اسلام آفاقی دین ہے رب العٰلمین نے سیدناﷺ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا اور قرآن مجید فرقان حمیدھدی للعالمین ہے۔اس دین کا قرآن پاک اور اسوہ رسول صلعم کی تعلیم کا لب لباب یا خلاصہ انسانیت کی فلاح ہے اور اس فلاح کا بنیادی فلسفہ انسانیت کے لیے دعا اور نصیحت ہے۔ نصیحت کے بارے میں واضح ہے کہ’’ الدین النصیحہ‘‘ دین خیر خواہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ خیر خواہی زمین و آسمان کے درمیان موجود ہر شے کے ساتھ ہے۔
محبت کا پیمانہ ،تعلق کا درجہ جیسا ہوگا خیر خواہی اسی قدر اپنا رنگ دکھائے گی۔ دعا اور نصیحت کرنا وہ دلی خیر خواہی ہے جس کے نتیجے میں دنیا اور آخرت کی حسنات میسر آتی ہیں.لیکن قرآن نے’’ فزکر ان نفعت الزکریٰ‘‘ کی بھی تعلیم دی ہے۔گر کوئی نصیحت مشورہ رائے یا خیر خواہی کو قبول نہ کرے یا بے رخی بے توجہی اختیار کرے تو اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد اسے اس کے حال پہ چھوڑ دینے کی بھی تلقین ہے۔نصیحت اس کا حق ہے جو اس کی طلب رکھتا ہو۔ لیکن دعا کرنا ایسا عمل ہے جو کسی طور بھی چھوڑا نہیں جا سکتا، کوئی چاہے یا نہ چاہے پسند کرے یا نہ کرے درخواست کرے یا نہ کرے کسی سے راضی ہو یا ناراض پسند کرتا ہو یا نہ کرتا ہو،کسی کو خبر ہو یا نہ ہو کوئی دعا کرنے والے کی خیر خواہی پہ شک کرتا ہو ۔ دعا کی حاجت محسوس نہ کرتا ہو۔ان سب کے باوجود دعا کے عمل کو کسی حال میں چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔حتیٰ کہ دشمن اور ظالم کے لیے بھی دعا کرنا عبادت ہے۔جس کے لیے دعا کی جا رہی ہے وہ اس عظیم تحفے کے احساس سےغافل ہے ناقدری کرتا ہے تو بھی دعاگو دو قسم کے فائدے سے کبھی محروم نہیں ہوتا وہ یہ کہ دعا بجائے خود عبادت ہے اس میں الله کا حق بھی ادا ہوتا ہے اور بندوں کا بھی۔اور وہی دعا فرشتے کی’’ آمین ‘‘کے ساتھ دعاگو کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔دعا کرنے والے کو رب کا قرب نصیب رہتا ہے اسے اپنے جوتے کا ٹوٹا تسمہ مانگنا ہو یا دنیا کی بادشاہت، مانگنے کے لیے وہ صرف مالک الملک کے حضور ہی کھڑا ہوتا ہے تو رب کا پیارا ہو جاتا ہے اگر اسی وقت اپنے جیسے کسی اور ضرورت مند کی حاجت بھی پیش کرتا ہے تو الله رب العزت کو اور بھی پیارا لگتا ہے پھر وہ سوچتا ہے کہ جب مانگنا ہی ہے تو پوری امت مسلمہ کے لیے کیوں نہ مانگا جائے تاکہ اس رب العٰلمین کی نظر میں بہت زیادہ پیارا بن جایا جائے۔ ہر نماز کے بعد جمعۃ المبارک کی خاص گھڑی، رمضان المبارک اور اس کی طاق راتیں، عمرے اور حج کے موسم اور دعائے نیم شب میں اپنے حبیب حضورؐ کی پیاری امت کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا کرنا رسولؐ کو بہت بہت پسند آئے گا۔ اور حقیقت میں ساری امت مسلمہ کے لیے دعا کرنا اپنے درجات بلند کرنے، رب کو راضی کرنے کا اہم ذریعہ ہے اس کے بعد عمل خیر کے باقی دروازے بھی کشادہ ہوں گے۔
