۲۰۲۱ بتول جونآرگینک - بتول جون ۲۰۲۱

آرگینک – بتول جون ۲۰۲۱

بظاہر وہ سمجھدار انسان تھا۔ملنسار اور خوش اخلاق بھی، مگر جیسے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمزوری اور کمی ضرور ہوتی ہے، مراد میں بھی تھی اور وہ تھی کارو باری سوجھ بوجھ اور فیصلہ سازی کی کمی۔
میرا اور اس کا یارانہ کافی پرانا تھا۔ ہم ایک ہی علاقے میں پروان چڑھے ،ایک ہی اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ کالج میں اس نے بزنس پڑھنے کا فیصلہ کیا اور میں انجینئرنگ کی طرف چلا گیا اور ہم دونوں اپنی اپنی فیلڈ میں تعلیم مکمل کر کے زندگی کے عملی مرحلے میں پہنچ گئے ۔ مراد شروع دن سے اپنا بزنس کرنا چاہتا تھا ،والد سے کچھ بحث مباحثہ کر کے کچھ سرمایہ بھی اسے مل گیا،جو سب اس نے امپورٹ ایکسپورٹ میں جھونک دیا مگر ایک دو سال ہی میں کرنسی کی قدر گرنے کے با عث آدھے سے زیادہ سرمایہ گنوا بیٹھا اورافسردہ رہنے لگا ۔
ماضی میں جب بھی اس پر اس قسم کی افسردگی کا دورہ پڑتا تھا تو میں ہی اسے واپس امید کی سیڑھی چڑھانے کی اپنی سی کوشش کرتا تھا ۔ اب بھی جب پہلے بزنس میں اسے بھا ری نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو میں نے اسے کئی مثالیں دیں کہ کیسے دنیا میں بڑی بڑی کمپنیاں ماضی میں غلط اور صحیح فیصلے کر کےپہلے نقصان اورپھربھاری منافع کما چکی ہیں۔
مراد بھی خود میری رائے کو بہت اہمیت دیتا تھا بلکہ جو بھی اسے اچھے مستقبل کی راہ پر ڈالتا، وہ پر امید ہو کر چل پڑ نے والا انسان تھا ۔ لیکن دوسری طرف میں خود کوئی بزنس کا ماہر تھا اورنہ ہی میں اسے ہاتھ پکڑ کر کسی ایسے بزنس کا راستہ بتا سکتا تھا جس میں جا کر وہ سو فیصد کامیاب ہو جائے ۔ یہ بات وہ بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ جو بھی فیصلہ یا جو بزنس اس نے شروع کرنا ہے، وہ اس نے خود ہی سوچنا ہے ۔
مگر اپنی طبیعت میں اضطراب اور بے چینی کے با عث وہ زیادہ تر ناکام ہو جایا کرتا تھا ۔
کچھ عرصے بعد پتہ چلا اس نے سٹاک ایکسچینج میں بچا کھچا سرمایہ لگایا مگر دو ہی ماہ میںاس کے شیئر زکی قدر میں تیس فیصد گراوٹ آ گئی اور اسے پھر نقصان کا منہ دیکھنا پڑا ۔
جب مجھے اس واقعے کا پتہ چلا تو میں نے پھر اسےتسلی دی کہ یہ سب نقصان فائدہ بزنس کا حصہ ہیں، وہ دل میلانہ کرے اور امید کا د امن نہ چھوڑے ۔
وہ بھلا مانس پھر پُر امید ہو کر کچھ نیا سوچنے لگا ۔اس بار اسے پراپرٹی میں انوسٹمنٹ کی سوجھی ۔ اس نے جیسے تیسے کچھ پیسے ادھر ا ُدھر سے ادھار پکڑے ،اپنا پشتینی مکان گروی رکھا اور قرض لے کر ایک مشہور ہائوسنگ سو سا ئٹی میں کچھ پلاٹ انتہائی سستے سمجھ کر خرید لیےکہ ایک سال میں منافع یقینا ًہو گا ۔ مگر حکومتی نئی ٹیکس پالیسیز کی وجہ سے پراپرٹی کی قیمتیں د ھڑ ا م سے نیچے گر گئیں اور اس کا اپنا سرمایہ اور ساتھ ہی ساتھ بینک سے قرض لیا ہؤا آدھے سے زیادہ سرمایہ بھی ا ڑ ن چھو ہو گیا ۔ یہ صدمہ اس کے اور اس کے خاندان کے لیے کسی زلزلے سے کم نہ تھا۔ اس کے والد کو دل کو دورہ پڑ گیا اور وہ سب تقریباً سڑک پر ہی آ گئے ۔
