(Emotion Quotient) EQ درحقیقت ایک اصطلاح ہے جو جذباتی ذہانت یا ’’Emotional Intelligence‘‘ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ ایک مکمل علم ہے اور یہ علم دراصل اپنے اور دوسروں کے جذبات کو بھانپنے اور اُنہیں کنٹرول کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔
یہ دوسروں کے ساتھ معاشرتی و سماجی رویے، رشتوں کو جوڑے رکھنے اور گھر یا معاشرے میں امن برقرار رکھنے، وقت کی پابندی، ذمہ داری، وفا داری، ایمانداری، حدود کا احترام، عاجزی کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔ گویا کہ اگر’’آئی کیو‘‘ دماغی یا عقلی ذہانت ہے تو ’’ای کیو‘‘ قلبی یا جذباتی ذہانت کا نام ہے۔
ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اپنے جذبات کا اظہار اور انہیں قابو کرنے کی صلاحیت، پرسکون زندگی کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ اسی طرح دوسروں کے جذبات کو سمجھنا، حقائق اَخذ کرنا اور ان کے جذبات پر ردِّعمل دینا بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات، اس صلاحیت کو جذباتی ذہانت کا نام دیتے ہیں۔ کچھ ماہرین اسے عقل سے بھی زیادہ اہم کہتے ہیں۔
بہت سے لوگ EQ اور IQ دونوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ دونوں میں سے کسی ایک سے زیادہ نوازے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ اپنے شعبے میں ماہر اور ذہین شخص جذباتی معاملات میں بھی ہمیشہ ذہین واقع ہو۔ ایسے بہت سے افراد موجود ہیں جو بہت اچھا IQ رکھنے کے باوجود EQ میں مار کھا جاتے ہیں۔
زندگی میں کامیابی تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے جذبات کے اظہار کے مثبت اور تعمیری طریقے سیکھ لیں۔یہی وجہ ہے کہ جذباتی ذہانت کا نظریہ دنیا بھر کے نفسیات دانوں میں مقبول ہو رہا ہے۔ انسانی تعلقات، تعمیری محنت اور اعصابی دباؤ سے تحفظ کے لیے جذباتی ذہانت کے استعمال کا تصور زور پکڑتا جا رہا ہے۔
اگر آپ اپنی زندگی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی کی کامیابی چاہتے ہیں تو جذباتی ذہانت کی مشق کیجیے۔ اس سے آپ عامل بنیں گے معمول نہیں۔ جذباتی ذہانت پر قابو نہ ہو تو انسان دوسروں کے ہاتھوں کھلونا بن سکتا ہے اور دوسرے اسے جب چاہیں غصہ دلا کر، خوش کر کے، مایوسی پیدا کر کے، ہمدردی کے جذبات ابھار کر، ڈرا کر یا کسی اور جذباتی صلاحیت کے ذریعے اس پر اپنی مرضی مسلط کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زندگی کے معاملات میں اپنے جذبات پر قابو رکھنا اور انہیں درست طریقے سے استعمال کرنا جانتا ہے تو یقیناً اس کا’’ای کیو‘‘ اچھا ہوگا۔
اگر آپ اپنے منفی جذبات کومثبت قوتِ ارادی سے ہم آہنگ کر لیں تو زندگی پر آپ کے اختیارات لا محدود ہوتے چلے جائیں گے۔ اپنے جذبات کو پہچاننے اور انہیں توازن میں رکھنے کی صلاحیت کے پیمانہ کو ہی نفسیات دان ’’ای کیو‘‘ کہتے ہیں اوریہ اسلامی تعلیمات میں’’محاسبہ ِنفس‘‘کی عادت میں مددگار ہوتا ہے۔جذباتی ذہانت کی موجودگی ہمیں اس قابل کر دیتی ہے کہ ہم دوسروں کے احساسات اور ان سے پیدا ہونے والے جذبات اور ان جذبات کے ممکنہ ردعمل کا اندازہ لگا سکیں۔ چنانچہ جذباتی ذہانت ہمیں تنازعات میں، جذباتی بحرانات اور صدمات میں تعلقات کو بحال رکھنے اور زندگی کے توازن کو برقرار رکھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔
عورت مرد کی نسبت زیادہ جذباتی اور حساس ہوتی ہے۔ خواتین کے چہرے کی جلد میں فی مربع سینٹی میٹر محسوس کرنے والے 34 اعصاب ہوتے ہیں جبکہ مردوں میں یہ تعداد صرف 17 ہے۔ خواتین گرمی سردی کو جلدی محسوس کرتی ہیں، جذبات کی رو میں جلدی بہہ جاتی ہیں۔ دردناک واقعات یا تکالیف عورت کو زیادہ متاثر کرتے ہیں اسی لیے عورت کے مزاج میں نرمی، برداشت، دھیما پن، لطف و کرم مردوں کی نسبت زیادہ
رکھا گیا ہے۔ اسی لیے اس کو اللہ الخالق نے تخلیق اور پرورش کی کٹھن ذمہ داری سونپی ہے۔
نفسیاتی اعتبار سے بھی نازک احساسات و جذبات عورت میں بہتر ہوتے ہیں۔ عورتیں مردوں کی نسبت رشتوں کے باہم تعلقات میں ترجیحات کو بہتر طور پہ سنبھال سکتی ہیں۔ پڑوسیوں، دوستوں، رشتے داروں سے مسلسل رابطے میں رہنے کا فن عورتوں کو ودیعت کیا گیا ہے۔ اسی بنا پہ لڑکی والدین کا گھر چھوڑنے کے بعد نئے ماحول اور نئے رشتوں کو قبول کرتی اور ان کو نبھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر سائمن بیرون کوہن کے مطابق ’’لڑکیا ں انسانی چہروں کو نسبتاً زیادہ غور سے دیکھتی اور ان کو یاد رکھتی ہیں‘‘۔
عورت کی ذہانت عقلی سے زیادہ وجدانی ہے۔ عورتیں عموماً کسی واقعے کی تفصیلات کا تجزیہ کیے بغیر اپنی جذباتی قوت اور باطنی احساس و شعور اور وجدان کی مدد سے جلدی نتیجہ اخذ کر لیتی ہیں۔ اسی لیے ایک کم عمر لڑکی کو اگر کوئی مرد بری نگاہ سے دیکھے تو وہ فوراً بھانپ لیتی ہے۔ اور جب وہ بیوی بنتی ہے تو بات چیت کرتے وقت شوہر کے چہرے کے تاثرات سے اس کا وجدان وہ کچھ بھانپ لیتا ہے جس کا شوہر کو گمان تک نہیں ہوتا۔
جذباتی ذہانت، کسی نہ کسی سطح پر تمام افراد میں ہوتی ہے لیکن سب لوگ اس سے استفادہ نہیں کر پاتے۔ EQ کا اظہار اس رویے سے بھی ہوتا ہے کہ آپ روز مرہ زندگی میں پیدا ہونے والے جذباتی تناؤ کو کس طرح برداشت کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو کم EQ رکھتے ہوں، وہ عاجزی دکھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں، چنانچہ اپنی ذات سے باہر نہیں دیکھ سکتے۔ اپنی اس خامی کی وجہ سے وہ دوسروں پر نہ تو اپنا اعتبار قائم کر سکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے لیے ہمدردی کا احساس رکھتے ہیں۔ گویا EQ کا درست استعمال یہ ہے کہ مغرور اور بد مزاج ہوئے بغیر، جذباتی انداز میں معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی جائے،’’اگر آپ کے جذبات آپ کے قابو میں نہیں، اگر آپ کو خود آگہی نہیں، آپ پریشان کن جذبات کو منظم نہیں کر سکتے، آپ کے اندر دوسروں کے لیے شفقت نہیں، آپ روزمرہ تعلقات میں لوگوں کے لیے قابلِ قبول نہیں، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنے ذہین، ہوشیار یا دولت مند ہیں کیونکہ آپ اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ زیادہ دُور تک یا زیادہ دیر تک نہیں چل سکیں گے‘‘۔
