۲۰۲۲ بتول جنوریدو آنکھیں - بتول جنوری ۲۰۲۲

دو آنکھیں – بتول جنوری ۲۰۲۲

چار سو پھیلی صبح کی روپہلی کرنیں اپنے سنہری آنچل سے لہلہاتی فصلوں کو خراج تحسین پیش کر رہی تھیں ۔تاحد نگاہ پھیلےسروقد پٹسن کے ہرے بھرے سرکنڈے، ہوا کے دوش سے جھوم رہے تھے گھنے جھنڈ سے آتی جھینگروں کی آواز یں اور دور سے سنائی دیتی رہی مدھم دھن ۔
سب کچھ کتنا دلکش اور مسحور کن تھا ۔ قدرت کی صناعی کا شاہکار !
دریائے پدما کے کنارے واقع یہ بنگال کا چھوٹا سا گاؤں گوپال گنج تھا ۔ اس گاؤں کے باسی بہت ملنسار اور دریائے پدما کی وسعت جیسے وسیع القلب تھے ۔
تقسیم ہندوستان کے وقت بہت سے مسلمان ہجرت کر کے اس گاؤں میں آباد ہو، ان نقل مکانی کرنے والے افراد میں بڑی تعداد پٹنہ، بہار کے افراد کی تھی۔مقامی بنگالی آبادی نے ان کی حتی المقدور امداد کی ،انہیں اپنے علاقے میں آبادکیا اور روزگار فراہم کیا ۔۔
انہی ہجرت کرنے والے اور بلوائیوں سے جان بچا کر آنے والوں میں خیر الدین اور اس کی بیوی شائستہ بھی شامل تھے ۔خیرالدین کا تعلق بہار سے تھا پر نوکری کی خاطر وہ کلکتہ میں رہائش پذیر تھا ۔ ۔
خیر الدین تحریک آزادی کا سرگرم رکن تھا ۔ اسے پاکستان سے جنون کی حد تک محبت تھی ۔ ہر چھوٹے بڑے جلسے جلوس میں جوش و جزبے سے شرکت کرتا۔
کئی بار ہنگاموں میں زخمی ہؤاپر وہ پامردی سے جدو جہد آزادی کے ہراول دستے میں ڈٹا رہا۔انہی حالات میں تقسیم ہندوستان کا اعلان ہؤا‘‘اور ملک کے طول و عرض میں ہنگامے پھوٹ پڑے،خیرا لدین کے گھر کو بھی بلوائیوں نے نذر آتش کر دیا،اس کے والدین اور دو بہنیں اسی حادثے میں شہید ہوئیں ۔خیرالدین اپنی نو بیاہتا بیوی کے ساتھ بمشکل جان بچا کر سرحد پار پہنچا ۔
فضل کریم سے اس کی جب پہلی بار ملاقات ہوئی تو وہ دونوں میاں بیوی دو دن کے فاقے سے تھے ۔ اس کی بیوی شائستہ پانچ ماہ کی حاملہ تھی ۔فضل انہیں اپنے گھر لے گیا ۔فضل چھوٹا سا کاشتکار تھا، اس کی شادی کو کئی سال گزر چکے تھے پر فضل کے گھر اب تک اولاد نہ ہوئی تھی ۔ اس کی بیوی عالیہ نے شائستہ کا بہت خیال رکھا ۔کچھ ہی عرصے میں اس کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی۔
گھر میں ننھے رحیم کی کلکاریاں گونجنے لگیں ۔
خیرالدین فضل کے ساتھ کھیتوں پر کام کرنے لگا ۔ وہ بہت جانفشانی سے کھیتوں پرکام کر تا اور فضل کریم کو بڑے بھائی کا درجہ دیتا ۔
انہی دنوں حکومت نے گاؤں میں مڈل اسکول بنانے کا اعلان کیا ۔ پورے گاؤں کا واحد پڑھا لکھاشخص خیر الدین تھا ۔ اسے اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی نوکری مل گئی۔
