آسیہ راشدکشف - بتول نومبر۲۰۲۰

کشف – بتول نومبر۲۰۲۰

ہماری یہ فانی دنیا گو نا گوں واقعات سے بھری پڑی ہے ایسے ایسے حیرت انگیز واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔حیات بعد از موت ایک ایسا موضوع ہے جس میں انسان کو ہمیشہ سے ہی دلچسپی رہی ہے ہم اسے قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگربعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو اپنے مخفی اسرار کی کچھ جھلکیاں دکھلا دیتے ہیں جس سے سلیم الفطرت لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی اصلاح کرلیتے ہیں۔ ایسے ہی کئی واقعات دنیا میں ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔ آج میں آپ کو دو ایسے لوگوں کے سچے واقعات بتانے جا رہی ہوں جنہوں نے خود ان واقعات کا مشاہدہ کیا جس کے بعد ان کی اور ان کے اہل خانہ کی زندگیاں یکسر بدل گئیں۔
پہلا واقعہ دمشق کے ایک عالم دین نے سنایاوہ بتاتے ہیں :
دمشق میں وداح کا قبرستان ہے اہلِ دمشق اسے اچھی طر ح جانتے ہیں کیونکہ یہ وہاںکا مشہور قبرستان ہے۔ اس میں اولیا ء ،علماء، مجاہدین اور شہدا کی قبریں ہیں ۔ اسی قبرستان میں ایک گورکن تھا جواپنے روز مرہ کے معمولات کے مطابق قبریںکھودتا اور مردے دفناتا اور قبروں کی دیکھ بھال کرتا ایک روز وہ اپنے معمول کے مطابق اپنے کام میں مصروف تھا کہ ایک عورت اس کے پاس آئی اور ایک قبر کھودنے کو کہا ۔ قبر تیار ہو گئی تو تھوڑی دیر بعد جنازہ آگیا ۔ مگر اس جنازے میں لوگوں کی کچھ بڑی تعداد نہ تھی چند گنے چنے لوگ تھے۔ جنازے کو زمین پر رکھ کر تابوت کھولا گیا اور میت اٹھا کر قبر میں رکھنے کیلئے دی گئی ۔ گورکن قبر میں تھا اس نے لاش اٹھائی اور اسے قبر میں رکھنے لگا ۔ اسی اثنا میں قبر کھل گئی اور جنت کے باغوںمیں سے ایک باغ بن گئی اور اگلا منظر یہ تھا کہ دو آدمی اسپ تازی ( عربی گھوڑوں) پر سوار آئے اور میت کو لے کر چلے گئے۔
قبر کے ارد گرد کھڑے لوگوں کو یہ منظر دکھائی نہیں دیا ۔ یہ سب کچھ صرف گورکن ہی دیکھ سکا اور اس نظارے کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہوگیا ۔ لوگوں نے اسے اٹھایا اسکے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اسے ہوش میں لائے ۔ ہوش میں آنے کے بعد اس نے عورت کے بارے میں پوچھا مگروہ جا چکی تھی۔
لوگوںنے اس سے پوچھا کیا ہوا ؟ تو وہ بولا بخدا عجب نظارہ دیکھا میں نے یوں یوں یوں یوں دیکھا اس نے تمام واقعہ کہہ سنایا سبحان اللہ ، سبحان اللہ ۔ لوگ سمجھے اسے وہم ہو گیا ہے اس لیے وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے ۔
اس واقعہ کے کچھ ماہ بعد وہی عورت ایک بار پھر اس گورکن کے پاس آئی اور اسے قبر کھودنے کے لیے کہا ۔ قبر تیار ہو گئی ، میت آگئی۔گورکن نے میت تابوت سے نکالی اور قبر میں رکھی تو قبر کھل گئی اور جنت کا ایک باغ بن گئی دو فرشتے آئے اور میت کو لے کر چلے گئے مگر اس بار گورکن بے ہوش نہیں ہوا۔
وہ فوراًقبر تیار کر کے نکلا اور عورت کے پیچھے پیچھے چل پڑا ۔اس کے پاس پہنچ کر اس نے عورت سے پوچھا، آپ کون ہیں اور کہاں سے آئی ہیں اور اس میت سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟
عورت بولی! میں بہت دکھ میں ہوں جسے دفنایا گیا ہے وہ میرا بیٹا ہے ۔ چند ماہ پہلے میرا ایک اوربیٹا بھی وفات پا چکا ہے ۔
