محترمہ قانتہ رابعہ۱۳ نومبر ۱۹۶۳ء کو ضلع خانیوال اور اس وقت کے ضلع ملتان کے شہر جہانیاں میں پیدا ہوئیں ۔آپ نے ابتدائی تعلیم جہانیاں سے حاصل کی اور شادی کے بعد اپنے سسرال گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ منتقل ہو گئیں، بعد ازاں آپ نے وہاں سے ہی گریجویشن کیا ۔ آپ بہترین لکھاری ہیں جن کا قلم سماجی رویوں کے ساتھ ساتھ سچائی اور صراط مستقیم کی راہ بھی دکھاتا ہے ۔ قانتہ رابعہ کو ننھیال اور ددھیال دونوں طرف سے ادبی ماحول ملا۔ آپ کی دادی اماں شاعرہ تھیں اور ان کی بہنیں بھی فارسی میں شعر کہا کرتی تھیں ۔ محترمہ کے نانا ابو بھی شاعر تھے ۔ محترمہ کے والد کی بھی کتاب شائع ہوئی اور ماموں بھی مشہور مصنف تھے ۔آپ کی چچی رشیدہ قطب نے خواتین کے لیے لکھا ۔ گویا ادبی ماحول آپ کو گھر میں میسر تھا ، اس لیے آپ کو اپنی صلاحیتیں نکھارنے کا خوب موقع ملا۔
محترمہ نے بچپن سے ہی لکھنے لکھانے کا آغاز کردیا تھا۔ بتول ، اردو ڈائجسٹ ، سیارہ ڈائجسٹ اور ایشیا ابتدا سے ہی گھر میں آتے تھے ، اس لیے بچپن سے ہی ان کا مطالعہ کرتی رہیں۔ آپ کی والدہ کو رسائل پڑھنے کا خاصا شوق تھا ۔ آپ کی والدہ نے اس وقت جب جہانیاں میں بجلی نہیں تھی ، نسیم حجازی کے تمام ناول لالٹین کی روشنی میں پڑھے ۔ تیرہ چودہ سال کی عمر میں محض رسالوں میں نام چھپنے کی خوشی میں لکھنا شروع کیا لیکن آہستہ آہستہ یہ آپ کا مقصد بنتا چلا گیا ۔
آپ کی پہلی کہانی ۱۹۷۸ء میں روزنامہ جسارت میں ’’صبح نو ‘‘ کے نام سے شائع ہو ئی ۔ ابتدا میں آپ ماہنامہ ’’بقعہ ء نور ‘‘ اور روزنامہ نوائے وقت کے ’’پھول اور کلیاں ‘‘ میں لکھتی رہیں ۔ بعد ازاں ماہنامہ ’’بقعہ نور ‘‘ ، ماہنامہ ’’ پھول ‘‘ ، ماہنامہ ’’ساتھی ‘‘ ، ماہنامہ ’’ذوق و شوق ‘‘ اور کراچی کے چند ایک رسائل میں تواتر سے لکھا ۔ لکھنے کے ساتھ ساتھ آپ تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ رہیں ۔آپ نے پانچ سال مقامی کالج میں ایف ایس سی کی کلاسز کو اسلامیات اور مطالعہ پاکستان بھی پڑھائی ۔
محترمہ قانتہ رابعہ کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ۔ چاروں بیٹیاں ڈاکٹر ، ایم فل بائیو کیمسٹری اور ماسٹر لیول کے بعد شادی شدہ ہیں ۔ بیٹا آئی سی ایس سیکنڈ ائیر کا طالب علم ہو نے کے ساتھ ساتھ حافظ قرآن بھی ہے ۔ آپ کے خاوند حال ہی میں پوسٹ گریجویٹ کالج سے ایسوسی ایٹ پروفیسر سائیکلوجی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں ۔
مصنفہ کا انداز تحریر دیگر لکھاریوں سے قدرے مختلف ہے ۔ آپ کے ناول اور افسانے روایتی ہیرو اور ہیروئن کے گرد گھومتے دکھائی نہیں دیتے بلکہ ان کی کہانی میں مقصدیت دکھائی دیتی ہے ۔ آپ کی زیادہ تر کہانیاں اللہ اور رسول ﷺ کی محبت اور زندگی کے عظیم ترین مقاصد کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں ۔
