This Content Is Only For Subscribers
ابوکو میں نے اپنی یہ تمام سرگزشت سنائی جو انہوں نے بہت توجہ سے سنی اور اس دوران مسلسل اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اُن کے لیے یہ ساری صورت حال ناقابل برداشت تھی ۔ میں نے بات ختم کرنے کی کوشش کی مگریہ اذیت کی داستان، ہند و بنیے کی دھوکہ دہی اور مکاری کا قصہ یہاں ختم ہو جائے ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔ میرے خاموش ہونے سے یہ ایک حقیقت اور ان کی سیاہ تاریخ بدل تو نہیں سکتی تھی۔
ابو بھی کہنے لگے کہ جنگ آزادی میں بھی ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ جو دھوکہ دہی کی، تاریخ آج بھی اس کی گواہ ہے۔ ۱۸۵۷ء میں میرٹھ کینٹ (جہاں مسلمان قید تھے) سے شروع ہونے والی جنگ آزادی کی تحریک میں مسلمان بہت بہادری سے لڑے تھے۔ اس تحریک میں ہندوؤں نے انگریزوں کاساتھ دے کر مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ کیا مگر مسلمانوں کی جدوجہد نے اس تحریک کو پورے ہندوستان میں پھیلایا۔ یہ تحریک مسلمان مجاہدین نے بہت کم وسائل سے شروع کی تھی۔ اس تحریک میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے ۔ ڈھاکہ کالال باغ مسلمانوں کے خون سے نہلا دیا گیا ۔ لوگ ڈھاکہ کے لال باغ سے گزرتے ہوئے ڈرتے تھے کیونکہ وہاں مسلمانوں کو شہید کرکے ان کی لاشوں کو کئی دنوں تک درختوں سے لٹکادیا گیا تھا۔ مختصراً ہندوستان کی تاریخ مسلمانوں پر ظلم کی داستان سے بھری ہوئی ہے۔
قید کے دوران دو خوشیاں رہی تھیں جو نہ بھولنے والی ہیں اور جن کاذکرکرنا میں ضروری سمجھتاہوں۔ایک، جب قیدیوں کی رہائی کااعلان ہؤااور دوسری،واہگہ بارڈر کراس کرتے وقت کی کیفیت ۔
مجھے وہ لمحہ کبھی نہ بھولے گا جب اچانک بھارتی سرکار کی طرف سے اُن کے لاؤڈ سپیکر سے اعلان ہؤاکہ قیدیوں کی رہائی کا معاملہ طے پا چکاہے اور عنقریب انہیں رہا کردیاجائے گا۔ کیمپ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہر کیمپ سے نعرہ تکبیر کی صدائیں گونجنے لگیں ۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہاتھا۔خوشی سے سب کی آنکھیں نم تھیں۔سب سجدہ شکراداکررہے تھے ۔ گویا عید کا ساسماں تھا۔ جیسے سب دکھ اذیتیں اور مشکلات ختم ہوگئی تھیں۔ اس وقت کی دل کی کیفیت کو قلم بند نہیں کیاجاسکتا۔
دوسرا موقع واہگہ بارڈر کراس کرکے پاکستان داخل ہونے کاتھا جس کی تفصیل میں شروع میں لکھ چکاہوں۔ ایک بات یہاں قابل ذکر ہے کہ پاکستانی فوج نے اپنے جنگی قیدی فوجیوں کابہت خیال رکھا۔نہ صرف یہ کہ اُن کے اہل خانہ کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا بلکہ ان کو پورے دو سال کی تنخواہ بھی دی گئی جو اُن قید سے آئے ہوئے فوجیوں کے لیے بہت حوصلہ افزا بات تھی اور انھیں پورے دو ماہ کی چھٹی دی گئی تاکہ قید سے آنے کے بعد کچھ آرام کرلیں اور اپنے گھر والوں کے پاس وقت گزاریںاور ذہنی طور پر پرسکون ہو کر دوبارہ اپنی ذمہ داری پر آجائیں۔اس سے فوجیوں کو بہت سہارا ملا ۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستانی فوج اپنے جنگی قیدیوں کے لیے کس قدر حساس اور فکر مند تھی۔
