جب ماں کے لمس کی خواہش ایک حسرت بن جائے …..
شاید دسمبر کی ایک یخ بستہ رات تھی ۔
گاؤں کے ہر ذرے نے سفید لباس زیب تن کیا تھا ، گھر گھر، لان اور کھیت کھلیان سب برف کی دبیز چادر اوڑھ چکے تھے ، اس قدر شدید سردی تھی کہ گھر سے باہر نکلنا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا ، لوگ سر شام گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے ، لکڑیاں چولہوں میں بھڑکائی گئی تھیں ۔ جانوروں کے اصطبل کے چاروں طرف موٹے موٹے کپڑے تان دیے گئے تھے ۔
یہ دوسری رات تھی جب سے برف باری شروع ہوچکی تھی ۔ صبح تڑکے میں ذرا سی دیر کو رکی تھی اور پھر مسلسل جاری رہی ۔ کنوؤں کے منڈیر خالی تھے۔ پانی جم کر برف بن گیا تھا۔ رات بھاری ہوچکی تھی ۔ عموماً ہم قضائے حاجت کے لیے گھر سے ذرا فاصلے پر کھیتوں میں جاکر فارغ ہو لیتے تھے ، بچوں کے لئے گھر میں ایک مخصوص برتن یا کہیں کہیں ٹین کا ڈبہ ہوتا تھا ، رات میں باہر نکلنا قدرے مشکل ہوتا تھا ۔ بڑوں کو تو کم ہی ضرورت پیش آتی البتہ چھوٹے بچے رات میں اسی ڈبے کو استعمال کرلیتے تھے ۔
باوجود ایک گاؤں میں رہتے ہوئے لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہوچکا تھا ۔ کئی گھر ایسے تھے جہاں کوئی مرد نہیں ہوتا ، اس غربت زدہ خطے میں پوری آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھی ۔ کاروبار کے نام سے بھی لوگ ناواقف تھے ۔ کھیت کی فصل بمشکل ایک موسم نکالتی تھی ۔ پہننے کو عید پر ہی کبھی کبھی نیا جوڑا مل جایا کرتا تھا اور کئی بچوں کے پاس وہ بھی نہیں ہوتا ۔ گاؤں کے ہم سب بچوں کے کپڑوں میں کئی کئی جگہ سے پیوند لگے ہوتے تھے ۔ پیوندزدگی اور رفو گری ثقافت کا حصہ بن چکی تھی کہ کسی کو ملامت کا خیال نہیں آتا تھا ۔
ایسی ہی ایک یخ بستہ رات تھی جب اماں اٹھی ، چراغ جلایا ۔ ہم بہن بھائیوں کو دیکھنے کے لیے چارپائیوں کے پاس آئیں ۔ اماں یہ دیکھ رہی تھیں کہ ہم میں سے کوئی رضائی سے باہر تو نہیں رہ گیا ۔ بہن بھائیوں میں سے کسی کو ٹھیک سے لٹا کر ان پر رضائی درست کررہی تھیں کہ اس ڈانٹ ڈپٹ سے میری آنکھ کھل گئی ۔ اماں میرے سرہانے آئی ۔ میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا ۔
’’ ہائے میرا بچہ ! تم تو رضائی سے باہر سو رہے ہو ‘‘۔
اس محبت بھرے لمس کی خواہش زندگی بھر رہی اور یہ لمس ہر جگہ میرے ساتھ رہا ۔ اس لمس کو دوبارہ پانے کے لیے میں کئی کئی راتوں کو رضائی جسم سے ہٹا کر سوجاتا تھا کہ اماں کے پیار بھرے لمس پر اٹھ جاؤں گا ۔ اور کبھی تو میں اماں کی لمس اور شفقت بھری باتوں سے دل ہی دل میں روتا تھا ۔
اس لمس کی قسم، ان یخ بستہ راتوں کی قسم !ایسا لمس پھر زندگی بھر کہیں نہ ملا ۔ یہ لمس دنیا کی ہر نعمت پر بھاری اور ہر خوشی سے زیادہ مسرت آمیز تھا۔