محترمہ ایک انٹرویو (۱) میں اپنی تحاریر کی بابت بتا تی ہیں :
’’الحمدللہ میری تحریریں منفرد ہیں بلکہ یہ کہوں کہ میری یہ انفرادیت ہے کہ میرے کسی افسانے میں کوئی ہیرو اور ہیروئن نہیں بلکہ کچھ ناولٹ بھی لکھے تو اس میں بھی صرف کہانی ہوتی ہے اور بامقصد تحریر ہوتی ہے….جہاں تک نام اور مقام بنانے کا تعلق ہے تو ایسا کبھی ذہن میں تھا ہی نہیں ، مجھے شروع میں شوق تھا شائع ہونے کا اس کے بعد عادت بن گئی پھر ضرورت اور اب یہ میرا مشن ہے اور مشنری جذبے کے بغیر مقصد والا ادب تخلیق نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘۔
محترمہ کا قلم ان کی وجہ شہرت بن چکا ہے ۔ اب تک قانتہ رابعہ کے تیرہ افسانوی مجموعے سامنے آچکے ہیں جبکہ چودھواں زیرِ اشاعت ہے ۔ ان شائع کردہ افسانوی مجموعوں میں’’دل نے جب کہا‘‘، ’’آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ‘‘ ، ’’محبت ایسا دریا ہے ‘‘، ’’’بہار آنے کو ہے ‘‘، ’’روشنی ہے رستہ ‘‘، ’’یہی تو جنت کا راستہ ہے ‘‘، ’’زمین پر قدم ‘‘، ’’آدم سے انسان تک ‘‘،’ ’دن زیست کے ‘‘، ’’راہ وفا میں‘‘، ’’رابطے تو ہوتے ہیں‘‘ اور’’خواب محل ‘‘ شامل ہیں۔ سفر نامہ حج ’’زہے مقدر ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے ۔کالموں کے دو مجموعے ’’یہ جو زندگی کی کتاب ہے ‘‘ اور ’’اسے زندہ کر دوبارہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں۔ بچوں کے لیے آپ کی ۱۶ کتب ہیں جن میں ’’راجے کی بیٹی ‘‘ ، ’’بسم اللہ کا جن ‘‘ ، ’’دائود میاں کے کارنامے ‘‘ ، ’’دوستی ایسا ناطہ ‘‘ ، ’’شکریہ میاں مرغے ‘‘ ، ’’جنت کی خوشبو ‘‘ ، ’’جلد باز ‘‘ ، ’’ روفی اب کیا کرے گا ‘‘، ’’نور پری ‘‘، ’’بونگوں کی بستی ‘‘ اور ’’محبت کا خزانہ ‘‘ شامل ہیں ۔
اسی طرح محترمہ قانتہ رابعہ کے نو کے قریب لیکچرز مو جود ہیں جو بعد میں پمفلٹس میں شائع ہو چکے ہیں ۔ آ پ کے لیکچرز میں ’’حیا اور حجاب ‘‘ ، ’’رمضان اللہ کا مہمان ‘‘ ، ’’عورت آج اور کل ‘‘ ، ’’ روزہ اور شکرانہ ‘‘ ، ’’رمضان اور میری نماز‘‘ ، ’’ لیلۃ القدر مگر کو نسی ‘‘ اور ’’رمضان اور میری دعائیں ‘‘ شامل ہیں ۔ محترمہ قانتہ رابعہ کی ہر کتاب کے دو سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔ آپ کی کہانیاں ڈیڑھ سو کے قریب جبکہ افسانے ۲۵۰ کے لگ بھگ شائع ہو چکے ہیں ۔
