زاہد صا حب نما ز عشا ءپڑھ کر گھر داخل ہی ہو ئے تھے کہ انہو ں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔
نصر ت آرا نےسا ی چیزیں الما ی میں سے نکال کر بیڈ پر پھینکی ہو ئی تھیں اور بڑے غصے سے سنگھا رمیزپر پر انی میک اپ کی چیزوں کو اٹھا اٹھا کر پھینک ر ہی تھی ۔انہوں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا جو پر یشا نی سے دونو ںبچو ںکوسینے سے لگا ئے بیٹھی تھیں۔
اس کا مطلب ہے کہ آج پھرنصرت نے ان کی پٹا ئی کی ہے ۔انہوں نےپریشانی سے سو چا اس کو کیا ہو گیا ہے اب تک تو یہ ایسی حر کتیں نہیں کر تی تھی ۔ انہوں نے بیڈ وم کا د روازہ کھولااور نصرت کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھا ۔
نصرت ان کی دس سال سے زوجہ حیات تھی وہ بہت صابر شاکر خاتون تھی انہوں نے ان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا تھا اور وہ ہر دُکھ سُکھ میں ان کا ساتھ بڑی خوش اسلوبی سے دے رہی تھی۔ دس پندرہ دن سے وہ اس کا لہجہ اور رویہ بدلتا ہؤا دیکھ رہے تھے۔
وہ پہلے ایک گائوں کے اسکول میں ٹیچر تھی اور وہاں اسے سفر کرکے جانا پڑتا تھا اکثر سواری نہیں ملتی تھی اس لیے دیر سویر ہو جاتی تھی لیکن اس کے باوجود نصرت ہنستی مسکراتی گھر میں داخل ہوتی تھی ۔ سب سے خوش اخلاقی سے پیش آتی ۔ والدہ کو سلام کرتی بچوںکوپیار کرتی اور اپنا کام خوش اسلوبی سے سر انجام دیتی ۔ بڑی کوششوں کے بعد دس سال بعد ان کا تبادلہ شہر کے ایک قریبی اسکول میں ہو گیا جس کی وجہ سے نصرت کے سفر کی صوبتیں ختم ہو گئیں اور اب وہ بہت آسانی سے پندرہ منٹ کی واک کر کے اسکول جا سکتی تھی ۔ لیکن یہاںآنے کے بعد بجائے اس کے کہ نصرت کا رویہ اور بہتر ہوتا اب وہ بہت زیادہ دن بہ دن خراب ہوتا جا رہا تھا اور زاہد صاحب کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
’’ کھانا پک گیا ہے ؟‘‘ انہوں نے غصےکو دباتے ہوئے نارمل لہجے میں کہا :
’’ آپ تو بس کھانا کھانے آتے ہیںگھرکی کوئی پروا نہیں کہ میری بیوی پر کیا گزر رہی ہے ۔ میں کتنی مشقت کر رہی ہوں کبھی آپ میرے لیے کوئی تحفہ لے کر آئے ، کبھی شاپنگ کروائی اورہفتہ وار نہیںمہینے میں ہی ایک دفعہ سیر پر لے جائیں ‘‘ نصرت پھٹ پڑی ۔’’ میں سارا دن کی تھکی ہاری آتی ہوں ۔ گھر کے کاموں میں جت جاتی ہوں پھر بچوں کو ہوم ورک کرواتی ہوں اور شام کا کھانا تیار کرتی ہوں اور آپ آتے ہیں اور دو میٹھے پیار کے بول نہیں بول سکتے بس مشینی زندگی کھانا پک گیا ، کپڑے دھل گئے ، جرابیں کہاں ہیں ، اماںکو کھانا دے دیا؟ میری کوئی زندگی نہیں ‘‘وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
