حقیقی اخلاق اور مصنوعی اخلاق میں زمین آسمان کا فرق ہے، رویے باطن کے گواہ ہوتے ہیں اور اصل اخلاق وہ ہے جو رویوں میں سامنے آتاہے
حسن خلق کیا ہے ؟ اور یہ باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے کیوں اہم ہے۔ آئیے احادیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں ۔
حسن اخلاق افضل مومن کی نشانی ہے: رسول اللہ _ﷺنے فرمایا ’’مومنوں میں افضل ترین مومن وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے‘‘ (صحیح الجامع)۔
حسن اخلاق کامل ترین مومن کی نشانی ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’مومنوں میں ایمانی اعتبار سے اکمل وہ ہیں جن کا اخلاق اچھا ہے‘ جو اپنے پہلوؤں کو لوگوںکے لیے جھکانے والے ہیں اور لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ اس آدمی میں بھلائی نام کی کوئی چیز نہیں جو نہ لوگوں سے محبت کرتا ہے اور نہ ہی لوگ اس سے مانوس ہوتے ہیں‘‘ (صحیح الجامع)۔
حسن اخلاق والا روزے دار اور تہجد گزار کے اجر کا ہم پلہ ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’انسان اپنے اچھے اخلاق کے سبب رات کا قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کے درجات کو حاصل کرلیتا ہے‘‘ (صحیح الجامع)۔
حسن اخلاق محبت الٰہی کی دلیل ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو تمام بندوں سے محبوب ترین بندہ وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے‘‘ (صحیح الجامع)۔
حسن اخلاق شادی کا بہترین معیار ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جب تمہارے پاس ایسا آدمی آ جائے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس کی شادی کردو (یعنی اپنی بیٹی کا نکاح دے دو) وگرنہ زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو جائے گا‘‘ (صحیح الجامع)
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’بے شک لوگ حسن اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں دیے گئے‘‘ (صحیح الجامع)۔
حسن اخلاق نامہ اعمال میں سب سے بھاری چیز ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’ترازو میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ بھاری ہوگی تو وہ حسن اخلاق ہے‘‘ (صحیح الجامع)۔
حسن اخلاق قیامت کے دن قرب نبویؐ کا سبب ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’قیامت کے روز تم میں سے مجلس کے اعتبار سے میرے قریب وہ ہوگا جس کا اخلاق بہتر ہوگا‘‘ (صحیح الجامع)
حسن اخلاق اعلیٰ جنت کا باعث ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’میں اس آدمی کو جنت کے کنارے (چبوترے) میں گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے جھگڑوں کو چھوڑ دیتا ہے اور جنت کے درمیان میں گھر کا ضامن ہوں جو اپنے مزاح میں بھی جھوٹ کو چھوڑ دیتا ہے اور جنت کے اعلیٰ مقام میں گھر کا ضامن ہوں جس کا اخلاق اچھا ہے‘‘ (صحیح الجامع)
گویا دینِ اسلام ، دین فطرت ہے ، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مابین محبت و الفت پیدا کرنےکے لیے کچھ اخلاقی قوانین مقرر کردیے ، کچھ اخلاقی صفات کو پسندیدہ ٹھہرایا ،کچھ اخلاقی امراض مثلا ًحسد، نفرت اور بغض کی قباحت بیان کردی ، حقیقی اخلاق اور مصنوعی اخلاق کا فرق واضح کردیا، بلاشبہ یہ اخلاقی صفات ہی تھیں جنہوں نے منافقین اورمومنین کی مجالس میں فرق نمایاں فرق کیا۔
