ارشادِ ربانی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی اْمتوں پر فرض کیے گئے تھے، اسی سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔ (سورة البقرة: 183)
روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے۔ اگر پہلے سے تقویٰ ہے تو اس کو مزید نشوونما دینا ہے’’تقویٰ‘‘ ایک نو مسلم یا عامی مسلمان کے لیے جس قدر ضروری ہے اُتنا ہی ایک عالم یا ولی اللہ کے لیے بھی اہم ہے۔ تقویٰ کی کوئی حد یا انتہا نہیں، موت کے آخری لمحہ تک اور زندگی کے ہر لمحہ میں اس کا ہونا لازمی امر ہے۔ قرآن پاک میں تقویٰ کا لفظ 15 مرتبہ آیا ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات سب کی بنیاد تقویٰ ہے۔ اس سے مشتق الفاظ’’متقین‘‘ 42 مرتبہ، ’’متقون‘‘ 19 مرتبہ، ’’ یتّقِ‘‘ 6 مرتبہ اور’’یتقون‘‘ 18 مرتبہ استعمال ہوا ہے حتیٰ کہ جنت میں داخلہ بھی تقویٰ سے مشروط ہے۔ مختصر الفاظ میں تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے کوئی عمل کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے خوف سے کوئی ناپسندیدہ کام چھوڑ دینا۔
اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نفس پر صبر کرنا اور اپنے ظاہر اور باطن کو بہتر سے بہترین بنانے کی پوری کوشش کرنا۔ جس طرح انسان کا بدن لباس ہی سے زینت پاتا ہے اُسی طرح تقویٰ سے روح مزین ہوتی ہے۔ روح کی زینت کا ایک مکمل تربیتی کورس رمضان المبارک میں کرایا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں تقویٰ پیدا کرنے کے 2 واضح مقاصد ہیں
• گزشتہ 11 مہینوں میں جو کمی کوتاہی ہوگئی اس کو ختم کر کے اصلاح کرنا۔
• آئندہ 11 مہینوں کے لیے نیا کچھ سیکھنا۔ نیکیوں میں سبقت کے لیے تازہ دم ہونا۔
روزہ انسان کے باطنی اوصافِ حمیدہ کی اصلاح و نشوونما کا نام ہے۔
آئیے غور کریں کہ کیا ہم واقعی رمضان المبارک میں اس کام کے لیے تیار ہیں؟ رمضان المبارک کا استقبال کرنے سے پہلے اپنا دل ٹٹول کر دیکھنا ہوگا کہ ہم روزے کی کون سی قِسم رکھنے جا رہے ہیں۔ روزے کی کون سی کیفیت ہمارے اوپر طاری ہوتی ہے۔ جس قِسم کا روزہ رکھنے کی خواہش ہوگی اسی قدر تقویٰ ہمارے اندر پیدا ہوگا۔ روزے کی 3 اقسام ہیں۔ جس طرح روزے کا تعین کر لیا جائے گا تو ظاہری و باطنی کیفیات بھی اسی طرح ساتھ دیں گی۔ استقبالِ رمضان بھی اسی انداز سے ہوگا۔
• عام، رسمی، انفرادی روزہ: اس کی تیاری کے لیے گھر کی صفائی، کچن میں خورد و نوش کی اضافی اشیاء، سحری افطاری کے خاص اہتمام، نماز تراویح اور قرآن پاک کی تلاوت، فارغ وقت میں سونے، ٹی وی دیکھنے وغیرہ سے کام چل جائے گا۔
یہ ایک رسمی روزہ ہے اس لیے بھی کہ اس میں صرف اپنی ذات کو اپنے یا اپنے گھر تک محدود کیا گیا ہے۔ یہ انفرادی روزہ ہے۔ عام یا رسمی روزہ سے تو عام سا تقویٰ یا رسمی تقویٰ ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ نہ اصلاح کی گنجائش ہے نہ آئندہ کے لیے کوئی ’’نیا پن‘‘۔
• خاص، باشعوری، اجتماعی روزہ: اس کی خصوصیت یہ ہے کہ روح کی بالیدگی کے لیے کچھ خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ محض مادی جسم کے خورد و نوش سے بڑھ کر۔
سحری و افطاری پر پیٹ کے خالی پن کو دور کرنے سے زیادہ روح
کے خلاء کو پُر کرنے کی بابت غور و فکر ہوتا ہے۔ اس میں اپنے اردگرد کے لوگوں کی ضروریات کا خیال، اپنے شہر، محلہ، وطن کے بارے میں کوئی ’’فکر‘‘ تو لاحق ہوتی ہی ہے چاہے کچھ نہ کر سکتے ہوں کم از کم دعائوں میں خاص حصہ تو ہوتا ہی ہے۔ شُعوری خاص روزہ ہوگا تو تقویٰ کی صفت بھی شعوری انداز سے بڑھے گی اور نیکی کی صفت اجتماعیت میں پھل پھول لاتی ہے۔ اجتماعی نیکیوں میں شریک ہونا مومن کی صفت ہے۔