زاہد صاحب پریشان ہو گئے انہوں نے کندھے سے پکڑ کر اسے بیڈ پربٹھایا۔
’’ دیکھو نصرت جاب شادی کے بعد جاری رکھنے کا فیصلہ تمہارا تھا۔ میں نے تمہیں محدود آمدن اورذمہ داریوںکابتایا تھا اور اگر تم جاب پر جاتی ہو پیچھے اماں سارا گھر سنبھالتی ہیں مجھے ناشتہ بنا کر دیتی ہیں اور بچوں کا خیال رکھتی ہیںاور بچے پالے بھی تو انہوں نے ہی ہیں ۔ تمہارے لیے دوپہر کا کھانا بناتی ہیں ۔ اگر تم کپڑے دھوتی ہو تو استری میں خود کرتا ہوں۔باقی اگر تمہیں کوئی شکایت ہے تو مجھے بتائو ‘‘۔
نصرت فوراً بولی: یہ میری الماری دیکھیں ایک سے ایک پرانے کپڑے ہیں عید کے بعد سے میں نے نیا جوڑا نہیں بنایا ۔ لپ اسٹک ہے وہ میں نے بہن کی شادی پرخریدی تھی۔ آپ اسکول میں دیکھیں ٹیچرز روز
نئے نئے کپڑے پہنتی ہیں اس کے ساتھ میچنگ جیولری ، جوتے اور پرس ہوتے ہیں ۔ روز نئے فیشن کے برینڈڈ کپڑے پہنتی ہیں ‘‘۔
زاہدصاحب نے حیرت سے پوچھا :’’روز نئے کپڑے پہنتی ہیں‘‘۔
’’جی ہاں‘‘ نصرت نے آنسوئوں کوپونچھتے ہوئے کہا ۔
’’ ظاہر ہے کہ ان کی تنخواہ تمہارے برابر ہو گی انہوں نے گھر بھی چلانا ہوگا دیگر ذمہ داریاں بھی ہوں گی ۔ تویہ بتائوکہ ان کے شوہر کیا کرتے ہیںرزق حلال سے تو اتنی فضول خرچی نہیں ہو سکتی ‘‘۔ زاہد صاحب نے اسے ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا۔
’’شوہر! یہ تو میں نے کبھی پوچھا نہیں ‘‘ اس کے ذہن میں مسز سیمی ارشاد تھیں اور وہ انہی کی باتوں سے متاثر تھی ۔ وہ تھوڑی شرمندگی محسوس کر رہی تھی ۔
’’ اچھا میں کل پوچھوں گی‘‘ ۔ اس نے کپڑے سمیٹتے ہوئے کہا۔
نصرت آرا اسکول ٹیچر تھی پہلے دیہاتی اسکول میں جاب کرتی تھی اور بسوں کے دھکے کھاتی رہی یہ جاب اس نے شادی سے پہلے شروع کی تھی پر شادی ہوگئی ،اس نے ٹرانسفر کروانے کی بہت کوشش کی مگر نہیں ہؤا اوردس برس تک دور،دو بسیںبدل کر گائوں کے اسکول میں جاتی وہاں بلڈنگ بھی نہیں ہوتی تھی اور کبھی وہ سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر بچوں کو پڑھاتی ۔ کبھی کوئی بچہ اپنے گھر سے کرسی لے آتا اور سارے نیچے بیٹھ جاتے ۔ اس طرح اس کی جاب کی ابتدا ہوئی اور اسکول کا ایک کمرہ تھا اورسنا تھا کہ وہاں کسی نے جانور پالے ہوئے ہیں ۔ وہاں کوئی چار دیواری بھی نہیں تھی ۔ لیکن اسے پڑھانے کا بھی شوق تھا ۔ اورایک ماہ مسلسل کوشش اور جستجو کے شوق میں اسے جار ی رکھے ہوئے تھی اسے امید تھی کہ کبھی نہ کبھی اس کا شہر میںتبادلہ ہوجائے گا ۔