معاشرتی اصلاح کے لیے نہایت اہم اخلاقی نکات ہمیں سورہ حجرات میں بھی ملتے ہیں ۔ نام لے کر ان اخلاقی قباحتوں سے بچنے کا حکم دے دیا گیا، گویا اللہ تعالیٰ نے خود تربیت کے ذریعے مسلمانوں کا مزاج ایسا بنا دینا چاہا کہ باہمی تعلقات میں مضبوطی آئے ،تا کہ نشان زدہ اخلاقی قباحتوں میں پڑ کر معاشرے میں افراتفری،عدم اعتماد اور انتشار کو جگہ بنانے کا موقع نہ ملے۔فرمایا گیا۔ باہمی تعلقات کے تزکیے کے لیے درج ذیل احکام عطیہ کیے گئے تاکہ انسان ان خرافات کا شکار ہو کر اپنے اخلاق کو آلودہ نہ کریں اور پاکیزہ اخلاق فروغ پا سکیں۔
’’ لا یسخر قوم ‘‘کی آیت میں فرمایا کہ آپس میں ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاؤ،مرد وعورت ہر دو کی محفلیں اس خرافات سے پاک ہونی چاہییں، بے شک مذاق کسی کو حقیر اور کمتر جان کر اڑایا جاتا ہے اور اپنی برتر حیثیت کا احساس دلایا جاتا ہے، یوں بھی ٹھٹھہ اڑانا مسلمانوں کا شیوہ نہیں کیونکہ یہ رویہ احساس کمتری کو فروغ دینے کا سبب بنتا ہے اور غصہ و بغض کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔
و لا تلمزو انفسکم کہہ کر عیب جوئی ، نکتہ چینی ،ایک دوسرے کی خامیوں کے پیچھے پڑنے سے منع کر دیا گیا۔
پھر ارشاد ہوتا ہے، و لا تنابزو بالقاب یعنی ایک دوسرے کو برے القاب سے مت پکارو، کیونکہ عموماً یہ رویہ تحقیر کی کم یا زیادہ آمیزش لیے ہوتا ہے اور انسان تو بہت قابل تکریم ہستی ہے، اللہ کے نزدیک تو برے القاب سے بلانے والا زیادہ محترم نہیں ہے ، تقویٰ کا معیار تو اللہ پاک نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ تقویٰ والے برتر ہیں۔ علماء ان القاب سے پکارنے کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں جو معاشرے میں کسی فرد کی پہچان بن گئے ہوں اور ان کا مقصد حقارت اور مذاق اڑانا نہیں ہوتا بلکہ نشاندہی کرنا مقصود ہوتا ہے۔
اسی طرح حسن ظن کی عادت کو فروغ دینے کے لیے برے گمانوں سے بچنے کا حکم دے دیا گیا ، تجسس سے منع کر دیا گیا کہ خامیوں سے مبرا کوئی انسان نہیں ہے ، پھر دوسروں کی کمزوریوں کو تلاش تلاش کر نمایاں کیوں کیا جائے، ظاہری بات ہے یہ عمل باہمی تعلقات کی کمزوری کا ہی سبب بنے گا۔
اسی طرح غیبت سے منع کر دیا گیا کہ یہ تکریم انسانیت کے منافی عمل ہے، ہتک عزت اتنا شدید جرم ہے کہ اسے مردار کھانے سے تشبیہہ دی گئی۔
اسلام میں اچھائی کا معیار حُسن خُلق قرار دیا گیا، یہاں تک کہ زبان کی ضمانت پر جنت کی گارنٹی دی گئی ، حسن خلق اورتھوڑی عبادت کو پسند کیا جبکہ وافر نیک اعمال لیکن بُرے اسلوب کی مذمت کی۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایک منظم سازش کے تحت حُسن خلق کا لبادہ اوڑھے رسومات اور طرزِعمل اسلامی معاشرے کےلیے نقصان کا باعث بن رہی ہے ،حق بات کہنے والا بے جا شرم و لحاظ میں مبتلا ہے جبکہ مصنوعی حسن خلق جھوٹ کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کا ایمان متزلزل کررہی ہے۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حقیقی اخلاق اور باہمی تعلقات کی اہمیت کو سمجھا جائے تاکہ’’بنیانٌ مرصوص‘‘بن کر باطل پر حق کی چوٹ لگائی جائے۔اسی ضمن میں پہلے ہم مصنوعی اخلاق کا پردہ چاک کرنے کے لیے کچھ رہنما اصول سمجھیں گے اور پھر ان کو اپناتے ہوئے باہمی تعلقات میں ان کی اہمیت کودیکھیں گے۔