دنیا کے سارے کافر و مشرک اور ظالم بھی دعائے ہدایت کے حقدار ہیں کہ ’’مظلوم کی مدد کرو اور ظالم کی بھی‘‘ اور الله سبحانہ وتعالیٰ اپنی أشرف ا لمخلوق کے ہر فرد کو آگ سے بچانا چاہتا ہے جو الله کی اس چاہت کو پورا کرنے کی اپنی سی کوشش کرے گا خالق کا پسندیدہ ہو جائے گا۔
جو کلمہ حق سے محروم مرا اس کے لیے مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں اس لیے کہ ا س کا اب دنیا سے ناطہ ٹوٹ چکا ہےاور اب وہ اک نئے جہاں میں آباد ہے جہاں اس کا معاملہ انسانوں کے ساتھ نہیں رب العٰلمین کے ساتھ ہے۔ کلمہ حق قبول کرنے والا دنیا میں بھی دعا کا ہمیشہ حقدار رہتا ہے اور مرنے کے بعد یہ حق اور بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ اور کسی وقت یہ خیر خواہی کا تعلق ختم نہیں ہوتا۔دعا اور نصیحت وہ خیر خواہی ہے جس کا نعم البدل دنیا بھر کی ساری دولت بھی نہیں ہو سکتی۔جن سے ہمیں خوشی ملتی ہے ان کے لیے دعا گو رہنا عین فرض ہے۔جو ہمیں تکلیف دیتے ہیں ان کے لیے خیر کی دعا کرنا احسان ہے اور احسان نیکی کا اعلیٰ درجہ ہے۔
انسانی رشتے اور تعلق داریاں سدا ایک جیسی نہیں رہتیں بعض اوقات رشتے اس قدر دل آزاری کرتے ہیں کہ بھلائی کو پہچان ہی نہیں
انسانی رشتے اور تعلق داریاں سدا ایک جیسی نہیں رہتیں بعض اوقات رشتے اس قدر دل آزاری کرتے ہیں کہ بھلائی کو پہچان ہی نہیں پاتے نصیحت ان کو دشمنی لگتی ہے۔ایسی دلآزاری پہ حکمت کا تقاضا یہی لگتا ہے کہ انسان عافیت کی راہ اختیار کرے ،الله رب العزت نے ایسے ہی حالات کے بارے میں فرمایا کہ ’’ونزعنا ما فی صدورھم غل ‘‘اس قسم کے حالات میں خاموشی اور درگزر بہترین رویہ ہے۔ جب الله کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو تو اپنا معاملہ الله کے ہی سپرد کر دینا سکون کا باعث ہوتا ہے۔جب الله تعالیٰ کے سپرد معاملہ کر دیا تو پھر بندوں سے کیا توقع رکھنا۔سارے معاملات الله کی طرف رجوع ہونے ہی ہیں تو پھر وہ وقت قریب ہی ہے دور نہیں ہے۔ الله اپنی حکمت سے حقیقت حال واضح کردے گا اور کسی پہ ظلم نہ کرے گا۔ان حالات میں دعا ہی مومن کا ہتھیار ہے۔ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے دعا سے بڑھ کر کوئی خیر خواہی نہیں۔ وہ هدیہ ہے جس پہ کچھ خرچ نہیں آتا،کہیں جانا نہیں پڑتا علیحدہ سے وقت نہیں نکالنا پڑتا کسی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، کسی بدلے کی امید نہیں رکھنی پڑتی۔ بندے اور الله کے درمیان آپس کی راز دارانہ بات دعا ہےاور راز دارانہ آپس کی بات صرف خاص الخاص دوست سے ہی ممکن ہوتی ہے۔کسی پیارے کو سرپرائزہدیہ پہنچانے کے لیے قابل اعتماد علیم و خبیر اور با اختیار ہستی کی ضرورت پڑتی ہے۔ناراض ہو جانے والے تعلق داروں کو رازداری سے دل کا حال پہنچانے کے لیے رب کریم کی ذات سے بڑھ کر اور کون سی ہستی ہو سکتی ہے؟اور دل کی پکار دل تک پہنچانے پہ کون قادر ہو سکتا ہے سوائے اس ذات کے جوعلیم بذات الصدور ہے اور ساری مخلوق کے دل اس کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جب چاہے پلٹ دے۔ دلوں کے معاملے ایسی لاسلکی رابطے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے درمیان الله سبحانہ وتعالیٰ کے کارندے کام کرتے ہیں (وما یعلم جنود ربک الا هو) ۔ ہزاروں میل کی دوری سے بھی دلوں میں دعا کا ارتعاش محسوس کیا جا سکتا ہے۔