میں اپنی نوکری کی مصروفیات سے چھٹیاں لے کر پھر اس کے پاس پہنچا اور اسے دلاسہ دیا کہ کوئی اتنی بڑ ی قیامت بھی نہیں آ گئی ۔ اور وہ یہ بات یاد رکھے ،اس اکیلے کا ہی نقصان نہیں ہؤا بینک سمیت ہزاروں لوگ اس اپ سیٹ سے متاثر ہوئےہیں اور اسے مستقبل کا سوچنا چاہیے نہ کہ موجودہ نقصان پر آہ وبکامیں فضول وقت برباد کرنا چاہیے ۔
اسے میری یہ بات اور تسلی دل کو لگی اور اس نےاپنی زمینوں کو اونے پونے داموں بیچ کر کچھ سرمایہ اکٹھا کیا ۔ کچھ دن تو وہ کسی بھی نئے

کام میں ہاتھ ڈ النے سے ڈ رتا اور ہچکچا تا رہا مگر صرف بینک کی اقساط دینے سے وہ اس نقصان کا ازالہ نہیں کر سکتا تھا جو اسے ان گزشتہ دو کاروباروں میں ہؤا ۔اسے کسی بھی حال میں منافع کمانا ہے تا کہ وہ اس گرداب سے باہر نکل سکے، صرف یہی بات اسے معلوم تھی ۔
آخر کار اس نے ایک نئے بزنس پولٹری فارم کا انتخاب کیا اور تمام سرمایہ لگا کر تین مختلف جگہوں پر بڑے بڑے پولٹری فارم کھولے ۔ چند مہینوں میں ہی بزنس میںتھوڑی جان پڑ گئی اور سرمایہ منافع پیدا کرنے لگا ۔
اس بار جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو اس کا چہرہ بہت ہشاش بشاش تھااور وہ بہت پرُ امید دکھائی دیتا تھا ۔ مگر کسے خبر تھی یہ کامیابی بھی زیادہ دیر پا نہیںہوگی، مرغیوں میں سوائین فلو کی وباپھیلی جس کی وجہ سے اسے مجبوراً تمام مرغیوں کو تلف کرنا پڑا اور پولٹری فارمز پر تا لے لگ گئے ۔ اس کا تقریبا ًسب سرمایہ غرق ہو چکا تھا اور وہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا ۔
جب مجھے یہ خبر ملی کہ اس کی بر ی حالت دیکھ کر صدمے سے اس کے والد کا انتقال ہو گیا اور وہ خود بھی شدید ڈ پریشن میں جا چکا ہےتومیں فوراًاپنے کارخانے سے ایمرجنسی چھٹیاں لے کر ٹرین پر اس کے پاس ہسپتال پہنچا۔ مجھے دیکھ کر پہلی بار اس کے چہرے پر ایک نا مکمل مسکراہٹ نمو دار ہوئی اس کی والدہ نے کہا:
’’ بیٹا آج دو ہفتے بعد پہلی بار اس کا موڈ نارمل کے قریب لگ رہا ہے ورنہ کچھ بولتا تھا نہ کچھ شو ق سے کھا پی رہاتھا ۔ بیٹا تم ہی اسے سمجھا ئوزندگی بہت انمول تحفہ ہے، اسے کاروباری پریشانیوں کی وجہ سے دائو پر نہیں لگایا جا سکتا ۔ اسے یاد کرائو کہ اس کا ماضی اگر حال سے بہتر تھا تو یہ یقیناً پریشان ہو، اداس ہو لیکن اگر ماضی حال سے بد تر تھا تو اسے پریشان نہیں رہنا چاہیے ۔ تم ہی اسے سمجھاؤ بیٹا میں تو تھک چکی ہوں ۔ اس کے والد بھی جا چکے ،میں خود بھی کتنے دن رہوں گی کون جانتا ہے ۔ مجھ سے اس کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی بیٹا تم دوست ہو تم ہی اسے بتا سکتے ہو کہ زندگی کتنی بڑی نعمت ہے ‘‘۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگیں ۔
میں نے انہیں تسلی دی اور کہا :
’’آپ فکرنہ کریں ماں جی میں اسے جانتا ہوں ۔اندر سے یہ بہت زندہ دل اور پر امید انسان ہے۔ اوپر تلے غلط کاروباری فیصلوں نے اسے ایسا بنا دیا ہے ۔میں وعدہ کرتا ہوں اسے ٹھیک کر کے ہی یہاں سے جاؤں گا ۔ آپ پریشان نہ ہوں ‘‘۔ یہ کہہ کر میںمراد سے مخاطب ہؤا