اور یوں دو چھپر نما کمروں کے چھوٹے سےاسکول میں تعلیم و تدریس کا سلسہ شروع ہؤا ۔اسکول سے متصل ایک کمرے میں خیر الدین کو رہائش کی سہولت بھی مل گئیوہ شائستہ اور رحیم کے ساتھ وہاں رہنے لگا اور زندگی کی گاڑی نئ ڈگر پر چل پڑی ۔خیرالدین نے دن رات محنت کی اور بہت سے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا ۔ گاؤں والے اس کی بہت قدرو منزلت کرتے اور ماسٹر خیرالدین کے منہ سے نکلے ہر جملے کو حکم کا درجہ دیتے ۔اکثر و بیشتر خیرالدین انہیں جدوجہد آزادی کے آنکھوں دیکھے قصے سناتا اور وطن سے محبت کا درس بھی دیتا ۔
اسکول کی نوکری کے باوجود فرصت ملتے ہی خیرالدین اپنے محسن فضل کریم کے باس پہنچ جاتا۔کھیتوں پر اس کا ہاتھ بٹاتا ۔وہ احسان

فراموش نہ تھا،اکثر یہی کہتا کہ:
’’ہم میاں بیوی فضل بھائی کے بے دام غلام ہیں…..ان کی محبت اور شفقت نہ ہوتی تو ہم آج زندہ نہ ہوتے‘‘۔
ابھی رحیم تین سال کا ہی تھا کہ اللہ نے فضل کو بھی اولاد کی نعمت سے نوزا ۔زرین کی پیدائش پر خیرالدین اور اس کی بیوی نے اسے رحیم کے لیے مانگ لیا ۔جسے خوشی سے ان میاں بیوی نے قبول کر لیا ۔
٭ ٭ ٭
ہر سال عید کے پہلے روز سب سے پہلے وہ فضل کریم کے گھرجاتے۔ ماسٹر خیر الدین یہی کہتے کہ عید کی خوشیاں تو اپنوں کے ساتھ ہی منائی جاتی ہیں،اور فضل بھائی میرے لیے سگے بھائی سے بڑھ کر ہیں ۔
’’بابا جان آپ رحیم کو مجھ سے زیادہ پیار کرتے ہیں…..ہمیشہ اسے مجھ سے پہلے عیدی دیتے ہیں‘‘۔
فضل نے بچوں کو عیدی دی تو ننھی زرین روٹھتے ہوئے بولی ۔
زرین کی بات سن کر سب ہنسنے لگے ۔
’’پیار ی بیٹی کریم کے قدم بہت مبارک ہیں،اس کی پیدائش کے بعد اللہ نے ہمیں تم جیسی اچھی بیٹی دی…..تم دونوں میری دونوں آنکھیں ہو،بھلا کوئی دو آنکھوں میں کیسے فرق کر سکتا ہے‘‘۔
فضل نے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار سے کہا:
کریم نے شرارت سے ہنستے ہوئے کہا۔
’’لیکن تایا ابو کبھی کبھی آنکھیں چھوٹی بڑی بھی تو ہو سکتی ہیں نا!‘‘
اس کی بات سن کر سب زور زور سے ہنسنے لگے ۔رحیم کوئی بھی موقع زریں کو ستانے کا جانے نہیں دیتا تھا۔ شائستہ نے زرین کو اپنے ہاتھوں سے کڑھائی کیا فراک تحفے میں دیا اور کہنے لگی:
’’بھئی میری بیٹی کو تنگ نہ کرو میری بیٹی تو شہزادی ہے،شہزادی سے اچھا کون ہو سکتا ہے بھلا ۔‘‘
زرین فراک کا تحفہ لے کر بہت خوش ہوئی اور شائستہ چاچی کے سینے سے لگ گئی ۔
اگر رحیم سب کا دلارا تھا تو زرین گھر بھر کی آنکھ کا تارا تھی ۔محبت ، احساس اور وفا سے جڑے یہ رشتے خون کے رشتوں سے بھی زیادہ مضبوط تھے ۔