عموماًجب ہم کسی شخص فرد یا کسی گروہ کے بارے میں تبصرہ ، رائے( تنقید یا توصیف )بیان کرتے ہیں تو ہمیں کچھ اصول و ضوابط اپنانے پڑتے ہیں ۔ایک سرسری جائزےیا بظاہر کسی رویے پر قائم کیے گئے نتیجے میں کیاجانے والا تبصرہ، نا صرف معاشرتی بلکہ اسلامی اعتبار سے بھی بگاڑ کا باعث بنتاہے۔اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ عام طورپرہم شخصی اور گروہی نظریات یا اعمال کے متعلق وقتی طور پر کوئی رائےقائم کرتے ہیں ، جوکہ اس شخص یا گروہ کو پرکھنے کا معیار بن جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے،کیونکہ ایک ہی شخص ، مختلف اوقات میں کسی نظریہ کو مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس وقت جب ہم کسی کے متعلق کوئی رائےقائم کر رہے ہو تب وہ کسی اضطراری کیفیت میں ہو ۔اسی وجہ سے اسلام کے رہنما اصولوں کے مطابق تقویٰ اور پرہیز گاری ہی اصل پیمانہ ہے ۔ حقیقت ہے کہ ایک ہی معاملےمیں ایک ہی شخص کو مختلف پہلوؤں سے جانچا جا سکتا ہے ، معاشرتی المیہ یہ ہے کہ ایسی سوچ اور وقتی جذبات پر قائم کی گئی رائےکو لوگوں کا کردار ظاہر کرنا ہے۔ ایسے میں اخلاقی اعتبار سے لوگوں میں فرق کرنا ہی دراصل’’مردم شناسی‘‘ ہے ۔
کسی شخص کے اخلاق و آداب کا اعتراف اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم نے اسے معاملات ، لین دین یا دوران ِسفر متقی نہ پایا ہو۔ لہٰذا ہر دل موہ لینے والے، رمز ِگفتگو سے آشنا انسان یا عبادت گزار انسان کی توصیف میں رطب اللسان ہو جانا درست طرزِ عمل نہیں۔بالکل اسی طرح مخصوص عوامل میں ظاہری سراپےسے متاثر ہوکر کیا جانے والا تبصرہ عموماً سطحی ثابت ہوتا ہے اور اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتا کیونکہ اخلاق تو اس مستقل رویے اور طرز عمل کا نام ہے جو عملی طور پر زندگیوں پر ظاہر ہو، گویا اخلاق اور حسن معاشرت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔لہٰذا حقیقی اخلاق اور مصنوعی اخلاق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اخلاق کی بہترین اور معتبر سند قریبی لوگ ہوتے ہیں بشرطیکہ ان کی گواہی بلاتعصب ہو ورنہ جذبات میں گُندھی ،عصبیت زدہ گواہی عموماً معتبر نہیں ہوتی، نبی مہربان ؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں میں تم سب سے بہتر ہوں‘‘ ۔دہرے معیار، بناوٹی رویوں کی اصلاح کرتے ہوئے اور جذبہء اخوت و محبت کو فروغ دیتے ہوئے حضور اکرم ؐنے فرمایا ’’قسم ہے اس ذات ِبابرکت کی کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیےبھی وہی کچھ نہیں پسند نہ کرےجو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔
آپؐ نے اخلاق کا معیار طے کرتے ہوئے فرمایا’’ تین چیزیں مومنانہ اخلاق میں سے ہیں ایک یہ کہ جب کسی شخص کو غصہ آئے تو اس کا غصہ اس سے ناجائز کام نہ کروائے، دوسری یہ کہ جب وہ خوش ہو تو اس کی خوشی اسے حق کے دائرے سے باہر نہ نکالے اور تیسری یہ کہ قدرت رکھنے کے باوجود دوسرے کی چیز نہ ہتھیالے، جس کے لینے کا اسے حق نہیں ہے‘‘۔(مشکوٰۃ)