وہ بولا ،پہلی میت والی بھی آپ تھیں ؟
ہاں مگر تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو ؟
وہ بولا آپ کے پہلے بیٹے کو جب قبر میں رکھا تو وہ جنت کا باغ بن گئی اور دوسرے کے ساتھ بھی یہی ہوا دو فرشتے آئے اور انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔آپ مجھے بتائیں یہ دونوں کیا کرتے تھے گورکن نے تجسس سے پوچھا ۔آخر ایسا کو ن سا عمل تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ بلند مقام ملا۔
عورت نے کہا پہلا طالب علم تھا اور دوسرا ترکھان تھا جو اپنے بھائی کی تعلیم و تربیت کے اخراجات برداشت کر رہا تھا۔
اللہ تعالی ٰنے طالب علم اور اس پر خرچ کرنے والے کے ساتھ یہ خوبصورت معاملہ کیا ۔
گورکن نے جب علم کی یہ فضیلت دیکھی تو وہ قبرستان چھوڑ کر مسجد توبہ میں آگیا ہمارے خاندان کے بزرگ برسوں سے اس مسجد کی خدمت پر مامور تھے جس وقت وہ گورکن مسجد توبہ میں آیا اس وقت ہمارے والد اور ان کے والد اور دادا کے دادا شیخ سعید برہانی وہاںموجود تھے ۔ گورکن نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ میں علم حاصل کرنا چاہتا ہوں شیخ صاحب فرمانے لگے کہ دیکھنے میں آپ چالیس پچاس کے معلوم ہوتے ہیں اور آپ کو اب اس عمر میں علم حاصل کرنے کا خیال کیونکر آیا ؟
گورکن نے ان کے سوال کے جواب میں قبرستان والا تمام واقعہ من وعن سنا دیا توشیخ صاحب نے کہا اگر یہ بات ہے تو پھر اللہ پر توکل کر کے پڑھنا شروع کردو۔ عربی کی کتاب اجر ومیہ لے آئو ( عربی گرائمر کی کتاب)
یوں گورکن نے دل لگا کر پڑھنا شروع کیا اور کچھ ہی عرصے میںان کا شمار بڑے علماء میں ہونے لگا ۔ گورکن کا نام شیخ عبد الرحمن حفار تھا وہ دمشق کے بڑے عالم کے طور پر جانے جاتے تھے ان کے بعد ان کا سارا خاندان نسل در نسل علم حاصل کرنے والوں میںشامل رہا جن میں سب سے آخری عالم دین شیخ عبد الرزاق حفارتھے ۔ وہ بھی دمشق کے مشہور علما میں سے تھے جنہوں نے اس واقعہ کو بیان کرنے کی اجازت دی۔
یہ واقعہ بطور مثال سب کے سامنے پیش کیا گیا تاکہ لوگوں کو یہ خوشخبری ملے کہ اللہ تعالیٰ علم حاصل کرنے والوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے۔
یہ سبق آموزواقعہ میں نے یو ٹیوب پر دمشق کے ایک عمر رسیدہ عالم دین کی زبانی سنا اور آپ کے سامنے بیان کیا۔اس واقعے نے یادوں کے بہت سے دریچے کھول دیے۔ مرنے کے بعد انسان کے ساتھ کیا واقعات پیش آتے ہیں اسے کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اس پر بھی حدیث کی روشنی میں بات کریں گے ۔
پہلے میں آپ کو ایک سچا واقعہ سناتی چلوں جو میں نے اپنی (والدہ) صفیہ سلطانہ زوجہ صابر قرنی مرحومہ سے سن رکھا ہے ۔ اس واقعہ نے صفیہ سلطانہ صاحبہ کی زندگی کا رخ متعین کر دیا اوردین کی راہ پر چلنے میں انہیں استقامت بخشی ۔
واقعہ کچھ یوں ہے وہ بتاتی ہیں کہ میری جواں سال بہن چند روز کی معمولی علالت کے بعد اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں ۔ وہ بے حد خوب صورت اور خوب سیرت تھیں نماز ، روزہ کی پابند اللہ تعالیٰ سے دلی تعلق تھا ۔ ان کی عادات و اطوار گھر کے دیگر افراد سے یکسر مختلف تھیں ۔ ابھی سولہویں سال ہی میں تھیں کہ ہمیں چھوڑ کر اپنے محبوب حقیقی سے جا ملیں۔
