۲۰۲۳ بتول ستمبردوسرا حصّہ - اعجازِ قرآن - ڈاکٹر میمونہ حمزہ

دوسرا حصّہ – اعجازِ قرآن – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

اس جیسا کوئی کلام نہیں !

 

حضورِ اکرم ﷺ کو اللہ تعالی نے دین کی دعوت کے لیے دو معجزوں سے لیس کر کے میدان عمل میں اتارا۔ ایک معجزہ ٔکردار اور دوسرا معجزۂ قرآن۔وہ قرآنِ عظیم جو پے در پے اور موج در موج آپؐ پر نازل ہو رہا تھا۔اس کے سامنے بڑے بڑے خطیبوں، شاعروں، ادیبوں، شعلہ بیان مقرروں اور زبان آوروں کی زبانیں گنگ تھیں۔وہ جلیل و جمیل،عظیم وکبیر، فصیح و بلیغ، زور آور و زور دار، ہولناک و ہیبت ناک ، دہشت ناک و مرعوب کن، گرفت کرنے والا اور دبا دینے والااور وراء الوراء ہیبت کا حامل بالاتر از انسان الٰہی کلام تھا۔ قرآن ایک ایسا معجزہ ، جس کا کسی کے پاس کوئی توڑ نہ تھا، جو سیلاب کی مانند یلغار کرتا، برق کی طرح کڑکتا، بارش کی طرح برستا، بادل کی طرح چڑھتا، بجلی کی طرح کوندتا، دریا کی طرح لہریں مارتا، طوفان کی طرح امڈتا اور پھولوں کی طرح مہکتا تھا، یہ دعوت ِ اسلامی کا انقلاب آفرین ہتھیار تھا۔
قرآن کی خصوصیات
قرآن کی خصوصیات حیران کن ہیں، یہ جمیع الاوصاف کتاب ہے:
ث اس میں علوم ِ عقلی اور علومِ روحانی و اخروی دو نوں پرزور دریاؤں کی طرح پہلو بہ پہلو جوش مارتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
ث اس میں سمندر کی سی گہرائی اور عمق ہے۔
ث اس میں سمندر کے موتیوں کی سی نفع رسانی اور آب و تاب ہے۔
ث اس میں شکوک و شبہات بہا لے جانے والی روانی اور قوت ہے۔
ث اس میں بلا تکان مسلسل پڑھتے چلے جانے کی رعنائی ، خوبی اور لذت ہے۔
ث اس قرآنِ عظیم اور قولِ ثقیل (بھاری بھرکم )کتاب میں حفظ ہو جانے اور دل و دماغ میں اتر کر سرایت کر جانے کی خوبی ہے۔
ث اس کی ہدایت کسی کے لیے خاص نہیں، سب کے عام ہے، یہ ھدی للنّاس ہے۔
ث اس کے ارشاد محدود نہیں غیر محدود ہیں۔ اس میں کسی نسل قوم اور علاقے کی محدودیت بھی نہیں ہے۔یہ کسی گروہ کو خدا کی بندگی سے ازلی طور پر خارج نہیں کرتی، اور نہ کسی گروہ کو ازلی طور پر خدا کی محبوبیت کا مصداق قرار دیتی ہے۔
ث یہ فطرتِ انسانی کے عین مطابق اور اس کے پاکیزہ تقاضوں کی حامل ہے۔
یہ وہ کتاب ہے جس نے روئے زمین کے ہر حصّے تک اپنے احکام و قوانین پہنچائے اور ان کا واحد قابلِ عمل ہونا ثابت کیا۔ (دیکھیے: رسول اللہ ؐ کی حکمتِ انقلاب، سید اسعد گیلانی، معجزۂ قرآن)
قرآن ایک ایسا قولِ فیصل ہے جس نے تمام انسانی مسائل کو حل کر دیا ہے۔اور افراط وتفریط کی ماری ہوئی ساری انسانیت کو اعتدال کے مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔قرآن کا اسلوب ِ بیان ایسا شائستہ، پاکیزہ اور پر از حکمت ہے کہ اس میں کوئی بھی لفظ تہذیب کے دائرے اور شرم و حیا کے تقاضوں کے منافی نہیں ہے۔اس نے پیدائشِ انسانی کے عقدے کو حل کیا ہے اور کمال درجے کی حکمت اور شائستگی سے ایسے ایسے مسائل پر روشنی ڈالی ہے جو صرف اسی کا حصّہ ہے۔
