’’میں بچے کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتی ….بچے کو خود سے جدا نہیں کر سکتی ‘‘بچے کو سینے سے چمٹائے وہ سسکیاں لے کر رو رہی تھی۔
’’کیا کریں ….‘‘ماں نے بے بسی سے اس کے والد کی طرف دیکھا جو خود بھی اپنی بیٹی کی اس ہذیانی کیفیت کو دیکھ رہے تھے اور وہ سر جھکائے کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔
یہ ساتواں رشتہ تھا جو بہت معقول بھی تھا ،مگر وہ بچے کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتے تھے اور اپنی بیٹی کی بچے کو ساتھ رکھنے کی خواہش کی وجہ سے پہلے بھی کئی رشتے منع کر دیے کہ مطلقہ بیٹی کا اصرار تھا کہ دوسری شادی کر لے گی مگر اپنے تین سالہ بچے کو ساتھ ہی رکھے گی۔
اب کےرشتہ کچھ معقول تھا کہ آج کے دور میں بیٹیوں والے اسی کی تلاش اور فکر میں رہتے ہیں اور پھر بیٹی اگر طلاق یافتہ ہو تو یہ ہمارے معاشرے میں ایسا دھبہ ہے جس کے جرم میں کوئی معقول رشتہ آنے کا خیال بھی والدین کو نہیں کرنا چاہیے، مگر رشتہ آگیا ۔ کچھ تو لڑکی کی خوبصورتی اور دوسرا لڑکے کی بھی دوسری شادی تھی ،پہلی شادی سے اس کی ایک بیٹی تھی جو ماں کے ساتھ رہتی تھی اور لڑکا بیرونِ ملک ملازمت کرتا تھا، اچھا خاصا کھاتا پیتا گھرانہ تھا اس کے علاوہ مذہبی رحجان بھی غالب تھا جس کی وجہ سے عائشہ کے والد کو لڑکا اور لڑکے والوں کو عائشہ پسند آ گئی ، عائشہ کو بھی اس شرط پر رضامند کر لیا گیا کہ اس کے گھر والے لڑکے والوں سے بچے کو ساتھ رکھنے کی اجازت لیں گے۔
بس پھر کیا تھا ، بات ہوتی رہی دونوں گھرانے ایک دوسرے کو پرکھنے لگے ، پاس پڑوس سے تسلی بھی ہو گئی ایک دو بار چکر بھی لگا لیا ، اس بار کی نشست میں عائشہ کے والد نے لڑکے کے والد سے بچے کی بابت بات کی تھی ،وہ بھی کچھ جھجکے اور کچھ تاسف کا اظہار کرنے کے بعد سوچنے اور گھر میں مشورہ کرنے کی مہلت مانگی اور مہلت کے بعد جو جواب آیا وہ حسبِ سابق منع کیے ہوئے تمام پچھلے رشتوں والا ہی تھا کہ ہم بیگانہ بچہ نہیں رکھ سکتے ۔
اس جواب کے بعد سے وہ کافی پریشان تھے ، بیٹی کو کیسے بتاتے ، اگر بچے کی وجہ سے رشتہ منع کر دیتے تو ایک اچھا رشتہ ہاتھ سے نکل جاتا اور اگر رشتہ کو ہاں کرتے تب بچے کی جدائی ماں کے لیے سوہان روح ہو جاتی، مگر زبردستی بھی نہیں کی جا سکتی تھی ۔ بیٹوں سے مشورہ کیا ، بیٹوں کا خیال تھا کہ شادی کے لیے ہاں کر دینی چاہیے کہ مزید دیر ہو گئی تو اچھے رشتے بھی نہیں ملیں گے۔
جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا والدین اور بھائیوں کی یہی کوشش تھی کہ عائشہ کا پھر سے گھر آباد ہو جائے ۔ یوں تو سبھی بہن بھائی اچھی شکل و صورت کے تھے مگر عائشہ کو اللہ نے خاص ہی کشش سے نوازا تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ لائق بھی تھی۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ انتہائی سادہ طبیعت اور باکردار مگر نٹ کھٹ سی سب کے ساتھ گھل مل جانے والی ۔ اور سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے لاڈلی بھی۔ جب پہلی بار بیاہ کر گئی تھی تو گھر کا سناٹا اس کی لاابالی طبیعت کی گواہی بن گیا تھا۔