آپ کی کتب ادارہ مطبوعات سلیمانی ، منشورات ، ادارہ خواتین میگزین ، البدر پبلی کیشنز ، دارالمصحف ، چلڈرن لٹریری سوسائٹی، ادبیات اور پریس فار پیس فائونڈیشن یوکے سمیت ادارہ بتول نے شائع کی ہیں ۔ قانتہ رابعہ کی دو کتب ’’راجے کی بیٹی ‘‘ اور ’’ بسم اللہ کا جن ‘‘ پنجاب گورنمنٹ نے مڈل سکولزلائبریری پر و جیکٹ کے لیے منظور کی ہیں ۔ علاوہ ازیں قانتہ رابعہ کے فن اور شخصیت پر گورنمنٹ کالج یو نیورسٹی فیصل آباد سے ایم فل کی سطح پر مقالہ لکھا جا چکا ہے ، جس کا عنوان ’’قانتہ رابعہ بطور افسانہ نگار ‘‘ اور مقالہ نگار ’’طاہر محمود ‘‘ ہیں ۔ یہ مقالہ ڈاکٹر میمونہ سبحانی کی زیر نگرانی پایہ تکمیل تک پہنچا۔ علاوہ ازیں سفر نامہ حج پی ایچ ڈی کے لیے منتخب سفر ناموں کی فہرست میں بھی شامل ہوچکا ہے۔
محترمہ کے ادبی کارناموں کی وجہ سے انہیں درجن بھر ایوارڈ بھی دیے جا چکے ہیں جن میں چلڈرن لٹریری سوسائٹی ایوارڈ، اکادمی ادبیات پاکستان ایوارڈ، الطاف حسین حالی ایوارڈ ، آل پاکستان رائٹرز ایسوسی ایشن ایوارڈ ، الوکیل ایوارڈ، فضیلت جہاں گولڈ میڈل، حریم ادب بیسٹ رائٹرز ایوارڈ ، پریس فار پیس فائو نڈیشن ایوارڈاور پاک رائٹرز فورم ایوارڈ سر فہرست ہیں۔
موضوعات
قانتہ رابعہ کا بنیادی میدان افسانہ ہے ۔ آپ کے ہاں عموماََمعاشرتی موضوعات ملتے ہیں ۔ مصنفہ کے افسانوں میں اسلامی واخلاقی رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے ۔ سماج چونکہ ادیب کی سوچ و فکر پر اثر انداز ہوتا ہے ، مصنفہ کے ہاں سماجی رویے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مصنفہ کی تحریریں معاشرتی اور سماجی مسائل کا اسلام کے اصولوں کی روشنی میں حل پیش کرتی نظر آتی ہیں ۔ آپ کے افسانے حقیقی کہانی کا تاثر لیے نظر آتے ہیں ۔ ایسے معلوم ہوتا ہے گویا انہوں نے قاری کی نبض پر ہا تھ رکھ دیا ہو ۔
افسانہ ’’تناسب ‘‘ کا موضوع وقت ہے جو انسانی زندگی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔ انسان اپنے متعین وقت پر اس دنیا میں آتا ہے اور وقت متعین پر واپس چلا جاتا ہے ۔ کائنات کا سارا نظام وقت کی پابندی سے چل رہا ہے ۔ مصنفہ نے اس افسانہ میں ایک خاتون خانہ کے دن کا حال پیش کیا ہے ، جسے روزانہ کی مصرفیت ، مہمان داری اور بچوں کو سنبھالنے کے کام نے تھکن سے چور کر کے رکھ دیا ہے ۔ دن بھر کی تھکا دینے والی مصروفیت اور تیزی میں اسے نماز پڑھنے کا بھی وقت نہیں ملتا ، حتیٰ کہ اسے کھانا بازار میںاپنی نند کی وجہ سے غیرمسنون طریقے سے کھانا پڑتا ہے جو اسے قدرے ناگوار گزرتا ہے۔ اپنے انہی افعال و اعمال کی وجہ وہ خاصی پشیمان دکھائی دیتی ہے ۔ مغرب کے وقت چلنے والے تیز ہوا کے جھکڑ اسے سابقہ قوموں پر آنے والے عذاب کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ مصنفہ (۲)نے افسانے کا اختتام اس طرح کیا ہے :
’’فائزہ کی سوئی بس ایک ہی سوال پر اٹکی ہوئی تھی ۔
جسم اور روح کا تناسب۔
دنیا اور آخرت کا تناسب۔
زندگی اور موت کی تیاری کا تناسب۔
فنا سے بقا تک پہنچنے میں بس یہی تو سوال آگے ہو گا۔
’’زندگی کیسے گزاری ؟‘‘
’’دنیا اور آخرت کی کمائیوں کا تناسب کیا رہا؟‘‘