قرآنِ کریم ایسا کلام ہے جو انسانی طاقت سے باہر ہے، اس میں بیان کردہ غیب کی خبریں، مبدہ اور معاد سے آگاہی، ثواب اور عذاب کی اطلاع دی گئی ہے، کچھ ایسی باتیں جن کے ظہور کا ابھی موقع ہی نہیں آیا، اگرچہ سابقہ الہامی کتب میں بھی یہی تذکرے موجود تھے۔ جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے باربار چیلنج دیا گیا ، اور لوگوں نے اس کے مقابلے کے لیے پوری طاقتیں صرف کر دیں، اور ان کی طاقتوں نے کچھ کام نہ کیا تو قرآن کا معجز ہونا ان پر ثابت ہو گیا۔ اور اسی طرح قرآن کی دی گئی بعض خبریں سامنے بھی آگئیں، اور سچی ثابت ہو گئیں، جیسے ’’غلبت الرّوم‘‘ اور قرآن کی پیش گوئی کے مطابق رومی مغلوب ہونے کے بعد ایرانیوں پر غالب بھی آگئے اور اسی زمانے میں غزوۂ بدر کی فتح بھی مل گئی۔ ’’تبّت یدا ابی لھب‘‘ میں ابولھب کی ہلاکت کی پیش گوئی بھی پوری ہو گئی۔جس کے بعد کچھ لوگ ایمان لے آئے اور کچھ جذبۂ عناد میں کچھ اور بڑھ گئے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر سورہ یونس)
قرآن کا اعجاز یہ بھی ہے کہ وہ پورے وجود ِ انسانی کو مخاطب کرتا ہے اور اس کا کلام ہر طرح سے اس پر اثر انداز ہوتا ہے، ایسانہیں کہ وہ ذہنِ انسانی سے مخاطب ہو اور اسے متاثر کر دے، اور کبھی دل اس کے پیغامات کی گرفت میں آجائے اور کبھی حسی طور پر وہ اسے مات دے دے، بلکہ اس کی ہر آیت اور کلام ذہنِ انسانی، قلبِ انسانی اور حقیقتِ واقعہ کے بیان کی شہادت سے موثر ہوتا ہے۔انسانی تاریخ میں کوئی کلام ایسا نہیں جو محض ایک جملے میں اس قدر وسعت، گہرائی، باریک بینی اور وضاحت سے اس طرح کلام کرتا ہو۔
ایجاز کلام بھی اعجازِ قرآن ہے
ابنِ قتیبہ ؒ فرماتے ہیں کہ ایجاز بھی قرآنی اعجاز کی نوع ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے انتہائی کم الفاظ میں جامع اور وسیع مفہوم عطا فرمایا ہے، یعنی کم الفاظ میں کثیر معانی بیان فرمائے ہیں، جیسے:
’’خذ العفو وامر بالعرف واعرض عن الجاھلین‘‘۔ (الاعراف،۱۹۹)
(معاف کرو،نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو۔)
اللہ تعالی نے کس طرح چند الفاظ میں اعلیٰ اخلاق کو بیان کر دیا، کیونکہ عفو قطع رحمی کو ختم کرتا ہے، اور ظالموں سے درگزر کرتا ہے، اور روکنے والوں کو عطا کرتا ہے، اور امر بالمعروف میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم، صلہ رحمی اور زبان کا جھوٹ سے پاک ہونا اور نگاہوں کو محرمات سے بچا کر رکھنا شامل ہے۔(دیکھیے، تاویل مشکل القرآن)
