سال نو کا آغاز اس لحاظ سے خوشگوار رہا کہ حریم ادب کراچی کی فعال ٹیم نے اپنی قلم کار بہنوں اور پڑھنے لکھنے کی شیدائی خواتین کے لیے حسبِ روایت ، جاتے جاڑوں کی ایک دلفریب سہ پہر کو الخدمت کے نرم گرم خوبصورت گوشے میں مدیرہ بتول محترمہ صائمہ اسما کے ساتھ ایک محفل دوستاں سجالی ، جہاں ثمرین احمد نے ان سے بہت سی باتیں کیں ، ماہنامے کے بارے میں ، کتب بینی اور اشاعت کے بارے میں، اچھی تحریر کے لوازم کے بارے میں۔ حاضرین جن میں کراچی کے مختلف علاقوں سے آئی ہوئی لکھاری خواتین اور کئی نو آموز قلم کار بھی موجود تھیں، دلچسپی سے سنتے رہے اور محظوظ ہوتے رہے۔
ماہنامہ بتول کے اغراض و مقاصد سے حاضرین محفل کو روشناس کرواتے ہوئے صائمہ اسما صاحبہ نے بتایا کہ ادبی رسالہ چمن بتول اس وقت ملک کا واحد رسالہ ہے جوبلاتعطل 1957سے اپنی اشاعت کے مراحل کامیابی سے طے کر رہا ہے ۔ جس وقت بتول کا اجرا ہؤا اگرچہ کئی رسائل شائع ہو رہے تھے لیکن ان میں خواتین کے لیے ایسے مواد کی کمی تھی جو ادب اور ذہنی تفریح کے ساتھ ساتھ درست سمت میں رہنمائی بھی کرے۔نیز گھریلو خواتین اور بچوں کے لیے ستھرے ادبی ذوق کے حامل لٹریچر کی بہت کمی تھی۔ ایسے میں معاشرے کی تعمیر کا جذبہ رکھنے والی کچھ خواتین نےمل کر ایک اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھی جس کا مقصد یہ تھا کہ خواتین اور بچوں کے لیے عام فہم انداز میں دینی معلومات بہم پہنچائی جائیں اور معاشرے میں اچھی اقدار کو فروغ دینے والا لٹریچر تحریر اور شائع کیا جائے جوپڑھنے کا شوق رکھنے والی ہر خاتون کی قوت خرید سے باہر نہ ہو۔ادارہ بتول کے نام سے بننے والے اسی ادارے کے تحت انہوں نے دو ماہنامے جاری کیے ۔ بڑوں کے لیے ماہنامہ بتول اور بچوں کے لیے ماہنامہ نور۔ ان ماہناموں کے لیے ہم خیال اور ہم ذوق خواتین سے تحاریر لکھوائیں اور ہر لحاظ سے ان کو معیاری جریدے بنایا۔یہ کام رضا کارانہ انداز میں شروع ہؤااور ایک ٹرسٹ کی شکل میں آج بھی علم وادب کے چراغ جلانے میں مصروفِ عمل ہے ۔ اس کی شائع شدہ کئی کتابوں کو صدارتی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ بتول کا مزاج علمی اور ادبی ہےاوریہ زندگی بخش ادب کا علمبردار ہے جس کے ذریعے معاشرے میں مثبت قدروں کو فروغ ملے ۔ یہاں انہوں نے بتول کے سر ورق پر شائع ہونے والے شعر کی بھی وضاحت کی ۔
آن لائن کتابوں کے بڑھتے رحجان پر سوال ہؤا۔ مدیرہ بتول کا کہنا تھا کہ آج کتاب کی گھٹتی اشاعت اور قاری کی کتاب سے دوری نے ناشران کو خسارے سے دو چار کر دیا ہے ۔ آج کا دور ’’ ای کتاب‘‘ کا ہے لہٰذا بدلتے وقت کے چیلنجزسے نبرد آزما ہونے کے طریقے ہمیں ڈھونڈتے رہنا چاہیے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے بتول کو ویب سائٹ پر جاری کیاہے ،ساتھ ہی آن لائن بک اسٹور کا بھی آغاز کیا گیا ہے جو ان شاء اللہ جلد کام شروع کردے گا۔
