میرے چچا زاد بھائی کی شادی تھی جو میرا کلاس فیلو بھی رہ چکا تھا اور میرا بہترین دوست بھی تھا۔ میں نے شادی میں شرکت کرنے کے لیے دفتر سے چار دن کی چھٹی لے لی۔ سفر کی تیاری کرکے میں بس کے اڈے پر پہنچ گیا اور ٹکٹ لے کر انتظار گاہ میں آرام دہ صوفے پر بیٹھ گیا کہ بس کے روانہ ہونے میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں بے حد خوش تھا کہ میرے کئی پرانے دوست مختلف شہروں سے اس شادی میں شرکت کرنے کے لیے آ رہے تھے۔
اس مشینی دور میں دوستوں کی یہ بیٹھک اک نعمت سے کم نہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہم سب مل کر اپنی شرارتوں اور نادانیوں کے قصے دہرائیں گے۔ گزرے دنوں کی خوشگوار یادوں کو یاد کریں گے۔ اپنی حماقتوں پر خود ہی قہقہے لگائیں گے۔ اپنے درمیان ہونے والے چھوٹے چھوٹے بے بنیاد جھگڑوں کو یاد کرکے لطف اندوز ہوں گے۔ آپس کی چھینا جھپٹی کے تصور کو تازہ کریں گے۔ بچپن کی رنگ برنگی اور معصوم خواہشوں کا تذکرہ کریں گے۔ بچپن کے سنہرے دنوں کی وہ انمول یادیں کہ جن کا خیال آتے ہی میری آنکھوں کے سامنے قوس قزح کے رنگ ناچنے لگتے ہیں۔ پھلجھڑیاں سی چھوٹنے لگتی ہیں۔ شوخ اور بھڑکیلے پیراہن میں ملبوس بے شمار تتلیاں اڑنے لگتی ہیں۔ چاروں طرف جگنو چمکنے لگتے ہیں۔ ان گنت خوبصورت پھول کھل اٹھتے ہیں۔ پھر میرے اندر کا سویا ہوا بچہ پل بھر میں جاگ کر میرے وجود پر چھا جاتا ہے اور میں زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر اچھلتا کودتا اپنے بچپن کی حسین وادی میں داخل ہو جاتا ہوں۔ دل چاہتا ہے کہ اس جزیرے پر ہمیشہ کے لیے بسیرا کر لوں۔ لیکن بہت جلد کوئی انجانی قوت مجھے وہاں سے نکال کر میری دنیا میں واپس لے جاتی ہے اور پھر اس طلسم ہوشربا کا ہر دریچہ میرے لیے کچھ عرصہ کے لیے بند ہو جاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کسی روزن سے جھانک کر اس کی ایک جھلک دیکھ لوں لیکن کہیں سے ایک آواز ابھر کر ہوا میں پھیل جاتی ہے۔
’’خبردار ! اس خوبصورت اور پاکیزہ وادی میں بالغوں کا داخلہ منع ہے۔ اب تمھارے اندر کا بچہ سو گیا ہے۔ جب وہ بیدار ہو جائے گا، تب آجانا۔‘‘
میرا دل چاہتا ہے کہ میرے اندر کا بچہ ہمیشہ بیدار رہے لیکن اگر کبھی میں اس کوشش میں کامیاب ہو بھی جاتا ہوں تو میرے آس پاس کے لوگ مجھے جینے نہیں دیتے اور وہ مجھے طعنہ دیتے ہیں۔
’’ارے ! اس اوچھے احمق کو دیکھو۔ اس کا دماغ چل گیا ہے۔ اس عمر میں بھی بچوں کی سی حرکتیں کرتا پھررہا ہے اگر بازار میں عقل برائے فروخت ہوتی تو ہم اس کی حماقت پر ترس کھاتے ہوئے فی سبیل اللہ خرید کر اسے دے دیتے۔ ‘‘
یہ باتیں سن کر میرا دل چھلنی ہو جاتا ہے۔ میں اپنے اندر کے بچے کو تھپک تھپک کر سلا دیتا ہوں اور چہرے پر سنجیدگی اور تفکر کی چادر اوڑھ کر نام نہاد دانشوروں کی محفل میں قدم رکھ دیتا ہوں۔