یہ آج کے دن کی مصروفیت کا نہیں تمام عمر کا تناسب ہے ….اسی تناسب سے اعمال نامے ، حشر نشر کے مراحل طے ہوں گے ….اب یہی تناسب اس کے سامنے سوالیہ نشان بنا ہؤا تھا….اللہ کے لیے کیے کاموں کا تناسب اولاد کے لیے….گھر بار ۔تناسب !!‘‘
افسانہ کا اختتام ہمیں جھنجوڑنے کے لیے کافی ہے ۔ یہ افسانہ ہمیں وقت کی قدر کا احساس دلاتا ہے ۔
افسانہ ’’روشنی کے ساتھ رہیے ‘‘میں مصنفہ نے ان خواتین کو موضوع بنایا ہے جو سسرال کی ہر بات میکے بتانا فرض سمجھتی ہیں اور اس میں دراصل باتیں نہیں بلکہ غیبت زیادہ ہوتی ہے ۔ابتدا میں مصنفہ نے ملیحہ کی نندوں کا حا ل بیان کیا ہے جو اپنے گھر میں خوش باش ہو نے کے باوجود چھوٹی چھوٹی باتوں کو دلیل بنا کر ماں کے پاس آکر گلے شکوے کرتی ہیں۔ بعد ازاں وہ اپنی بھابھی سے پوچھتی ہیں جو کہ خاصی مطمئن ہے تو ملیحہ اپنی ماں کے دیے ہوئے سبق کو اپنی نندوں کو بتاتی ہے اور انہیں ناشکری اور غیبت سے بچنے کاسبق دیتی ہے ۔ اقتباس(۲) ملاحظہ فرمائیں :
’’میری بیٹی جو مسئلے تمہیں اب دنیا کے سب سے بڑے مسئلے لگ رہے ہیں ، کل آنے والے دن میں تمھیں یہ یاد بھی نہیںہوں گے اور یاد رکھنا انہیں ، بلکہ ان سے بھی سنگین مسائل کا سامنا کر کے ہم نے گھر آباد کیے ہیں۔آج تو تم نے میرے پاس ابرار کی برائیاں کیں ،آئندہ مت کرنا ، ایک کام جس سے اللہ، رسول ؐ نے روکا ۔ مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی مکروہ تشبیہ دی ۔ وہ حرام کاکا م کرکے تم کیسے امید رکھو گی کہ تم بالکل ٹھیک رہو ۔ دیکھو اس معصوم سے بچے پرکتنی سخت مصیبت آگئی ‘‘۔
ملیحہ کے پوچھنے پر کہ وہ اپنے مسائل کس سے ذکر کرے ، اس کی والدہ (۲)کہتی ہیں:
’’بتائو ، جو دکھ جو پریشانی ، جو مسئلہ ہے اس سے شئیر کرو ، جاء نماز بچھانے کا ، ہاتھ پھیلانے کا موقع نہیں ملتا تو نہ ملے ، چمچہ چلاتے ہوئے ، آٹا گوندھتے ہو ئے اس سے راز و نیاز کرلو ، میںنے تمہاری یہ تربیت نہیں کی کہ ساری عبادتوں ریاضتوں کو سمیٹ کر ماں کے گھر آئو تو غیبتوںکا کوڑا کرکٹ بنا لو۔ کیا ماں ہی وہ بد نصیب ہستی ہے جس کےگلے لگ کر دکھ سنانے کے بہانے سارے گناہ اس کے کانوں میں انڈیل دو؟ اگر ایسے کرو گی تو پھر خود ہی سوچو کیا ہونا ہے ۔ چلو اٹھو اور اللہ سے معافی مانگو ۔ اس وقت کی توبہ نے اب تک میری لاج رکھی ہے ۔ نہ سسرال کے کیڑے میکے جا کر نمائش میں رکھے جاتے ہیں اور نہ ہی آزمائے جاتے ہیں ، تم بھی آزما کر دیکھ لو ، میکے شاد آئو گی ، شاد باد واپس سسرال میں جائو گی ۔ ‘‘
مصنفہ نے اس افسانے میں حسد ، غیبت ، چغلی اور ناشکری سے بچنے کا سبب بہت خوبصورت انداز سے دیا ہے ۔ شادی شدہ بہنوں کے لیے اس افسانے میں ان کے مسائل کا حل نظر آتا ہے ۔
پلاٹ :