دین ِاسلام تو ایسے کام جو بظاہر ہماری سوسائٹی کا لازمی جزو بن چکے اور سوشل او ر الیکٹرانک میڈیا کی زینت بن چکے،بد وضع اشکال کے ساتھ لوگوں کی نقلیں اتارنا، ڈمی (پُتلے) بنانا،ایسے گھٹیا مزاح کہ جس سے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچےاورفردِواحد کی تضحیک ہواس بارے میں ہمیں یہ تعلیمات دیتا ہے کہ آنحضور ؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’ میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا چاہے اس کے بدلے میں مجھے بہت سی دولت ملے‘‘(ترمذی،مشکوٰۃ)، جبکہ ہماری محفلوں میں اسے’’ہلکی پھلکی سرگرمی‘‘ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ حسن معاشرت اور باہمی تعلقات میں رخنہ ڈالنے والے اخلاقی ا مراض کی نشاندہی کرتے ہوئے نبی ؐنے فرمایا’’ تُو اپنے بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار نہ کر ، ورنہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے گا(اوراُس پر سےمصیبت ہٹا دے گا) اور تجھےاس مصیبت میں مبتلا کردے گا‘‘۔
گویا یہ عمل اسلامی ذہنیت کے اُلٹ ہے کہ کوئی مومن اپنے بھائی کی مصیبت پر خوش ہو اگرچہ دونو ں کے مابین نزاعی صورتحال ہو۔اسی طرح بعض لوگ بظاہرمحبت کا اظہار کرتے ہیں، تعلق جتاتے ہیں لیکن غیر موجودگی میں اس کے خلاف باتیں کرنا شروع کردیتے ہیں ،یہ بات عورتوں سے منسوب کی جاتی ہے لیکن آج کل مرد حضرات بھی اسی مرض کا شکار ہیں، حالانکہ آپؐ نے فرمایا’’تم قیامت کے دن بدترین آدمی اس شخص کو پاؤگے جو دنیا میں دو چہرے رکھتا تھا کچھ لوگوں سے ایک چہرے کے ساتھ ملتا ہے اور دوسرے لوگوں سے دوسرے چہرے کے ساتھ‘‘۔(متفق علیہ)
باہمی تعلقات کے فروغ میں عفو و درگزر کا رویہ بہت سی آسانیوں کا سبب بنتا ہے،حدیث کا مفہوم ہے کہ’’حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا، اے میرے رب ! آپ کےنزدیک آپ کے بندوں میں کون سب سے پیارا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا، وہ جو انتقامی کاروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے‘‘(مشکوٰۃ) ۔سرچشمہ ِمحبت کاانسانوں میں باہمی محبت کا گُر بتاتے ہیں کہ’’تم لوگ مومن نہیں بن سکتے جب تک باہم محبت نہیں کرتے، کیا میں تمہیں وہ تدبیر نہ بتاؤں کہ جسے اگر تم اپناؤتو آپس میں محبت کرنے لگو؟فرمایا کہ آپس میں سلام کو پھیلاؤ‘‘ (مُسلم) ۔ بلاشبہ اگر لوگ اس کلمے کی روح سے واقف ہوجائیں تو محبت کے فروغ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
بر سبیل تذکرہ ، واٹس ایپ پر’اخلاق ہماری پہچان‘ کا سبق سکھاتی ایک پوسٹ نگاہوں سے گزری ، ماخذ تو معلوم نہیں لیکن سبق آموز ضرور ہے۔
ایک استاد نے اپنے شاگردوں کے سامنے دو گلاس رکھے،ایک کانچ اور دوسرا مٹی کا۔پوچھا،کونسا بہتر ہے؟ تمام نے کانچ کے خوبصورت گلاس کو سراہا ،استاد نے اگلے مرحلے کی طرف آتے ہوئے کانچ کے گلاس میں چند ٹھیکرے اور مٹی والے میں پانی بھر دیا اور پوچھا کہ کون سے گلاس سے اپنی پیاس بجھانا پسند کریں گے ۔تمام نے مٹی کا گلاس پسند کیا ۔گویا دلکش مسکراہٹیں اور میٹھے بول اخلاق کی پہچان نہیں کرواتے بلکہ آپ کا کردار، برتاؤ،رویے آپ کے اخلاق کی پہچان اور باطن کے گواہ ہوتے ہیں، لہٰذا اخلاق کے باطن کو ضرور دیکھا کیجئے کیونکہ بلنداخلاق ہی مومن کا زیور ہیں۔