اس وقت میں انتظار گاہ میں بیٹھ کر اپنے مہربانوں کے طعن و تشنیع سے محفوظ تھا۔ موقعہ غنیمت جانتے ہوئے میں نے اپنے اندر کے بچے کو چمکارا اور پھر دل ہی دل میں اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’اوبچے جمورے! خوش ہو جا کہ اگلے چند دن تیری آزادی کے دن ہیں۔ اپنی من مانی کرنا اور خوب مزے لوٹنا۔ اس دوران میں سو جائوں گا اور تو بیدا رہو جائے گا۔ دیکھ! وقت ضائع نہ کرنا اور جاگتے رہنا۔‘‘
ابھی میں اسے یہ تلقین کر ہی رہا تھا کہ بس کی روانگی کا اعلان ہو گیا اور میں اپنا بیگ اٹھا کر انتظار گاہ سے باہر نکل آیا۔ لاہور سے سیالکوٹ روانہ ہونے کے لیے بس تیار کھڑی تھی۔ میں نے اپنا سامان کنڈیکٹر کے حوالے کیا اور خوشی خوشی بس میں سوار ہو گیا۔ مجھے ڈرائیور کے پیچھے والی نشست مل گئی تھی۔ اس نشست کے نیچے لوہے کا پائیدان بنا ہوا تھا۔ میں نے بیٹھ کر اس پر پائوں رکھے تو مجھے یک گونہ اطمینان ہوا کہ سفر خوب آرام سے گزرے گا۔
میری بائیں طرف والی نشستوں پر میاں بیوی اور ان کے دو چھوٹے بچے بیٹھے تھے۔ ان میں سے بچی کی عمر تقریباً چھ سال تھی اور بچہ چار سال کے لگ بھگ تھا۔ بچے کے ہاتھ میں شوخ رنگوں کی ایک قدرے چھوٹی چھتری تھی جسے وہ محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
مقررہ وقت پر بس اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئی۔ بس ہوسٹس نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر مسافروں کی ٹکٹیں چیک کرنا شروع کر دیں۔ جب وہ میرے بائیں ہاتھ بیٹھے ہوئے میاں بیوی کے پاس پہنچی اور انھیں ٹکٹ دکھانے کے لیے کہا تو اس آدمی نے صرف دو ٹکٹیں اس کی طرف بڑھا دیں۔ اس نے استفسار کیا کہ
’’بچوں کے ٹکٹ کہاں ہیں؟‘‘
وہ صاحب کہنے لگے۔
’’اس عمر کے بچے ٹکٹ سے مستثنیٰ ہیں۔‘‘
بس ہوسٹس نے قدرے غور سے بچوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اللہ آپ کے دونوں بچوں کی عمر دراز کرے۔ یہ دونوں تو خاصے بڑے دکھائی دیتے ہیں۔ چند روپے بچانے کے لیے آپ بچوں کی عمر کیوں گھٹا رہے ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی وہ صاحب سیخ پا ہو گئے اور چیخ کر کہنے لگے۔
’’دہائی خدا کی … آپ کا مطلب ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ گویا آپ نے مجھ پر الزام لگایا ہے۔ یعنی آپ نے مجھ پر بہتان باندھا ہے۔ اگر اس وقت یہ بس اڈے پر کھڑی ہوتی تو میں بطور احتجاج نیچے اتر کر دوسری بس لے لیتا۔میں لعنت بھیجتا ہوں اس سواری پر۔‘‘
یہ کہہ کر انھوں نے ٹانگیں پسار دیں اور اپنی سیٹ پر نیم دراز ہو کر بس ہوسٹس کو یوں دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں۔
’’کر لو جو کرنا ہے۔‘‘
بس ہوسٹس جھینپ گئی اور منہ موڑکر اپنی کرسی کی طرف چلی گئی۔ اس چھوٹی سی جھڑپ کے بعد بس کے اندر خاموشی چھا گئی۔ ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ میری بائیں جانب سے چرڑ … چرڑ کی ناگوار آوازیں بلند ہونے لگیں۔ میں نے گردن موڑ کر دیکھا تو وہ بچہ اپنی چھتری کو الٹا کرکے اس کے مرکز میں پیوست نوکیلے لوہے کی سلاح کو لوہے کے پائیدان پر رگڑ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ وہ اپنے باپ کی گود میں بیٹھا تھا۔ اس کے برابر کی سیٹ پر کھڑکی کے ساتھ اس کی بڑی بہن اپنی ماں کی گود میں سوار تھی۔ اس کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔
بچے نے دائیں طرف جھک کر چھتری کے لوہے کو زور زور سے پائیدان پر رگڑنا شروع کر دیا۔ پھر اس نے اپنی بہن سے پوچھا۔
’’آپا! بتائو یہ کس کی آواز ہے؟‘‘
دوسری طرف خاموشی طاری رہی۔ بچے نے چند لمحے جواب کا انتظار کیا اور چھتری کے لوہے کو مزید زور سے رگڑتے ہوئے پوچھا۔
’’آپا! بوجھو بھلا یہ کس کی آواز ہے؟‘‘
آپا نے آنکھیں موند لیں اور اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔
بچے نے کچھ دیر تک انتظار کیا ، پھر لجاجت سے کہنے لگا۔
’’اچھی آپا! یہ کس چیز کی آواز ہے؟ صرف ایک دفعہ بتا دو۔ اس کے بعد میں تم سے نہیں پوچھوں گا۔‘‘
لیکن آپا نے تو گویا گونگے کا گڑ کھایا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ بچے کو آپا کا یہ رویہ ایک آنکھ نہ بھایا۔ اس نے جارحانہ انداز میں پیش قدمی کرتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر آپا کی ٹانگ میں زور سے چٹکی بھری۔ مارے تکلیف کے آپا تلملا اٹھی اور چیخنے لگی … آپا کی چیخ و پکار سن کر بچے کی آنکھوں میں فاتحانہ چمک آگئی۔ یکایک سکون اور اطمینان سے بیٹھے ہوئے والدین کو احساس ہوا کہ اب پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے اور میدانِ کارزار میں ان کی مداخلت ناگزیر ہو چکی ہے ۔ لہٰذا ابا حضور نے محبت سے آپا کو سمجھانا شروع کیا۔
’’کوئی بات نہیں۔ کیا ہوا جو بھائی نے پیار سے چٹکی بھری ہے۔ چھوٹا بھائی ہے ابھی نا سمجھ ہے۔ بڑا ہو جائے گا تو آپ کے ڈھیروں کام کیا کرے گا اور آپ کے لیے بہت مزے مزے کی چیزیں لایا کرے گا۔ بھائی کی بات کا برا نہیں مناتے۔‘‘
لیکن باپ کی طفل تسلیوں سے آپا کی گفتار و کردار میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی اور وہ سراپا صدائے احتجاج بنی رہی۔
پھر اماں نے آپا کے آنسو پونچھتے ہوئے اپنے ترکش سے تیر چھوڑا۔
’’بری بات۔ اچھے بچے نہیں روتے۔ بس اب چپ کر جائو۔ سیالکوٹ پہنچ کر میں تمھیں نئی گڑیا لے کر دوں گی … چپ کر جائو۔‘‘
یہ تیر نشانے پر بیٹھا۔ نئی گڑیا کا نام سنتے ہی آپا کی تکلیف کافور ہو گئی۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے منہ صاف کیا اور کھڑکی سے باہر کے مناظر دیکھنے میںمحو ہو گئی۔ کچھ دیر کے لیے بس میں خاموشی چھا گئی۔ میں نے سکون کا سانس لیا اور اپنے بیگ میں سے ایک کتاب نکال کر اسے پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ ابھی ایک ہی صفحہ پڑھ پایا تھا کہ چرڑ ۔ چرڑ کی وہی ناگوار سی آواز ابھرنے لگی۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا تو وہ بچہ پھر سے اپنی چھتری کو الٹا کرکے اس میں پیوست لوہے کی سلاخ کو زور زور سے پائیدان پر رگڑ رہا تھا۔ اس کے والد ہلکے ہلکے خراٹے لے رہے تھے۔ اور والدہ محبت بھری نظروں سے اپنے سپوت کو تک رہی تھیں۔ میں نے رشک سے اس کے والد کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا کہ اگر یہ شور ان کو مضطرب نہیں کر رہا تو بھلا میں کیوں بے چین ہو رہا ہوں۔ پھر میں نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