• خاص الخاص روزہ، امت مسلمہ کے جسد واحد ہونے کا احساس رکھتے ہوئے روزہ: دل ہر وقت قرب الٰہی کے احساس کے ساتھ دھڑک رہا ہو۔ اسی احساس کو لے کر جب خون سارے جسم میں گردش کرے تو خون میں گردش کی طرح پھرنے والا دشمن کوئی جگہ نہ پا سکے اور فکر، قول اور عمل تقویٰ سے مزین ہو رہے ہوں۔
رمضان المبارک پوری امت مسلمہ پہ بیک وقت آتا ہے۔ یہ اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ میرا وجود پوری امتِ مسلمہ کے لیے باعثِ رحمت، رونق اور زینت بن رہا ہے۔ جب ہر مومن اپنے روزے سے اور روزے کے عمل سے امتِ مسلمہ کی تقویت کا باعث بنتا ہؤا محسوس کرے گا تو پوری امتِ مسلمہ ایک اجتماعی تقویٰ کے خوبصورت حصار میں ہوگی، امت مسلمہ کے اندر اک نئی روح بیدار ہوگی اور وہ گزشتہ ہونے والے قصوروں کی تلافی کرنے اور آئندہ کی اصلاح کے لیے کچھ تو سوچے گی۔ اجتماعی روزہ اور خاص الخاص روزہ سے ایسا ہی تقویٰ پیدا ہونے کی امید دلائی گئی ہے جو کہ روزے کا بنیادی مقصد ہے۔ جب ہم نے تعین کر لیا کہ کون سا روزہ رکھنا ہے تو پھر یہ بھی ساتھ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک روزہ وہ ہے جو ہم شعور اور خاص جذبے سے رکھتے ہیں جو رمضان المبارک کے ساتھ منسوب ہے اور ایک یہی روزہ ایک بڑے روزے کی تربیت کرتا ہے جو پوری زندگی پر محیط ہے۔
شعور کے ساتھ اور پوری یکسوئی سے ہر لمحہ تقویٰ کا حصول زندگی کا مقصد ہے۔ پوری زندگی قرآن پاک کے ضابطہ کے مطابق بنانے کی جدوجہد…. قرآن کو پوری دنیا پہ نافذ کرنے کی جدوجہد۔
’’رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر سمجھانے والی ہیں‘‘ (سورة البقرة 185)۔
رمضان المبارک کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس ماہ مبارک میں قرآن پاک نازل ہؤا۔ جس دن، مہینہ، شخصیت یا کام سے قرآن کی وابستگی ہو جائے وہ اہم ہو جاتا ہے۔ قرآن پاک اُس وقت اتارا گیا جب انسانیت سسک رہی تھی۔ انسان کو اپنا انسان ہونا ہی بھولتا جا رہا تھا۔روح کی بیماریوں نے اولادِ آدم کو صحت سے مایوس کر دیا تھا۔ روحانی وجود کے ارتقا کے لیے قرآن پاک آخری نبی کے ذریعہ نسخۂ شفا بنا کر بھیجا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن ہدایت ہے، شفا ہے اور رحمت ہے مومنوں کے لیے۔
• شفا ہے گزشتہ بیماریوں کے لیے، انسانیت کی بیمار روح کے لیے، گناہوں کی بخشش کے لیے۔
• ہدایت ہے آئندہ صحیح راہ پر چلنے کے لیے۔
• رحمت ہے، اس راہ راست پر چلنے والوں کے لیے دنیا و آخرت میں۔
رمضان المبارک انہی 3 معاملات پہ روزے دار کی رہنمائی کرتا ہے۔ گزشتہ روحانی بیماریوں کا علاج، آئندہ ان بیماریوں سے پرہیز کا طریقہ، اور پرسکون صحت مند روحانی زندگی۔ اور یہی تقویٰ ہے جو ہم نے حاصل کرنا ہے انفرادی اور اجتماعی طور پر۔ عام اور رسمی روزہ رکھنے والے اس نسخۂ کیمیا سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ خاص اور خاص الخاص روزہ رکھنے والے اس عظیم کتاب کو کس نقطہ نظر سے تلاوت کرتے ہیں، تراویح میں پڑھتے سنتے ہیں اور اس کے ذریعہ تقویٰ میں بڑھوتری کے کیا کیا انتظامات، پروگرام، منصوبے بناتے ہیں۔ یہی تو کرنے کا کام ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مادی جسم فانی ہے جو دنیا کی فانی چیزوں سے نشوونما پاتا ہے اور پھر اسی زمین میں فنا ہو جاتا ہے مگر روح آفاقی ہے، اس کی خوراک اور نشوونما کے لیے انتظام بھی آفاقی اور غیرفانی ہے۔ روح کو فنا نہیں، بقا اس کا مقدر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی ذات کے حضور حاضر ہو جاتی ہے