یو نہیہنستے کھیلتے دن پلک جھپکتے بیتے گئے اور دونوں بچوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ۔
٭ ٭ ٭
’’رحیم یہ دیکھو میں نے اپنے ہاتھوں سے تمہارے لیے رومال بنا کر لائی ہوں‘‘۔
بڑی بڑی آنکھوں میں بے پناہ محبت سمیٹے زرین نے کشیدہ کاری والا لال رومال رحیم کو دیتے ہوئےکہا۔رحیم انٹر کے بعد فارغ وقت میں اسکول میں والد کا ہاتھ بٹا رہا تھا ،ابھی اسکول جانے کے لیے نکلا ہی تھا کہ زرین راستے میں مل گئی ۔
’’واہ یہ تو اتنا خوبصورت رومال ہے …..تم اتنے پیارے اور مشکل پھول کیسے بناتی ہو زرین ؟‘‘
رحیم اپنی بچپن کی ساتھی اور ہونے والی شریک حیات سے بے پناہ محبت کرتا تھا ۔ زرین بھی گاؤں کے سب سے قابل اور ہونہار لڑکے کی منگیتر ہونے پر نازاں تھی ۔
’’تمہارے لیے جب بناتی ہوں تو کچھ بھی مشکل نہیںلگتا،بلکہ مجھے اچھا لگتا ہے کہ تمہارے ہاتھوں میں میرا رومال رہتا ہے‘‘۔
زرین کی دلکش مسکراہٹ دیکھ کر رحیم بھی مسکرا دیا ۔
’’اماں کہہ رہی تھیں کہ جلد ہی وہ تمہارے گھر تاریخ مانگنے جائیں گی‘‘۔
رحیم کی بات سن کر زرین شرما گئی اور گھر کی جانب دوڑ گئی ۔
رحیم بھی اپنی آنکھوں میں حسین خواب سجائے اسکول کی جانب چل دیا ۔
٭ ٭ ٭
’’ماسٹر صاحب آپ جب تک شرکت کی حامی نہیںبھریں گےمیں اپنی بیٹی کا نکاح نہیں کروں گا‘‘۔
گاؤں کے چوہدری فیروز نے ماسٹر خیرالدین کو محبت بھری تنبیہ

گاؤں کے چوہدری فیروز نے ماسٹر خیرالدین کو محبت بھری تنبیہ کی۔
ماسٹر خیر الدین مسکراتے ہوئے بولے
’’چوہدری صاحب آپ تو جانتے ہیں میرے دن رات تو اس گاؤں کےنونہالوں کے لیے وقف ہیں،میں تقر یبات میں شرکت نہیں کرتا‘‘۔
چوہدری صاحب نے کہا:
’’ماسٹر صاحب میں جانتا ہوں اسی لیے خود چل کر آپ کو بلاوا دینے آیا ہوں ۔آپ نے ہمان پڑھ گاؤں کے کسانوں کو علم کی دولت دی ہے ۔میرا بیٹا آج ڈھاکہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا ہے تو یہ بھی آپ کی وجہ سے ممکن ہوا ۔آپ کو آنا پڑے گا جبھی ہماری خوشی مکمل ہو گی‘‘۔ماسٹر خیرالدین آبدیدہ ہو گئے اور بولے:
’’میرے پورے خاندان کو بلوائیوں نے شہید کر ڈالا پر آپ سب گاؤں والوں نے مجھے جو محبت اور عزت دی اس نے میرے دل کے زخم بھر دیے…..ٹھیک ہے میں ضرور آؤں گا‘‘۔
چوہدری صاحب نے شکریہ ادا کیا اور خدا حافظ کہہ کر چلے گئے ۔
٭ ٭ ٭
’’ میرا دل بہت خوفزدہ ہے زرین…..کہیں تمہیں مجھ سے کوئ چھین تو نہ لے گا؟ ‘‘
دیوار سے ٹیک لگائے رحیم نے فکر مند لہجے میں کہا۔رحیم کے سوال پر زرین حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔
’’ایسا کون کر سکتا ہے بھلا ؟ سب جانتے ہیں میرے نام کے ساتھ تمہارا نام بچپن سے جڑا ہے‘‘۔
زرین کا جواب اسے مطمئن نہ کر پایا ۔وہ پھر سے بولا
’’میں نے ابا سے سنا ہے کہ گاؤں کے لوگ کہہ رہے تھے کہ اب ہماری زمین پر کوئی غدار نہی رہ سکتا ۔پاکستان کا نام لینے والوں کو زندہ جلا دیں گے‘‘۔
اس کی بات سن کر زرین بھی خوفزدہ ہو گئی ۔
’’پاکستان تو ہم سب کا وطن ہے ….. پھر کوئی اپنے وطن کے نام لینے سے غدار کیسے ہوسکتا ہے ؟‘‘
رحیم نے کہا :
’’یہ تو میں نہی جانتا پر حالات دن بہ دن خراب ہو رہے ہیں ۔سننے میں آرہا ہے کہ’’بنگلو بھگت‘‘اور فوج اب آمنے سامنے ہیں …..سمجھوتہ نہ ہوا تو پاکستان تقسیم ہو جائے گا ‘‘۔
زرین نے روہانسے لہجے میں کہا
’’پاکستان کو کوئی نہیں توڑ سکتا……یہ ناممکن ہے……ایسی باتیں نہیں کرو، میرا دل ڈوبا جا رہا ہے‘‘۔
رحیم خاموش ہو گیا،پر دونوں کے چہروں پر انجانے خوف کی پرچھائیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔
٭ ٭ ٭
پورا گاؤں خوش تھا ۔مقامی افراد اور ہجرت کر کے آباد ہونے والے ۔حتیٰ کہ ہندو بھی سب شاداں تھے ۔گوپال گنج میں سب کی خوشیاں سانجھی تھیں…..شہنائیاں بجائی جا رہی تھیں۔ڈھول تاشے بجائے جا رہے تھے ۔شام کی گاڑی سے چوہدری صاحب کا بیٹا نجم بہن کی شادی میں شرکت کے لیے آنےوالا تھا ۔انہوں نے اسی خوشی میں سارے گاؤں کی ضیافت کا اہتمام کر رکھاتھا۔
اچانک خبر آئی کہ سرچ لائٹ آپریشن کے دوران ڈھاکہ میں بنگالیوں کو مارا گیا ہےاور تمام ملک میں ہنگامے پھوٹ گئے ہیں۔افسوس ناک خبر یہ تھی کہ مارے جانے والوں میں چوہدری صاحب کا بیٹا نجم بھی شامل تھا کیونکہ اس کا تعلق مکتی باہنی سے ثابت ہوا تھا۔
یہ خبر ملتے ہی آناًفاناًسارا منظر تبدیل ہوگیا۔خوشیوں بھرا ماحول ماتم کدہ بن گیا ۔غم اور غصے سے نڈھال چوہدری فیروز نے بندوق نکال لی اور چلا کر کہنے لگے۔
’’مار دو سارے نمک حرام پاکستانیوں کو……یہی فساد کی جڑ ہیں……ایک بھی زندہ بچنےنہ پائے“۔
چوہدری کا اعلان سن کر تمام مقامی افراد ہتھیار اٹھا لائے ۔جوش انتقام میں وہ سب اندھے ہو گئے تھے۔اور پھرگولیوں کی تڑتڑاہٹ سے فضا گونج اٹھی ۔

وہ اپنے ہم وطن اور ہم مذہب غیر بنگالی بھائیوں پربھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے ۔دشمنوں نے ایسی سازش رچائی کہ سب کی عقل پر پردے پڑ گئے ۔ڈنڈوں، سریوں اور بندوقوں سے لیس نفرت اور غصے سے پھنکارتے بھوکے بھیڑیے…..اپنی ہی دھرتی کی بہنوں بیٹیوں کی عزتیں پامال کر رہے تھے …..انسانیت تار تار تھی…..انہونی ہوچکی تھی ۔