سسرال میں کچھ دن تو نئی نویلی دلہن ہونے کی وجہ سے ہنسی خوشی گزر گئے پھر مسائل شروع ہو گئے ۔ ہنستا چہرہ پھیکا پڑنا شروع ہو گیا ، یہاں روائتی مسائل کا سامنا نہ تھا بلکہ شوہر کے عجیب و غریب رویہ کا مسئلہ تھا، کبھی میکے جانے پر کئی کئی دنوں تک پابندی لگا دیتا اور کبھی میکے بھیج کر کئی کئی دن واپس لینے نہ آتا ۔ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر وہیں رکے رہنے پر اصرار کرتا ۔ پھر اللہ نے امید لگائی تو اس کا رویہ کچھ نرم پڑا مگر جب بچہ پیدا ہو گیا تو باپ کی حیثیت سے بچے کو بہت چاہتا اور اس کی صحت کا بہت خیال کرتا، مگر یہ احتیاط بھی حد سے زیادہ تھی ، جنونی کیفیت بھی اپنے آس پاس والوں کے لیے حبس کا باعث بنتی ہے ، عائشہ کو تاحیات میکے جانے
سے روک دیا ، کسی بہن بھائی سے نہیں مل سکتی ،بچے کو کوئی جراثیم نہ لگ جائے وہ کسی اور فضا میں بیمار نہ ہو جائے ۔
اس نفسیاتی مریض کے ساتھ زندگی بسر کرنا مشکل ہوگیا ۔ جھگڑے بڑھ گئے اور عائشہ میکے آ کر بیٹھ گئی۔ پھر صلح کی خاطر کئی نشستیں ہوئیں ،ابھی سلسلہ جاری تھا کہ اچانک وہ ایک دن خود آگیا اور عائشہ کو حکم کے انداز میں ساتھ لے جانا چاہا ، عائشہ نے منع کر دیا اور کہا کہ پہلے کچھ شرطیں منظور کرواؤں گی پھر ہی واپس جاؤں گی ۔ اس میں ایک شرط میکے آنے سے نہیں روکنا ہے ۔وہ دھمکیاں دیتا واپس چلا گیا اور کچھ دن بعد طلاق بھیج دی اور بچے کو بھی ماں کے ساتھ لکھ دیا ۔اب تین سال گزر گئے تھے اس باپ نے کبھی پلٹ کر اس بچے کی خبر نہ لی جس کو وہ کبھی جنون کی حد تک چاہتا تھا۔
عائشہ کے والدین نے طلاق کے ایک سال کے بعد جب وہ کچھ سنبھل گئی تو اس کی دوسری شادی کی بات چلانی شروع کی، عائشہ کے کئی رشتے آئے اور پھر بچے کو ساتھ نہ رکھنے کے معاملے میں منع کر دیے گئے اور اب پھر سے تلاش جاری تھی کہ یہ رشتہ آیا جو کافی معقول لگا۔
اب کے بھائیوں اور بھابیوں نے امی ابو سے بات کی کہ آخر کب تک یہ معاملہ جاری رہے گا ، ابھی تو کچھ معقول رشتے آ رہے ہیں کچھ عرصہ بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا اور عائشہ کا گھر نہیں بسے گا تو کیوں نہ دل پر پتھر رکھ کر اس رشتہ کو اوکے کیا جائے اور عائشہ کو تسلی دی جائے کہ بچہ اس کے ساتھ نہیں جائے گا تو کیا ہؤا ۔وہ اپنے نانا نانی اور ماموؤں کے پاس رہے گا اور وہ اس سے ملتی ملاتی بھی رہے گی۔ یوں عائشہ کو سمجھا بجھا کر رشتہ منظور کر لیا گیا ۔
عائشہ نے ماں باپ کے اصرار اور ان کی پریشانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس رشتے کے لیے ہاں کی تو تھی مگر اس کا دھیان ہر وقت بچے کی طرف رہتا ، جدائی کی سوچوں نے اسے پریشان کر دیا ۔ وہ سوچتی کہ بچہ میرے بغیر کیسے رہے گا ، بچے کا باپ تو پہلے ہی اسے چھوڑ چکا ہے اب کیا ماں بھی الگ ہو جائے گی۔