اسی اثنا میں اس کی شادی زاہد صاحب سے ہوگئی ۔زاہد صاحب ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم تھے اور ان کی ٹائمنگ بھی بہت سخت تھی ۔ یعنی صبح جاتے تو شام کو تھکے ہارے آتے۔ وہ ایک خوش اخلاق انسان تھے پانچ وقت کے نمازی تھے ۔ دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ اپنے کم وسائل میں انہوں نے اپنا گھر بھی بناناہے اور اپنے بچوں کے بارے میں بھی سوچنا ہے ۔
نصرت نے فیصلہ کیا کہ اپنی جاب جاری رکھے گی اور پیچھے گھر اس کی ساس سنبھالیں گی ۔ اور باقی شام کا کام وہ کرے گی ۔ اسی جاب کے دوران دو بچے بھی ہو گئے ۔ اور اب دونوں بچے اسکول جانے کے قابل ہو گئے تھے دو ماہ پہلے ہی اس کا یہاں تبادلہ ہو گیا اور نصرت کو شہر آنے کا موقع مل گیا ۔
سب بہت خوش تھے ۔ اس اسکول میںسٹاف بھی کافی تھااور باقاعدہ کلاسیں ہوتی تھیں ۔ لان اور عمارت بھی خوبصورت تھی۔نصرت یہاں آ کے بہت اچھا محسوس کر رہی تھی ۔ وہ باقاعدگی سے اپنے بچوں کو پڑھاتی اوران کی کاپیاں چیک کرتی ۔ اس کا چوتھا پیریڈ فارغ ہوتا تھا اس وقت سٹاف روم میں مسز سیمی ارشاد بیٹھی ہوتی تھیں۔ ان کے سٹائلش بال ، خوبصورت کپڑے ، نصرت کو بہت بھاتے تھے ۔دونوں ہم عمر بھی تھیں ۔ زیادہ سٹاف یا تواس سے عمر میں بڑا تھا یا دو تین جونئیر ٹیچر بھی تھیں ۔مسز سیمی سے اس کی بہت جلد دوستی ہو گئی ۔ دوسرا سٹاف بہت سادہ کپڑے پہنتا تھا اور اکثر نے کمیٹیاں ڈالی ہوئی تھیں ۔ اسکول کے اندر بھی ایک کمیٹی چل رہی تھی ضرورت مند سٹاف ممبرز پیسے بچابچا کر اپنی بڑی ضرورت پوری کرنے کے لیے ڈالا کرتے تھے ۔نصرت آرا نے خود بھی اپنے شوہر کے ساتھ کمیٹی ان کے آفس میں ڈالی ہوئی تھی۔
مسز سیمی کے جوتے میچنگ ہوتے اور پرس ، جیولری اورمیک اپ ایک سے ایک بڑھ کر ایک ہوتے اگر کبھی نصرت اس کے پرس کی تعریف کر دیتی تو فوراً وہ شروع ہوجاتی۔
’’ یہ مجھے ارشاد نے لے کر دیا ہے اور اگر میرے منہ سے کسی چیز کا ذکر ہو جائے تو فوراً لا کے دیتے ہیں ۔ میری ہر فرمائش پوری کرتے ہیں ‘‘۔
نصرت نے اپنے معمولی سے پرس کو دیکھا جوجگہ جگہ سے خراب ہو رہا تھا اور اس کی ایک زپ بھی خراب ہو چکی تھی ۔ پورے سال سے استعمال کر رہی تھی۔ تنخواہ سے پیسے ہی نہیں بچتے تھے کہ وہ بدل لیتی۔ پچھلے ماہ بچوں کونئے بیگ لے دیے تھے اور اس وجہ سے وہ اسی کی مرمت کروا
نصرت نے اپنے معمولی سے پرس کو دیکھا جوجگہ جگہ سے خراب ہو رہا تھا اور اس کی ایک زپ بھی خراب ہو چکی تھی ۔ پورے سال سے استعمال کر رہی تھی۔ تنخواہ سے پیسے ہی نہیں بچتے تھے کہ وہ بدل لیتی۔ پچھلے ماہ بچوں کونئے بیگ لے دیے تھے اور اس وجہ سے وہ اسی کی مرمت کروا کے گزارا کر رہی تھی ۔ پرسوں اس نے اس کے جوتوںکی تعریف کردی ۔
’’ یہ ارشاد نے مجھے اصرار کر کے دلائے ہیں ۔ فلاںبرینڈ کے جوتے ہیں ۔ ورنہ میرے پاس تو پہلے ہی برائون کلر کے دو شوز تھے ۔ کہنے لگے کہ تمہارے پائوں میں بہت اچھے لگ رہے ہیں ۔ اگر تم نہیںلو گی تو میںناراض ہو جائوں گا اس لیے مجھے لینے پڑے ‘‘۔