اور جاہلوں سے اعراض، صبر، حلم اور نفس کا احمقانہ حرکتوں سے دور رہنا ہے۔
اوامر اور نواہی کی جامع آیت
’’انّ اللہ یامر بالعدل والاحسان و ایتاء ذی القربی وینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی ‘‘۔ (النحل،۹۰)
(اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔)
سورۃ النحل کی یہ آیت تمام اوامر اور تمام منھیات کی جامع ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سارے احکامات عدل، احسان اور صلہ رحمی کے دائرے میں آتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ہر بدی، بے حیائی، اور ظلم و زیادتی سے منع فرمایا ہے۔
مزید دیکھیے
’’جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا‘‘۔ (الزلزال، ۷۔۸)
ان مختصر سی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ہر خیر اور ہر شر کو ترغیب اورترھیب کے لیے بیان کر دیا ہے۔
زمین کی پیداوار
’’اخرج منھا ماء ھا ومرعاھا۔ متاعاً لکم ولانعامکم‘‘۔ (النازعات، ۳۱، ۳۳)
(اس کے اندر سے اس کا پانی اور چارہ نکالا، ۔۔سامانِ زیست کے طور پر تمھارے لیے اور تمھارے مویشیوں کے لیے۔)
کس طرح اللہ تعالیٰ نے صرف دو اشیاء کا ذکر کر کے انسانوں اور تمام مخلوقات کی غذا کا تذکرہ فرما دیا،جس میں انسانوں کی خوراک کے پہلو بہ پہلو جانوروں کی گھاس، جڑی بوٹیاں اور غلے کے ساتھ بھوسہ بھی ہے، پھل بھی ہیں اور درختوں کی لکڑی بھی جو مار کر آگ جلانے کے کام آتی ہے، اور انسان کا لباس بھی تیار ہوتا ہے، اور اسی پانی میں نمک بھی ہے جو کھانوں میں استعمال ہوتا ہے۔
خمر (شراب) کا وصف
’’لا یصدّعون عنھا ولا ینزفون‘‘۔ (الواقعہ،۱۹)
(ایسی شراب ، جسے پی کر نہ ان کا سر چکرائے گا، نہ عقل میں فتور آئے گا۔)
دو الفاظ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے جنت کی شراب کے تمام عیوب سے پاک ہونے کا ذکر فرما دیا،یعنی نہ وہ عقل کو زائل کرے گی نہ مال کو ضائع۔
’’ولا ھم عنھا ینزفون‘‘۔ (الصافات،۴۷)
اور ینزفون کی ز پر زبر ہو تو معنی یہ ہے کہ دنیا کی شراب ختم ہو جاتی ہے تو یہ ختم بھی نہ ہو گی،اور اس سے نشہ بھی نہ چڑھے گا۔
قصّہء یوسف کی تصویر کشی
’’واستبقا الباب ۔۔۔ لدی الباب‘‘۔ (یوسف،۲۵)
(آخر کار یوسف ؑ اور وہ دروازے کی جانب بھاگے، اور اس نے پیچھے سے یوسفؑ کا قمیص (کھینچ کر) پھاڑ دیا۔ دروازے پر دونوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا۔)
یہ آیت بھی قرآن کے عجائب میں سے ہے ۔ جن و انس مل کر بھی اس جیسی آیت نہیں لا سکتے، جس طرح اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ نے فقط دس الفاظ میں ایک پورے مشہد کو بیان کر دیا۔فصیح الکلام عرب جنھیں اپنی زبان دانی پر بڑا ناز تھا فقط اسے پڑھ کر مبھوت رہ گئے ۔