’’بھلے آدمی! تم اتنے کمزور کیوں ہو کہ ذرا سے شور سے ہل کر رہ گئے۔ اپنی بھرپور توجہ کتاب کی طرف مبذول کر دو اور پھر دیکھو کہ یہ شور تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔‘‘
یہ سوچ کر میں نے ایک نئے عزم کے ساتھ کتاب کو کھولا اور پڑھنا شروع کیا لیکن ہر لمحے کے ساتھ یہ آواز بلند ہوتی چلی گئی اور کتاب کے حروف دھندلاتے چلے گئے۔ کچھ دیر کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا گویا کتاب کا ہر حرف چیخ چیخ کر با آواز بلند چرڑ ۔ چرڑ کہہ رہا ہو۔ اس احساس کے ساتھ ہی یہ آواز میرے اعصاب پر سوار ہو گئی اور میں نے جھنجلا کر اپنے بائیں طرف دیکھا۔ بچے کے والد بدستور آنکھیں نیم وا کیے نیم دراز تھے۔ میں نے نرمی سے ان کا کندھا ہلایا تاکہ اس گھمبیر مسئلے کے حل کے لیے ان سے مدد کی درخواست کروں۔ انھوں نے آنکھیں کھول کر سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے کہا۔
’’بھائی صاحب ! آپ کے بچے کے ہاتھ میں جو چھتری ہے… ‘‘ اتنا کہہ کر الفاظ میرے حلق میں اٹک گئے۔ میں نے سوچا کہ اپنا مدعا ایسے خوبصورت پیرائے میں بیان کروں کہ میرے لہجے میں شکایت کا رنگ نہ ہو اور وہ صاحب برا منائے بغیر میری تکلیف کا ازالہ کر دیں۔ اس خیال کے ساتھ ہی میں انتہائی موزوں الفاظ کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔
مجھے خاموش پا کر وہ صاحب گویا ہوئے۔
’’بھائی صاحب ! میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں۔ آپ اس چھتری کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جو میرے بچے کے ہاتھ میں ہے۔ ایسی چھتری تو ہر کھلونوں کی دکان سے مل جاتی ہے اس کی قیمت بھی زیادہ نہیں اور اس کے رنگ بھی بہت خوبصورت اور شوخ ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ بہت پائیدار ہے۔ پچھلے ایک سال سے میرا بچہ اس سے کھیل رہا ہے۔ کئی دفعہ یہ اس کے ہاتھ سے گر چکی ہے ۔ اپنے دوستوں سے لڑتے ہوئے میرے بیٹے نے کئی دفعہ اس چھتری سے ان کی پٹائی بھی کی ہے۔ غصے کے عالم میں میرے بیٹے نے بارہا اسے زمین پر دے مارا ہے لیکن کیا مجال ہے کہ یہ کبھی ٹوٹی ہو۔‘‘
یہ کہہ کر انھوں نے چھتری کی طرف فخر سے دیکھا۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے۔
’’اول تو یہ آپ کو لاہور کے ہر بازار میں مل جائے گی۔ کیا عجب کہ سیالکوٹ میں بھی دستیاب ہو لیکن بفرض محال اگر یہ کمیاب بھی ہوئی تو بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ انارکلی سے یہ ضرور آپ کوسستے داموں مل جائے گی۔‘‘
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسی پر مغز معلومات فراہم کرنے پر ان کا شکریہ ادا کروں یا اپنا سر پیٹ لوں۔
آخر جی کڑا کرکے میں نے ان سے کہا۔
’’بھائی صاحب!میرا مطلب ہے کہ میں ڈسٹرب ہو رہا ہوں۔ میں کتاب پڑھنا چاہتا ہوں اور اس کے لیے خاموشی کی ضرورت ہے۔ براہِ مہربانی آپ اپنے بچے کو سمجھائیے کہ وہ اس شغل کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھے۔‘‘