پھر اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’ تم بیوٹی پارلر نہیں جاتی ۔ تم ضرور جایا کرو میں نہ جائوں تو ارشاد ناراض ہو جاتے ہیں ۔ کہتے ہیں تم خرچے کی فکرنہ کیا کرو بس اپنا خیال رکھا کرو ‘‘۔
نصرت اداسی سے سوچنے لگی کہ وہ دلہن بننے کے لیے بھی بیوٹی پارلر نہیں گئی تھی ۔
’’ اور پتاہے ‘‘ اس نے کاپیاں ایک طرف رکھتے ہوئے کہا ۔ ’’کل ہم کمپنی باغ گئے تھے ۔ موبائل میں پکچرز تھیں تمہیں دکھاتی مگر موبائل ارشاد کے پاس ہے ۔ زبردستی مجھے جھولوںپر بٹھایا ۔ کہنے لگے یہی تو عمر ہے انجوائے کرنے کی ۔ پھر گول گپے کھلائے ، باسی تھے ۔ ارشاد کے اصرار پر کھانے پڑےاور تمہیں پتہ ہے مجھے تو صرف چاکلیٹ فلیور آئس کریم پسند ہے انہوں نے مجھے زبردستی سٹرابری فلیور کھلایا۔ میں نے اس شرط پر کھایا کہ ڈنر باہر کروں گی ۔ اور گھر جا کے کچھ نہیں پکائوں گی ‘‘۔
نصرت منہ کھولے اس کی باتیں سن رہی تھی ۔ صرف ایک سرد آہ اس کے منہ سے نکلی ۔ عرصہ ہو گیا تھا اس کو باہر گئے ہوئے ۔ چھٹی کے دن بھی زیادہ سے زیادہ میکے کا چکر لگالیتی یا نندیں آجاتیں۔ شادی کے بعد وہ ایک دوبار ہی کمپنی باغ گئی تھی۔ پھر ایک سال میں وہ ماں بن گئی اسکول کی ذمہ داریاںالگ تھیں زاہد کی پرائیویٹ جاب تھی وہ صبح کے گئے شام کوآتے ، اور چھٹی کے دن آرام کرتے یا منڈی جا کے سودا سلف اکٹھا لے آتے ۔دونوں کی تنخواہ سے مل کر گھر کا بجٹ چلتا۔ وہ پیسہ پیسہ جوڑ کر بہت طریقے سلیقے سے چل رہے تھے۔ نصرت کے دو بچے تھے انہیں ساس سنبھالتی تھی جس کی وجہ سے اسے جاب میں کافی سہولت ہو گئی تھی۔
اب بچے بھی اسکول جانے لگے تھے ۔ انہوں نے فی الحال بچوں کو محلے کے قریبی اسکول میں داخل کروایا تھا تاکہ لانے لے جانے کے خرچ سے بچ سکیں، پانچ مرلے کا پلاٹ انہوں نے قسطوں میں خرید لیا تھا ۔ اب دونوں کی خواہش تھی کہ اس میں دوکمروں کی چھت بھی ڈال دی جائے تاکہ وہ کرائے کے جھنجھٹ سے بچ جائیں ۔ ان کی زندگی پر سکون انداز سے گزر رہی تھی، میاں بیوی میں اچھی انڈر سٹینڈنگ تھی ۔ نصرت ساس نندوں کی عزت کرتی اورکبھی ظاہرنہ ہونے دیتی کہ گھر کا خرچہ اپنے اخراجات کی کٹوتی کر کے چلا رہی ہے ۔ وہ بھی اس کی عزت کرتی تھیں وہ بہت سادگی سے زندگی گزاررہی تھی ۔ ضرورت کے تحت ملبوسات لیتی اور پرس وغیرہ مکمل ناکارہ نہ ہو جاتا تب تک نہ بدلتی ، میک اپ کا بھی کوئی شوق نہیں تھا ۔ کبھی کبھار فنکشن ہی پر میک اپ کیا کرتی تھی ۔ بچوں کو بھی اس نے سادگی کی عادت ڈالی تھی مگر مسز سیمی ارشاد کی صحبت نے اس کی زندگی میں بھونچال برپا کر دیا تھا اور اسے اپنی زندگی بے رنگ اور بے بو نظر آ رہی تھی اور اپنا شوہر اسے بہت ناکارہ شخص لگا جوسیمی کے شوہر کی طرح اس کے ناز نخرے نہ اٹھاتا تھا۔