اس منظر کی اس طرح تصویر کشی کی گئی ہے گویا آپ وہاں موجود ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ دونوں (یوسف اور امراۃ العزیز) ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، وہ بھاگ جانا چاہتا ہے، مگر وہ اسے پکڑنا چاہتی ہے، تاکہ اس کے فرار سے پہلے اپنے بغیانہ منصوبے کی تکمیل کرے۔
وہ اسے تو نہ پکڑ سکی مگر اس کی قمیص کا ایک حصّہ اس کے ہاتھ میں آ گیا، اور وہ تو اس کے ہاتھ نہ آیا، مگر اس کی قمیص اس کے ہاتھوں پھٹ گئی، اور جونہی وہ دونوں دروازے پر پہنچے تو یوسف کا آقا اور عورت کا شوہر دروازے پر تھے۔ایک جانب ’’قدّت قمیصہ‘‘ میں اس کی کارگزاری بیان کی گئی ہے، اور دوسری جانب ’’والفیا سیّدھا‘‘ یہاں پر اسے یوسف کا آقا نہیں کہا گیا بلکہ اس عورت کا آقا کہا گیا ہے، اور شوہر کو مجازی معنی میں سید بھی کہا جاتا ہے۔اور یہاں ’’سیدھا‘‘ کہنا زیادہ بلیغ کلام ہے، اور یہ زیادہ بڑی مصیبت اور عورت کے لیے انتہائی فضیحت کا معاملہ ہے کہ وہ رنگے ہاتھوں شوہر کے سامنے پکڑی گئی ہے۔
اس قصّے کے ایک ہی مشہد جو کہ آیت کا ایک حصّہ ہے کیا کمال اسلوب میں بیان کیا گیا ہے کہ لگتا ہے آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
احوال سے مناسب الفاظ
قرآنِ کریم میں سورۃ الکھف میں ذو القرنین کا قصّہ بیان کیا گیا ہے، کہ وہ ایک کمزور قوم کو یاجوج ماجوج کے شر سے بچانے کے لیے کس طرح اقدامات کرتا ہے۔
’’ آتونی زبر الحدید ۔۔۔ لہ نقبا‘‘۔ (الکھف، ۹۶۔۹۷)
(’’مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو‘‘، آخر جب دونوں پہاڑوں کے درمیانی خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ ’’اب آگ دہکاؤ‘‘ حتیٰ کہ جب یہ (آہنی دیوار) بالکل آگ کی طرح سرخ ہو گئی تو اس نے کہا ’’لاؤ، اب میں اس پر پگھلا ہؤا تانبا انڈیلوں گا‘‘۔( یہ ایسا بند تھا کہ) یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہ آ سکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان کے لیے اور بھی مشکل تھا۔)
یہاں ذوالقرنین بالکل ایک ماہر انجینئر کی مانند اقدامات کرتا ہؤا نظر آتا ہے، جو آہنی دیوار بنانے کے عمل سے خوب واقف ہے، وہ اس غیر متمدن قوم کو ہمت دلا کر کام پر بھی لگا رہا ہے، اور انتہائی مختصر کلمات میں سارا پلان پیش کر رہا ہے۔وہ ان کے ساتھ کام میں شریک بھی ہے۔وہ اس کمزور اور مظلوم قوم کو جب آہنی دیوار بنا کر دیتا ہے تو انہیں جہالت سے نکال کر ایک ماہر ِتعمیر بھی بنا دیتا ہے اور اور انہیں اللہ کی نعمت اور اس کے فضل سے بھی روشناس کروا دیتا ہے۔
