بتول جون۲۰۲۳بہترین مددگار - بتول جون ۲۰۲۳

بہترین مددگار – بتول جون ۲۰۲۳

اللہ تعالیٰ نے اپنا نام’’الناصر‘‘ اور ’’النصیر‘‘ رکھا ہے۔ مدد کا منبع و سرچشمہ اللہ رب العزت کی ذات ہے۔
’’…اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے‘‘۔(سورہ آل عمران: 126)
اسی طرح دوسری جگہ فرمان الٰہی ہے:
’’بلکہ اللہ ہی تمہارا خیرخواہ ہے اور وہی سب سے بہتر مدرگار ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران: 150)
’’یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیاوی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے‘‘۔ (سورہ غافر: 51)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد اور غم و خوف سے نجات کی خوشخبری اپنے فرشتوں کے ذریعے دے کر بھی کرتا ہے۔
’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جائو اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔ (سورہ فصلت :30)
یقیناً اللہ ایسے راستوں سے اپنے بندوں کا اس طرح مددگار بن جاتا ہے، جس کا انہیں گمان بھی نہیں ہو سکتا۔ اس نے اپنے بندوں کے لیے مددگار فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔
ارشادِ ربانی ہے:
’’اور وہ (اللہ تعالیٰ) اپنے بندوں پر غالب اور برتر ہے اور تم پر موت سے حفاظت کے لیے فرشتے بھیجتا ہے حتیٰ کہ جب تم میں سے کسی ایک کی موت آ جاتی ہے تو اسے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے فوت کرتے ہیں اور وہ مقررہ وقت میں کوتاہی نہیں کرتے‘‘۔ (سورہ الانعام: 61)
’’ان کے ساتھ محافظ فرشتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہر انسان کے آگے پیچھے رہتے ہیں اور ہر انسان کی ( مقررہ وقت تک زندگی قائم رکھنے میں مددگار) حفاظت کرتے ہیں…‘‘ (سورہ الرعد:11)
تو گویا کہ’’حفظہ‘‘ وہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے تاکہ وہ بندے کی موت کے وقتِ مقررہ آنے سے پہلے زندگی کی حفاظت کریں۔
نیکی کا فرشتہ مومن کو نیکی کی طرف راغب کرتا ہے اور اس کے دل کو استقامت پہ حوصلہ دیتا ہے۔ برائی سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ کراماً کاتبین بھی انسان کی سوانح حیات کا ہر لمحہ لکھنے پہ مقرر کیے گئے۔ یہ کام اگر انسان کو خود کرنا لازم ہوتا تو وہ کیسے اس کو سرانجام دیتا؟ یہ تحریف سے پاک، سچی سوانح عمری مرتب کرنے والے انسان کے مددگار ہیں۔
جہنم سے رہائی میں مددگار فرشتے
’’عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس کے (فرشتے) اپنے رب کی تسبیح و حمد کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تُو انہیں (مومنوں کو) بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں جہنم کے عذاب سے بھی بچا لے‘‘۔ (سورہ غافر: 7)
اسی طرح بدر و حنین میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے مومنین کی مدد فرمائی۔
انسان، انسانوں کے مددگار ہیں
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: (مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ)’’اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے میں کون میری مدد کرنے والا

ہے؟‘‘حواریوں نے کہا، (نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ))’’ہم اللہ کے مددگار ہیں‘‘ (یعنی اللہ کی طرف بلانے میں آپ کی مدد کرنے والے ہیں۔ (سورہ آل عمران: 52)