’’آج مسز سیمی ارشاد نہیں آئیں ‘‘ نصرت نے سٹاف روم میں داخل ہوتے ہی چاروں طرف نظر دوڑائی ۔
’’ نہیں‘‘ مسز حفیظہ اختر رجسٹر چیک کر رہی تھی۔
’’ وہ تین دن کی چھٹی پر ہے ‘‘۔
اچھاوہ کاپیاں میز پر رکھ کر دھک سے کرسی پر بیٹھ گئی ۔
’’ آپ کو اُس سے کوئی ضروری کام تھا ؟‘‘مسز اختر نے عینک درست کی وہ سینئر ٹیچر تھیں۔
’’ اس نے آپ سے کوئی رقم تو ادھار نہیں لے لی ‘‘۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا ’’میںنے سوچا تھا آپ کو اس کی عادت کے بارے میں بتائوں گی وہ اکثر آپ سے باتوں میں لگی ہوئی ہوتی ہے‘‘ ۔
’’جی وہ مجھ سے رقم کیوں ادھار لیں گی اس نے مایوسی سے اپنے پرانے جوتے ، پرس پر نظر ڈالی’’ وہ تو خود بہت امیر سی ہے ‘‘۔
’’ کس نے کہا ‘‘ مسز اختر نے عینک اتار کررکھ دی ۔
’’ تم اس سے بچ کر رہنا تم مجھے سیدھی سادی دکھائی دیتی ہو ‘‘۔ انہوں نے ناصحانہ اندازمیں سمجھایا۔
’’ اس کے شوہر کیا کرتے ہیں ؟‘‘ اس کے ذہن میں زاہد کاسوال اٹھا ہؤا تھا۔
’’ کون سے شوہر‘‘ مسز اختر نے مسکراتے ہوئے کہا’’ وہ تو دوشادیاں کر چکی ہے آخری بار تین سال پہلے طلاق ہوئی تھی‘‘ ۔ نصرت نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا۔
’’ وہ ارشاد جس کی وہ ہروقت تعریف کرتی ہے‘‘ اس کے ہونٹ کپکپائے۔
’’ میں نے بتایاناں! مطلقہ ہے آج کل وہ اپنی جیسی چند لڑکیوںکے ساتھ ہوسٹل میں رہتی ہے ۔ اسے پیسوں کی ضرورت رہتی ہے اور اکثر ادھار لے کر واپس بہت مشکل سے کرتی ہے۔ میں نے اس کی باتوں سے متاثر ہو کر پچھلے سال 5ہزار روپے دیے تھے جواس نے اب تک واپس نہیں کیے ۔ تم بچ کر رہنا ‘‘۔
’’ مگر وہ روز روزنئے نئے کپڑے جوتے کہاں سے لیتی ہے؟‘‘
مسز اختر نے سمجھایا’’ جوتے کپڑے مانگ تانگ کر پہن لیتی ہے۔ گرلز ہاسٹل میں جو رہتی ہے محدود تنخواہ ہے میں اسی ہوسٹل کاکرایہ اور دیگر خرچہ کرنا ہوتا ہے ۔ والدین حیات نہیں ہیں ۔ بھائی بھابھی سے بنتی نہیں ، دوبار گھر بسانے کی کوشش کی مگر ہر دفعہ اپنے فضول خیالات اورفضول خرچوں کی وجہ سے ناکام ہو چکی ہے۔
اپنا گھر بار ہے نہ ٹھکانہ اب بیمار ہوگئی تو علاج کے لیے رقم نہیں ہے اس نے کچھ بچا کر ہی نہیںرکھا۔ ہیڈ مسٹرس صاحبہ سے درخواست کی ہے کہ اس کے علاج کے لیے کہیں سے انتظام کردیں۔نہ ہی کوئی اس کی تیمار داری کرنےوالا ہے ۔ اب اکیلی پڑی ہے‘‘ ۔ مسز اختر نے رجسٹر اُٹھاتے ہوئے کہا ۔
’’ میرا پیریڈ ہو گیا ہے ۔ میں چلتی ہوں‘‘ وہ نصرت کو ہکابکا چھوڑ کر سٹاف روم سے نکل گئیں۔
٭ ٭ ٭