اپنی تحریر کو پرکھنا ، اس کے معیار کا تعین اور اپنی تحریر کو خود مسترد کرنا، ساتھ یہ بھی جانچنا کہ آپ کی تحریر کا معیار کس درجے پر ہے اس سلسلے میں مدیرہ بتول نے بڑی پر اثر گفتگو کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی تحریر کو حرف آخر نہ سمجھیں بلکہ اس کو نکھارنے کی مسلسل کوشش کریں تاکہ معیار بہتر ہوتا رہے۔کسی نے سوال کیا کہ اپنی کتاب شائع کرنے کے بارے میں قلم کاروں کو کیا مشورہ دیں گی ،تو بھی ان کا جواب یہی تھا کہ ہر قلم کار کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ صاحب کتاب بھی ہو لیکن لکھاری کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی تحریر کے معیار کو پہلے خود پرکھے ، یہ اس کو اپنی کتاب شائع کرنے کے صحیح وقت کا تعین کرنے میں مدد دے گا ۔ پھر اس عنصر کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ کتاب کی اشاعت کے بعد اس کارسپانس
مارکیٹ اورقاری پر کیا ہوگا، قاری دوسرے ادیبوں کے مقابلے میں مجھے کہا ں جگہ دے گا ۔لہٰذا جذباتیت کی بجائے حقیقت پسندانہ فیصلہ کیا جائے تاکہ کتاب کو قارئین بھی میسر آئیں۔
شاعرہ اور مصنفہ محترمہ روبینہ فرید بھی نشست میں موجود تھیں انہوں نے بھی تحریر اور کتاب کی اشاعت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنی تحریر کا سب سے اچھا محاسب خود قلم کار ہوتا ہے ۔ بہت سی کتابیں ، دکانوں پر رکھی صرف ضائع ہو رہی ہیں ۔ اپنی تحریر کا خود تجزیہ کریں ۔ نئی نسل کی رہنمائی اور انہیں آگے بڑھنے اور لکھنے میں سہولت کے لیے نئے لکھاریوں کی کتابیں ضرور آئیں لیکن ساتھ معیار کو بھی نظر انداز نہ کریں۔
حاضرین محفل جو سبھی ادبی ذوق رکھنے والی خواتین تھیں مکمل یکسوئی اور دلچسپی سے گفتگو سننے میں محو تھیں ۔ مدیرہ بتول اور ثمرین کے دلچسپ جملوں اور وقفے وقفے سے ہونے والی نوک جھوک سے لبوں پر مسکراہٹیں بھی بکھرتی رہیں ۔
مدیرہ بتول اور محترمہ روبینہ فرید کی تحریر ،قلم کار ، قاری اور کتاب کی اشاعت سے متعلق گفتگو نے جہاں ایک قلم کا ر کو اپنی کتاب سے متعلق دانشمندانہ فیصلہ کرنے پر ابھارا، وہیں بہت سی لکھاری بہنوں( جن میں ہم بھی شامل تھے )کی کتاب شائع کرنے کی خواہش کا ( انجانے میں) خون کر ڈالا اور ہم نے بھی دل ہی دل میں ایک دفعہ پھر صاحب کتاب ہونے کی اپنی خواہش پر فاتحہ پڑھ ڈالی ۔ در حقیقت یہ اقدام واقعی بڑا حوصلہ طلب ہے۔ بہت سے لکھاری جذباتیت میں اپنی کتاب چھپوا تو لیتے ہیں لیکن پھر واقعی ہم نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے انہیں ان کتابوں کو لوگوں میں مفت بانٹتے بھی دیکھا ہے ( شاید اسی طرح وہ اپنا پہلا ایڈیشن ختم کرتے ہوں!)۔بہر حال یہ سب تو ازراہ تفنن تھا لیکن محترمہ صائمہ اسمانے ہمیں سچ مچ آئینہ دکھا یا تھا ۔