پلاٹ کسی بھی افسانے میں بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے ۔ مصنفہ کے افسانوں کے پلاٹ مضبوط ہیں ۔ وسیع پھیلائو کے موضوعات کو مصنفہ نے افسانے کی کینوس پر بہت خوبصورتی سے سمیٹ دیا ہے ۔
افسانہ ’’جب زندگی نے رخ بدلا ‘‘ کا آغازسادہ انداز میں ایک باباجی کے نیک کاموں سے ہوتا ہے ، جو مسجد میں بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی مدد کرتے نظر آتے ہیں ۔ باباجی دراصل محسن صاحب تھے جو مستقلاً ملازم تھے اور اپنی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آنے کی وجہ سے پریشان تھے ۔ وہ سوچتے تھے کہ ریٹائر ڈ ہو کر میں سارا دن گھر فارغ بیٹھوں گا یا سڑکوں پر آوارہ پھروں گا یا بچے کھلائوں گا ۔ ان کی اس پریشانی کا حل ان کی بیگم صاحبہ نے یہ نکالا کہ آپ اپنی عاقبت سنوارنے کی فکر کریں ۔ اس رات محسن صاحب(۲) نے اپنی روح اور جسم کا موازنہ کیا تو زندگی کے کھاتے میں کیا ملا:
’’ خسارہ ہی خسارہ ۔‘‘غلاظتوں سے لتھڑی روح …غفلت میں بسر کیے دن رات۔ جس روح نے جسم سے جدا ہونا ہے اس روح کا تو کبھی حال احوال تک نہیں دریافت کیا …قبر ، حشر ۔‘‘اف۔ محسن صاحب نے جھرجھری لی …پہلا کا م یہ کیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد فیکٹری والوں کی طرف سے دعوت کھانے ، تحفے تحائف وصول کرنے کے بعد گھر آکر دو نفل پڑھے…دعا مانگی…اے اللہ…مالکوں کے مالک…تو جو کام لینا چاہتا ہے مجھ سے لے لے ۔سر پر سفید ٹوپی اوڑھی…اور مسجد کو اتنا وقت دینے لگے جتنا دفتر میں دیتے تھے ‘‘۔
اس طرح محسن صاحب اب بابا جی بن کر اپنی توانائی ، صلاحیتیں اور ایمانداری دین کی خاطر استعمال کرنے لگے ۔ مصنفہ نے اس افسانے میں ہر شخص کے لیے سبق چھوڑا ہے کہ اپنے فارغ وقت کا بہترین مصرف اپنی روح کی تسکین و پرورش ہے ۔
کردارنگاری
چونکہ کردار افسانے میں پلاٹ کی طرح اہمیت رکھتے ہیں ، اس لیے قانتہ رابعہ کے ہاں کردار نگاری خوب ملتی ہے ۔ مصنفہ کے افسانے میں موجود کردار روز مرہ زندگی کے کردارمعلوم ہو تے ہیں ۔ افسانے کے محدود پلاٹ میں وہ کرداروں کا واضح رخ دکھاتی ہیں ۔ مصنفہ کے کردار فطرت اور ماحول کے مطابق ارتقا پذیر دکھا ئی دیتے ہیں۔ مصنفہ کرداروں کی نفسیات کی ماہر نظر آتی ہیں ۔
افسانہ ’’ٹینشن فری ‘‘ میں مصنفہ نے ایک ایسی لڑکی کا کردار نضرہ کی صورت میں پیش کیا ہے جو ماڈرن فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجود اونچی شلوار اور داڑھی والے مولوی سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔اس کے اپر کلاس خاندان میں لبرل لوگوں کے ہوتے ہوئے ایسے کسی شخص کی جگہ نہیں ہوتی جو مذہب پسند ہو۔ نضرہ کی شادی کی وجہ کو ئی ذاتی پسند یا دوستی نہیں ہوتی بلکہ اپر کلاس مردوں کی آزاد خیالی ، بے راہ روی اور غیر لڑکیوں سے دوستی اس کو اپنی کلاس سے متنفر کر دیتی ہے ۔ وہ (۲)اپنی سہیلی سے کہتی ہے:
