نیلم پری خوشی خوشی پرستان کی طرف لوٹ آئی تھی ۔ وہ کئی بار دنیا کی سیر کو آ چکی تھی ۔ ہر بار وہ ملکہ عالیہ کے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لاتی ۔ پرستان کی دوسری پریوں کو بھی اشتیاق ہوتا کہ دیکھیں اس بار نیلم پری انسانوں کی بستی سے کیا تحفہ لائے گی ۔اُس کی بھی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی کہ ایسا کچھ لائے کہ سب عش عش کر اٹھیں۔اب کی بار قدرت اس پر مہر بان تھی ۔ جب پرستان سے اڑا کر وہ دنیا میں پہنچی تو عجب منظر دیکھا ۔ آب و ہوا صا ف تھی ۔ گاڑیوں کا دھواں ، لوگوں کا ہجوم ، شور شرابہ ، افرا تفری ، غل غپاڑہ کچھ نہ تھا ۔
’’ میں کسی اور سیارے میں تو نہیں پہنچ گئی ؟‘‘وہ خود سے ہم کلام تھی۔
رات ہو گئی تھی ۔ واپسی کا امکان نہ تھا ۔ دوسرے ملکہ عالیہ کے لیے کوئی تحفہ بھی نہ لیا جا سکا تھا ۔ چنانچہ نیلم پری نے ایک گھنے درخت پر رات گزارنے کا فیصلہ کیا ۔ ابھی پوری طرح نیند کی وادی میں نہیں اُتری تھی کہ اُلو کے پھڑپھڑانے کی آواز سے آنکھ کھل گئی ۔ اُلو کی نگاہوں نے بھی بھانپ لیا کہ پرستان سے آئی ایک نیلے پروں والی پری آرام کر رہی ہے ۔ وہ آنکھیں گھما کر اسے دیکھ رہا تھا کہ نیلم پری نے اسے مخاطب کیا :
’’ اُلو میاں ! یہ دنیا کو کیا ہوا ہے ؟ اس کے گرد تنی اوزون کی تہہ (ozone Layer)مرمت ہو گئی ہے ۔ دھویں کی دبیز تہوں کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔ شور شرابہ بھی نہیں ،آخر یہ ماجرا کیا ہے ؟‘‘
الو میاں چہک کر بولے ۔
’’ اچھی پری ! دنیا وہی ہے ۔پروردگار عالم نے اس سیارے کو طبیعی و حیاتیاتی عوامل سے سجا رکھا ہے ۔ ان دنوں کرونا وائرس (Corona Virus)نے ایک بیماری پیدا کر رکھی ہے ۔ جس سے بچائو کے لیے لوگوں نے لاک ڈائون کے ساتھ ماسک پہن کر زندگی بسر کرنا شروع کر دی ہے۔‘‘
’’ارے واہ! اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ کتنا طاقتور اور با اختیار ہے ۔ اسے اپنی کائنات کے ذرے ذرے سے کتنا پیار ہے ۔ ہمارے بگاڑ کو اس نے کتنے آرام سے سنوار دیا ہے ۔ انسانوں کوہوش کے ناخن لینا چاہیں۔‘‘ نیلم پری نے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے کہا۔
بات سچ تھی وہ انسان جو نماز کے لیے 20منٹ کا روبار نہیں روک سکتا، وہ کئی ماہ سے دکان بند کیے بیٹھا تھا۔ خواتین کو چہرہ چھپانا مشکل محسوس ہوتا تھا ، اب مرد ماسک سے منہ چھپائے پھر رہے تھے ۔ پری تو کبھی کبھار اس طرف آتی تھی جبکہ اُلو میاں کا آشیانہ اسی دنیا میں تھا ۔ وہ کہنے لگا :
’’ اچھی پری! گاڑیاں ، کارخانے ، بازار بند ہیں ۔ لوگوں کے پاس اپنی اولاد کے لیے وقت نہ تھا ۔ ماں باپ اپنے بچوں کی شکل دیکھنے کو ترستے تھے ۔ ماحول کی آلودگی بھی کم ہو گئی اور رشتوں کو ملاقات کا وقت بھی مل گیا ہے ۔‘‘ابھی الو کی باتیں جاری تھیں کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کچھ چمکتا دکھائی دیا ۔ نیلم پری فکر مند ہو گئی ۔
’’ اُلو میاں ! یہ کیا چیز ہے ؟‘‘ اس نے پوچھا ۔ اُلو میاں نے قہقہہ لگایا اورکہا
’’ اچھی پری! گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ میں نے بھی انہیں کئی دنوںبعد دیکھا ہے ۔ یہ جگنو ہیں ! ایسے کیڑے جن کے سانس لینے سے چمک پیدا ہوتی ہے ۔‘‘
نیلم پری آنکھیں پھاڑ کر انہیںدیکھ رہی تھی ۔
’’ کیا یہ خطر ناک روشنی ہے ؟‘‘ اس کے لہجے میں گھبراہٹ تھی ۔
’’ارے نہیں ! یہ ٹھنڈی روشنی ہے ۔ جگنو بھی بے ضرر ہیں ۔ ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں!‘‘ اُلومیاں نے ڈھارس دیتے ہوئے جو اب دیا ۔
نیلم پری مطمئن ہو گئی ۔ اُلو میاں کے پکارنے پر کئی جگنو بھاگے چلے آئے ۔ انہوں نے بتایا کہ آلودگی میں کمی کی وجہ سے وہ اب بے خوف و خطر پھر رہے ہیںورنہ زہریلی گیسوں کی وجہ سے ہماری بقاء کو خطرہ تھا۔ نیلم پری نے ان سے درخواست کی کہ وہ انہیں اپنے ساتھ پرستان لے جانا چاہتی ہے تاکہ ملکہ عالیہ کو تحفہ دے سکے ۔ یہ سن کر جگنو جھٹ تیار ہو گئے کیوں کہ پرستان میں آلودگی نہ ہونے کی وجہ سے اُن کی زندگی کو خطرہ نہ تھا ۔اُدھر اُلو میاںسوچ رہے تھے کہ کیا زندگی کی بقاء کے لیے کسی وبا کو آنا پڑے گا یا دنیا چھوڑ کر کسی پرستان جانا ہوگا !
٭…٭…٭