میں بنگلہ دیش کا سفر مکمل کرکے پاکستان آچکاتھا۔ تقریباً ایک ماہ بعد بچوں سے ملاقات ہوئی ۔ پہلی دفعہ اتنی دیر کے لیے بچوں سے دور رہا۔ میرے سارے بچے اس وقت سکول جاتے تھے۔ میری اہلیہ نے بہت ذمہ داری سے پیچھے گھر کا خیال رکھا۔ میں نے تقریباً ساڑھے تیرہ سال داؤد ہرکولیس میں ملازمت کی۔ ۱۹۹۴ء میں جب میں نے استعفیٰ دیا اس وقت میں پرچیز منیجر کی حیثیت سے ملازمت کررہاتھا۔
ہم نے اپنے وسائل کے مطابق بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ
ی ۔ ہر مشکل وقت میں الحمدللہ ، اللہ کو مدد گار پایا۔ بڑے بیٹے نے نیشنل یونیورسٹی (فاسٹ ) سے کمپیوٹر سائنس میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کی ڈگری لی۔ آج ماشاء اللہ اس کااپنا چھوٹا سا سافٹ ویئر ہاؤس ہے۔ چھوٹے بیٹے نے UMTسے مارکیٹنگ میں ماسٹرز کیا اور اب ملازمت کررہاہے۔ بڑی بیٹی نے ہوم اکنامکس کالج سے بی ایس سی کی اور چھوٹی بیٹی نے PMCسے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی۔ بڑے بیٹے اور دونوں بیٹیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں اور چھوٹے بیٹے کی شادی طے پا چکی ہے ۔ آج میں تین بچوں کا نانا اور دو بچوں کادادا بن چکا ہوں الحمدللہ۔
ہم تقریباً ۳۰ سال تک کرائے کے مختلف گھروں میں رہے مگر آج الحمدللہ بچوں کی کاوشوں سے اور اللہ کی مدد سے اپنے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ گھر بنانے کے سلسلے میں بڑے بیٹے نے بہت محنت کی ۔ اللہ سے دعاہے کہ اللہ میرے بچوں کو دین پر چلنے والا بنائے اور اُن کے رزق میں برکت دے ،آمین۔ الحمدللہ آج ہم بہت آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ پاک بہت رحمن اور رحیم ہے۔ میں نے اپنے رب کو ہر مشکل میں اپنے بہت قریب پایا ۔ بالکل سورۃ البقرۃ کی اس آیت کے مصداق :
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْن(البقرۃ۲:۱۸۶)
’’اور اے نبیؐ ،میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں ،تو انھیں بتادوکہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ، میں اُس کی پکار کو سنتا اور جواب دیتاہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں، یہ بات تم انھیں سنادو،شاید کہ وہ راہ راست پالیں۔‘‘
آخر میں ، میں انتہائی شکرگزار ہوں ماہنامہ بتول کی ایڈیٹر محترمہ صائمہ اسما کا جنھوں نے مجھے آپ بیتی لکھنے کے لیے قائل کیا، میری حوصلہ افزائی کی کہ میں یہ کام کرسکتاہوں اور پھر اس موقر رسالے میں اس کو جگہ دی۔ میں چونکہ اردو لکھنانہیں جانتا اس لیے اس سرگزشت کو میری اہلیہ نے مجھ سے سن کر لکھنے کااہم کام سرانجام دیا ،اکیلے یہ کام کرنا میرے لیے ممکن نہ تھا، لہٰذا میں اپنی اہلیہ محترمہ کابھی شکرگزار ہوں ۔ میں تمام قارئین کاممنون ہوں جنھوںنے میری ذاتی زندگی کے بارے میں تحریر پڑھ کر مجھے اعزاز بخشا اور بہت اچھے تبصرے اور تجزیے کیے، یقیناً دعابھی کی ہوگی۔
میری نئی کتاب جو اس وقت زیر تحریر ہے ’’شیخ مجیب الرحمن کا قتل اور آج کابنگلہ دیش ‘‘ ان شاء اللہ یہ کتاب پاکستان میں اپنی نوعیت کی منفرد اور دلچسپ کتاب ہوگی۔ زندگی رہی اور اللہ نے چاہا توکوشش ہے کہ نومبر ۲۰۲۱ء تک یہ کتاب چھپ کر آپ لوگوں کے ہاتھوں میں ہو۔ دعاؤں کا خواستگار ہوں۔
٭…٭…٭