میرا خیال تھا کہ میری بات سن کر وہ نادم ہو جائیں گے۔ اپنے بچے کی سرزنش کریں گے اور مجھ سے معذرت خواہ ہوں گے لیکن اس کے برعکس میری درخواست سنتے ہی ان کے چہرے کا رنگ بھی بدل گیا اور لب و لہجہ بھی۔ وہ غصے سے لال ہو گئے اور کہنے لگے۔
’’چہرے بشرے سے تو آپ مناسب آدمی نظر آتے ہیں لیکن دراصل آپ انتہائی کٹھور، پتھر دل اور نامعقول آدمی ہیں۔ آپ سے ایک معصوم بچے کی چھوٹی سی خوشی بھی برداشت نہیں ہوتی۔ میرا خیال ہے کہ آپ اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ اسی لیے اس قدر تنگ دل اور سخت دل ہیں۔ آپ کی بلا جانے کہ اولاد کس چیز کا نام ہے اور شفقت پدری کسے کہتے ہیں۔‘‘
اتنا کہتے کہتے ان کی آواز تند و تیزجذبات کی رو میں بہہ کر بھرا گئی۔ انھوں نے ملتجی نظروں سے اور دردناک آواز سے بس کے مسافروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
؎ ’’دل صاحب ِ اولاد سے انصاف طلب ہے‘‘
بس میں بیٹھے ہوئے چند لوگوں نے گردن موڑ کر مجھے گھور کر دیکھا۔ ایک کونے میں سے کسی منچلے کی آواز آئی۔
’’پا جی! یہ بس ہے کوئی لائبریری نہیں۔‘‘
دوسری طرف سے دو تین لڑکوں نے قہقہہ لگا کر داد دی۔
پھر کسی عورت نے ممتا بھرے جذباتی لہجے میں کہا۔
’’بھائی صاحب ! بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔‘‘
ایک دل جلا فرطِ جذبات سے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔
’’بھئی معصوم بچے ہلکی پھلکی بے ضرر شرارتیں کرتے ہی رہتے ہیں۔ بڑوں کو دل بڑا رکھنا چاہیے۔ اب وہ آپ کی طرح بس میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنے سے تو رہے۔‘‘
ایک ماہر نفسیات نے پر اعتماد لہجے میں حاضرین بس سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔
’’بلا وجہ روک ٹوک سے بچوں کے ذہن پر منفی اثرات ثبت ہوجاتے ہیں جو ساری زندگی بچے کے لیے اذیت کا باعث بنے رہتے ہیں، اس میں خود اعتمادی کا فقدان ہو جاتا ہے اور اس کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے۔‘‘
مذکورہ بالا عوامی تبصروں کی وجہ سے میری شخصیت کے غبارے میں سے ہوا نکل گئی۔ میری ہمت جواب دے گئی اور میں ایک ایسے مجرم کی طرف سر جھکا کر بیٹھ گیا جو ارتکاب ِ جرم کے بعد ندامت اور پچھتاوے کا شکار ہو کر رہ جائے۔ کچھ دیر کے بعد غلطی کا یہ احساس حسرت میں بدل گیا اور میں سوچنے لگا کہ
کاش! میرے چچا زاد بھائی نے مجھے اپنی شادی پر بلایا ہی نہ ہوتا۔
اگر اس نے مجھے مدعو کرنے کا مصمم ارادہ کر ہی لیا تھا تو کاش ڈاکخانے کا عملہ اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے میرے نام بھیجے گئے دعوت نامے کو راستے میں کہیں گم کر دیتا اور وہ مجھ تک نہ پہنچ پاتا۔ اگر دعوت نامہ بھی مل گیا تھا تو کاش انہی دنوں میں بر وقت نزلہ زکام جیسی کوئی معمولی بیماری آن لیتی اور میں شادی میں شرکت سے معذرت کر لیتا۔
اگر بیماری نے بھی سست روی کا مظاہرہ کیا تھا تو کاش میں اس بس میں سوار نہ ہوتا۔
اگر میری قسمت میں یہی بس لکھی تھی تو کاش یہ بچہ کسی دوسری بس میں سفر کرتا۔