ذہانت کے بارے میں سوچتے ہوئے ہم میں سے بہت سے لوگ آئن اسٹائن کو ’’سوچنے والی مشین‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں اور اکثر مفکرین ذہن کے ہارڈ ویئر (کھوپڑی) اور فہم و ادراک کے سوفٹ ویئر (دماغ) کو ذہانت کا منبع سمجھتے آئے ہیں۔ جب کہ دل کی طاقت کو صرف اور صرف شاعروں کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔
قرآن و سنت میں اس دل کو ہی فلاح کی آماجگاہ بتایا گیا ہے۔’’تقویٰ تو دل میں ہوتا ہے‘‘میں جذباتی ذہانت کا سارا فلسفہ موجود ہے۔ قرآنی زبان میں قلبِ سلیم ہی پہ اخروی کامیابی کا دار و مدار ہے۔دل کو تقویٰ سے آراستہ کرنے اور قلبِ سلیم حاصل کرنے کے لیے خود آگاہی ہونا ضروری ہے۔ خود آگاہی کے لیے محاسبہِ نفس لازمی امر ہے۔
محاسبہ ِنفس کے ذریعے خود آگاہی انسان کی سب سے بڑی صلاحیت ہے کیونکہ صرف یہی وہ خوبی ہے جو ہمیں خود پر کنٹرول کرنے کا راستہ دکھاتی ہے۔ اس کا مطلب احساسات اور محسوسات کو دبانا نہیں بلکہ انہیں جاننا اور ان کے ساتھ قوتِ ارادی کا صحیح استعمال ہے۔ سب کے لیے قابلِ قبول انسان وہ ہے جو نہ خوشی میں ایسا پھولے کہ جامے سے باہر ہو جائے اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو۔یقیناً ہر انسان غصہ کر سکتا ہے مگر کسی برے شخص پر تپش کی مناسب ڈگری کے ساتھ، بر وقت، کسی جائز مقصد اور قابلِ قبول طریقے سے غصہ کرنا ہی کمال ذہانت ہے اگرچہ یہ بہت مشکل امر ہے مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ’’قلبِ سلیم ہی جذباتی ذہانت کا حامل ہوتا ہے اور اس میں ہی عقل و فہم کی ساری ذہانتیں پوشیدہ ہیں‘‘۔
شیخ عبد الرحمان بن ناصر السعدی سورہ الشعراء آیت 89 اور 88 کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’جس دن نہ کوئی مال فائدہ دے گا اور نہ بیٹے۔ مگر جو اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آیا‘‘۔
قلبِ سلیم سے مراد وہ دل ہے جو شرک، شک و شبہ، شر کی محبت اور
بدعت و معاصی پر اصرار سے پاک اور محفوظ ہو۔ متذکر امور سے قلب کا سلامت اور محفوظ ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ ان کی اضداد یعنی اخلاص، علم، یقین، خیر کی محبت اور ان کے ذریعے قلب کے مزین ہونے جیسی صفات سے متصف ہو، نیز اس کا ارادہ اور محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کی خواہشات اللہ تعالیٰ کی شریعت کے تابع ہوں۔
گویا قلبِ سلیم کے بغیر ہماری نجات ممکن نہیں ہے۔ اور قلبِ سلیم ایسا نفیس اور خوبصورت دل ہے جو ان تمام صفات سے متصف ہے جو اللہ تعالیٰ کو ایک مومن سے مطلوب ہیں۔ اور جس مومن کو قلبِ سلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوگیا اللہ تعالیٰ اس کو سب کے لیے نافع اور سب کا محبوب بنا دے گا اور یہ مرتبہ حاصل ہو جانا ہی بہترین جذباتی ذہانت ہے۔٭