ایک ماہ بعد سسرال والوں نے تجویز رکھی کہ لڑکا بیرونِ ملک واپس جا رہا ہے تو کیوں نہ دونوں کا نکاح کر دیا جائے اور رخصتی دو سال کے بعد کر دی جائے ، ان کی تجویز منظور کرتے ہوئے نکاح ہوگیا اور لڑکا واپس چلا گیا ،نکاح کی وجہ سے آپس میں بات چیت کا سلسلہ چل نکلا ۔ شروع شروع میں سلام دعا تک بات رہی پھر رابطے کا دورانیہ بڑھتا گیا اور عائشہ اپنے دل کی بات کرنے لگی اپنے احساسات شئیر کرنے لگی یہاں تک کہ بچے کی بابت فکر مندی ظاہر کرنے لگی۔ لڑکے نے اس کی فکر کے مد مدنظر حامی بھر لی کہ وہ بچے کا باپ بن کر اس کو پالے گا اور اس کو ساتھ بھی رکھے گا۔ اس وعدے پر عائشہ بھی ہشاش بشاش ہو گئی اور یہ خوشخبری اس نے اپنے والدین کو بھی سنائی وہ سب بھی اس کی طرف سے بے فکر ہو گئے۔
بس جی پھر کیا تھا ، لڑکے نے عائشہ کے بچے سے بھی بات چیت شروع کر دی اور اس کو کہہ دیا کہ وہی اس کا باپ ہے۔ اس کو بھی کال کرتا اور بات چیت کرتا ایک دو بار بچے کے لیے گفٹس بھی بھیجے ، بچہ بھی کافی مانوس ہو گیا اور اسی کو اپنا باپ سمجھنے لگا، سب کو بتاتا تھا کہ میرے بابا باہر سے آئیں گے تو وہ اور اس کی ماما ان کے گھر چلے جائیں گے وہ ہمارا گھر ہو گا اور بابا نے وعدہ کیا ہے کہ اس کی سالگرہ بھی منایا کریں گے ۔ عائشہ اب بہت مطمئن رہنے لگی،اس وجہ سے اس کے گھر والے بھی مطمئن تھے۔ لڑکے نے عائشہ کو اپنے پہلے شوہر کے خلاف بچے کے خرچ کے لیے کیا جانے والا مقدمہ بھی واپس لینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہم ان جھمیلوں میں نہیں پڑیں گے ، بچے کو اپنی کمائی سے ہی پال لوں گا ،اور اس کو اپنی ولدیت میں بھی لکھوا لونگا ۔ اس پر تو عائشہ کے پاؤں ہی زمیں پر نہ ٹکتے تھے۔
دو سال ختم ہونے کو آئے، لڑکے نے چھٹی لی اور واپسی کی ٹکٹ کرائی، عائشہ کے سسرال والوں نے رخصتی کی تاریخ مقرر کروائی اور دونوں طرف تیاریاں شروع ہو گئیں ۔ عائشہ نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچے کے بھی کپڑے بنوائے، بچے کے نانا نانی ماموؤں اور ممانیوں نے بچے کے لیے بہت سے تحائف تیار کیے ۔کوئ سائیکل لے کے دے رہا ہے تو کوئی ٹیب ،کوئی سکوٹی لے کے دے رہا ہے تو کوئی پیانو ۔ عائشہ اپنے خاوند کو ساتھ سب تیاریوں کی رپورٹ دے رہی تھی کہ کیسے اس کی اور
بچے کی رخصتی کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔
لڑکا واپس آیا اور رہ جانے والے کاموں کو مکمل کرنے میں لگ گیا ، عائشہ کے ساتھ رابطہ بھی رہا ۔ رخصتی کے سامان کو بھیجنے کا دن قریب آیا، سامان لینے عائشہ کا جیٹھ ،جٹھانی، دیور اور کچھ کزنز آئے، جب سامان رکھا جانے لگا تو انہوں نے محض عائشہ سے متعلقہ سامان رکھا اور بچے کے سامان کے بیگز منع کر دیے ۔ جب عائشہ کی ماں اور بھابھیوں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس کا سامان ابھی لے جانا مناسب نہیں، یہ کچھ دن بعد لے جائیں گے۔ عائشہ نے سنا تو اس کو کھٹکا سا لگا، اس نے لڑکے کو کال کی جو وہ ریسیو نہ کر سکا تو عائشہ نے بچے کا سامان نہ لے جانے کے متعلق میسج کیا ۔اور انتظار کرتی رہی کہ جواب کیا آتا ہے ۔اس کو کچھ پریشانی سی ہونے لگی۔ عائشہ کی ماں اور بھابھیوں نے سمجھایا کہ اس میں فکر کی کوئی بات نہیں وہ کہہ کے گئے ہیں کہ شادی کے کچھ دن بعد بچے کا بھی سامان لے کے جائیں گے۔