تقویٰ کا زادِ راہ ساتھ لے کر۔
جس طرح انسانی جسم میں دماغ کی اہمیت ہے، اسی طرح انسانیت کے جسم میں قرآن پاک کی اہمیت دماغ کی سی ہے۔ جب انسان کا دماغ صحت مند ہو تو اس کے افعال بھی صحت مندانہ اور عاقلانہ ہوتے ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مجنون پر عبادات کی ادائیگی کا بوجھ نہیں ڈالا۔ دماغ ہی معاملات کی حقیقت کو پہچانتا اور انسان سے حق و ناحق کی پہچان کراتا ہے۔ ایک مثال سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ماں کے دل میں اولاد کی جو محبت ڈالی ہے اُس کی مثالیں اکثر ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ کبھی کسی ماں نے اپنی اولاد کا برا نہیں سوچا اگرچہ وہ انتہائی معذور ہو لولی، لنگڑی، اندھی، جاہل، بدتمیز، نافرمان غرض ہر عیب کے باوجود ماں بھی اپنی اولاد کے مرنے کی تمنا نہیں کرتی، کبھی دوسروں سے نہیں کہتی کہ میری اولاد کے مرنے کی دعا کرو مگر ایک ایسی اولاد بھی ہے جو صحت مند جسم، خوب تنومند ڈیل ڈول، گورا چٹا رنگ رکھتی ہے مگر ماں کو اس کی زندگی سے زیادہ موت بہتر لگتی ہے…. وہ کون سی ماں ہوگی جو صحت مند جسم کی جوان اولاد کے بارے میں ایسا سوچتی ہے؟ ہاں وہ ماں ہے جو اپنی جوان اولاد کے دماغی توازن کے بگڑنے پر ہر وقت شرمندہ ہوتی ہے۔ اس کی جوان اولاد کو نہیں معلوم کہ سڑک پر کھڑے ہو کر مادر زاد ننگا نہیں ہونا چاہیے۔ اس جوان اولاد کو نہیں معلوم کہ بول و براز کھانے کی شے نہیں ہوتے۔
اللہ تعالیٰ دنیا کی ساری ماوں سے زیادہ رحیم و شفیق ہیں۔ وہ بھی اپنے بندوں کو بات بات پر سزا نہیں دیتے، مہلت دیتے ہیں، موقع دیتے ہیں اور رہنمائی فرماتے ہیں مگر جب انسانیت اپنے دماغی توازن کو برقرار نہ رکھ سکے، قرآن کو انسانیت کے دماغ کی حیثیت حاصل نہ ہو تو پھر انسان کپڑوں سے اور لباس سے آزاد ہو جاتا ہے۔ وہ کپڑے پہن کر بھی ننگے کا ننگا ہی نظر آتا ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ میرا لباس جانور کے جسم پر کھال کی طرح ہی لگے۔ کھال سے بھی بے نیاز ہو جائے تو کیا برا ہے؟ حرام کھانے سے کسی کو کراہت نہ آتی ہو….کوئی بدبو نہ آتی ہو….سود، رشوت اور دیگر حرام کھانے کے طریقے کیا بول و براز جیسی بو نہیں دیتے؟ جب دماغ ہی درست نہ رہے تو حرام و حلال کا فرق کیسے معلوم ہو…. اور ربِ رحیم رمضان المبارک میں ان سب بیماریوں سے شفا حاصل کرنے کو قرآن پاک نازل کرتا ہے، اس کی طرف دعوت دیتا ہے کہ آئو اِس سے بیماریوں اور گناہوں سے شفا حاصل کرو اور آئندہ کے لیے صحت مند رہنے کے پروگرام بھی نوٹ کر لو مگر پے در پے مصائب و آلام دیکھ کر بھی دل غافل ہیں۔ اور’’کیا ایمان کا دعویٰ کرنے والوں پہ ابھی بھی وہ وقت نہیں آیا کہ اللہ کے نازل کردہ حق اور ذکر سے ان کے دل پگھل جائیں؟‘‘ دنیا کی ساری مائوں سے زیادہ رحیم و شفیق ذات انفرادی واجتماعی طور پر ہمیں ایک بار پھر رمضان المبارک سے ملوا رہی ہے جس میں اللہ کی رحمت حاصل کی جا سکتی ہے۔
اگر یہ موقع کھو دیا تو پھر جس طرح ماں اپنی پاگل اولاد کو برداشت نہیں کرتی، اللہ تعالیٰ بھی پاگل قوموں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ جس کی مثالیں قرآن پاک میں موجود ہیں اور آئے روز اس کی تنبیہات چھوٹے بڑے پیمانے پر جھنجوڑتی ہیں۔