زبان کے اعتبار سے ایک ہی کلمہ اسطاع اور استطاع ایک ہی آیت میں وارد ہؤا ہے، جس کا مادہ اصلی ایک ہی ہے۔ اور معنی کے اعتبار سے استطاع زیادہ بلیغ ہے۔ دیوار پھاندنا کم مشکل عمل ہے اور نقب لگانا زیادہ مشکل اور شاق عمل ہے، اسی لیے پھاندنے کے لیے اسطاع اور نقب لگانے کے لیے استطاع استعمال کیا ہے۔
اعجازِ انواعی
قرآنِ کریم فقط لغوی اور بیانی طور پر اور فصاحت اور بلاغت ہی میں معجزہ نہیں بلکہ اس کے جس پہلو پر غور کریں غواص کچھ مزید موتی چن کر لاتے ہیں۔یہی حال قرآن کے الفاظ ،آیات، اور سورتوں کے عددی ربط میں نظر آتا ہے۔اور دل بے اختیار پکار اٹھتا ہے: ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘۔ایسا عددی ربط!جو بڑے بڑے متکبرین کو سر جھکانے پر مجبور کر دے۔کہ کائنات کے رب واحد کے سوا کوئی رب نہیں۔اور یہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں ہے بلکہ یہ بدیع السماوات والارض کا کلام ہے۔
سبع مثانی (۷ دہرائی جانے والی آیات)
قرآن ِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ہم نے تم کو سات ایسی آیات دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں، اور تمھیں قرآن عظیم عطا کیا ہے‘‘۔ (الحجر، ۸۷)
روایات میں وارد ہے کہ اس سے مراد سورۃ الفاتحہ کی سات آیات ہیں۔
سورۃ الفاتحہ سبع مثانی ہے، اور اس کی آیات ۷ ہے۔ اللہ کے نام کے حروف اس میں ۵۳ ہیں، (تکرار کے ساتھ)۔
سورۃ الفاتحہ سے اگلی سورت پڑھیں تو اس کی آیت نمبر ۷ میں فرمایا:
’’ختم اللہ….عذاب عظیم ‘‘۔ (البقرۃ،۷) اس ساتویں آیت کا پہلا حرف ’’خ‘‘ ہے جو حروف ِ ھجائیہ میں ساتویں نمبر کا حرف ہے!
اور اس آیت کے حروف کی تعداد ۵۳ حروف ہے۔
اس آیت میں بھی آیت کا دوسرا حرف ’’اللہ ‘‘ ہے۔ ( الحمد للہ ۔ ختم اللہ)
۱۸ کا عدد
سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر ۱۸ہے:
’’شھد اللہ أنہ….العزیز الحکیم‘‘۔ (۱۸)
(اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ ….اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی معبود نہیں)۔
۱۸ نمبر کی اس آیات کے کلمات کی تعداد بھی ۱۸ ہے۔اور اس کے حروف ۷۲ ہیں۔ جو ۱۸×۴ ہیں۔
قرآن کریم میں آیات کی ترتیب میں یہ ۳۱۱ نمبر کی آیت ہے۔ اور مفرد اعداد میں اس کا نمبر ۶۴ ہے۔ اب ہم مصحف میں ترتیب کے لحاظ سے ۶۴ نمبر سورۃ کو دیکھیں تو وہ سورۃ التغابن ہے، اور اس کی آیت نمبر ۱۸ کے الفاظ کو دیکھیں، وہ کس قدر آلِ عمران کی اٹھارویں آیت سے مشابہ ہیں:
’’عالم الغیب والشھادۃ العزیز الحکیم‘‘۔ (التغابن، ۱۸)
(حاضر اور غیب ہر چیز کو جاننے والا، وہ غالب اور حکمت والا ہے)
دونوں آیتیں بہت مشابہ ہیں۔
تین ×تین
اس آیت پر غور کیجیے:
’’انّ اللہ اشتری ….ھو الفوز العظیم‘‘۔ (التوبۃ،۱۱۱)