بتول کے لیے موصول ہونے والی تحاریر کے معیار سے متعلق ثمرین کے سوال کے جواب میں صائمہ کہہ رہی تھیں کہ اپنے قلمکار کی رہنمائی کو میں ہمیشہ فوقیت دیتی ہوں ۔ لکھاری اپنی تحریر کے متعلق جب مجھ سے سوال کرتے ہیں تو تحریر کے معیار کو جانچتے ہوئے میں انہیں ان کی تحریر کی خوبیوں ، خامیوں سے آگاہ کرتی ہوں۔ اس طرح ہمیں بہت سے اچھے قلمکار میسر آئے ہیں ۔افسانہ اور کہانی کے فرق کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا، دونوں میں بنیادی پلاٹ اور کردار کی یکساں اہمیت ہے البتہ افسانہ ، بات کو بالواسطہ کہنے کا نام ہے جو پر اثر ہو اور جس کا انجام قاری کی سمجھ پر منحصر ہو۔ افسانہ ذہین قاری کے لیے لکھا جاتا ہے اور اس میں بات گہری اور تہہ دار کی جاتی ہے بیشک پڑھنے میں سادہ ہی لگے۔کہانی ، افسانے کے مقابلے طویل ہوتی ہے اور بات کو کھول کر بیان کرتی ہے۔کہانی ہو یا افسانہ، دونوں کو موثر ہونا چاہیے جس کے لیے قلمکار کو اپنے خیال پر محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔ پلاٹ کو فکری گہرائی دیں اور اپنے تخیل کی طاقت کے بل پر کردار، سچویشن اور مکالمے تحریر کریں، جلدی میں ختم نہ کریں بلکہ پوری توجہ لگا کر محنت سے مکمل کریں،پھراپنے لکھے ہوئے کو غیر جانبدار قاری کی حیثیت سے پڑھیں، جب ہی افسانہ معیاری ہو گا ۔
یہاں نیّر کاشف کا ایک دلچسپ سوال تھا کہ بحیثیت مدیرہ ، کن تحریروں کو دیکھ کر آپ کے ظرف کا امتحان ہو رہا ہوتا ہے ؟ جواب میں مدیرہ بتول نے غالب کے شعر کوتحریف کرتے ہوئے سنایا تو اس نے تمام حاضرین کے لبوں کو مسکان دے دی ۔
بدل کر مدیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ قلم دیکھتے ہیں
افسانے اور شاعری کے فنی محاسن بیان کرنے کے بعد انہوں نے مطالعہ پر زور دیا کہ اچھی تحریر آپ کے قلم سے جب ہی نکلے گی جب مطالعہ بھرپور ہو۔ حاضرین کے مختلف سوالوں کے تسلی بخش جواب کے بعد حریم ادب کراچی کی نگران عشرت زاہد نے حریم ادب کراچی کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا۔ عشرت خود بھی ادیبہ و شاعرہ ہیں ۔ پچھلے سال وبائی صورتحال کے پیش نظر جب پروگرامات کا انعقاد ممکن نہ رہا تھا تو حریم ادب کراچی نے مختلف ایپس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے قلم کار بہنوں کے اندر ایک نئی جوت جگائی اور آن لائن ادبی نشستوں کا اہتمام کر