’’ مراد مرے یار کیا حالت بنا لی تم نے اپنی! کچھ ہوش کے ناخن لو دوست ۔میری جان پیسوں کے چلے جانے سے زندگیاں ختم نہیں ہوتیں ۔ کیا ہؤا تم بینک کرپٹ ہو گئے تمہاری سب دولت لٹ گئی، وہ دولت تمہاری تھی بھی کب ؟ میرے دوست دولت کا پرندہ تو کبھی کسی کے سر پر کبھی کسی کے سر پر، کل تمھارے پاس تھی آج کسی اور کے پاس کل کہیں اور ۔ دولت کے لٹ جانے سے کوئی طوفان نہیں آتے ۔ زندگی لٹ جانے سے طوفان ضرور آتے ہیں دوست ۔ پریشان نہ ہومیرے یار کبھی نا کبھی تم بھی سرفراز ہو گے!تمھارے غم کو دیکھ کر انکل گزر گئے، آنٹی بھی پریشان ہیں، ان کی فکر کرو اگر تمہاری حالت دیکھ کر انہیں صدمے سے کچھ ہؤا تو تم اور پریشا ن ہو گے۔ بہتر یہی ہےکہ اس افسردگی سے باہر نکلو اور حالات کا مقابلہ کرو ۔ مجھے یقین ہے کوئی نہ کوئی بہتر راستہ نکل ہی آئےگا‘‘ ۔
میری باتیں سن کر مراد کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے ۔ اور یہی میں چاہتا تھا کہ وہ رو کر اس افسردگی کے فیز سے باہر نکلے جس فیز میں رہتے ہوئے اسے دو ہفتے سے زیادہ ہو چکا تھا ۔
آہستہ آہستہ میں اس کے موڈ کو معمول پر لے آیا اور اسے زندگی کی جانب دوبارہ لوٹا دیا۔ وہ اور اس کی ماں دونوںمیرے ساتھ میرے شہر چلے آئے جہاں انہوں نے ایک مکان کرا ئے پر لے لیا ۔
اس ا توار چھٹی پر جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو وہ کافی پرجوش دکھائی دے رہا تھا ۔ میں سمجھ گیا جب بھی وہ اس موڈ میں ہوتا ہے، اسے کوئی نیا بزنس آئیڈ یا سوجھا ہوتا ہے اور وہی ہؤا اس نے میرے سامنے ایک سٹور کھولنے کا ا ٓئیڈ یا رکھا اوراصرار کرنے لگاکہ میں اس کا پارٹنر بنوں گا تو وہ کوئی بزنس کرے گا ورنہ نہیں ۔ اس کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ بہت سوچنے کے بعد وہ اپنی اس خامی کو سمجھ چکا ہے کہ ہر انسان میں سب خصوصیات اکٹھی نہیں ہو سکتیں ۔ اس نے کہا کہ اس کے پاس اچھے آئیڈ یاز تو ہوتے ہیں مگر ان کو عملی جامہ پہنانے کی اہلیت اور ٹھہراؤ اور قوت فیصلہ کی

اس میں بے حد کمی ہے اور یہ خصوصیات اسے مجھ میں دکھائی دیتی ہیں ،اس لیے اگر میں اس کا ساتھ دوں تو کامیابی یقینی ملے گی۔ میں نے اس کا دل رکھنے کے لیے ہاں کر دی اور پوچھا اچھا بتاؤ کہ کیا آئیڈ یا ہے ؟
اس نے کہا’’ دیکھو شہر یار یہ شہر جس میں تم رہتے ہو، اس ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔یہاں بڑے بڑے مالز ہیں، بڑے بڑے بڑے پرچون کے سٹورز ہیں جہاں پلاسٹک کی پیکنگ کی بھرمار ہے۔ شو کیسوں میں پلاسٹک کی شیلفوں پر سجی ہر کھانے کی چیز کیمیکلز سے بھرپور پلاسٹک کے پیکٹس میں بند بکنے کے لیے پڑی ہے ۔ تیل سے لے کر صابن ٹوتھ پیسٹ سے لے کر شیمپو ۔ ڈبل روٹی سے لے کر ما رجرین مکھن سب کیمیکل سے بھرے پڑ ے ہیں ۔ اگر ہم ایک ایسی دوکان کھولیں جہاں ہر چیز سو فیصد آرگینک ہو تو شہر کے وہ لوگ جو کیمیکلزکے زہر سے پاک چیزیں خریدنا چاہتے ہیں، وہ یقینا ًضرور آئیں گے اور ہم ایسے صارفین کا انتخاب بن جائیں گے جو پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی جوس نہیں پینا چاہتے، جو تمام ایسی چیزیں جن میں مضر صحت کیمیکلزکی بھرمار ہے ،تیل سے لے کر ٹوتھ پیسٹ مجبوراً خریدتے ہیں کیونکہ ان کے پاس دوسری کوئی آپشن نہیں ۔ ہم اپنے سٹور میں چاول سےلے کر کھانے کی ہر چیز پلاسٹک میں پیک نہیں کریں گے ۔ پانی شیشے کے بند گلاس میں بیچیںگے ۔ سو فیصد اصل مکھن دودھ دہی دالیں اصل چاکلیٹ خشک میوے، صرف سمند ر یا دریا کی مچھلی، سبزیاں صرف ان کاشتکاروں کی جو کیمیکل سے پاک سبزیاں اگا تے ہیں ۔ انڈے صرف ان مرغیوں کے جنہیں کیمیکل سے پاک دانا کھلایا جاتا ہے۔ڈ بل روٹی صرف اصل گندم کے آٹے کی بنی بغیر کسی کیمیکل کے ۔ دوکان میں سے لوگ سبزی مسا لے خود اپنے ہاتھ سے خریدیں اور وہیں شیف کے حوالے کریں اور اپنی پسند کی ڈ ش بنوا کر وہیں ریسٹورانٹ میں کھانے کی یونیک سروس متعا رف کروائی جائے ۔ تازہ پھلوں کو خود خرید کر، خود یا سٹور کے سٹاف کی مدد سے تازہ جوس وہیں تیار کر کے نوش کرنے کی سروس پہلے بھی کچھ جگہوں پر میسر ہے ۔ مگر اصل مقصد یہ ہےکہ ایک چھت کے نیچے سو فیصد بغیر کیمیکلز کی خو راک جسے خریدنے والا اعتماد سے خرید سکے اور وہیں کھا بھی سکے ۔تاکہ لوگ اصل ذائقے سے روشناس ہو سکیں ۔ اور بازاری ناقص اجزا اور تیل میں بنے کھانوں کے ریسٹورنٹس اور نقلی اجزا اور فلیورز کے جوسز سے بچ سکیں‘‘ ۔
اب رہا سوال کہ یہ سب کچھ ہمیں مہیا کون کرے گا ؟ میرے اپنے خیال میں یہ کچھ ایسی نایاب اشیا بھی نہیں، صرف ان کو چن کر اپنی دوکان میں رکھنا ہے اور ان کی ترسیل کا ایک سسٹم بنا نا ہے جہاں کاشت کار اور تاجر ہمیں ہماری پسند کی چیزیں باقاعدگی سے مہیا کرتے رہیں ۔
میں مراد کی یہ سب باتیں غور سے سنتا رہا ،بظاہر مجھے یہ آئیڈ یا عجیب اور سمجھ میں نہ آنے والا نہیں لگا تھا مگر کاروبار سے متعلق میری معلومات واجبی سی تھیں ۔ہاں میں کاروبار کے ایک اہم اصول کو ضرور جانتا تھا کہ سرمایہ ہمیشہ صرف آدھا لگانا چاہیے ۔ خیر مراد کے کہنے پر میں نے اپنی جمع پونجی کا نصف اس کے ساتھ شیئر کیا اور ہمیں بینک نے کچھ لون میری ساکھ کی وجہ سے فراہم کر دیا اور ہم نے شہر کے پہلے آرگینک سٹور کم ریسٹورنٹ کا افتتاح کر دیا ۔شروع میں سیل بہت سست رہی کہ لوگوں کو وہ بازاری مضر صحت اشیا وہاں نہ مل پاتی تھیں جن کی ان کو کھانے کی عادت تھی۔ مگر آہستہ آہستہ ایک خاص طبقہ ہمارا کسٹمر بن گیا اور قسمت نے ساتھ دیا اور ایک معروف ٹی وی اینکر نے سٹور کو اپنے پرو گرام کا موضوع بنایا اور کچھ ہی دنوں میں دور دور سے لوگ ہمارے ہاں کھا نا کھانے اور خریداری کرنے آنے لگے ۔ ہم نے سات ماہ میں ہی شہر کے پوش ایریا میں ایک نئی شاخ کی ابتدا کی جو انتہائی کامیاب رہی ۔ تین ہی سال میں ہم نے آٹھ نئےآرگینک سٹورز کھولے جو پورے علاقے میں توجہ کا مرکز بن گئے ۔
مرا د اس کامیابی سے بہت خوش تھا ۔کل جب اس سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا مراد زندگی بھی بڑی کمال کی پٹڑی ہے یار، ا نسان اپنی کوتاہیوں کو بد بختی سمجھ کرپٹڑی سے بار بار اترتا ہے مگر زندگی بار بار انسان کو موقع دیتی ہے اور پھرسے پٹڑی پر چڑھا دیتی ہے ۔
مراد نے مسکراتے ہوے کہا ،ہاں شہر یار سچ کہا تم نے مگر زندگی کے ساتھ ساتھ دوستی بھی بڑی نعمت ہے ۔
ہم دونوں مسکرانے لگے سامنے سورج غروب ہو رہا تھا اور چاند دوسری طرف اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا ۔٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here