اس آیت میں’’ اللہ ‘‘ تین مرتبہ آیا ہے۔ اس میں تین الہامی کتابوں کا ذکر ترتیب سے آیا ہے: ’’تورات، انجیل اور قرآن‘‘۔اس آیت کے حروف کی تعداد ۳۷ ہے، اور ۳۷ ×۳ کو جمع کریں تو ۱۱۱ آتا ہے جو کہ آیت کا نمبر ہے۔اس آیت میں ’’القرآن‘‘ کا لفظ ترتیب میں ۲۳ ہے۔ اور قرآن ۲۳ برس کے عرصے میں نازل ہؤا۔اور یہ مفرد اعداد میں ۹ نمبر ہے۔جو ۳×۳ کے مساوی ہے۔۳×۳+۳ برابر ہے ۱۲۔
اور آیت نمبر ۱۱۱ میں ۳ کا اصافہ کریں تو سورتوں کی کل تعداد بن جاتی ہے۔
عجیب ترکیب
اس آیت پر غور کیجیے:
’’الّذین یتبعون الرّسول النّبیّ الامیّ….أولئک ھم المفلحون‘‘۔ (الاعراف،۱۵۷)
(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے ) جو اس پیغمبرِ نبی امی کی پیروی اختیار کریں، جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہؤا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے ، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہی جو ان پر لدے ہوئے تھے، اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پہ ا یمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں)۔
اس آیت میں اعداد کس طرح عددی ربط پیدا کر رہے ہیں:
مصحف کی ابتداء سے یہ آیت ترتیب میں ۱۱۱۱ نمبر پر ہے۔اس آیت کے حروف کی تعداد ۲۲۲ ہے جو ۱۱۱ +۱۱۱ ہے۔اور اس آیت میں حرف ’’و‘‘ ۲۲ مرتبہ آیا ہے۔
اس آیت کے الفاظ کی تعداد ۴۳ ہے اور آیت کا نمبر ۱۵۷ ہے، اگر اسے تفریق کریں تو ۱۱۴ باقی بچتے ہیں، جو قرآن کریم کی سورتوں کی تعداد ہے۔ اور اگر انہیں جمع کیا جائے تو ۴۳ +۱۵۷ ملا کر ۲۰۰ بنتے ہیں۔ جو ۱۱۴+۶۳+۲۳ ہیں، یعنی کل سورتیں، رسول اللہ ؐ کی عمر مبارغ کے سال اور نزول قرآن کی مدت۔
ذکر للعالمین
’’ان ھو الا ذکر للعالمین‘‘۔ (ص،۸۷)
’’ان ھو الا ذکر للعالمین‘‘۔ (التکویر،۲۷)
(یہ تو ایک ذکر( نصیحت )ہے تمام عالم والوں کے لیے)
یہ آیت قرآن میں دو مقامات پر وارد ہوئی ہے، دونوں آیات کے نمبر کو جمع کریں : ۸۷ +۲۷ تو کل ۱۱۴ بنتے ہیں جو قرن کریم کی سورتوں کی تعداد ہے۔(اور ذکر سے مراد قرآن ہے۔)
أموالکم وأولادکم فتنۃ
قرآن کریم میں دو مرتبہ آیت کا یہ حصّہ بیان ہؤا ہے:
’’واعلموا انما أموالکم وأولادکم فتنۃ وأن اللہ عندہ اجر عظیم ‘‘۔ (الانفال،۲۸)
(اور جان رکھوکہ تمھارے مال اور اولاد فتنہ ہیں اور یقیناً اللہ کے ہاں اجرِ عظیم ہے)۔
’’ انما أموالکم وأولادکم فتنۃ و اللہ عندہ اجر عظیم ‘‘۔ (التغابن،۱۵)
(یقیناً تمھارے مال اور اولاد فتنہ ہیں، اور اللہ کے ہاں اجرِ عظیم ہے)۔
سورۃ انفال مصحف کی ترتیب میں ۸ویں سورہ ہے، اور سورۃ التغابن ۶۴ ویں، یعنی ۸×۸ =۶۴۔ پہلی سورۃ کا نمبر ۸ ہے تو دوسری سورۃ کی کی متعلقہ آیت کے الفاظ کی تعداد ۸ ہے۔اور پہلی سورہ کی آیت کے حروف کی تعداد ۴۸ ہے، یعنی ۸×۶=۴۸
ان دونوں آیات میں کل اٹھارہ الفاظ ہیں اور سورۃ التغابن کی کل آیات بھی ۱۸ ہیں!
