رمضان جی کو دیکھنے لڑکی والے آرہے تھے۔ تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد رمضان جی اور اس کے گھر والے مہمانوں کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ انتظار کتنی بری چیز ہوتی ہے، اس وقت کوئی رمضان سے پوچھتا۔ کاش! انتظار کا لفظ اس دنیا میں ایجاد ہی نہ ہوا ہوتا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ جلدی سے لڑکی والے آئیں، اسے پسند کریں اور شادی کی تاریخ بھی مقرر کر جائیں۔
رمضان جی کا وجہ تسمیہ اور قصہ پیدائش کچھ اس طرح تھا کہ رمضان کے مہینے میں جس وقت مسجد کے مولوی صاحب نے فجر کی اذان’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا سے شروع کی تھی عین اسی لمحے اکبر علی کے بیٹے نے دنیا کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی کان پھاڑتی آواز کے ساتھ رو رو کر دنیا میں اپنی آمد کا اعلان کیا۔ بچے کی کراری آواز نے صحن میں بیٹھے اکبر علی کے کان بھی کھڑے کردیے۔ اس کے محسوسات نے ہی اسے بیٹے کی خوشخبری دے دی۔
تھوڑی دیر بعد اکبر کی والدہ عنایت بی بی بھی باہر آئی، بیٹے کا ماتھا چوم کر اسے بیٹے کی خوشخبری سنائی اور پھر مٹی کی اینٹوں سے بنی رسوئی کی طرف گئی جہاں سے کچے چاولوں کی مٹکی میں چند دن پہلے چھپا کر رکھا ہؤا گڑ کا شاپر نکال لائی اور وہاں موجود عورتوں کو دو دو گڑ کی ٹکیاں ہاتھوں میں تھما دیں۔ رمضان کا مہینہ اوپر سے سحری کا وقت تھا اس لیے آس پڑوس کی بس دو تین بزرگ خواتین ہی آئی تھیں۔ پنجاب کے دیہاتوں میں ایک رواج یہ بھی تھا کیونکہ بچوں کی پیدائش گھروں میں ہی ہوتی تھی، ڈلیوری کے وقت بچے کی آنول کاٹنے سے پہلے قریبی گھروں میں رہنے والی بزرگ خواتین کو بلا لیا جاتا۔ جسے نہ بلایا جاتا وہ غصہ بھی کرتی تھی اور جب کبھی لڑائی ہوتی نہ بلائے جانے کا طعنہ بھی دیتی۔
عنایت بی بی کا پہلا پوتا جو کہ ایک انسانی ہاتھ سے کچھ بڑا، کمزور سا بچہ جسے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بھی خوف محسوس ہو، اسے کپڑے پہنا کر، اس کے ارد گرد روئی لپیٹ کر اوپر سے کپڑا لپیٹ دیا گیا۔ تب کہیں جاکر یہ رستم زماں بچہ اٹھانے کے قابل ہؤا۔ ماہ رمضان میں پیدائش کی وجہ سے دادی نے بڑے چاؤ سے نام بھی محمد رمضان رکھا لیکن شاید لوگوں کو یہ نام ہضم نہ ہؤا اور اسے ’’جانے‘‘ کا عظیم لقب دے دیا گیا پھر کبھی کسی نے اس کے لیے لفظ رمضان کہنے کا تکلف ہی نہ برتا اور وہ ہر جگہ ’’جانا‘‘ کے نام سے ہی پہچانا جانے لگا۔
دادی نے سارا بچپن دیسی گھی سے اس کی مالش کی۔ ماں نے سالن میں مکھن ڈال ڈال کر کھلایا اس کے باوجود جانے کا قد پونے 5 فٹ ہی رہا۔ دادی نے اپنی محبت کی ایک اور نشانی بھی پوتے کو دی کہ بچپن میں اس کی جسمانی کمزوری اور ماسٹر کی مار کے ڈر سے سکول سے زیادہ تر دور ہی رکھا۔ آخر پھر ایک دن ماسٹر جی کی مار کے بعد عنایت بی بی نے پوتے کی سکول سے پکی پکی چھٹی کروا لی۔ یوں اس کا تعلیمی سلسلہ تین جماعت تک ہی محدود رہا۔
