چاند کے بعد انسان جس سیارے کے عشق میں گرفتار ہے وہ سرخ سیارہ ’’ مریخ‘‘ ہے ۔ مریخ نظامِ شمسی کا ایک اہم سیارہ ہے اور اسے دوربین کے بغیر بھی دیکھا جا سکتاہے ۔ انسان کی اس سے رغبت کی سب سے بڑی وجہ اس کا نارنجی مائل سرخ رنگ ہے جس نے اس کی چمک دمک میں بہت اضافہ کیا ہے جو دل و نظر کو مسحور کیے دیتا ہے ، خود بخود اس کے بارے میں جاننے کو دل چاہتا ہے ۔
گو کہ پرانے زمانے میں مریخ کی شہرت جنگجو سیارے کی تھی ۔یونانی اسے ایریز(Ares)کہتے تھے اور رومیوں نے اسے مریخ(Mars)کا نام دیا تھا ۔ اپنے سرخ رنگ کے باعث بھی یہ جنگ اور خونریزی کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ مگر اب یہ بالکل چپ اور ساکت ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو، جیسا کہ گزشتہ نصف صدی سے مریخ کی خوفناک مخلوق کی زمین پرآمدیا ممکنہ حملے کے بے شمار قصے کہانیاں چھپ چکے ہیں اور ان پر فلمیں اورڈرامے بھی بن چکے ہیں ۔ ڈرامے بھی ایسے جن پر حقیقت کا گمان ہوتاہو، اس کے باوجود اس کی کشش میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ تجسس اوربڑھاہے۔
یہاں ایک واقعہ قابل ذکر ہے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب صرف ریڈیو سنا جاتاتھا۔ ریڈیو پر ایک دن سامعین کو بغیر پیشگی اطلاع دیے اچانک ایک ڈرامہ نشر کیا گیا ، اس میں مریخ کی مخلوق کے زمین پر حملے کی خبر سنائی گئی تھی جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ خوف سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے ، پھر ان کو بمشکل تسلی دلائی گئی کہ وہ تو محض ایک ڈرامہ تھا ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مریخ کے حملے اور مریخی مخلوق کی زمین پر آمد کے لیے انسان کا یقین کتنا پختہ ہے۔
اس کے باوجود کہ آج خلائی سائنس اتنی ترقی کر گئی ہے کہ اب انسان عملی طور پر مریخ کے سفر کے لیے تیار ہے، لوگ آج بھی مریخ کی مخلوق سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان ہمیشہ ان دیکھی چیز کے خوف میں مبتلا رہتاہے ۔آئے دن مریخ سے متعلق نت نئی تحقیقاتی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں جس سے ایسا ہی لگتا ہے کہ کبھی بھی کچھ غیر متوقع ہو سکتا ہے ۔
حالانکہ اب تک کی تحقیقات اور رپورٹوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے وہاں کسی مخلوق کا نام و نشان نہیں ہے ، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں کوئی ایسی مخلوق آباد ہو جس کا ہمیں ادراک نہ ہو سکا ہو اور ایسا ممکن بھی ہے کہ وہاں کوئی ایسی مخلوق آباد ہو جوہمیں ابھی تک نظر نہ آسکی ہو، یعنی وہ اپنے سیارے پر انجان خلائی گاڑیوں کو دیکھ کر چھپ گئی ہو… ! ایسے مفروضے ہمیشہ سائنسی تحقیقات کی بنیاد ہوتے ہیں ۔ اس لیے ممکن ہے کہ کبھی کبھی زمینی سائنسدان مریخ کی مخلوق کا کھوج بھی لگا ہی لیں یا وہاںکی مخلوق خود انسانوں سے رابطہ کرلے۔
مریخ پر پانی کی موجودگی بھی ایک معمہ تھی لیکن نئی تحقیقات سے سائنسدانوں کے پاس اب حتمی ثبوت آگیا ہے کہ مریخ کے بہت سے سطحی مناظر بہتے ہوئے پانی میں تشکیل پائے ہیں ۔ مریخ کے مدار میں پائے جانے والی وادیوں ، گزر گاہوں اور ڈیلٹا کے بارے میں بہت عرصے سے خیال کیا جا رہا تھا کہ انھیں پانی نے بنایا ہے لیکن اب مریخی مشن کیور وسٹی (Curosity) نے اس بات کا ثبوت فراہم کر دیا ہے ۔ سائنسدانوں نے کہا ہے کہ انھیں سرخ سیارے کے ڈیڑھ سو کلو میٹرچوڑے گیل نامی ایک گڑھے کے فرش پر گول کنکر ملے ہیں جن کی شباہت زمین کے دریائوں میں ملنے والے گول پتھروں جیسی ہے ۔ یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ پانی نے نہ صرف مریخ کے اس بڑے استوائی پیلے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا بلکہ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مریخ پر دیگر ارضی مظاہر کی تشکیل میں بھی پانی نے اہم کردار ادا کیا ہوگا ۔ انھوں نے بتایا کہ مریخ پرپائے جانے والے کنکروںکا حجم چالیس میٹر تک ہے اور یہ اتنے بڑے ہیں کہ انھیں ہوا کہیں سے اڑا کر نہیں لا سکتی اور ان کی ترتیب سے پتہ چلتا ہے کہ یہاںکبھی دریا رہا ہوگا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پتھر تین ارب سال پرانے ہو سکتے ہیں ۔ کیوروسٹی کی تصاویر سے پانی کی گہرائی اور رفتار کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
انسان مریخ کو سر کرنے کا پختہ عزم کیے ہوئے ہے ۔مریخ کی سطح کو چھونے سے لے کر وہاں پر اپنے لیے مستقل رہائشی کالونیاںقائم کرنے تک کا ارادہ ہے ۔ ایک انجان مقام پر اپنے لیے ایک مکان بنانے کا خواب بڑا ہی سہانا محسوس ہوتا ہے ، اس سلسلے میں دنیا کے ہر ملک میں کوششیں جاری ہیں ۔ دیکھیے کون کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔
٭…٭…٭