۲۰۲۳ بتول نومبراخوت - ڈاکٹر میمونہ حمزہ

اخوت – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

مؤمن تو آپس میں بھائی ہیں

 

اللہ تعالیٰ نے امت ِ مسلمہ کو ایک عالمگیر برادری بنایا ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو دنیا کے کسی اور یا مسلک کے ماننے والوں میں عنقا ہے۔یہ وہ عالمگیر برادری ہے جو شرق، غرب اور شمال جنوب کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں مضبوطی کے ساتھ جوڑ کر رکھتی ہے۔اور جماعتِ مسلمہ کے درمیان محبت، سلامتی، تعاون و اتحاد ہی باہمی تعلق کی بنیاد ہے۔
اور یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے تمام امت کو اخوت کے رشتے میں جوڑ دیا:
’’اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘۔ (آل عمران، ۱۹۳)
یہ اسلامی سوسائٹی کی بنیاد ہے۔ صرف اللہ نام پر برادری، اسلامی نظامِ زندگی کی رفاقت، اسلامی نظام ِ زندگی کے قیام کے لیے جدو جہد کرنے کی رفاقت! اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے بکثرت ارشادات میں بیان فرمایا ہے، جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آ سکتی ہے۔
اسلام سے پہلے پورا عرب ایک دوسرے کا دشمن تھا، بچہ بچہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کا دشمن تھا۔ ایک ایک خون کا بدلہ کئی کئی پشتوں تک چلتا تھا۔ اس طرح خاندانوں میں لڑائیوں کا ایک غیر منقطع سلسلہ جاری تھا اور ہر شخص اپنے آپ کو ہمیشہ خطروں میں گھرا ہؤا پاتا تھا اور اٹھتے بیٹھتے اورچلتے پھرتے ہر وقت یہ خوف رہتا تھا کہ کوئی حملہ نہ کر دے۔ آنحضرت ؐ تشریف لائے تو اپنے ساتھ ایک اور رشتہ لے کر آئے۔ اور وہ دین کا رشتہ تھا۔جس نے مدت کے بچھڑوں کو ملا دیا۔ دشمنی میں بھرے ہوئے لوگوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ آپؐ نے نصیحت کرتے ہوئے اس تعلق کو تازہ رکھنے کی نصیحت کی، اور امتِ مسلمہ کو حقیقت میں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔
حضرت جریر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے مجھ سے تین چیزوں پر بیعت لی تھی: ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا۔ دوسرے یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں گا۔ تیسرے یہ کہ ہر مسلمان کا خیرخواہ رہوں گا‘‘۔ (رواہ البخاری، کتاب الایمان)
مسلمانوں سے خیرخواہی ایساگہرا اور مضبوط تعلق ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا کا کوئی تعلق اور رابطہ اور رشتہ اس سے بڑھ کر نہیں۔ یہ رشتہ دنیا کی تمام عصبیتوں اور رنگ ونسل اور زبان کی بنیاد پر جمع ہونے والوں کی فکر پر تیشہ چلا دیتا ہے۔جیسا کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا نہ اس کا ساتھ چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے‘‘۔ (مسند احمد)
مسلمانوں کے اس باہمی میل ملاپ اور محبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل قرار دیاہے اور فرمایا کہ اگر کوئی روئے زمین کا سارا خزانہ بھی لٹا دیتا تو ان دشمنوں کو باہم ملا کر ایک نہیں کر سکتا تھا۔ ’’پس تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے‘‘۔ (آل عمران،۱۱)
مسلمانوں کا باہمی تعلق
حضرت سہلؓ بن سعدساعدی آپؐ کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں کہ ’’گروہِ اہل ِ ایمان کے ساتھ ایک مومن کا تعلق ویسا ہی ہے جیسے سر کے ساتھ جسم کاتعلق ہوتا ہے۔ وہ اہلِ ایمان کی ہر تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح سر جسم کے ہر حصّے کا درد محسوس کرتا ہے‘‘۔ (مسند احمد)
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’مومن مومن کا آئینہ ہے اور مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس کو بربادی سے بچاتا ہے اور پیچھے سے اس کی حفاظت کرتا ہے‘‘۔ (رواہ ابو داؤد،۴۹۱۸)
