشی حاصل کرنے کے سارے پیمانے غلط ہوں گے نتیجتاًخوشی بھی بے مقصد نا پائیدار اور منفی ہوگی ۔
سچی اور پائیدار خوشی حاصل کرنے کے لیے سچے اور پائیدار جذبے درکار ہوتے ہیں اور سچے جذبے انسانیت کا شعور رکھنے والے انسانوں میں ہوتے ہیں ۔
تکبر کے ساتھ مال و دولت کے انبار ،اقتدار کی اعلیٰ مسند ، حسن و وجاہت کا مجسمہ ہوجانا سچی خوشی کی ضمانت نہیں ہو سکتے البتہ گزارے لائق وسائل زندگی کے ساتھ وسیع القلبی، عاجزی و انکساری بے بہا سچی خوشی کی ضامن ہو سکتی ہے۔ حالات کیسے بھی ہوں سچی خوشی کے لیے شرط صرف یہ ہے کہ اپنا انسان ہونا یاد رہے اور بحیثیت انسان سب کا برابر ہونا کبھی نہ بھولے ۔
کیا ہم واقعی خوش ہیں ؟
اپنے آپ سے ،اپنے شریک حیات سے ،اپنی اولاد سے اپنے حلقہ احباب سے اپنے ملازمین سے اپنے افسر سے ؟
یقینا ًنہیں !
اس لیےکہ سب کا سب سے مکمل خوش ہونا ناممکنات میں سے ہے ۔ ہم سب سے خوش ہونے کا اظہار ضرور کر سکتے ہیں حقیقت میں ہو نہیں سکتے اور نہ ہی انسان ہر کسی کومکمل طور پہ خوش رکھنے پہ قادر ہے اور نہ ہی مکلف ۔ مزاجوں اور مفادات کا ٹکراؤ ایک فطری تقسیم ہے اور ٹکراؤ کا نتیجہ دل میں تنگی پیدا کرتا ہے ۔ ایسے منفی مگر فطری رحجان کو مثبت رخ پہ لانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہی انسانیت کی معراج ہے تو یہی امتحان ہے ۔
’’تلک الایام نداولھا بین الناس‘‘ کے ربانی اصول کے تحت خوشیاں بھی انسانوں کی زندگی میں آتی جاتی رہتی ہیں ۔ اور حالات یا دنوں کا اُلٹ پھیر ، دراصل امتحانی پرچے ہیں ۔ خوشحالی سے بدحالی ، خوشی کا غم میں تبدیل ہو جانا یا غربت سے امارت کا سفر،صحت سے بیماری اور بیماری سے صحت کی طرف پلٹنا اس گوہر نایاب کی تلاش کے لیے مواقع فراہم کرنا ہے جس سے سچی اور پائیدار خوشی کا حصول ممکن ہوجائے ۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنی زندگی میں اپنے ہی جیسے انسانوں کی زبان سے اپنی کارکردگی کی تعریف سننا چاہتا ہے ،عزت و اکرام کے خطاب والقاب کا متمنی ہوتا ہے ۔ بچہ والدین سے طالب علم اساتذہ سے ملازم اپنے مالکوں اور بیوی اپنے شریک حیات کی زبان سے تعریف سن کر آگے بڑھنے کا حوصلہ پاتی ہے اورروح کی کھڑکیوں سے جھانکتی سچی پر خلوص محبت کی روشنی میں آگے بڑھنے کا راستہ دیکھتی ہے ۔ غرض ہر فرد اپنے سے زیادہ مقام و مرتبہ، اختیارات و انعامات رکھنے والےکامیاب انسان کے سامنے سرخرو ہوکر خوشی محسوس کرتا ہے ۔ کامیابی کا سرٹیفکیٹ یا ایوارڈ وہی دے سکتا ہے جو اس شعبہ میں کلی اختیارات اور اعلیٰ مقام و مرتبہ رکھتا ہو۔تاکہ ایوارڈ لینے والا اپنے لیے اعزاز اور خوشی محسوس کرنے میں حق بجانب ہو۔ دنیا میں انسان کے حقیقی کردار کو یہی سوچ متعین کرتی ہے کہ وہ کس شعبے میں اپنی توانائیاں لگا رہا ہے اور کس ہستی سے ایوارڈ لے کر دل میں اطمینا ن اور سرور حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
چار ہارمونز ہیں جن کے خارج ہونے سے انسان خوشی محسوس
کرتا ہے
1-اینڈورفنسEndorphins
2-ڈوپامائین Dopamine
3-سیروٹونائینSerotonin
4-آکسی ٹوسینOxytocin
ہمارے اندر یہ چار ہارمونز خوشی کا احساس جگاتے ہیں ۔اس لیےضروری ہے کہ ہم ان چار ہارمونز کے بارے میں جانیں۔
پہلا ہارمون اینڈورفنس
