This Content Is Only For Subscribers
اسکول اور تعلیمی ادارے اچانک بند ہونے کی خوشی سے سیراب بھی نہ ہوپائے تھے کہ ٹونٹی ٹونٹی منسوخ ہونے کی اطلاع جبران اور شارق پر بجلی بن کر گری…… ایسی چھٹیوں کا فائدہ بھی کیا؟
جی ہا ں یہ فروری 2020 ء کی بات ہے جب کرونا کی وبا نے پاکستان کارخ کرلیا۔ چنانچہ فوری اقدام کے تحت تعلیمی ادارے اچانک بند کردیے گئے۔ بچے ان ناگہانی چھٹیوں کا مصرف کیا کرتے جب بقیہ ساری سرگرمیوں پر بھی پابندی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ سختی بڑھتی گئی اور بچے بھی بیزار ہوتے گئے۔
یہ وہ دن تھےجب ان کے والدین عمرے سے واپس آچکے تھے اور عظمیٰ آپا کی واپسی کی تاریخ قریب آگئی جو ان کے والدین کی غیر حاضری میں دیکھ بھال کے لیے نوشہرہ سے یہاں آئی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے ایک شاندار خاندانی دعوت رکھنی تھی۔ اس کے لیے23مارچ کی تاریخ مناسب سمجھی گئی تھی کہ اس تاریخی دن کے حوالے سےلڑکوں کی تیار کردہ ویڈیوبھی لانچ کرنی تھی۔ مگر ٹھیک اس دن سے لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
یہ اصطلاح بچوں کے لیے دلچسپ تھی تو بڑوں کے لیے حیران کن! انہوں نے کرفیو کو کسی زمانے میں برتا بھی تھا مگر یہ لاک ڈاؤن بھلا کیا ہؤا؟ بہرحال چونکہ شہروں کے درمیان رابطے بھی منقطع ہونے والے تھے لہٰذا عظمیٰ آپا جو فلائٹ ملی فوراً روانہ ہوگئیں کہ ان کے پاس بہت سی ذمہ داریاں تھیں جنہیں تعطل سے پہلے ضرور حل کرنا تھا۔
مارچ کا آخری ہفتہ سخت انتظامی پہرے میں گزرا اور اپریل بھی اسی عالم میں گزرنے لگا۔ صاف لگ رہا تھا کہ یہ آفت عارضی نہیں ہے اور رمضان میں عبادات بھی اثر انداز ہوں گی ۔ویسے تو بچہ پارٹی مسجد نہ جانے کے بہانے ڈھونڈتی تھی مگر اب پابندی کے بعد اس کی ہڑک ہونے لگی۔ گھر بیٹھے بیٹھے دل گھبرانے لگا۔کسی کو کالج کینٹین یاد آرہی تھی، کسی کو کوچنگ سنٹر کی دلچسپ لڑائیاں ! ساتھیوں کی یاد سے دل بھر آتا ۔ گھر کے ملازمین کو بھی چھٹی دے دی گئی تھی چنانچہ کام کا زور بڑھ گیا تھا ۔ پھرجب کہیں بھی جانا نہیں ، کسی کو آنا نہیں تو گھر کا نظام الاوقات چوپٹ ہوکر رہ گیا تھا ۔ لڑکیاں بہت اکتائی ہوئی تھیں کہ سہیلیوں سے ملاقات کر کے جو خوشی ملتی تھی اس سے محرومی تھی۔ گھر کی بلی بھی سو سو کر بیزار تھی کہ کوئی مہمان آتا ہی نہیں جس کا وہ استقبال کرے۔ گلی کے کتے بھی اینڈتے رہتے، بھونکتے آخر کس پر !اجنبی تو ایک طرف محلے کے رہائیشی باشندے بھی گھر میں مقید تھے۔ ایسے میں بےچارے کتے بھی فاقے سے گزر بسر کررہے تھے۔
گھر سے باہر نکلنے کے لیے سامان کی خریداری ہمیشہ سے لڑکوں اور مردوں کا بہانہ تھا مگر اب توروایتی خرید و فروخت کے لیے بھی محدود تعداد میں نکلنے کی اجازت تھی ۔ پہلے تو سارا سامان ایک وقت میں لانے پر زور ہوتا تھا کہ وقت ضائع نہ ہو مگر اب چونکہ وقت ہی وقت تھا اور گھر سے بار بار نکلنے کا جواز بھی تو باہر نکلنے پر ہی پابندی تھی۔ گلیوں میں پولیس بیٹھی ہوئی تھی۔ باہر نکلنے والوں کی ایسی تفتیش ہوتی کہ بندہ کپکپا کر رہ جاتا۔صرف سبزی اور دودھ والوں کو گلیوں میں آنے کی اجازت تھی ۔