یعنی مسلمان مسلمان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے اور جس طرح اپنی تکلیف پر تڑپتا ہے اسی طرح دوسروں کی تکلیف پر بھی دکھ محسوس کرتا ہے۔اور اسے دور کرنے کے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔
حضور ؐ نے اسلامی معاشرے میں اعتدال اور توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ایسی ہی ہدایات دیں جس میں افرادِ معاشرہ ایک دوسرے کو خیر اور بھلائی پہنچانے کے لیے سرگرم رہیں اورنقصان پہنچانے سے باز رہیں۔ آپؐ نے فرمایا:
’’قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، کوئی شخص ایماندار نہیں ہو سکتاجب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔(رواہ مسلم،۴۵)
فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ جو مسلمان اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی چیز بیچے اور اس میں عیب ہو تو اس کو چاہیے کہ اس عیب کو صاف صاف بیان کر دے‘‘۔ (رواہ ابنِ ماجہ،۲۲۴۶)
’’اسلام میں مضرّت رسانی جائز نہیں ہے‘‘۔ (کتاب الخراج، ص۶۸)
فرمایا: ’’جو کسی دوسرے کو نقصان پہنچائے گا اس کو اللہ نقصان پہنچائے گا اور جو کسی دوسرے کو تکلیف دے گا اس کو اللہ تعالیٰ تکلیف دے گا‘‘۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے روایت کیا کہ حضور اکرمؓ نے فرمایا:
’’جو کسی مومن کو نقصان پہنچائے یا اس کو فریب دے اس پر لعنت ہے‘‘۔
ایک بار آپؐ نے فرمایا: ’’جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے کو بھی ہمراہ لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچویں کو ساتھ لے جائے‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: ’’بندہ جب تک اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘۔
’’اور جو تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پناہ چاہے اسے پناہ دو اور جو تم سے اللہ کا واسطہ دے کر سوال کرے اسے دو‘‘۔
ان سب احادیث سے مقصود یہی ہے کہ امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے اور اس کے سارے افراد اس کے اعضا ہیں۔جو ہر راحت اور تکلیف میں برابر شریک ہیں۔
باہمی مضبوطی کا ذریعہ
ایک تمثیل کے ذریعے آپؐ نے ارشاد فرمایا: مؤمن مؤمن کے لیے عمارت کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔ (پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میںپیوست کر کے بتایا) (رواہ البخاری،۶۰۲۶)
حدیث میں بتایا کہ مسلمانوں کو کس طرح باہم پیوستہ رہنا چاہیے؟ اور عمارت کی اینٹوں کی مانند ایک دوسرے کی تقویت کا ذریعہ بننا چاہیے۔اور جس طرح بکھری ہوئی اینٹیں مجتمع ہو کر مضبوط عمارت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اسی طرح مسلمانے کو عالم گیر بھائی چارے کے نظام میں جڑنا چاہیے۔
امت ِ مسلمہ اور جماعت المسلمین ایک قلعہ ہیںجو تمام مسلمانوں کے لیے ایک حصار کی مانند ہیں، وہ ان کی محفوظ پناہ گاہ ہیں۔اور اگر مسلمان کسی جگہ ظلم و ستم کا شکار ہوں تو باقی بھائی ان کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔مسلمان کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ اس کا بھائی ظلم کا شکار ہو رہا ہو تو وہ خاموش رہے۔وہ ہر ممکن کوشش کر کے اسے ظلم سے بچائے گا۔ اور اسے دشمن کے حوالے نہ کرے گا۔ اور اگر بھائی کسی تنگی میں ہے تو وہ اس کی تنگی کو دور کرے گا۔اس مدد گار بھائی کی اللہ مدد کرے گا۔ جو دنیا میں کسی کی تنگی دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی تنگی کو دور کرے گا۔اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن پردہ پوشی فرمائے گا۔
رسول اللہ ؐ نے مسلمان کی تعریف کچھ یوں فرمائی: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔ (رواہ البخاری، ۶۴۸۴)
حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے فرمایا: دیکھو میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔ (رواہ البخاری، کتاب الایمان)