جب ہم جسمانی مشقت کرتے ہیں تو ہمارا جسم درد سے نپٹنے کے لیے اینڈورفنس خارج کرتا ہے تاکہ ہم جسم کو کسی مفید مقصد کے تحت تھکانے میں سکون محسوس کریں۔ جسمانی مشقت کرنے والے مزدور ہی اس لذت کو محسوس کر سکتے ہیں جب وہ اپنی دیہاڑی کے بعد حق حلال کے چند روپے حاصل کرکے آنکھیں موند کر اطمینان سے کھلے آسمان تلے زمیں پہ لیٹ کر بھی بے فکری اور طمانیت محسوس کرتے ہیں ۔ اس مشقت کی خوشی برقرار رکھنے کے لیے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا اور مشقت سے روزی کمانے والے کو’’الکاسب حبیب اللہ ‘‘فرمایا ۔ صلوۃکی ادائیگی اور مسجد کی طرف قدم اٹھانا بھی ایک جسمانی عمل ہے ۔ جس کے نتیجے میں روحانی سرور حاصل ہوتا ہے ۔ ضرورت مند کی مدد کے لیے بھاگ دوڑ کرنا ، یا حج اور جہاد جیسی جسمانی مشقت سے رب کی رضا کا تصور مومن کو خوشی کی معراج عطا کرتا ہے ۔
اس کےعلاوہ جب ہم بچوں کی معصومانہ حرکات کو دیکھ کر مسکراتے ہیں اور ان کی باتوں کو دوسروں سے اشتراک کرتے ہیں تو اس وقت بھی یہ ہارمون ہمارے جسم میں پیدا ہوتاہے۔ ہلکی پھلکی مزاحیہ گفتگو، لطافت و ظرافت لیے ادب کامطالعہ بھی انسان کے مزاج کو شگفتہ بنا دیتا ہے۔ خوشی پیدا کرنے والے اس ہارمون کی خوراک کے لیے ہمیں روزانہ کم از کم بیس منٹ پیدل چلنا یا کچھ اورجسمانی مشقت ،ورزش کرنا ، مسجد جانا ،اور کچھ وقت چھوٹے بچوں کے ساتھ گزارنا چاہیے۔ بچوں کو بے اختیار ہنستے مسکراتے اُچھلتے کودتے دیکھ کر جو دل میں احساس پیدا ہوتا ہے وہ ایک سچا، بے غرض، پیار بھری خوشی کا لازوال جذبہ ہوتا ہے اور انسان بے فکری محسوس کرتا ہے ۔ ظرافت بھری پاکیزہ ادبی مجالس میں شریک ہونا یا ایسےہلکے پھلکے ادب کا مطالعہ کرنا بھی مزاج کو ہلکا پھلکا کر دیتا ہے۔
دوسرا ہارمون ڈوپامائین
یہ زندگی میں کچھ نیا کرنے، سیکھنے یا حاصل کرنے اور دوسروں کی حوصلہ افزائی، دوسرے کی اُجرت بر وقت دینے یا حق سے زیادہ خوشدلی سے دینے یا کسی کو غیر متوقع خوشخبری سنانے، دوسرے کی غلطی کو نظرانداز کرنے پہ پیدا ہوتا ہے ۔ گویا یہ عطا کرنے والے ہاتھ کا نصیب ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے ماتحت لوگوں ، ہم پیشہ ساتھیوں ، دوستوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے غلطیوں سے درگزر کرنا چاہیے تاکہ ماحول خوشگوار رہے ۔ لوگوں میں ڈوپامائن ہارمون کی کثرت ہوگی تو اجتماعی کاموں میں سہولت ہوگی اسی طرح جب ہمارا کوئی کام پا یہ تکمیل کو پہنچتا ہے تو ہمارا جسم ڈوپامائین کو خارج کرتا ہے اور اس سے ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے۔ اور اس خوشی کو جب کوئی سراہتا ہے تو خوشی مشترک ہوجاتی ہے ۔
جب آفس یا گھر میں ایک دوسرے کے کام کی تعریف کی جاتی ہے تو سب کامیاب اور اچھا محسوس کرتے ہیں، یہ احساس ڈوپامائین کی وجہ سے ہوتا ہے۔
عورتیں عموماً گھر کا کام کرکے خوش نہیں ہوتیں اس کی وجہ یہ ہے کہ گھریلو کاموں کی کوئی تعریف نہیں کرتا حوصلہ افزائی نہیں کرتا بلکہ یہ سننا پڑتا ہے کہ ’’سارا دن کرتی کیا ہو‘‘۔ اور مرد بھی اپنے دفتر یا ڈیوٹی والی جگہ سے اپنے کام کی تعریف نہ ہونے کی بنا پہ پژمردہ ، تھکا ہوا گھر آتا ہے تو گھر میں بھی اس کی حسب حال پذیرائی نہیں ہوتی ۔دونوں طرف ڈوپا مائن ہارمونز ناپید ہوتے ہیں اسی لیےگھر کی فضا مکدر رہتی ہے ۔
کچھ نیا سیکھنے کسی کے نئے کام کی تعریف کرنے ، نئی چیز دریافت کرنے کے علاوہ نئی چیزیں حاصل کرکے بھی ہمارے جسم سے ڈوپامائین خارج ہوتا ہے۔ اسی لیے شاپنگ کرنے کے بعد عموماً لوگ
خوشی محسوس کرتے ہیں اگرچہ پیسہ خرچ ہورہا ہوتا ہے ۔
تیسرا ہارمون سیروٹونائین