ہم سب بے حد افسردہ اور دکھی تھے ۔جواں مرگ پر ساراخاندان امڈاچلا آ رہا تھا ۔ لوگوں کو تعزیت کیلئے الفاظ نہیں ملتے تھے وقت رخصت آیا جنازہ اٹھایاگیا اور انہیں قبرستان لے گئے ہمارے والد عبد الحق صاحب نے خود انہیں اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا اور قبر کی دیواریں بنانے میں گورکن کا ہاتھ بٹانے لگے ۔ والد صاحب بتاتے ہیں جیسے ہی وہ قبرمکمل کر کے ایک قدم پیچھے ہٹے توقبر کے سرہانے کی طرف سے اینٹیں گرگئیں وہ یکدم نیچے جھکے تاکہ اینٹیں دوبارہ جوڑیں تو ان کی نگاہ قبر کے اندر پڑی تو خوش کن منظر انہوں نے اندر دیکھا وہ ہوش و حواس اڑانے کے لیے کافی تھا۔
انہوں نے کیا دیکھا کہ ان کی بیٹی کے چہرے سے کفن ہٹا ہوا ہے اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور وہ مسکرا رہی ہے ۔ دوسری چیز جو حیران کن تھی وہ یہ کہ قبر گلاب کے پھولوں سے بھری ہوئی تھی اور خوشبوئیں امڈی چلی آ رہی تھیں ۔ ان کی آنکھوں نے جب یہ منظر دیکھا تو وہ شکرگزاری کے آنسو بہانے لگیں بمشکل تمام انہوں نے گورکن کے ساتھ مل کر اینٹیں جوڑیں ۔ مگرگورکن کی نگاہوں سے یہ منظر اوجھل رہا ۔ وہ معمول کے مطابق اینٹیں جوڑتا رہا والد صاحب اپنے رب کی عطا پر سر شار گھر واپس آئے ۔ دل خوشی اور اطمینان سے لبریز تھا ان کی بیٹی کے ساتھ یقینا بہترین معاملہ ہونے جارہا تھا۔
گھر آکر انہوں نے سب کو یہ واقعہ سنایا ۔ ہر کوئی اس واقعے کو سننے کے بعد حیرت زدہ رہ گیا۔ اللہ نے دلوں میں رنج و غم کی بجائے اطمینان اورخوشی بھر دی تھی ۔ صفیہ سلطانہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے اسی وقت اللہ سے عہد کیا کہ وہ تمام عمر اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گی تاکہ ان کا انجام بھی اپنی بہن جیسا ہو اور وہ آخر دم تک اس پر ثابت قدم رہیں ۔ تمام عمر قرآن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ۔ ہزاروں لڑکیوں کو قرآن کا ترجمہ پڑھایا اور سکھایا تین نسلیں ان کی اس خدمت سے مستفید ہوئیں ۔ ’’تعلیم القرآن ‘‘(لفظی ترجمے والے سپارے ا ز صابر قرنی) تیاری میں بھی ان کاحصہ شامل ہے ۔
اب ان واقعات کو حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں ۔
تفسیر ابن کثیر میں سورہ الاعراف کی تشریح میں حدیث درج ہے جس میں براء بن عازب ؓسے روایت ہے ۔
ہم ایک انصاری کے جنازے کی مشایعت کرتے ہوئے نبی کریم ؐ کے ہمراہ چل رہے تھے اور قبر تک پہنچے حضرت محمد ؐ وہاں بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے اطراف میں بیٹھے تھے اور ایسے خاموش گویا پرندے ہمارے سروں پر بیٹھ گئے ہوں۔ آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی آپؐ زمین پر شفل کے طور پر لکیریں کھینچ رہے تھے ۔ پھر آپؐ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمانے لگے عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو ! دو یا تین دفعہ فرمایا ۔ پھر فرمایا مومن جب دنیا سے اٹھنے لگتا ہے او رآخرت کا رخ کرتا ہے تو آسمان سے روشن چہرے والے فرشتے جنت کا کفن لیے ہوئے اترتے ہیں اورجنت کی خوشبوئیںساتھ لاتے ہیں ۔ اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ جہاں تک نظر کام کرتی ہے فرشتے ہی فرشتے ہوتے ہیں ۔ پھر ملک الموت آکراس کے سرہانے بیٹھتے ہیں ۔ اے مطمئن روح مغفرت ربانی کی طرف چل ۔ یہ سنتے ہی روح چل پڑتی ہے جیسے کہ مشک کے منہ سے پانی کے قطرے نکلنے لگتے ہیں ۔ چشم زون میں وہ اس کو جنتی کفن پہنا دیتے ہیں اور جنتی خوشبو میں اس کو بساتے ہیں ۔ وہ مشک کی ایسی خوشبو ہوتی ہے کہ جو دنیا میں بہترین ہو سکتی ہے ۔ اس کو لے کر آسمان پر چڑھنے لگتے ہیں جہاں کہیں سے گزرتے ہیں فرشتے کہتے ہیں یہ کس کی پاک روح لے کر جارہے ہو ؟ کہا جاتا ہے فلاں ابن فلاں کی ۔ آسمان تک پہنچ کر دروازہ کھولنے کے لیے کہتے ہیں دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔ ان کے ساتھ دوسرے تمام فرشتے بھی آسمان دوم تک ساتھ آتے ہیں ۔ اسی طرح آسمان بہ آسمان ساتویں آسمان تک پہنچتے ہیں ۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے اس بندے کوعلّیین میں لکھ لو اور زمین کی طرف واپس کر دو کیونکہ میں نے اسے مٹی ہی سے پیدا کیا ہے ، اسی کے اندر اس کو واپس کرتا ہوں پھر دوسری بار اسی کے اندر سے اس کو اٹھائوں گا ۔ اب اس کی روح واپس کی جاتی ہے ۔
یہاں دو فرشتے آتے ہیں اس کے پاس بیٹھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تمہارا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ میرا رب ہے ۔ پھر پوچھتے ہیں تمہارا دین کون ساہے ؟ وہ کہتا ہے اسلام میرا دین ہے ۔ پھر پوچھتے ہیں وہ کون شخص ہیں جو تمہاری طرف بھیجے گئے تھے ؟وہ کہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمدؐ تھے ۔ پھر پوچھتے ہیں تمہارا ذریعہ علم کیا تھا ؟ وہ کہتا ہے میں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھی تھی اس پر ایمان لایا تھا اب آسمان سے ایک ندا آئی ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا ۔ اس کے لیے جنت کا فرش لائو۔ جنت کے کپڑے پہنائو اور جنت کا ایک دروازہ اس کے لیے کھول دو تاکہ جنت کی ہوا اور خوشبو اس کو پہنچتی رہے اور اس کی قبر تاحد نگاہ کشادہ ہو جاتی ہے ۔ ایک خوبصورت شخص اچھے لباس میں خوشبو میں بسا ہوااس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے خوش ہو جائو ۔ آج تم سے جو وعدہ کیا گیا تھا پوراکیا جاتا ہے ۔ وہ پوچھے گا تم کون ہو؟ وہ کہے گا میں تمہارا عمل صالح ہوں تو بندہ کہے گا اے میرے رب ابھی اسی وقت قیامت قائم کردے تاکہ میں اپنے اہل اور مال سے ملوں۔
اس حدیث کو سامنے رکھیں تواوپر دیے گئے دونوں واقعات میں بعد از موت کی کیفیات پائی جاتی ہیں۔
بہت سے لوگوں کے اپنے ذاتی تجربات بھی ہوتے ہیں آپ کسی بھی فرد سے بات کریں وہ اپنا یا کسی کا تجربہ بیان کرے گا میری خالہ ارشاد بتول(جنہیں میں امی کہتی تھی) کی وفات کے وقت کمرہ خوشبوئوں سے معطر تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بہترین انجام کی ایک جھلک ہمیں دنیا میں ہی دکھا دی تھی۔
اللہ تعالیٰ کچھ مخفی اسرار اپنے خاص بندوں یا ولیوں پر عیاں کر دیتے ہیں بعض لوگوں کو معرفت کا علم عطا کیا جاتا ہے ۔ کچھ لوگوں کو بصیرت اور فراست اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ آنے والے واقعات سے قبل از وقت آگہی حاصل کر لیتے ہیں ۔ کچھ کو اپنے مخاطبین کا ذہن پڑھ لینے پر عبور حاصل ہوتا ہے ۔ کئی لوگوں کو کشف القبور کی نعمت سر فراز ہوتی ہے اورچند لوگوں کو سچے خواب دکھلا دیے جاتے ہیں ۔ یہ سبھی غیر معمولی کیفیات کشف کے مفہوم کو واضح کر تی ہیں ۔ یہ سب اللہ کا کرم ہے جس کو وہ جو چاہے اور جیسے چاہے عطا کرے۔

٭…٭…٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here