اگلے دن ہی رخصتی تھی، بارات آئی ،عائشہ کو لا کر دولہا کے پاس بٹھایا گیا ،روائتی رسوم کی ادائیگی اور کھانے سے فارغ ہو کر رخصتی کا وقت آیا۔عائشہ کے والد اندر آئے، کافی پریشان دکھائی دے رہے تھے انہوں نے عائشہ کی ماں کو الگ بلا کر بتا دیا کہ عائشہ کے سسر بچے کو ساتھ لے جانا نہیں چاہتے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے ہی رشتہ اس شرط پر کیا تھا کہ بچہ ساتھ نہیں جائے گا ، اس لیے اب تم اپنے طریقے سے عائشہ کو سمجھا دو کہ رخصتی کے وقت کوئی ہنگامہ یا ضد نہ کرے۔ عائشہ کی ماں بھی سن کر بہت پریشان ہوئیں ، بڑی ہمت کر کے انہوں نے عائشہ کے کان میں یہ خبر ڈالی، یہ خبر کیا تھی گرم تار کول تھا جو اس کے کانوں میں انڈیلا گیا، وہ اس اچانک خبر کہ توقع نہیں کر رہی تھی، عائشہ کی پریشانی دیکھ کر اہل خانہ کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا وہ عائشہ سمیت دوراہے میں کھڑے تھے کہ کیا کریں ، عائشہ بار بار کہتی تھی کہ اس نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ بچے کو ساتھ لے جائے گا ،جبکہ عائشہ کے سسر کہہ رہے تھے کہ ہم نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا اور رہی بات لڑکے کی تو اس سے غلطی ہو گئی ہے آپ اسے معاف کر دیں۔ یہ مزید بحث کا وقت نہیں تھا عائشہ کو سمجھا بجھا کر رخصت کیا گیا،بچے کو بھی بہلا کر ماں سے الگ کیا گیا۔عائشہ نے رات علیحدگی میں اپنے میاں سے اس سلسلے میں بات کی اس کا ایک ہی جواب تھا کہ بس مجھ سے غلطی ہو گئ ہے میرے گھر والے اس کے لیے رضامند نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ بچہ نامحرم ہے۔ عائشہ یہ سن کر حیران رہ گئی کہ بچہ آپ کا نامحرم کیسے ہے ۔ اس نے کہا کہ چونکہ میری ایک بیٹی بھی ہے وہ میرا خون ہے اسے میں نے گھر میں لے کے ہی آنا ہے ۔ کل کو تمہارا بچہ اور میری بیٹی آپس میں نامحرم ہوں گے۔ اس خود غرضی اور ناقابلِ فہم دلیل پر وہ دل گرفتہ ہوئی، اس نے کہا کہ ابھی تو آپ کی بیٹی ماں کے پاس ہے جب واپس آئے گی تب دیکھا جائے گا اور ویسے بھی بچوں میں محرم نامحرم کیا ہؤا ۔ لیکن اس نے معذرت کر لی کہ وہ والد کے فیصلے کے آگے کچھ نہیں کر سکتا ۔
اگلے دن میکے گئی اور بچے کو سینے سے چمٹا لیا ۔جب تک وہ گھر میں رہی بچہ یہی پوچھتا رہا کہ مجھے ساتھ کب لے کے جانا ہے۔ بار بار اس کا سوال عائشہ کے لیے دکھ کا باعث بنتا ،وہ پوچھتا تھا کہ بابا مجھے کب ساتھ لے کر جائیں گے ،کبھی کہتا یہی وہ بابا ہیں جو ویڈیو کال پر میرے ساتھ بات کرتے تھے، ماما میرے بابا آ تو گئے ہیں پھر صرف آپ کو کیوں ساتھ لے کر گئے ، مجھے کیوں نہیں لے کر گئے۔