’’مجھے شک کے ساتھ یہ زندگی نہیں گزارنی ۔ مجھے ایسا شوہر چاہیئے جو گھر سے باہر جائے تو مجھے کسی قسم کا خطرہ نہ ہو….جو رات کو کسی عورت کے لیے گھر سے باہر نہ رہے ۔ ایسا شوہر جس کی ہنسی ، جس کی سجاوٹ صرف اور صرف اپنی بیوی کے لیے ہو ۔ جس کی نگاہیں صرف بیوی کے سراپے اور حسن کو سراہیں ۔ جس کے جذبات میں اس کی بیوی گرمی پیدا کرے ۔ مجھے بتائو ہماری کلاس سے ایسا شوہر کسی کو ملا ہے ؟‘‘
مصنفہ نے نضرہ کا ایک سلجھی ہو ئی لڑکی کے طور پر پیش کیا ہے جو اپر کلاس سے تعلق رکھتی ہے اور یہاں کے مردوں کے مسائل بخوبی سمجھتی ہے ۔ مصنفہ نے یہاں مردوں کا کردار بھی واضح طور پر پیش کیا ہے کہ عورتیں صرف ایسے مردوں کو پسند کرتی ہیں جو اپنی سوچ، اپنی حیا ، اپنی وفا اور اپنی نگاہیں صرف اپنی بیوی کے لیے رکھتے ہیں ۔ قرآن میں بھی اس کے متعلق واضح ارشاد ہے کہ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں۔
افسانہ ’’لذت ‘‘ میں مصنفہ نے ایک ایسے نوجوان کا حال پیش کیا ہے جو حلال رزق کے حصول کی خاطر مشکل حالات اور تنگ دستی میں بھی ملازمت چھوڑ دیتا ہے ۔ بنیادی طور پر وہ ڈرائیور ہوتا ہے ، لیکن ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی مل کر دھندہ گردی کرنے اور حرام طریقے سے مال اکٹھا کرنے سے متنفر ہو کر وہ ملازمت کو چھوڑ دیتا ہے ، جس کا بدلہ اللہ اسے ٹرانسپور ٹ کمپنی کا مالک بنا کر دے دیتا ہے ۔ وہ اپنی بسوں میں کوئی غیر شرعی کام نہیں کرتا اور نہ ہی حرام طریقے سے مال اکٹھا کرنے دیتا ہے ۔ نتیجتاً اللہ اسے حلال طریقے سے رزق سے نواز دیتا ہے ۔
مکالمہ
مکالمہ افسانہ کے اجزائے ترکیبی میں ایک اہم جزو کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کرداروں کے احساسات و جذبات کی عکاسی مکالمے کے ذریعے ہو تی ہے ، جس کے استعمال میں مصنفہ کامیاب دکھائی دیتی ہیں ۔ مکالمہ کردار کی تہذیب و تمد ن ، عہد ، رہن سہن اور بول چال کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے ۔
افسانہ ’’در آگہی ‘‘ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے پس منظر میں آگہی کے در کھولتا ہے ۔ مصنفہ (۳)لکھتی ہیں:
’’نو اکتوبر کی صبح سات بج کر اکیس منٹ پر مجھے اپنے ابا مرحوم بہت یا د آئے ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے۔
’’بیٹا جی ! اللہ سائیں کے ہر کام میں بڑی حکمت ہوتی ہے۔ اس کے کارخانے میں بغیر منصوبہ بندی کے کوئی کام نہیں ہوتا‘‘۔
اس افسانے میں مصنفہ نے نیلم نامی ایک حسین لڑکی کی کہانی بیان کی ہے ، جسے اس کے باپ کی وفات کے بعد اس کے کزن حتیٰ کہ اس کا سوتیلا باپ زیادتی کا نشانہ بنانا چاہتا ہے ۔اس کی ماں اسے بچاتے بچاتے اور چھپاتے چھپاتے تھک جاتی ہے تو کسی کے مشورہ پر نیلم کو جامعہ داخل کروادیتی ہے ۔ مصنفہ (۳)نے مکالمہ کی صورت میں نیلم کو جامعہ سپرد کرنے کا ذکر اس طرح کیا ہے۔