برف کیسے رگ وریشے کو اندر سے کاٹ دیتی ہے، یہ کشمیر کے چناروں کی برف سے ڈھکی قید دیکھ کر یاد آ گیا ۔اپنے وطن کے سرد موسم میں اپنی ماں کا لمس جس طرح مجھے یاد آتا ہے کیا اسی طرح کشمیر کے برفیلے چنار اپنے اٹوٹ انگ کے لئے تڑپتے ہوں گے؟
گاؤں میں بارش کے دن تھے ۔ میں اسکول سے گھر آیا تو سالن ٹھنڈا تھا ، رات کی روٹی کے ساتھ ٹھنڈا سالن کھا رہا تھا ۔ میں نے نوالہ بڑی مشکل سے اگل دیا اور بھوکا ہی واپس چلا گیا ۔ ایک بجے چھٹی ہوئی تو اماں کو سارا ماجرہ سنایا ، اماں نے مجھے گلے لگایا ، میری بہن کو ڈانٹا ، میں
نے اماں کی گود میں سر رکھا تھا کہ اماں کی آنکھ سے آنسوؤں کا ایک موٹا قطرہ ڈھلکتا ہؤا میرے گال پر پڑا ، اماں سوچوں میں گم تھی نہ جانے کیا سوچ رہی تھی ۔ وہ قطرہ میری گال پر جتنی دیر رہا وہ مجھے میری کل دنیا سے عزیز تھا ، اس قطرے نے مجھ میں احساس تفاخر جگایا ، میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا ۔ اس قطرے کے گرنے اور پھر خشک ہونے کے وقفے کی قسم پھر زندگی بھر ایسی خوشی کسی چیز نے نہیں دی ۔ بڑی خوشیاں دیکھیں مگر اس کمزور سے قطرے اور اس معمولی وقفے نے جتنا مجھے احساس تفاخر اور خوشی سے نہال کیا پھر حسرت ہی رہی ۔
سوچتا ہوں مقبوضہ کشمیر بھی ایسے ہی کسی لمحے کامتمنی ہو کر پاکستان کی جانب دیکھتا ہو گا کہ پاکستان کی جانب سے آنے والے ایک قطرے کا حصار ہی مقبوضہ کشمیر میں تفاخر بھر دے ’’ لو دیکھو میری خاطر میرا اٹوٹ انگ رو دیا‘‘۔
ہمارے گاؤں میں بڑی عمر کی ایک خاتون کو جن چمٹ گئے تھے ، پورا گاؤں دیکھنے کے لئے امڈ آیا تھا ، وہ خاتون وقفے وقفے سے چیختی اور چارپائی سے اٹھنے کی کوشش کرتی ، ان کے قریبی عزیز انہیں دوبارہ چھت لٹاتے ، ہم بچے ذرا قریب ہوکر اسے دیکھنے گئے تو میری پلاسٹک کی چپل اس دھکم پیل میں گھر کے اندر رہ گئی ۔ میں دور کھڑا ہوکر دیکھنے لگا ، رات کو سونے لگا تو اس خاتون کی چیخیں مجھے ڈرا رہی تھیں ، دن بھر کی دھکم پیل اور شور میرے خوابوں کو چرا رہا تھا ، ساری رات اماں کی چارپائی کے قریب سوتے جاگتے گزاری ۔ صبح ہوئی تو اماں کھیتوں کو جارہی تھی میں بھی ساتھ چلنے لگا۔
دور سے وہی عورت نظر آئی ۔ ان کے گلے میں ایک موٹا سا تعویذ بندھا ہؤا تھا ، میں سوچ رہا تھا ماں جی اب راستہ بدل کر نکل جائیں گی ۔ لیکن ماں جی اس کے سامنے آگئیں تو دعا سلام کے بعد ان کی خیر خیریت پوچھی ، میں ڈر کے مارے اماں کے دامن کے پیچھے چھپ گیا ۔ اماں نے مجھے ہٹانا چاہا تو میں اسی جگہ قدم جما کر کھڑا ہوگیا ، کافی دیر بات چیت چلتی رہی ۔ اماں کے دامن نے اس وقت مجھے جو احساس تحفظ دیا وہ سیکیورٹی کے ہزارہا دستوں پر بھاری تھا ، یہ تحفظ زندگی بھر کبھی نہ مل سکا ، تحفظ کا یہ احساس جیسے اس کے بعد ختم ہوگیا ۔ اس بہت معمولی وقفے کی قسم یہ تحفظ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے اور میرے کشمیر کے برفیلے چناروں کو یہی تحفظ مطلوب ہے ۔کیا آپ اپنے کشمیری چناروں کو یہ تحفظ دے سکتے ہیں؟
اور کچھ نہیں تو اک حرف دعا ہی سہی !