مزاج کا سیدھا سادہ، بھولا بھالا، دورنگی سے پاک رمضان جی کی باتوں سے جو چاہتا لطف اندوز ہوتا۔ کچھ لوگ ہمدردی کی آڑ میں تمسخرانہ فقرے بھی کستے لیکن رمضان جی کا شیشے جیسا دل ان فقروں کو یا تو سمجھ ہی نہ پاتا یا پھر اسے دوسروں کی عادت سمجھ کر نظر انداز کرتا تھا۔ 21 سال کی عمر میں جا کر جب رمضان جی نے گاؤں میں اپنے ہم عمر دو تین لڑکوں کی شادی ہوتے دیکھا تو شادی کا لڈو کھانے کا شوق اس کے دل میں بھی پیدا ہؤا۔ باپ سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی لیکن ماں زرینہ بی بی کو اپنے دل بےقرار کا حال کہہ سنایا۔
بیٹے کی خواہش کا سن کر زرینہ بھی خوشی سے نہال ہوگئی۔ رمضان پتر کو تاکید کی کہ’’اپنے ابو کے ساتھ کام میں خوب ہاتھ بٹا وہ تیرے کام سے خوش ہو گا پھر دیکھنا کتنی جلدی تیرا ابو تیری شادی کرتا ہے‘‘۔
ماں نے بیٹے کو جلدی شادی کروانے کا فارمولہ بتا دیا۔ بیٹے نے بھی اس فارمولے پر دل و جان سے عمل کیا۔ اس نے گھر کے باڑے کے جانوروں کی ساری ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ بلکہ کھیتی باڑی میں بھی باپ کا پورا پورا معاون تھا۔ اس نے دن رات کام میں ایک کردیا ۔ آرام تو اس کی فہرست میں شامل ہی نہ تھا۔
ماں جب بیٹے کو باپ کا ایسے مضبوط بازو بنا دیکھتی تو اس کا دل خوشی سے لبریز ہو جاتا۔ وہ اب اپنے پتر کو اس قابل سمجھنے لگی کہ جس گھر میں بھی رشتے کے لیے سوال ڈالے گی، آسانی سے رشتہ مل جائے گا۔ لیکن اسی خوش فہمی میں جب بہن، بھائی، نند، دیور، جیٹھ، سب کے گھروں میں باری باری سوال کیے تو کچھ نے اسے مذاق سمجھا اور کچھ نے اسے کھری کھری سنائیں۔ زرینہ بجھے دل کے ساتھ، اندر ، باہر آتے جاتے آنسو بہاتی لیکن کسی کو اس نے کچھ نہ بتایا۔ اس کا اپنے بیٹے کی ناقدری پر دل ٹوٹ گیا۔ اس نے دل سے فیصلہ کیا کہ اب بیٹے کی شادی رشتہ داروں میں ہرگز نہ کروں گی۔
اسی سوچ کی بنا پر زرینہ نے رشتہ کروانے والے پاہ جیدی سے رابطہ کرلیا جس کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا۔ ساتھ ہی زرینہ نے پاہ جیدی کی مٹھی میں 500 کا نوٹ تھما دیا۔ مزید گھر میں بنی سوجی کی پنجیری کا ایک ڈبہ بھی ہمراہ کر دیا۔ زرینہ کو جیدی سے کوئی خاص ہمدردی نہ تھی۔ یہ سارا مکھن صرف بیٹے کے لیے رشتے کی وجہ سے لگایا جا رہا تھا۔ جیدی خوش ہوگیا اور پر خلوص نیت سے رشتہ ڈھونڈنے کا ارادہ کر لیا۔ تعریف و توصیف بیان کرنے میں، مٹی کو سونے میں بدلنا ، کوئی جیدی جی سے سیکھے۔ اس نے اپنی زبان و بیان کا ایسا جادو جگایا کہ دوسرے دن ہی زرینہ کو مہمان آنے کا پیغام مل گیا۔
اگلے ہی روز لڑکی والے رمضان جی کو دیکھنے آ رہے تھے۔ مہمان دوپہر کو آنے تھے۔ زرینہ جی کے خوشی میں پاؤں ہی زمین پر نہ ٹک رہے تھے۔ صبح فجر ویلے ہی ملتانی مٹی (گاچنی) میں نیلا رنگ ڈال کر پورے گھر کے کچے فرش پر پوچا لگا دیا۔ ساری چارپائیوں پر نئی چادریں بچھا دی گئیں۔ گھر کی ساری پرانی چیزیں عارضی طور پر چھت پر رکھ دیں۔ ہمسایہ کے گھر سے ان کی نئی نویلی دلہن کی نئی نکور میزیں منگوا کر اس کمرے میں رکھ دیں جہاں مہمانوں کو بٹھانا تھا۔ ساتھ ہی اس کمرے میں اگربتی دہکا کر کمرے کا دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی گئی کہ اب اس کمرے کا دروازہ مہمانوں کی آمد پر ہی کھلے گا۔ صرف وہ کمرہ ہی نہیں بلکہ سارا گھر ہی دلہن کی طرح سجایا گیا۔