باہمی الفت کا معیار
رسول اللہ ؐ نے برادرانہ الفت و محبت کے فروغ کے لیے ہدایات دیں اور اس محبت و الفت کا ایک معیار بھی قائم کیا اورارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی کامل مومن نہ ہو گا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے‘‘۔(رواہ البخاری، کتاب الایمان)
مسلمان کے مسلمان پر حقوق
مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ وہ اس سے تین دن سے زیادہ ناراض نہ رہے، اور ہر طرح کے حالات میں اس کی مدد کی خواہش رکھے، اس کی خبر گیری کرتا رہے، اور اس کی احتیاج کو پورا کرے، وہ مسلم بھائی کی غیبت سے اجتناب کرے، وہ اس کے غیبوں کا افشا نہ کرے بلکہ اس کی ستر پوشی کرے۔وہ دوسروں کی نصیحت کو قبول کرے، اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے۔
انسانی برادری کا حق
ایک انسان کے دوسرے انسان پر اسلامی برادری کی حیثیت سے بھی کچھ فرائض ہیں جن سے عہدہ برا ہونا ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔قرآن میں ہے:
اور لوگوں سے اچھی بات کرو‘‘۔ (البقرۃ، ۸۳)
اچھی بات کہنا اور اچھائی سے پیش آنا انسانی فرض بھی ہے۔
اسلامی اخوت خوف ِ خدا اور ایمان سے پھوٹتی ہے، یعنی اسلام اس کی اساسِ اول ہے۔ اس کی بنیاد اللہ کی رسی ہے، یعنی یہ اخوت اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد، اس کے دین اور اس کے منہاج کی اساس پر ہو گی۔ اس اخوت میں جاہلیت کا کوئی حصّہ نہ ہو گا، نہ اس کی بنیاد رنگ زبان اور نسل جیسے تعصبات کو کوئی جگہ ملے گی۔
مسلمان اخوت کو چھوڑ دیں تو پھر دشمنیوں کی وہی آگ بھڑک اٹھے گی جس سے اللہ اور اس کے رسول ؐ نے انسانیت کو نکالا ۔اور ان کے درمیان محبت ، ہمدردی اور تعاون کا شیریں تعلق پیدا کیا۔یہی اجتماعیت کی دوسری بنیاد ہے۔
رسول اللہ ؐ نے مدینہ میں اسلامی معاشرت کی بنیاد رکھی تو یہود کو یہ باہمی اخوت و محبت ایک آنکھ نہ بھائی۔ مواخات کے نظام میں پیوست مسلمان رسول اللہ ؐ کی قیادت میں اللہ کی رسی تھامے ہوئے شانہ بشانہ چل رہے تھے اور یہود اور منافقین کی آنکھوں میں یہ اخوت چبھ رہی تھی۔وہ مسلسل سازشیں کر رہے تھے کہ مسلمانوں کی جمعیت کا شیرازہ بکھر جائے۔اور وہ پھر سے ویسی ہی طویل جنگیں کرنے لگیں۔قرآن کریم میں یہودیوں کی سازشوں سے متنبہ کیا گیا۔ یہود آج بھی اسی کوشش میں لگے ہیں اور مسلمانوں کی باہمی اخوت کو ضربیں لگا رہے ہیں۔
آج بھی یہودی پوری دنیا میں مسلمانوں کی اخوت کے جذبے کو سرد کرنے میں لگے ہیں۔ وہ ان کے باہمی چھوٹے چھوٹے اختلافات میں بھی تعصب کو ہوا دیتے رہے ہیں۔ اورآج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایک جانب اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کو ان کی املاک پر زبردستی قبضہ کر رہا ہے، اور انہیں جان و مال سے محروم کر رہا ہے، دوسری جانب کشمیر کے مسلمان تیغوں کے سائے میں جی رہے ہیں، دنیا کے کئی خطے مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں ۔ کفر ہمیشہ کی مانند ’’ملۃ واحدۃ‘‘ بنا ہؤا ہے اور مسلمان فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے ارض ِ فلسطین پر بدترین بمباری ہو رہی ہے، ان کے گھر محفوظ ہیں نہ ہسپتال! ہسپتالوں تک پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ صرف مردانِ حرب ہی نہیں بوڑھوں بچوں اور عورتوں تک پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور ان کی زندگیوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔اتنے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی ہوتے دیکھ کر بھی امتِ مسلمہ گہری نیند سے بیدار نہیں ہوئی۔
فلسطینی مسلمان قوم اس وقت شدید خطرات میں گھری ہوئی ہے، ان کے پاس پانی ہے نہ کھانے کی اشیاء ! شرق و غرب میں بکھری ہوئی امتِ مسلمہ کا دل فگار ہے، آنکھیں برس رہی ہیں، دعائیں آسمان کی جانب بلند ہو رہی ہیں، غزہ کے بھائیوں اور بہنوں کے لیے کئی ٹرک امداد سے بھرے غزہ سے باہر کھڑے ہیں، مگر اندر جانے کی راہ نہیں پارہے۔یا للاسف!!!
اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کا پیغام اور رسول اللہ کی سنت ہی مشعلِ راہ ہے۔ ایک الہامی پکار! صبر سے کام لو، جرأت سے کام لو، اے اخوان! ہر وقت دشمن سے مقابلے کے لیے تیار رہو، خواہ میدان ِ جنگ ہو یا معاشی بائیکاٹ کی پالیسی، تمہیں نرم گرم بستر یا لذتِ کام و دہن اپنا اسیر نہ بنا لے۔ نکلو ہلکے ہو یا بوجھل! ہر وقت اور ہر میدان میں مقابلے کے لیے تیار رہو، چو مکھی لڑائی لڑو۔ اور ہر محاذ پر چوکنے رہو، اور اللہ کو یاد رکھو اور اسی سے ڈرو۔ صبر اور تقویٰ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔راہ ِ حق میں پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کرو، مجاہدہ کرو اور سازشوں کا مقابلہ کرو۔ جو لوگ شکست کی طرف بلاتے ہیں یا دشمن کی قوت سے دڈراتے ہیں ان کی طرف توجہ نہ دو۔
تم ہمہ گیر فلاح چاہتے ہو اور مکمل انقلاب بھی، اور اسلامی اخوت اور اس کی باریکیوں کو اپنا لو۔ امیں ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here