اگلے دن عائشہ کو واپس جانا تھا اس نے صبح بچے کو سکول کے لیے تیار کیا مگر وہ سکول جانے پر کسی صورت رضامند نہ ہؤا، اس نے کہا کہ میرے واپس آنے سے پہلے آپ بابا کے ساتھ چلی جائیں گی۔ بس یہ سننا تھا کہ عائشہ کا ضبط ٹوٹ گیا بڑی مشکل سے اسنے منہ پر ہاتھ رکھا اور اندر چلی گئی۔ بچے کو اس کی نانو نے پکڑ لیا اور بہلانے لگیں ،یونیفارم بدل دیا اور سکول جانے سے منع کر دیا ۔ جب عائشہ کا خاوند لینے آیا تو ایک بار پھر بچے کے معاملے پر بات ہوئی اور اس کے کیے ہوئے وعدے یاد کروائے گئے مگر وہ بار بار معذرت کر رہا تھا یہی کہتا تھا کہ شریعت اجازت نہیں دیتی اس کے والد کہتے ہیں کہ وہ ہمارا خون نہیں ہے ۔ بہرحال بچے کو بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر اور بہلا پھسلا کر عائشہ کو رخصت کیا گیا ۔
سسرال کے اگلے دو دن اس نے کانٹوں پہ گزارے ۔ بظاہر وہ سب لوگ بڑے ملنسار اور نمازی پرہیزگار تھے ، اذان ہوتے ہی مسجد کو
جانے والے، صبح تلاوت کی عادت بھی تھی سب کو ، اور سب اس کا خیال بھی رکھ رہے تھے مگر وہ سوچتی رہی کہ یہ کیسی دینداری ہے کہ جو ابھی ظاہری رسوم سے آگے نہیں بڑھی ، ٹھیک ہے کہ نمازیں فرض اور محرم نامحرم کی شریعت جائز مگر کسی بے آسرا بچے کو پالنے اور اس کے ثواب کی خبر یا تو اس معاشرہ کے لوگوں تک پہنچی نہیں یا پہنچی ہے مگر گلے میں ہی اٹک گئی ہے ۔
اگلے دن اس نے ساس سے دو دن میکے رہنے کی اجازت لے لی اور پورے دو دن بچے کیساتھ گزارے اور پھر وہی واپسی وہی بہلاوا اور وہی فکر ۔ وہ سسرال میں ہوتی مگر اس کا پورا وجود میکے میں اپنے بچے کی طرف دیکھ رہا ہوتا ۔ کئی کئی بار کالز کرتی اور کئی کئی دن جا کے شام تک واپس آجاتی۔اس کے خاوند نے اتنا تعاون کرنے کو وعدہ کیا کہ جب وہ واپس بیرونِ ملک چلا جائے تب وہ بچے کے ساتھ میکے جاکر رہ لے ۔ آہ! اگر بچے کو میکے ہی جا کر ملنا اور اس کے ساتھ رہنا ہے تو دوسری شادی کا کیا جواز ؟ وہ سوچ کر کڑھتی رہتی۔ بچہ اب ان دلاسوں کو سمجھ گیا تھا ،جب نانا نانی کہتے کہ ماما آ جائیں گی تو کہتا ،کوئی نہیں آنا ماما نے ،مجھے پتہ ہے آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں ۔ اس کے سوالوں کے جواب بعض اوقات نانا نانی کے دل کو چیر جاتے۔
اس بچے کو سب رشتوں کا پیار شاید ملتا رہے ،بعض گھرانوں میں تو یہ صورتحال بھی نہیں ،ممانیوں کے ہاتھوں بچوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔ لیکن ماں کا پیار اور وقت اور اصل باپ کی شفقت شاید کبھی نہ ملے۔ عائشہ کو نیا گھر مل گیا اور اس کے پہلے شوہر کو بھی ایک اور بیوی مل جائے گی مگر اس بچے کو نہ اپنی ماں ملے گی اور نہ باپ۔
اورعائشہ کی حالت تو اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ کہنے کواسے نیا گھر مل گیا تھا مگر وہ اس گھر میں ہمیشہ تڑپتی رہے گی۔ عائشہ ہر وقت یہی سوچتی رہتی ہےکہ کیا اسے اس خبطی اور نفسیاتی مریض کے ساتھ گزارا کرلینا چاہیے تھا،وہ اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کے صبر کر لیتی ،خود پہ جبر کر لیتی ، اس کی دی ہوئی اذیتیں برداشت کر لیتی مگر اس کو طلاق دینے کا کوئی جواز فراہم نہ کرتی تاکہ اس کے بچے کا اصل سائبان نہ چھنتا؟یا پھر دوسرے شوہر کی وعدہ خلافی کے بعد اس کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیتی تاکہ اپنے بچے کو کم از کم وہ خود تو میسر رہے؟ آخرہمارے ہاں عورت کے لیے زندگی کی خوشیوں کا حصول اتنا ناممکن کیوں بنا دیا جاتا ہے؟
٭٭٭