عرفان اور یاسرکو ترکیب سوجھی ۔سبزی والا بن کر گلیاں گھوم آتے ہیں ! سبزی والے کو گھر کے اندر بٹھا کر ان دونوں کا ارادہ ٹھیلا لے کر جانے کا تھا مگر ان میں صرف ایک ہی جا سکتا تھا چنانچہ پہلے دن قرعہ فال عرفان کے نام نکلا کہ خیال بھی اس کا تھا اور پھر اپنے بڑے ہونے کا فائدہ بھی اٹھا نا تھا ۔ چنانچہ سبزی والے کو گھر میں روک کر عرفان میاں ٹھیلا لے
کر روانہ ہوگئے۔
بمشکل دو تین گلیوں کا دورہ کر کے ہی واپس آنا پڑا کہ تقریباً ہر دوسری گلی میں شامیانہ لگا کر پولیس بیٹھی تھی کہ یہاں کرونا کے مریض ہیں ، گزرنے کی اجازت نہیں ! صورت حال یہ تھی کہ سبزی کا ایک دانہ بھی فروخت نہ ہو سکا تھا۔ وجہ؟ ایک تو عرفان سبزی والے کی آواز لگانے سے معذور تھا، دوسرے حفاظتی حوالے سے اس کا حلیہ اتنا خوفناک تھا کہ کوئی قریب نہ پھٹکتا ۔ اب سبزی والے کے نقصان کا ازالہ بھی کرنا تھا کیونکہ سبزی فروخت تو نہ ہو سکی ہاں البتہ کچھ راستے میں گرضرور گئی تھی ۔ چنانچہ سبزی والے سے پورا ٹھیلا ادائیگی کر کے خالی کروا لیا گیا ۔
اب روزانہ سبزی کھانی پڑے گی ؟
بچہ پارٹی نے اس کا بھی حل سوچ لیا ۔کیوں نہ سبزی کے پیکٹ بنا کر پڑوسیوں کی مدد کی جائے ! خیال تو عمدہ تھا ،باہرنکلنے کا جواز بھی تھا۔مگر مسئلہ یہ ہؤا کہ پڑوسی بھی مشکوک ہوئے اور ٹنڈے توری قبول کرنے سے معذرت کرلی ماسوائے چند لوگوں کے ! چنانچہ ان لوگوں کی یہ ترکیب الٹ گئی اور انہیں دن رات سبزیاں کھانی پڑیں ۔ سبزی بنانے کےنئےنئے طریقے آزمائے گئے مگر بہر حال وہ تھیں تو سبزیاں ہی نا !
ایسے میں ڈیلیوری بوائے بننے کا خیال شارق نے دلایا مگر اس کی اجازت نہ ملی ۔ پھر ایسا ہؤا کہ کروناکے باعث بے روزگار ہونے اور گھروں میں محصور ہونے والے افراد کے لیے راشن ، ضروری اشیاءاور دوائیں پہنچانے کے لیے رفاہی تنظیموں کو رضاکار وں کی ضرورت پڑگئی ۔ یوں سب اس میں مصروف ہوگئیے ۔ آن لائین مصروفیات بہت بڑھ گئیں کیونکہ رابطہ اب اسی کے ذریعے ہونا تھا۔ آن لائین کلاسز بھی شروع ہوگئی تھیں ۔ ہر طرف خبریں اور افواہیں تھیں ۔نئےنئے سائنسی انکشافات ہورہے تھے۔ ٹوٹکوں اور نسخوں کا سیلاب آگیا تھا ۔ میمز بھی بن رہی تھیں ۔ نئے لطائف بھی جنم لے رہے تھے۔
زمین مرمت کے لیے بند ہے! یہ کالم پڑھ کر سب محظوظ ہوئے اور جبران نے تحقیق کا میدان تھام لیا۔
’’امی دیکھیں پودے کتنے زبر دست ہرے لگ رہے ہیں۔ ان میں کلوروفل بہت زیادہ بن رہا ہے کیونکہ گاڑیاں نہیں چل رہیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی فضا میں کم ہے ……!‘‘
ان دونوں گھروں میں جہاں مختلف سطح کے طلب علم موجود تھے ، سرکاری وزیر تعلیم کے بیان کو بڑے غور و خوض سےسناجاتاکہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟ اور پھر رمضان کے آخری عشرے میں وہ اعلان آہی گیا جس کے لیے وہ پچھلے دو مہینے سے بے چین تھے۔ جی ہاں ! امتحان نہ لے کر فارمولے کےتحت نمبر دے کر اگلی جماعت میں ترقی پاجائیں گے ! یاسر اور عرفان آزردہ تھے کہ آن لائین کلاسز اور امتحان کی وجہ سے نہ پڑھنے والے اور نقل کرنے والے فائدہ اٹھائیں گے ۔