سب سے بہتر ہونے کی سند نبی مہرباں نے اسے دی جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں، سچا مسلمان تو جھگڑالو ہوتا ہی نہیں ۔بلکہ جب کوئی طنز کرے،طعنوں سے پریشان کرے، دوسروں کی نگاہوں میں امیج خراب کرنے کی کوشش کرے،محاذ بنا کر رکھے،خوامخواہ معاملات کا ایشو بنائے،شخصی یا غیر شخصی،لا شعوری غلطیوں کا بتنگڑ بنائے،وہ نرمی،صلح جوئی، خاموشی،درگزر،بردباری وتحمل سے اس مخالفانہ ماحول کا مقابلہ کرتا ہے، کبھی تو جہالت ونادانی کو نظر انداز کر کے،کبھی خاموش رہ کر تو کبھی نرمی سے اپنی پوزیشن کلیئر کر کے،کبھی تحمل و بردباری کے اسوہ نبویؐ پر عمل پیرا ہو کر تو کبھی در گزر کر کے ۔یوں صلح جو طبیعت کی بناپر مسائل کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔
لیکن جب حالات کسی شخص کے خلاف اتنے ناسازگار کر دیے جائیں کہ اپنا دم گھٹتا محسوس ہو ،ماحول کی کڑواہٹ حلق سے نہ اتر پائے،مسائل کو سلجھانے میں ، باوجود اخلاق عالیہ پر کاربند ہونے کے کامیاب نہ ہو رہے ہوں اور زہریلے لب و لہجے اور تند فضا آپ کا جینا محال کر دے تو خدا سے ایسے ماحول کے اپنے لیے سازگار بنانے کی التجا کیجئے، استقامت کے ساتھ اس وقت کا انتظار کیجئے جب وقتی مسائل گزر جائیں اور آپ کے حصے کا اطمینان وسکون اور راحت و خوشیاں آپ کی بے قرار روح کو طمانیت بخشے۔
اخلاقی زوال کی انتہا ہے کہ لوگوں کی کمزوریوں اور سادگی یا حماقت کو آپ سبب تذلیل بنا لیں،افراد کے درمیان ناچاقیاں پیدا کرنے کا محرک بن جائیں،بھولیے نہیں کہ تکبر آپ کو لوگوں کو حقیر جان کر معاملات کرنے پر اکساتا ہے اور تکبر احساس ملکیت(حسن ،مال،نسب، دین ) کے زعم کی انتہا کا نام ہی نہیں،بلکہ یہ ایک قلبی مرض ہے،خود پسندی جس کی خوراک ہے، لہٰذا یہ بلا تفریق امرا وغربا ،لاحق ہو جایا کرتا ہے،اس لیےدلوں کا تزکیہ کرتے رہنا بہت ضروری ہےتا کہ اخلاقی زوال کی اس انتہا پر پہنچنے سے بچ جائیں جب جھکے سر،شرمندہ چہرے آپ کی قلبی خوشی کا سامان بن جائیں۔
ان حالات میں جب کہ اخلاقی اقدار کو پس پشت رکھتے ہوئے نفس کی پوجا کی جارہی ہو ان لوگو ں کے ساتھ کو غنیمت سمجھیے جو حسن معاشرت کے تقاضوں کو بخوبی جانتے ہوں ، جو خاندانوں کو جوڑے رکھنے کا بہت ساجذبہ ایثار رکھتے ہوں کیونکہ بہر حال اچھائی کی راہ پر چلنے والا بھی انسانی جذبات و احساسات رکھتا ہے۔ اگر خوبیوں کی قدر نہ کی جائے ، شرافت کو کمزوری سمجھ کر دوسرے کے حقوق کا استحصال کیا جائے ،حتی ٰ کہ عداوت میں اپنے آپ کو اس حد تک گرا لیا جائے کہ زندگی کی راہ دوسروں کے لیے دشوارکردی جائے تومعاشرے کی خوبیاں آہستہ آہستہ دم توڑ دیتی ہے ۔ گھر بھار سو کالڈ گھریلو سیاست کے مرکز بن جاتے ہیں ۔ شیطانی قوتیں ایسی جگہوں پر بسیرا کرکے زندگیوں کو مزید اجیرن بنا دیتی ہیں ۔جن کا حل جعلی عاملوں کے پاس ڈھونڈا جاتاہے ۔
لہٰذا اپنے تعلق داروں کے اچھے افعال کو سراہنا شروع کردیجیےکہ مہلت ِعمل بہت کم ہے۔ ان کی صلاحیتوں کو نشانہ تنقید بنانے کی بجائے ،حوصلہ افزائی کی جائے جو صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے ۔بلاشبہ ہمارا مثبت ردعمل دوسروں کے مثبت جذبات کو سرگرم رکھتا ہے ، باہمی تعلقات میں مضبوطی آتی ہے۔ یوں حُسن معاشرت کے نتیجے میں بلند نصب العین کا حصول ممکن ہو گا جو اسلام کا خاصہ بھی ہے۔ اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔
٭ ٭ ٭