’’میڈم صاحبہ ! عورت مجھے بڑی دکھیاری لگتی ہے‘‘۔
’’ ہاں یہ تو ہے ‘‘۔ میں نے متانت سے جواب دیا اب وہی زینت ایک چھوٹا سا بیگ پکڑے اس لڑکی کے ساتھ میرے روبرو بیٹھی تھی ۔
’’نیلی پتر ! اسکارف کھول دو۔ اب یہی تیری ماں ہیں ۔ یہ جامعہ تیری محافظ ہے‘‘۔ اس کی آنکھیں پانی کے کٹورے کی طرح چھلک رہی تھیں ۔
نیلی نے اسکارف منہ سے نیچے کیا۔
ـ’’ماشاء اللہ ‘‘۔ میرے منہ سے بے اختیا ر نکلا‘‘۔
اس کی ماں سب سے بچا کر جامعہ چھوڑ کر چلی گئیں ۔نیلم اپنی ماں پر ہونے والے ظلم سوچنے لگی جو اس کے باپ نے نیلم کو آگے پیچھے کرنے کی صورت میں ڈھانے تھے ۔ لیکن قدرت کو شاید ان کی جدائی اورمزید امتحان مقصود نہ تھے ۔ سو اگلی صبح زلزلہ میں نیلم کی ماں ، سوتیلا باپ اور بھائی اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ جامعہ کی ساٹھ طالبات میں سے واحد نیلم ایسی لڑکی تھی جو اس حادثہ میں لقمہ اجل بن گئی تھی۔
اسلوب
اسلوب یا طرز نگارش کسی بھی تخلیق کی مقبولیت میں خاصا اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ افسانے کے مختصر کینوس میں قانتہ رابعہ شاندار اسلوب اپناتی ہیں جو قاری کی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا بلکہ وہ خاصی دلچسپی رکھتا ہے ۔ قانتہ رابعہ کے افسانے کا آغاز متاثر کن ہوتا ہے ، جو قاری کو اپنی گرفت میں لے رکھتا ہے اور افسانے کے اختتام پر قاری کے ذہن میں اس کا ایک گہرا اثر نظر آتا ہے ۔
افسانہ ’’ جب صبحیں روشن ہوتی ہیں‘‘ میں قانتہ رابعہ نے ایک ایسے غریب ، ذہین اور محنتی لڑکے کی کہانی بیان کی ہے جو سول سروسز کا امتحان پاس کرنے کے بعد علم کو آگے پھیلانے کے لیے کالج میں لیکچرار شپ کرتا ہے ۔اس سے قبل اس کے سٹور پر کام کرنے کے دوران ایک ایماندار لڑکی سے سامنا ہوتا ہے جو بعد میں اس کی سٹوڈنٹ فرحین کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ اور بعد ازاں احسان کی بیوی بنتی ہے۔اس کے اعلیٰ اخلاق و کردار کی مصنفہ(۳) ان ا لفاظ میں عکاسی کرتی ہیں، جو ان کے اسلوب کوبھی بخوبی واضح کر رہا ہے۔
’’مگر میرے خیال میں بیوی کے لیے حسین ہونا شرط نہیں ہے ۔ بیوی اور ماڈل گرل میں فرق تو ہو نا چاہیے ۔ دولت بھی بزرگوں کے بقول شاد ی کے بعد بیوی کے مقدر سے اور اولاد شوہر کی تقدیر سے ملتی ہے ، میں دولت کو بھی ایک طرف رکھ دیتا ہوں۔ ہاں بیوی کے لیے میرے ذہن میں جو بار ہا تصور آیا ہے وہ انتہائی با شعور ، با وفا اور ذمہ دار خاتون کا ہے۔ میرے خیال میں اگر یہ تینوں خوبیاں ہی مد نظر رکھی جائیں تو آپ ایک کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں‘‘۔
نقطہ نظر