جب ہم دوسروں کے فائدے کے لیے کوئی کام کرتے ہیں تو ہمارے اندر سے سیروٹونائین خارج ہوتا ہے اور خوشی کا احساس جگاتا ہے۔ دوسرے کی مدد کرنا، اچھا مشورہ دینا ، مصیبت میں کام آنا ، حوصلہ افزائ کرنا ،کسی کو خوشخبری سنانا ،ہمت بندھانا، اچھے خیالات کی طرف دعوت دینا ، کسی کو مایوسی سے نکالنا، غم یا بیماری میں ڈھارس بندھانا انسان کے اندر وہ خوشی اور اطمینان پیدا کرتا ہے جس کو سیروٹونائن کہتے ہیں ۔
چوتھا ہارمون آکسی ٹوسین
جب ہم دوسرے انسانوں کے قریب جاتے ہیں تو یہ ہمارے جسم سے خارج ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں کو ہاتھ ملاتے ہیں یا گلے ملتے ہیں تو جسم اکسی ٹوسین کو خارج کرتا ہے۔ خوشی کے وہ سب ہارمونز جو ہمارے جسم میں پیدا ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے کے قریب آنے سے دوگنے ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے نیک لوگوں کے ساتھ بیٹھنا ، مصافحہ اور معانقہ کرنا روحانی تقویت کا باعث بنتا ہے اور اسلام میں صحبت صالحین اور سلام کرنے کی بے حد اہمیت بتائی گئی ہے ۔ مل کر کھانا پینا ، اجتماعیت سے جڑ کر رہنے کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے ۔
غرض خوش رہنا بہت آسان ہے ۔ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں جو طریقہء زندگی ملتا ہے وہ مومن کے اندر سرور خوشی اور طمانیت کے سارے اسباب مہیا کرتا ہے ۔
ہمیں اینڈروفنس حاصل کرنے کے لیے ہر روز ورزش کرنا ہے پیدل چلنا یا حسب استطاعت جسمانی مشقت کرنا ہے ۔ جسمانی عبادات کا اہتمام کرنا ہے اور ان عبادات کا حسن نیت کے ساتھ علم اور اس کے مفید نتائج کو مد نظر رکھنا ہے ۔
ہمیں چھوٹے چھوٹے ٹاسک پورا کرکے ڈوپا مائین حاصل کرنا ہے۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی سے ملنے والی جزا ئے خیر کا شعور پیدا کرنا ہے ۔
دوسروں کی مدد کرکے سیروٹونائین حاصل کرنا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حقوق العباد کی ادائیگی پہ رب کی رضا مندی ملحوظ خاطر رکھنی ہوگی۔
اپنے بچوں سے جذباتی لگاؤکا اظہار کرنا ان کو گلے لگاکر، خاندان کے ساتھ وقت گزار کر اور دوستوں سے مل کر آکسی ٹوسین حاصل کرنا ہے۔
جب معاشرے میں ہر انسان ایک دوسرے کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو دراصل وہ اپنی ہی بھلائی کرتا ہے ۔ جب اپنی بھلائی کا حقیقی ادراک ہوگا تو ہم خوش رہنے لگیں گے ۔ اپنے مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے میں آسانی اسی طرح ممکن ہے کہ معاشرے میں بغض ،حسد ،نفرت عداوت قساوت قلبی کی بجائے اطمینان قلب کا احساس اجاگر ہو ۔ یہ یاد رکھئے کہ اپنے خالق و مالک حقیقی کی نافرمانی سے کبھی بھی قلب و روح کو سچی خوشی حاصل نہیں ہو سکتی۔
خوشیاں ہماری اطراف میں بکھری ہوئی ہیں اور ان کو حاصل کرنے کے لیے کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا صرف اپنے اعمال کی درست سمت ، سوچ اور نیت کا سچا ثابت کرنا ہوتا ہے ۔
انسانی جذبات کو اس کے فطری مومنانہ تقاضوں کے عین مطابق دیکھیے پرکھیے عمل میں لائیے ۔
’’خوش رکھئے ، خوش رہیے‘‘۔
زندگی خوب صورت ہے مفت میں خوشیاں ملتی ہیں بس انسان بنیے اور دوسروں کو بھی انسان سمجھیے ۔
اپنے کردار وشخصیت کے معیار اور اپنی خوشی کی پہچان کے لیے یہ پیمانہ سامنے رکھیے کہ:
’’آپ اپنی تعریف سننے کے لیے کس شخصیت کا اور کس عمل کا انتخاب کرتے ہیں ؟ کون سا مقام ایوارڈ لینے کے لیے پسند کرتے ہیں ؟ اور کس کے ہاتھ سے ایوارڈ لینے میں خوشی محسوس کریں گے‘‘۔
٭ ٭ ٭