بتول اکتوبر ۲۰۲۱غزل - بتول اکتوبر ۲۰۲۱

غزل – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

غزل
جاں سے سوا عزیز دیانت قلم کی ہے
سچائی جو بھی ہے وہ امانت قلم کی ہے

طوفان بن کے اٹھتے ہیں لفظوں کے پیچ و خم
ہر موجِ فکر زندہ کرامت قلم کی ہے

الفاظ کے رہین ہیں دنیا کے انقلاب
تلوار کی کہاں ہے جو طاقت قلم کی ہے

بے شک خیال و جذبہ و حالات ایک ہوں
سرقہ کرے کوئی یہ اہانت قلم کی ہے

لکھا ہو سات پردوں میں چھپ کر کسی نے کچھ
سب بھید کھول دیتا ہے عادت قلم کی ہے

آزار دینے والے نہ مضموں اگر لکھیں
پائیں گے سرخروئی ضمانت قلم کی ہے

اے یاسمینؔ لوح و قلم کی ہیں برکتیں
جو کچھ بھی آج ہم ہیں عنایت قلم کی ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here