رمضان کے دل کا حال بھی ماں کے دل سے مختلف نہیں تھا۔ ماں کی طرح اس نے بھی رات سے ہی تیاریاں شروع کر دی تھیں ۔ بھاگ کر اپنے گاؤں کے دوست بھگو سے آر سی کریم کا تیار شدہ نسخہ لے آیا جس کے نتیجے میں سفیدی وہ بھگو کے منہ پر دیکھ چکا تھا۔ رمضان نے بھی شاموں شام چہرے پر اس کریم کی لیپ کر لی۔ اس خیال سے کہ یہ جتنی زیادہ دیر چہرے پر لگی رہے گی اتنا ہی زیادہ رنگ سفید ہو گا۔ لیکن اس کا یہ عمل اپنی ماں کے دل کے دورے کا بھی موجب بننے والا تھا۔ ہؤا کچھ یوں کہ رات زرینہ کسی کام کے لیے اس کمرے میں آئی جہاں رمضان سفید کریم کی موٹی لیپ کے ساتھ آنکھیں بند کیے بت کی طرح سیدھا لیٹا پڑا تھا۔ زرینہ نے کمرے کا بلب روشن کیا تو رمضان کو نہ پہچان کر اس کی چیخ نکل گئی۔ گھٹی گھٹی آواز میں زبان سے ’’بھوت بھوت‘‘ کے الفاظ نکلے۔ چیخ کی آواز سن کر رمضان کی آنکھ کھل گئی۔ فورا ًمستعد کھڑا ہو کر کہنے لگا۔
’’نہیں اماں! میں بھوت نہیں، تیرا رمضان ہوں‘‘۔ یہ سن کر اماں کی جان میں جان آئی اپنے سانس اور حواس بحال کرکے کہنے لگی۔
’’پتر رمضان! اگر یہ بلا چہرے پر تھوپنی تھی تو مجھے بتا تو دیتا‘‘۔
رمضان شرمیلے انداز میں کہنے لگا۔’’اماں اس کریم سے رنگ بہت سفید ہو گا۔ دیکھنا! صبح میں کتنا سوہنا لگتا‘‘۔
’’میں صدقے جاؤں،قربان جاؤں، میرے شہزادے،میر ے لیے تو تم ویسے ہی بڑے سوہنے ہو۔ میرے لیے تو تمہارے سے زیادہ پیارا کوئی چہرہ ہی نہیں‘‘۔ ساتھ ہی رمضان کا سر چوم کر زرینہ اس کی بلائیں لینے لگی۔
اگلی صبح بھی رمضان نے سب سے زیادہ زور اور وقت اپنا حسن سنوار نے پر لگایا۔’’ کالے برتن ریت سے مانجھنے پر چمک سکتے ہیں تو میرے دانت کیوں نہیں؟‘‘ یہ سوچتے ہی رمضان جی نے ریت پکڑی اور اپنے دانت مانجھنے شروع کر دیے۔ پورا گھنٹہ لگا کر دانت نئے نکور نکال لیے، اسے بھی
اگلی صبح بھی رمضان نے سب سے زیادہ زور اور وقت اپنا حسن سنوار نے پر لگایا۔’’ کالے برتن ریت سے مانجھنے پر چمک سکتے ہیں تو میرے دانت کیوں نہیں؟‘‘ یہ سوچتے ہی رمضان جی نے ریت پکڑی اور اپنے دانت مانجھنے شروع کر دیے۔ پورا گھنٹہ لگا کر دانت نئے نکور نکال لیے، اسے بھی نا کافی سمجھتے ہوئے مسواک کا رگڑا لگایا۔ اب رمضان جی کے منہ اور دانت صاف تھے۔ سوائے زرینہ کے سب گھر والے رمضان کو تمسخرانہ نظروں سے نہ صرف دیکھ رہے تھے بلکہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی جملہ بھی کس دیتے لیکن رمضان کے باغ و باغ دل کو اس دن کسی کی پروا نہ تھی۔
مہمانوں کے طعام کی تیاری کے لیے زرینہ نے جب گھر کے صحن میں چلتا پھرتا صحت مند مرغا پکڑنے کے لیے رمضان کے دوسرے بھائیوں سے کہا تو سب نے انکار کر دیا اور کہا ۔’’جس کے لیے مہمان آ رہے ہیں وہی پکڑے‘‘۔ جبکہ رمضان جی نے یہ ذمہ داری بھی بخوشی قبول فرما لی اور مرغے کے پیچھے پانچ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ لگا دی۔ رمضان کی خوشی مرغے کی طاقت سے جیت گئی اور مرغا ہانپ کر ایک جگہ پر کھڑا ہو گیا۔ طاقت ور دیسی مرغا تو پکڑا گیا لیکن رمضان بیچارے کی رات لگائی گئی کریم کا سارا اثر پسینے میں بہہ کر چہرے کی سرخی کی نذ ہوگیا۔