اگر اس بچے کے نصیب میں بھی یہی بس تھی تو کاش یہ اپنی چھتری گھر پر بھول جاتا۔
اگر یہ چھتری بھول نہ پایا تو کاش کوئی رحمدل چور خلق خدا کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر موقع پا کر اسے چرا لیتا۔
باقی سارا راستہ میں لفظ ’’کاش‘‘ کے ساتھ مختلف سابقے اور لاحقے لگا لگا کر ان پر غور کرتا رہا۔ نہ جانے غور و فکر کے اس عمل کے دوران میں نے سانس بھی لیا یا نہیں؟ پلکیں جھپکائیں یا نہیں؟ ہاتھ پائوں کو جنش دی یا نہیں؟ اس موضوع کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں سوچا یا نہیں؟ مجھے کچھ یاد نہیں۔
بہرحال خدا خدا کرکے سفر کٹا۔ جونہی منزلِ مقصود آئی، بس رک گئی اور اس کا دروازہ کھول دیا گیا۔ میں سر نیہوڑائے ہوئے تیزی سے دروازے کی طرف لپکا اور چھلانگ لگا کر ایسے باہر نکل آیا جیسے کوئی قیدی عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہو کہ شومئی قسمت سے زنداں کی دیوار میں شگاف ہو جائے اور وہ موقع پاتے ہی پہرے داروں سے نظر بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جائے۔
گھر پہنچا تو عزیز و اقارب میرے منتظر تھے۔ پرانے دوستوں کو دیکھ کر میرا دل کھل اٹھا اور سفر کی ناخوشگوار یادیں میرے ذہن سے محو ہو گئیں۔ ہم سب مل بیٹھے اور ماضی کی پٹاری کھول کر دلچسپ واقعات اور قصہ کہانیوں کو یاد کرکے لطف اندوز ہوتے رہے۔ خوشی اور مسرت سے بھرپور یہ چاردن گویا سکڑ کر چار مختصر سی گھڑیوں پر محیط ہو گئے اور واپسی کا وقت آن پہنچا۔ میں نے سب کو خداحافظ کہااور اپنا بیگ لے کر بس کے اڈے کی طرف چل دیا۔
ٹکٹ خریدا اور بس میں سوار ہو گیا۔ مجھے بس کے درمیان میں اچھی آرام دہ نشست مل گئی۔ میں نے بس ہوسٹس سے اخبارمانگا اور بڑے انہماک سے اسے پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ اسی دوران کسی بچے کی باریک لیکن واضح آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔
’’ارے آپا! یہ تو وہی سڑیل سے انکل ہیں۔‘‘
جواب میں آپا نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے کہا۔
’’ہاں منے بھیا! میں نے بھی انھیں پہچان لیا ہے۔ اب بہت مزا آئے گا۔‘‘
میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھ سے تھوڑے فاصلے پر وہی بچہ بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے شرارت چھلک رہی تھی، کچھ کر گزرنے کا عزم بھی اور مخصوص فاتحانہ چمک بھی۔ اس کے دائیں ہاتھ میں وہی چھتری تھی اور اس کے شوخ رنگ اب میری آنکھوں میں چبھ رہے تھے۔ جونہی اس کی نظر مجھ پر پڑی، اس نے مجھے دکھانے یا چڑانے کے لیے چھتری کو اپنے سر سے قدرے اونچا کیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا گویا کوئی سپہ سالار جنگ جیتنے کے بعد علم بلند کرکے اپنی فتح مبیں کا اعلان کر رہا ہو۔ اس کے ساتھ ہی میرے چاروں طرف چرڑ… چرڑ کی آواز پھیل گئی، میرے قدم میدان سے اکھڑ گئے، میری ٹانگوں میں بجلی در آئی، میں بے اختیار اپنی نشست سے اٹھا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا بس کے دروازے سے باہر نکل آیا۔
خخخ