غزل
جو رہا کرتے تھے راہیں تری تکتے وہی سب
عمر بھر چین سے جی لینے کو ترسے وہی سب
مجھ پہ ہنستے تھے جو پاگل مجھے کہہ کر کہو کیوں
دیکھے ہیں سر اسی چوکھٹ پہ پٹختے وہی سب
جان و دل آپ پہ قربان یہ دعویٰ تھا مگر
آئے لاشے پہ مری گاتے تھرکتے وہی سب
تختۂ دار تو منظور تھا، منظور نہ تھا
جو کہا جائے کہوں اپنی زباں سے وہی سب
اس نے جو کچھ بھی کہا مجھ کو لگا یوں ہی، مگر
ڈر رہا ہوں وہ کہیں دل سے نہ کہہ دے وہی سب
ہائے الفاظ کے تیروں سے لگائے گئے زخم
کاش واپس اْنھیں لیکر اِنھیں بھردے وہی سب
شہر کے پیار میں وہ گاؤں سی سچائی کہاں
ورنہ بستے ہیں وہاں بھی مرے تجھ سے وہی سب
لادو بچپن کے وہی کھیل کھلونے مجھے تم
گلی ڈنڈا، کوئی لٹو، مرے کنچے، وہی سب
جو کیا کرتا ہوں میں چھوٹے بڑوں سے حبیبؔ آج
کیا نہ دہرائیں گے کل، سب مرے بچے، وہی سب
(حبیب الرحمن)
غزل
اپنے من میں اتنا اترا، اترا جتنا جا سکتا تھا
لیکن اس دلدل کے اندر کتنا اترا جا سکتا تھا
یہ سب تو ممکن تھا جاناں خود سے بچھڑا جا سکتا تھا
لیکن تیری چاہت سے منہ کیسے پھیرا جا سکتا تھا
سارا گاؤں تیرا پاگل اور میں تنہا شہری بابو
سچ کہہ دے پھر میرے دل کا کیسے دھڑکا جا سکتا تھا
اجلے اجلے دن سے روشن، کالے کالی راتوں جیسے
دکھ سکھ کے ان سب لمحوں کو کیسے بھولا جا سکتا تھا
مانا اس کو تھا دنیا کے طعنے قصے باتوں کا ڈر
لیکن پھر بھی سب سے چھپ کر خوابوں میں آ جا سکتا تھا
اس دنیا نے ان کو جھوٹے ملغوزوں میں لا پھینکا ہے
جن کے سچ کی سانسوں کو خوشبو میں گھولا جا سکتا تھا
جس کے آگے چندا تارے سورج پھیکے پڑ جاتے ہوں
اس کے خال و خد کو کیسے یک ٹک دیکھا جا سکتا تھا
(حبیب الرحمن)