کے ایک نئی ریت ڈالی۔ان نشستوں میں بہنوں کی دلچسپی کا رنگا رنگ سامان مہیا ہؤا، شہر بھر سے حریم سے وابستہ بہنوں نے ذوق و شوق سے شرکت کی اورمسرت کا اظہار کیا ۔ حریم نے اپنے آن لائن گروپ بھی تشکیل دیے ہوئے ہیں جن میں شعرو شاعری پر اصلاح ، تبصرہ و تربیت کی سرگرمیاں ہوتی ہیں ، اور جن سے لکھاری بہنوں کو آگے بڑھنے میں مددملتی ہے ۔ عشرت بڑی تندہی اور کامیابی سے آن لائن گروپ چلا رہی ہیں ۔
کراچی حریم کی خوش قسمتی کہ آج یہاں بڑے قیمتی لوگ جمع ہو گئے تھے ۔ ہماری نشست میں حریم ادب کی سرپرست محترمہ اسما سفیر صاحبہ بھی موجود تھیں ۔انہوں نے بڑی محبت و خلوص سے مدیرہ بتول کو خوش آمدید کہا اور حریم ادب کراچی کی ٹیم کی کاوشوں کو سراہا کہ اتنے مختصروقت میں انہوں نے ایسی بھرپور نشست کا اہتمام کر ڈالا۔
جہاں ہم خیال اور ہم ذوق خواتین کی محفل سجی ہو وہاں کتاب سے شغف اور دلچسپی لازم و ملزوم ہے ۔ پھول ہوں اور اس کی معطر خوشبو نہ پھیلے ،ایسا ممکن نہیں۔ یہی ہماری آج کی اس نشست میں بھی ہؤا ۔ ہماری بہت معزز اور سینئر قلم کار محترمہ آسیہ بنت عبد اللہ صدیقی جو پچھلے پانچ عشرے اس دشت کی سیاحی میں گزار چکی ہیں ، قارئین کو اپنے تجربے اور مشاہدے کے تحفے کتب کی صورت میں دے چکی ہیں ہمارے ساتھ موجود تھیں ۔ ان کا ناول ’’ دل شکن ‘‘ کے عنوان سے شائع ہؤا پھر تین سال قبل افسانوں کا مجموعہ ’’ کرب آگہی‘‘ ہمارے ہاتھوں میں آچکا ہے۔ بچوں کا ایک ناول ’’گمنا م سپاہی‘‘ جو بچوں کے رسالہ میں سلسلہ وار شائع ہو کر قبولیت کی سند پا چکا ہے کتابی شکل میں دستیاب ہے ۔ حسب معمول اس ناول میں بھی وہی دل سوزی اور کرب نمایاں ہے جو آسیہ صدیقی صاحبہ کی تحریر کا خاصّہ ہے ۔چونکہ ان کے اس ناول پر تبصرہ کی ذمہ داری راقمہ کو سونپی گئی تھی لہٰذا راقمہ نے حاضرین محفل کو کتاب کا مختصر تعارف دیا جس کے بعد بہنوں نے کتاب کے حصول میں کوتاہی نہ برتی اور اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
آسیہ آپا نے بھی بہنوں کا شکریہ ادا کیا اور پھر وقت تھا اس کتاب کی رونمائی کا جو مدیرہ بتول محترمہ صائمہ اسما اور محترمہ اسما سفیر کے ہاتھوں انجام پائی۔ مہکتے گلابوں کے درمیان آپا کی کتاب بھی مہک رہی تھی۔ سوشل میڈیا کی نگران شبانہ نعیم بھی لیپ ٹاپ سنبھالے خوبصورت سلائڈز کے ذریعے مہمانوں کے تعارف کی ذمہ داری نبھا رہی تھیں۔
نشست میں ہماری سینئر ، جونیئر قلم کار بھی تھیں جن میں نیّر کاشف ، فریحہ مبارک ، جسارت اخبار کی فائزہ مشتاق ، حمیرا فرید ، شاعرہ اسما صدیقہ ، آمنہ رومیصا زاہدی ، شہلا خضر اور دیگر لکھاری بہنیں بھی شامل تھیں ۔ حریم ادب کی ٹیم نے معزز مہمانوں کے لیے لذت کا م و دہن کا انتظام بھی کر رکھا تھا ۔ دعا کے ساتھ ہماری محفل اختتام کو پہنچی ۔
٭…٭…٭