حملہ آوروں نے چن چن کر ہجرت کر کے آنے والے آباد کاروں کو مارا ۔جس پر بھی پاکستان سےمحبت کرنے کا شبہہ ہؤا اس سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا گیا۔
ہر طرف بھگدڑ مچ چکی تھی ۔سب اپنی جان بچانے کے لیے دوڑ رہے تھے ۔ انہیں وطن پرستی کے جرم کی سزا دی جارہی تھی ۔اور پھروہ درندے خاک و خون ایک کرتے ماسٹر خیر الدین کے گھر پہنچ گئے ۔گھر کے بند دروازوں کو پیٹنے لگے ۔
’’ماسٹر خیر الدین خود کو ہمارے حوالے کر دو…..نہیں تو تم سب کو زندہ جلا دیں گے‘‘۔
ماسٹر صاحب کو ساری صورتحال کی خبر مل چکی تھی۔ وہ گھر میں ہی موجود تھے اور حیران تھے کل تک جان نچھاور کرنے والے آج جان لینے پر تلے ہیں……شائستہ خوف کے مارے پتھر کا مجسمہ بنی کھڑی تھی ۔ رحیم بھی اچانک آئی اس آفت پر سکتے میں تھا۔
کچھ دیر دروازہ پیٹنے کے بعد غصے میں پاگل ہوتے ہجوم نے ماسٹر خیر الدین کے گھر کو آگ لگا دی ۔دیکھتے ہی دیکھتے آگ گھر کے اندر تک پہنچ گئی ۔ماسٹر صاحب اور رحیم شکستہ دل کے ساتھ آگ بجھانے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔ پر آگ بھڑکتی جا رہی تھی ۔کمرے میں دھواں بھر جانے سے ان کا دم گھٹنے لگا ۔وہ سب آگ کے شعلوں میں بری طرح گھر چکے تھے اور آگ نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا بچنے کی اب کوئیصورت نہ تھی ۔ باہر سے نفرت سے بھرے ہجوم کا شور و غل مسلسل سنائی دے رہا تھا ۔
’’مار دو ان پاکستانیوں کو……مار دو ان دشمنوں کو ……مارو ……مارو……غدار ہیں یہ!‘‘
اتنے میں دروازہ ٹوٹ کر نیچے جا گرا ۔
نفرت بھری نگاہیں اور غصے بھرے چہرے اپنے انتقام کی تکمیل پر خوش ہو رہے تھے……ان تینوں کے آگ میں جلتے تڑپتے وجود سے دردناک چیخیں سنائی دے رہی ۔کوئی انہیں بچانے والا نہ تھا……موت کے آہنی شکنجے انہیں اپنی گرفت میں جکڑ چکے تھے ۔
موت کے آغوش میں جاتے ماسٹر خیرالدین بس اتنا دیکھ پائے کہ فضل کریم اور چوہدری فیروز بھی اس وحشی ہجوم میں موجود تھے،ان کے چہروں پر وحشت تھی……اور وہ زور دار نعرے لگا رہے تھے ……بنگلہ دیش زندہ باد ……بنگلو بھگت زندہ باد ۔
رحیم کی دم توڑتی سانسیں اور آنکھوں کے بجھتے چراغ تایا فضل کی جانب بے بسی سے دیکھ رہے تھے ۔اسے دور سے ان کی آوازکی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔
’’ تم دونوں میری دو آنکھیں ہو ۔بھلا دو آنکھوں میں کوئی فرق کیسے کر سکتا ہے!‘‘
٭ ٭ ٭

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here