ہر تخلیق کار اپنا ذاتی نقطہ نظر رکھتا ہے ۔ تخلیق کار چونکہ حساس ہو نے کے ساتھ ساتھ گہرا مشاہدہ بھی رکھتے ہیں ، اس لیے ہر تخلیق کے بارے میں ان کا ایک واضح نقطہ رکھتے ہیں ۔ لیکن کچھ تخلیق کار اپنا نقطہ نظر یا رائے واضح نہیں کرتے بلکہ مبہم رکھتے ہیں ۔ قانتہ رابعہ کے ہاں واضح نقطہ نظر ملتے ہیں۔چونکہ وہ معاشرتی مسائل کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لیتی ہیں ، لہٰذا وہ واضح انداز میں اپنا نقطہ نظر قاری تک پہنچاتی نظر آتی ہیں۔
افسانہ ’’خراج عقیدت ‘‘میںمصنفہ نے ایک عورت کی وفا کو بیان کیا ہے۔ اس افسانہ میںمصنفہ نے روایتی کہانی بیان کی ہے جس میں ایک عورت اپنی بچوں اور نشئی شوہر کے لیے کما کر بھی لاتی اور شوہر کی مار بھی کھاتی ہے۔ مصنفہ(۴) نے اس میں عورت کو ایسا وفا کا پیکر دکھایا ہے جو عمر بھر کیا، مرنے کے بعد بھی اپنے شوہر کے لیے در کھول جاتی ہے۔
’’عورت ، وفا ، محبت ، پیار ، چاہت کی دیوی ہوتی ہے تو سمجھتا ہے کہ وہ مجبوری میں تجھ نکھٹو کو کھلا رہی ہے …او بدبختا یہ اس کی مجبوری نہیں چاہت ہے چاہت ۔ مجبوری ہوتی تو پہلی دفعہ تیری مار پرتجھے چھوڑ کر چلی جاتی ، تو اسے مار یا نہ مار… وہ ہے تیری، تیری خاطر گرمی سردی میں دو میل چل کر جاتی ہے دس گھروں کا کام بھگتاتی اور تیرے علاوہ تیرے بچوں کا پیٹ پالتی ہے۔ یہ مجبوری کی نہیں ، محبت کی ڈوری ہے اللہ نے عورت کو اسی پیار محبت سے تخلیق کیا ہے…بس یہ رشتہ یہ ایسا ہے پر تیری مت ماری گئی ہے جو کام سیدھی طرح نرمی سے لے سکتا ہے وہی کام مار پیٹ کے لیتا ہے ۔ یاد رکھ اگراس نے کسی دن بد دل ہو کر تجھے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نہ روک سکے گی اور بندے دیا پترا ….ڈر اس وقت سے‘‘۔ بے بے نے لمبا ڈراوا دیا ‘‘۔
لیکن انور مسیح کو قدر ت نے یہ موقع ہی نہ دیا۔ اس دن کام سے واپسی پروہ بم دھماکے میں ہلاک ہو گئی اور حکومت نے پانچ لا کھ کا لواحقین کے لیے اعلان کردیا۔(۴)
’’پانچ لاکھ …پورے پانچ لاکھ…پکا گھر ۔ ٹی ۔ وی ۔ فریج ۔ موٹر سائیکل… بلے بلے…بے بے…تو کہتی تھی کہ اگر وہ مر مرا گئی تو تیرا کیا بنے گا ؟ لو دیکھ لو مر کے بھی اتنا بناگئی جو سات پشتیں نہ بنا سکیں ۔ واقعی عورت ہو تی ہی مہرو وفا کا مجسمہ ہے …زندگی میں بھی اور زندگی ختم ہونے کے بعد بھی‘‘۔
مصنفہ نے عورت کی ہر روپ ، ہر پہلو اور ہر وقت میں محبت اور وفا کی عکاسی بہت خوبصورت انداز میں کی ہے۔
حوالہ جات
۱۔رابعہ ، قانتہ (۲۸ فروری ۲۰۲۰ء) انٹرویو حریم ادب پاکستان
۲۔ رابعہ ، قانتہ (۲۰۱۳ء)محبت ایسا دریا ہے ، لاہور ، ادارہ بتول ، ص( ۵۶، ۲۲۰، ۲۲۱، ۱۱۲، ۱۷۲)
۳۔رابعہ ، قانتہ (ستمبر۲۰۱۳ء ) بہار آنے کو ہے ، لاہور ، ادبیات ، ص ( ۹۵، ۹۶،۱۳۴)
۴۔رابعہ، قانتہ (اگست ۲۰۱۰ء)آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا، لاہور ،ادبیات ص (۲۷، ۳۱)