یا مقلب القلوب ثبت قلوب المؤمنين والمؤمنات علی طاعتک وألف بین قلوبھم و نزعنا ما فی صدورھم من غل فی الدنیا ولاخرہ۔آمین
ہر مسلمان پر ساری امت مسلمہ کے لیے دعا واجب ہے ہر فرد ساری امت مسلمہ کے ہر فرد کی ہدایت بھلا ئی اخروی نجات کے لیے ایسے ہی دعا کرے جیسے کہ اپنی اولاد کے لیے۔یہ ہمارے نبی محمد رسول اللہ ؐ کی سنت مطہر ہ ہے۔جس طرح محسن انسانیت نے سارے انسانوں کے لیے اور خصوصاً اپنی امت کے لیے تڑپ تڑپ کر دعائیں کی تھیں اسی تڑپ کی ہم سب کو ضرورت ہے۔ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں سب خطاکار ہیں جو دعا دوسرے کے لیے کی جائے غائبانہ کی جائے وہ زیادہ قابل قدر ہے اور دعا کرنے والے کے لیے مفید ہے آج کے پر آشوب دور میں آج ہی سے ہم سب اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ ہم اپنی دعاؤں میں امت مسلمہ کے لیے خاص حصہ رکھیں گے۔ اس طرح امت کا ہر فرد لاتعداد دعاوں کا حقدار ہو جائے گا۔ہم اپنے محبوب نبی اکرم محمد صل اللہ علیہ و سلم کی امت کی خبر خواہی کے لیے کچھ اور نہیں تو کم از کم دل سے دعا تو کر سکتے ہیں۔ جس طرح ماں کو وہ شخص اچھا لگتا ہے جو اس کی اولاد سے مخلص ہو اس کے لیے دعا کرے اسی طرح محمد رحمۃ للعالمین کو اپنی امت پیاری ہے۔الله کو اپنے سارے بندے( وہ مسلم ہیں یا غیر مسلم متقی ہیں یا گنہگار) عزیز ہیں .جو ان کے لیے بھلائی کرے گا الله اس کے ساتھ بھلا کرے گا۔سب سے بہترین بھلائی صراط مستقیم مل جانا ہے۔الله جس کی بھلائی چاہتا ہے اس کو دین کا فہم عطا کر دیتا ہے۔
تین بار ایک دعا کو دہرانا سنت مطہرہ ہے تو ہم نیت کریں کہ پہلی بار وہ دعا انفرادی کریں ،دوسری بار چھوٹی اجتماعیت یعنی گھر بار خاندان اور تیسری بار امت مسلمہ کے لیے…. رب اجعلنی مقیم الصلوتی ومن ذریتی ربنا و تقبل دعا ربنا اغفرلی ولوالدي وللمؤمنين یوم الحساب۔آمین
دعا کیجیے، دعا لیجیے دلوں کو جوڑنے کا اس سے بڑھ کر کوئی اور ’’سلوشن‘‘نہیں ہے۔الله کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے لیے مضبوط ہاتھوں سے پہلے مضبوط و مربوط دل درکار ہیں۔
اے رب کائنات آپ کی ساری رحمتوں کا واسطہ کہ آپ کی رحمت ہر شے پہ چھائی ہوئی ہے اپنے محبوب رحمۃ للعالمین کی امت کے ہر فرد کی مغفرت فرما دیجیے ہر اس فرد کی جو زندہ ہے یا وفات پاچکا ہے۔اے رب الرحمان امت مسلمہ کے ہر فرد کو اپنی محبت رسول کی اطاعت اور قرآن پاک سے عملی لگاؤ ، قلب سلیم اور اتفاق و اتحاد اور محبت عطا کر دیجئے۔اس کے نتیجے میں امت کو عزت اور سربلندی بھی عطا کیجیے جو آپ کا وعدہ ہے انک لا تخلف المیعاد۔ آمین٭