زرینہ نے اپنی طاقت کے مطابق مہمانوں کے لیے بہترین کھانا تیار کیا۔ دیسی مرغ کا شوربے والا سالن، قیمہ مٹر، چنے کا پلاؤ، رائتہ، سلاد، سوجی کا حلوہ۔ زرینہ نے خود بھی صاف ستھرے کپڑے پہن لیے، گھر بار بھی صاف ستھرا۔ رمضان جی بھی چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہے تھے۔ بوسکی کا نیا سوٹ پہنا جس پر کوئی سلوٹ تک نہ تھی۔ آنکھوں میں تین تین سلائیاں سرمہ لگا کر نین سیاہ کر رکھے تھے۔ سر تیل سے اچھی طرح چپڑ کر درمیانی مانگ نکال کر کنگھی کر لی۔ دو بار تو چہرے پر فیر اینڈ لولی کا رگڑا لگایا۔ بغیر مسکرانے والی بات پر بھی بیچارا مسکرا مسکرا کر اپنے چمکتے دانتوں کی نمائش کر رہا تھا اور کچھ خوشی سے دل میں پھوٹتے لڈو بھی بے وجہ مسکراہٹ کا سبب بن رہے تھے۔
٭
آخرکار مہمان آ ہی گئے۔ رمضان کا چھوٹا بھائی جو گلی میں کھڑا مہمانوں کی راہ دیکھ رہا تھا، دور سے ہی مہمانوں کو دیکھ کر گھر کی طرف بھاگا اور پیشگی اطلاع دی۔ رمضان جی کی تو خوشی سے باچھیں کھل اٹھیں۔ جلدی سے اپنے دکھ سکھ کے واحد سہارے اماں جی کو مخاطب کرکے پوچھنے لگا۔
’’ماں جی! بیرونی دروازے کی دہلیز پر لگانے کے لیے تیل پکڑوں؟‘‘
زرینہ نے بیٹے کو بازو سے پکڑ کر تیل لانے سے روکا’’ نہیں پتر آج نہیں، جس دن میری بہو آئے گی اس دن دروازے کی دہلیز پر تیل لگا کر اس کا استقبال کریں گے‘‘۔
مہمانوں کی مہمان نوازی میں رمضان اماں سے بھی چار ہاتھ آگے ثابت ہؤا۔ کھانا کھلاتے ہوئے بھی مہمانوں کے سر پر سوار رہا۔ جسے پانی کی ضرورت پڑتی رمضان جی فورا ًگلاس پانی کا بھر کر دیتے۔ متوقع ساس کی پلیٹ سے تو بوٹی ختم ہی نہ ہونے دے رہا تھا ایک ختم ہوتی تو دوسری ڈال دیتا۔ جیدی بھی خوش و خرم کھانے کے ساتھ پورا انصاف کر رہا تھا۔ مہمانوں کو جی بھر کر کھاتے دیکھ کر رمضان جی کا’’ہاں‘‘ کے معاملے میں یقین پختہ ہو رہا تھا۔ اس کے چشم تصور میں برات بس تیار ہی کھڑی تھی۔ مہمان چائے، کھانے سے فارغ ہو کر جیدی سے لڑکے کے بارے میں پوچھنے لگے کہ لڑکا کدھر ہے ہمیں لڑکا تو دکھاؤ۔
جیدی نے خوشی خوشی رمضان کا بازو پکڑ کر مہمانوں کے سامنے کیا۔’’لڑکا یہ ہے رمضان‘‘۔
لڑکے کو دیکھ کر سب کو سو وولٹ کا جھٹکا لگ گیا۔ دوسرے تو خاموش رہے لیکن لڑکی کی ماں چپ نہ رہ سکی اور بولی۔
’’واہ پاہ جیدی واہ!…. تعریفیں کرنے میں تو تم نے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے تھے لیکن لڑکا کیا نکلا چار فٹ کا ٹھگنا؟ کیا سوچ کر تم ہمیں یہاں لائے تھے؟ یہ تو کسی صورت میں میری ہیرے جیسی بیٹی کے لائق نہیں‘‘۔
لڑکی کی ماں کے سخت الفاظ پگھلے ہوئے سیسے کی مانند کانوں میں پڑ رہے تھے۔ زرینہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر وہیں چارپائی پر بیٹھ گئی۔
مہمان چلے گئے۔ سب گھر والے زرینہ کی طرف متوجہ ہوگئے لیکن اپنی بے عزتی اور کم مائیگی کے احساس سے ٹوٹے دل والے رمضان کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کی طرف کسی کا دھیان ہی نہ گیا۔
٭ ٭ ٭