اوّل و آخر کا تعلق
قرآن کریم کی آیت نمبر ۱۱ کے کل الفاظ بھی ۱۱ ہیں۔اسی طرح آیت نے ۱۷ کے الفاظ ۱۷ ہیں اور آیت نمبر ۱۹ کے ۱۹! اور یہ سب مفرد نمبر ہیں (جن پر ۱ اور اس نمبر کے سوا کوئی نمبر تقسیم نہیں ہوتا۔)جب ان تین آ یات کے اعداد کو جمع کیا جائے تو ٹوٹل نمبر ۴۷ ہے جو مفرد نمبر ہے۔اور یہی ان آیات کے الفاظ کی بھی تعداد ہے!
میزان ِ نمل
سورۃ النمل ترتیب کے اعتبار سے ۲۷ویں سورۃ ہے۔ اس کی ۲۷ آیت درج ذیل ہے:
’’قال سننظرأصدقت ام کنت من الکاذبین‘‘ (النمل، ۲۷)
اس کے حروف کی تعداد ۲۷ ہے۔ اس سورۃ میں ’’اللہ‘‘ کا نام ۲۷ مرتبہ آیا ہے۔اس آیت میں حرف ’’و‘‘ نہیں آیا جو حروفِ ھجائیہ میں ۲۷ نمبر کا حرف ہے، اس آیت میں حرف ’’ط‘‘ بھی نہیں آیا مگر اس سورۃ میں ۲۷ مرتبہ وارد ہوا ہے۔
’’الحمد‘‘ کے عجائب
الحمد للہ کا کلمہ قرآن کریم کی ۲۳ آیات میں ۲۳ مرتبہ وارد ہؤا ہے، اور یہ تعداد نزول ِ وحی کی مدت کے سال ہیں۔ الحمد للہ سب سے پہلے سورۃ الفاتحہ کی آیت نمبر ۲ میں آیا ہے اور سب سے آخر میں سورۃ غافر کی آیت نمبر ۶۵ میں۔ ۶۵+۲=۶۷ ہیں۔ قرآن کے ۴ حروف ہیں، ۶۷-۴=۶۳ ہیں ، جو رسول اللہ ؐ کی عمر ہے۔
ذرا غور کیجیے
قرآن کریم کی جن سورتوں کا آغار اللہ کی حمد سے ہوتا ہے ان کی کل تعداد ۹۳ ہے، بعینہ اس کی حمد پر اختتام پانے والی سورتوں کی تعداد بھی ۹۳ ہے!
سبحان اللہ ، جس نے متناقضات میں اس قرآن کو اتنے نادر انداز اور اسلوب میں اتارا، اور سبحان اللہ، جس ہستی نے اسے برف اور آگ جیسے معانی سے تشکیل دیا!
ابن ِ القیم فرماتے ہیں کہ اگر دنیا دار بندے کو دنیا بھر کی نعمتیں عطا کر دی جائیں، اور وہ اس پر الحمد للہ کہے تو اللہ نے اس کے دل میں جو الحمد للہ کہنے کا خیال ڈالا وہ دنیا بھر کی نعمتوں سے بڑی نعمت ہے، کیونکہ دنیا کی نعمتیں فانی ہیں اور الحمد للہ کہنے کا اجر و ثواب باقی رہنے والا ہے‘‘۔
(عجائب منوّعہ، ڈاکٹر احمد محمد زین المناوی، طریق القرآن)
قرآن کے عجائب ہر زمانے کے لیے ہیں، اور اس کی آیات ایسے معلوم ہوتی ہیں جیسے ابھی نازل ہوئی ہوں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here