سورہ الصف آیت 14 میں بھی اسی طرح کا تذکرہ ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسٰیؑ ابنِ مریمؑ نے حواریوں کو خطاب کر کے کہا تھا: ’’کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مددگار؟‘‘ اور حواریوں نے جواب دیا تھا:’’ہم ہیں اللہ کے مددگار۔’’ اُس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دُوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی اُن کے دُشمنوں کےمقابلے میں تائید و مدد کی اور وہی غالب ہو کر رہے‘‘۔
بیعت عقبہ ثانیہ، جس میں 72 آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت کی تھی، اس بیعت میں دیگر باتوں کے ساتھ ایک عہد یہ تھا:
’’اور یہ کہ جب میں تمہارے پاس آؤں گا تو تم میری مدد کرو گے اور میری طرف سے اسی طرح مدافعت کرو گے، جیسے تم اپنی جانوں، اپنی بیویوں اور اپنے بیٹوں کی طرف سے مدافعت کرتے ہو‘‘۔ (الفتح الرباني: 20/270)
اس تفصیل سے مقصد اس پہلو کی وضاحت کرنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام سمیت تمام انسان ظاہری اسباب کی حد تک ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر زندگی گزار ہی نہیں سکتے۔
انسان کے اعضا آپس میں مددگار ہیں تو انسان کی حیات باقی ہے
ہم جانتے ہیں کہ:
ہضم کے معنی، غذاؤں کی ٹوٹ پھوٹ اور اُن کو اس شکل میں لانا ہے کہ وہ جسم کے لیے قابلِ ہضم بن جائیں۔ جس کے لیے سب سے اہم کردار جسم میں موجود نظام انہضام کا ہے جو غذا کو اس شکل میں لاتا ہے کہ وہ قابلِ ہضم بن جائے۔ غذا کو قابلِ ہضم بنانے کا مرحلہ خوراک کو دیکھتے ہی منہ میں پانی آنے اور غذا کو منہ میں ڈالنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جب اُس غذا کو کھانے کے لیے چبایا جاتا ہے، اس موقع پر منہ میں پیدا ہونے والا لعاب اس غذا کو گیلا کر کے، اُس کو چبانا آسان بناتا ہے۔ چبانے کی وجہ سے غذا چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے جسم میں موجود نظامِ انہضام کے لیے اُس غذا کو مزید چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے، اُس کو قابلِ ہضم بنانے میں بہت مدد ملتی ہے۔ اسی طرح جسم کے مختلف اعضا ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو کئی قسم کی طاقتوں سے نوازا ہے۔ یہاں تک کہ انسان اپنے مختلف اعضا کے ذریعے اپنے جسم کے مختلف حصوں پر مسلط ہے اور سب اعضا ایک دوسرے کے مددگار ہیں، کوئی حصہ دوسرے حصہ کو نقصان نہیں پہنچاتا، بلکہ اگر کوئی دشمن انسان پر حملہ کرے تو جسم کے اعضا دو کام کریں گے۔ اس دشمن سے بھی مقابلہ کریں گے اور ایک دوسرے کی حفاظت بھی کریں گے۔ مثلاً ہاتھ آنکھوں کی حفاظت کریں گے، آنکھیں دیکھیں گی تو ہاتھ ان کے مطابق حرکت کریں گے۔ جو کچھ آنکھ دیکھے گی اس کے مطابق زبان بولے گی۔ آنکھ جو کچھ دیکھے گی پائوں اس کے مطابق چلیں گے۔ جوکچھ کان سنیں گے زبان اس کے مطابق بولے گی۔ قوتِ سماعت و بصارت انسان کی عقل و فہم اور دل کے ارادے کو کسی نتیجے پہ پہنچنے میں مددگار ہوگی۔
جسم کے اعضا ایک دوسرے کے اس قدر تابعدار اور حامی و مددگار ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے اور انسان نے ایک چھوٹا سا کام بھی کرنا ہو تو کئی اعضا اس کام کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے کے لیے اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔
مثلاً کوئی خوشبو پسند آئے گی تو زبان بول کر اسے طلب کرے گی۔ پیاس محسوس ہوگی تو آدمی پانی کو آنکھوں کے ذریعے دیکھے گا، ہاتھ کے ذریعے پانی اٹھا کر گلاس میں ڈالے گا، پھر منہ سے پانی کو پیے گا۔ اور جسم کے اندرونی اعضاء اس کی طلب کو نتیجہ خیز بنانے میں مددگار ہوں گے۔ انسان کسی بے گناہ پر ظلم کو آنکھوں سے دیکھے گا تو پائوں سے دوڑ کر جائے گا اور ہاتھوں کے ذریعے اسے ظالم سے بچائے گا۔ لہٰذا جسم کے اعضا ایک دوسرے کی ضرورت کی تکمیل اور مدد کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔

جسم کے مختلف اعضا ایک دوسرے کے مددگار ہیں، اسی طرح معاشرے کے انسانوں کو باہم نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں مددگار و معاون بننے کی تلقین کی گئی ہے۔
’’…جو کام نیکی اور تقویٰ کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے‘‘۔(سورہ المائدہ: 2)
اس سے یہ درس ملتا ہے کہ جیسے جسم کے اعضا ایک دوسرے کے مددگار ہیں اسی طرح معاشرے کے افراد کو بھی ایک دوسرے کا مددگار بن کر رہنا چاہیے اور جیسے جسم کا کوئی عضو دوسرے عضو کو نقصان نہیں پہنچاتا، اسی طرح معاشرے کا کوئی فرد دوسرے فرد کو نقصان نہ پہنچائے۔
کسی کا مدد گار ہونے سے کسی انسان کی تکریم میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔ بحیثیت انسان کے سب کو اللہ تعالیٰ نے اکرام بخشا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قول حق اور قول فیصل ہے کہ سب میرے بندے ہیں اور ساری اولادِ آدم کا پہلا استحقاق عزت و تکریم ہے۔
’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی و تکریم سے نواز دیا اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی‘‘۔ (سورہ ال ءاسراء: 70)
گویا کہ بنی آدم کا تعلق کسی بھی مذہب، فرقے، قوم قبیلے، ذات پات یا پیشے سے ہو، اس کی تکریم بطور انسان ایک دوسرے پہ فرض ہے اور اس میں کمی کا شائبہ بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور تکبر جیسے قبیح گناہ کا ارتکاب ہے۔
’’کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں اِن کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور اِن میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دُوسرے لوگوں پر ہم نے درجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دُوسرے سے خدمت لیں۔ اور تیرے رب کی رحمت اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (اِن کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ (سورہ الزخرف: 32)
انسان پیدا ہونے سے مرنے تک ایک دوسرے کا ہر قدم پہ محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو قابلیت، صلاحیت میں مکمل نہیں بنایا۔ دھن دولت، عزت، جاہ و اقتدار تو اس اصول کی پابند بنائیں کہ:
’’ان حالات کا الٹ پھیر ہم لوگوں میں کرتے رہتے ہیں‘‘۔
دیگر روزمرہ کی ضروریات میں سب ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔
کوئی بھی کام یا پیشہ باعثِ تحقیر کیسے ہو سکتا ہے جب کہ کسی جاہ و اقتدار والے کے گھر، گلی، سڑک کی صفائی ستھرائی اس کی صفائی پہ مامور انسان پہ منحصر ہے۔ محنت کرنے والا حقیر کیسے ہو سکتا ہے؟ ایک وزیرِ اعظم بھی اپنے پیٹ کا غلام ہے اور اس کے جوتے پالش کرنے والا بھی اپنے پیٹ کا نوکر ہے۔ یہاں سب خواہشات کے اسیر ہیں اور ہر کوئی اپنی خواہشوں کو کہیں نہ کہیں غلامی کر کے پوری کر رہا ہے۔
سب سے بہترین غلامی رب کی غلامی ہے۔ اور سب سے بہترین مددگار بننا، اللہ کا مددگار ہونا ہے۔ اس غلامی اور مددگاری کے لیے امیر ہونا یا غریب ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ صرف اپنے میدانِ عمل میں ایمان اور استقامت کی دولت درکار ہے۔ جو جس طرح کی مقتدر شخصیت کا مددگار یا نوکر ہوتا ہے اس کا نام اسی ہستی سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ اللہ والے تو اللہ کے مددگار ہوتے ہیں۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here