قارئین کرام! سلام مسنون
اب کے دو ماہ کے وقفے سے آپ سے مخاطب ہوں۔یہ عرصہ گویا قیامت خیز رہا کہ بیشتر علاقے شدت کے سیلاب کی نذر ہوئے۔ اب تک بھی آدھا ملک پانی کے زیر اثر ہے اور کثیر آبادی بے خانماں ہے۔جانی نقصان بھی ہؤا اور مال مویشی، گھر ، کاروبار سب تباہ ہوئے۔کھڑی فصلیں، باغات بربادی کا منظر پیش کررہے ہیں۔پاکستان میں اس شدت کا سیلاب ہماری تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب کہا جارہا ہے۔ عالمی تناظر میں گلوبل وارمنگ اس کا سب سے بڑا سبب ہے جس کو پیدا کرنے میں تو پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے مگر جس کے اثرات کا سامنا کرنے میں پاکستان سر فہرست ہے۔ دنیا کی فضا کو خراب کرنے میں سب سے بڑا حصہ یو ایس اور یورپی ممالک کا ہے۔یہ خراب فضا مجموعی درجہ حرارت کو بڑھاتی ہے ، گلیشیئرپگھلتے ہیں اور ندی نالے،دریاچڑھ جاتے ہیں۔ یہی عمل جب نہایت تیزی سے اور مسلسل ہوتا ہے اور ساتھ غیر معمولی بارشیں مل جاتی ہیں تو پانی کناروں کو توڑ کر آبادیوں پہ چڑھ دوڑتا ہے ۔
مگراتنا ہی قصورہمارا اپنا بھی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے جو انتظامات کرنے چاہئیں تھے ہم ان سے غافل رہے، ضروری ڈیموں کی تعمیر مفاد پرست عناصر کی باہمی سیاست کا شکار رہی۔ دریا ؤں کے کنارے رہنے والی آبادیوںکی تعمیرات کو اصول وضوابط کا پابند نہ کیا گیا، پانی کی گزرگاہوں اور پلوں کی تعمیر کے ترقیاتی بجٹ کرپشن کی نذر ہوتے رہے، یوں آج کے جدید دور میں جبکہ ایسی قدرتی آفات کا نقصان کم کرنے کے لیے پیش بندی اورانتظامات کرناعین ممکن ہے ،ہم نے اپنے عوام کو ان آفات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ ان حالات کے ذمہ دار عناصر جو گزشتہ تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ اس ملک کے خزانوں پر قابض اور با اختیار رہے ہیں،وہی اب دنیا کو اپنی خستہ حالی دکھا دکھا کر مسائل کی نمائش لگا رہے اور جھولی پھیلا رہے ہیں۔
پانی کے ریلوں اور منہ زور موجوں کے درمیان گھرے ہوئے بے بس انسانوں کے ریسکیو اور ریلیف کا کام بھی ہمارے انتظامی ڈھانچے کی قلعی کھول گیا۔طوفانی لہروں کے عین درمیان پتھر پہ کھڑے وہ پانچ بھائی کیسے بھلائے جا سکتے ہیں جو سر پہ منڈلاتی ہوئی موت کے سامنے بھی شدت سے زندگی کی آس لیے کھڑے رہے مگر جنہیں بچانے کے ذمہ داروں کی انسانیت مرچکی تھی۔علاقے کے ایم این اے کے پٹرول پمپ کے سامنے موسلا دھار بارشوں میں بھیگتے خاندان،عورتیں بچے کیسے نظروں سے ہٹ سکتے ہیں جن کو بارش سے بچنے کے لیے چھت مہیا کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔زمینی راستے ، انتظامی یونٹ اور افرادِ کار کے موجود ہوتے ہوئے بھی نمائش کی خاطرہیلی کاپٹروں سے پھینکے جانے اور پھٹ کر ضائع ہونے والے وہ خوراک کے تھیلے ، ان کے پیچھے بھاگتے ہوئے ضرورت مند لوگ کیسے آنکھوں کے آگے سے ہٹ سکتے ہیں۔ کسی وقت غریبوں کو کھانا کھلانے والے جب خود تہی دامن ہو کر قطاروں میں دھکے کھا رہے تھے تو ان کو خوراک بانٹ کر یوں تصویریں بنائی جارہی تھیں جیسے ان کی کوئی عزت نفس نہ ہو، ان کی آنکھوں میں جما ہؤاخانماں بربادی کا دکھ ہمیشہ یاد رہے گا۔وہ روتی کرلاتی دیہاتن کہ میڈیا کے سامنے جس کی خستہ تنی کو گلے لگا کر، دکھاوے کے آنسو بہا کروعدہِ فردا پر ٹرخا دیا گیا، وہ پانی میں کمر تک ڈوبا ہؤا عمررسیدہ شخص جواپنی مصیبت کے ذمہ داروں کے خلاف دونوں ہاتھ اٹھا کر خدا سے فریاد کررہا تھا، وہ دلدل سے نکالا گیانومولودجو اپنی مردہ ماں کے وجودسے رابطے کا ابھی تک گواہ تھااورجس کی پہلی چیخ ماں کے وجود سے نہیںکیچڑ سے رہائی پانے پرابھری تھی ۔یہ مناظر کیسے بھولیں گے!