’’فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُ ولِی الْاَبْصَارِ‘‘
’’پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو‘‘۔(سورة الحشر: 2)
قرآن پاک اور رمضان المبارک سے تعلق کا لازمی نتیجہ تقویٰ ہے اور تقویٰ کا لازمی ثمر’’قربِ الٰہی‘‘ہے:’’اور اے نبی !جب میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں، لہٰذا ان کو بھی چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پہ ایمان لائیں، یہ بات ان کو سنا دو شاید کہ وہ راہِ راست پالیں‘‘۔(یعنی مشکل معاملہ میں صحیح راہ پا لیں)۔
رمضان کے ابتدائی 20 دن کی ریاضت (تقویٰ کے حصول) کے بعد روحِ مومن اتنی صیقل ہو چکی ہوتی ہے کہ وہ قرب الٰہی کے لیے بے قرار ہو کر، تڑپ کر، اپنے والہانہ پن کا اظہار کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے ربِ رحیم نے آخری عشرہ میں اعتکاف کا موقع فراہم کیا اور شبِ قدر کی جستجو میں لگا کر مزید نکھار کا، محبت و شوق اور وارفتگی کا جذبہ عطا کر دیا۔
دریائے رحمت میں غوطے لگانے والے تو وہی ہوں گے جن کے دل تقویٰ سے مزین ہوں گے، مزید سے مزید رحمت کی طلب نے ان کے شب و روز کے ہر لمحہ کو قیمتی بنا دیا ہے۔ آئندہ کے 11 مہینوں کے لیے ولولہ تازہ، جذب و شوق اور گزشتہ قصوروں کی معافی کا یقین مل کر مومن کا ایمان فزوں تر ہو جاتا ہے۔ رمضان المبارک کی ابتداء رحمت ہے۔ اس کا حصول مغفرت کا متقاضی ہے اور مغفرت کا لازمی ثمر آگ سے رہائی ہے….اس آگ سے رہائی پانے کے لیے ہمیں انفرادی و اجتماعی طور پر رمضان المبارک کا استقبال اس کے شایان شان کرنا ہوگا…. ہم نے اپنے بارے میں کیا سوچا ہے…. کیسا روزہ رکھنا ہے اور کیسا تقویٰ حاصل کرنا ہے…. اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو نبوت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے، روحانی مدارج طے کرانے کے لیے تربیت دی۔ جس نبی پر جتنی بھاری ذمہ داری ڈالی گئی، اتنی شدت سے تربیت بھی کی گئی۔
امت مسلمہ ’’امتِ وسط‘‘ ہے۔ سال میں ایک بار اس کی تربیت کی جاتی ہے۔ بھاری ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے ریفریشر کورس کرایا جاتا ہے۔ رمضان قرآن کا مہینہ ہے۔ قرآن سے جڑنے، اس کے ذریعہ اپنی کوتاہیوں سے سبق سیکھنے اور آئندہ کی پلاننگ کی تربیت دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’مجھ سے مانگو‘‘، اب کیا مانگنا ہے؟ یہ بھی روزہ دار کے ظرف کی بات ہے۔ روزہ کا’’درجہ‘‘ خود’’طلب‘‘ کو متعین کر دیتا ہے۔ رسمی دعا، خاص دعا، یا پھر خاص الخاص دعا…. اللہ کا وعدہ ہے کہ میں دوں گا پکارو تو سہی…. کوئی ہے جو اپنے رب کو پکارے؟ اُس کو پکارنے سے پہلے، اس وقت کو حاصل کرنے سے پہلے، اس جذبہ کو دل میں جگانے کے لیے استقبال کی تیاریاں تو کیجیے،’’اس مہمان‘‘ کی خاطر مدارات کی تیاری جو آپ کے لیے، ہمارے لیے، سب کے لیے بے شمار انعامات لے کر آ رہا ہے۔
اب جس کا اس مہمان سے جس قدر گہرا تعلق اور رشتہ ہوگا ویسا ہی استقبال ہوگا، اس کو انعامات ملیں گے’’مہمان‘‘ سے محبت اور تعلق کے مطابق۔ اور کس قدر بدبخت ہوگا وہ جو اس مہمان کی خاطر مدارات نہ کرے اور پھر اپنے لیے بخشش بھی نہ حاصل کر پائے۔ اس کی بدبختی پہ کیوں نہ آسمان روئے کہ اس کی بدنصیبی حضرت جبرئیل نے بتائی اور رحمت اللعالمین نے تصدیق فرمائی اور کس کو یقین ہے کہ آئندہ سال معزز مہمان کے استقبال اور خاطر مدارات کا موقع ملے گا یا نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی ہر ساعت سے کما حقہ فیضیاب کریں، آمین
٭٭٭