مگر ہمیشہ کی طرح رضاکارانہ کام کرنے والوں نے انسانیت پر سے اعتبار اٹھنے نہ دیا۔اس معاملے میں پاکستانی معاشرے میں جتنی خیر موجود ہے، وہ ہر مایوسی سے نکال دیتی ہے۔سالہاسال سے منظم کام کرنے والی رفاہی تنظیموں نے جن میںجماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن سر فہرست ہے، جان جوکھوں میں ڈال کر لوگوں کو بچایا، ٹھکانے فراہم کیے ، خوراک کا بندوبست کیا اور اب ان کی بحالی کے کاموں میں مشغول ہیں۔ عام شہریوں کے کئی رضاکارانہ گروپ ہنگامی طور پہ وجود میں آگئے جو اپنے طور پہ فنڈنگ کرکے مصیبت میں گھرے افراد کی مدد کو پہنچتے رہے اور ابھی تک میدان میں ہیں۔بیرون ملک پاکستانیوں نے دل کھول کر امداد بھیجی۔مدد کے بھی ایسے ایسے مناظر سامنے آئے کہ بھلائے نہ بھولیں گے۔ جنہوں نے انسانوں کے ساتھ جانوروں کی بھوک کو بھی فراموش نہ کیا۔ رسیاں باندھ کرحد نگاہ تک پھیلے پانی کے کناروں کو پاٹتے رہے،بہترین طریقے سے امدادی سامان کوموسم، سائز کے لحاظ سے پیک کرکے حسنِ ترتیب سے بھیجا،عارضی بستیاں بسانے کے لیے دن رات کام کیا۔ انفرادی جذبے کی وہ مثال کون بھول سکتا ہے جب ایک دس سالہ بچہ اپنی بوٹ پالش کی دیہاڑی سے روزانہ امدادی ڈبے میں رقم ڈالتا رہا۔اللہ نے چاہا تو یہ جذبے اجڑی ہوئی بستیاں دوبارہ بسانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
علامہ یوسف القرضاوی خالق حقیقی سے جا ملے۔ ایک بلند پایہ عالم دین جن کی فکری رہنمائی نے دورِ جدیدمیں قرآن و سنت پر عمل کی راہیں متعین کیں اور کئی نسلوں کو فیض یاب کیا۔فی الوقت اسلامی دنیا میں انہیں سب سے معتبر فقیہہ اور مجتہد کی حیثیت حاصل تھی۔دین میں ترجیحات اور اسلام میں حلال وحرام جیسی معرکۃ الآرا کتابوں کے بشمول ۱۲۰ کتابوں کے مصنف ،انٹرنیشنل یونین آف مسلم سکالرز کے سربراہ تھے۔ موجودہ حالات میں انتہاپسندی پر مبنی دینی تعبیرات کے مقابل ہمہ جہت سیاسی جدوجہداور جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال کے قائل تھے ۔اپنے افکارو نظریات اورسیاسی نقطہ نظرکی بنا پرمصری حکومت کی طرف سے قیدوبند اور سزائے موت کے مستحق بھی قرار پائے۔آج جبکہ امت مجتہدین اور اہلِ بصیرت کے قحط الرجال کا شکار ہے، علامہ کی رحلت ایک عظیم صدمہ ہے۔ اللہ ان کو ارفع درجات عطا کرے اور ان کی زندگی بھر کی مساعی جمیلہ کو شرفِ قبولیت بخشے آمین۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ کے مضمرات پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔نومبر کا شمارہ ہم نیــ’’صنفی شناخت نمبر‘‘کے نام سے اس موضوع کے لیے مخصوص کیا ہے۔ اس پر افسانے ،کالم اور مضامین شامل ہوں گے جن میں ہیجڑا کمیونٹی کے مسائل و مشکلات،ان کے لیے دینی رہنمائی، ان کے نام پہ گمراہ کن ایجنڈوں کو فروغ دینے کی کوششوں ،اور ایسے طرز زندگی کے نتائج ، ان تمام پہلوؤں پر لکھا جا سکتا ہے۔ دس اکتوبر تک ملنے والی تحریریں شامل ہو سکیں گی ۔
دعاگو، طالبہ دعا
صائمہ اسما