صبا اور شارق کے بورڈ کے امتحانات کی تیاری تھی،امتحان کا شیڈول تک آچکا تھا لیکن اب ان دونوں کی سمجھ میں نہ آتا کہ کس طرح کا ردعمل دیں۔ جبران کی حرکت سب سے عجیب اور دلچسپ رہی ۔ اس نے اپنے پچھلی دونوں شیلڈ ز کی تصاویر کو چوکٹھے میں ڈال کر ! Missing Third Shieldکاکمنٹ لکھ کر آنسووالی ایموجی لگا کر سب کو واٹس اپ کردیں ۔ سب بہت لطف اندوز ہوئے مگر ابو یعنی عارف صاحب کو پتہ چلا تو برا سا منہ بنا کر بولے۔
’’ اف یہ آج کل کے ناشکرے بچے ! ہمارے بچپن میں بھی ایک بار ایسا ہؤ اتھا ہم سب تو بہت خوش تھے ‘‘۔
’’ ابو ! آپ امتحان سے اتنا گھبراتے تھے ؟‘‘
جبران میاں ترنت بولے تو ابو کی سمجھ میں آیا کہ ان کی بات کس طرح ان ہی پر پلٹی گئی ہے ۔وہ بچے کو شکرکی طرف مائل کرنا چاہ رہے تھے جبکہ اس نے ان کی طرف گیند اچھال دی امتحان سے چوری کا کہہ کر……! دل میں مسکرائے مگر محض گھور کر رہ گئے اور جب عرفان نے توجہ د لائی تو جبران شرمندہ سے ہوکرابو کے ہاتھ میں پکڑا چائے کا خالی کپ لے کر باورچی خانے کی طرف لوٹ گئے۔
٭٭٭
ادھر عظمیٰ آپا نوشہرہ میں اپنی ذمہ داری پر لوٹیں مگر ہوسٹل وغیرہ بند ہونے سے وہ بھی فارغ تھیں کہ آن لائین کلاسز کی وجہ سے اقامت گاہیں ویران تھیں مگر وہ کراچی واپس بھی نہ آسکتی تھیں کیونکہ فضائی رابطے
منقطع تھے ۔ بہر حال وہ اپنی فرصت کو بہت اچھی طرح استعمال کر رہی تھیں ۔ واٹس اپ کے ذریعے سب سے رابطہ میں رہتیں ۔ ویڈیو کال ، زوم کانفرنس سے کچھ نہ کچھ سکھاتی رہتیں ۔ جبران کو کئی سورتیں یاد کروادیں ۔ خود بھی یوٹیوب سے نئےنئے ہنر سیکھ رہی تھیں ۔ انہوں نے بہن اسما اور بھاوج شہلا کو بھی فراغت کے کچھ نہ کچھ استعمال کے طریقے بتائے ۔ان کے مشورے سن کر شہلا تو’’ جی آپا !‘‘ کہہ کر رہ گئیں مگر اسما یہ بات سن کر گویا پھٹ پڑی۔
’’فرصت کیسی آپا! سب گھر پر موجود ہیں ۔ہر وقت کھانا پینا …… ہر کمرے میں کوئی نہ کوئی ہیڈ فون لگائے کلاس لیکچر یا میٹنگ میں مصروف ہے…… بچے خود کام کرلیتے ہیں مگر پھیلاوا اتنا ہے کہ سمیٹنے میں سارا دن لگ جاتا ہے……کوئی مددگار نہیں‘‘۔
بہن کے دکھڑے سن کر انہیں اس پر ترس آیا ۔واقعی دوسرے کے جوتے میں پاؤں ڈالو تو تکلیف کا اندازہ ہوتا ہے ! ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ چاہے ساری دنیا آپ کی بات مان لے بہن بھائی کو راضی کرنا آسان نہیں …… مگرشاید بہن کو اپنی بھڑاس نکالنے پر ندامت سی تھی جبھی اگلے دن اس کے نمبر سے فون آیا ۔ہبہ اور صبا باری باری ان سے مخاطب تھیں۔
’’خالہ !’میری تخلیقات‘ کے عنوان سے فیس بک پیج بناکر آپ کو ایڈمن بنایا ہے۔ آپ سب کچھ اس پر ڈال دیں……‘‘ یہ ہبہ تھی۔
’’میں یو ٹیوب سے سلائی سیکھ رہی ہوں مگر مشکل ہوتی ہے۔ آپ آئیں گی تو آپ سے سمجھوں گی……‘ ‘صبا نے پیار سے فرمائش کی۔ عظمیٰ آپا نے مسکراتے ہوئے یہ سب سنا اور مسکراہٹ والی ایموجی واٹس اپ کردی۔
٭٭٭
ایسے میں رمضان شروع ہوگیا مگر اس دفعہ کے رنگ ڈھنگ نرالےتھے ۔ اللہ کے گھر ویران تھے تو گھر گھر مسجد بن گئی تھی۔گھروں میں باجماعت نمازیں ہونے لگیں اور تراویح میں گھر کے حافظوں نے یہ کار خیر سنبھال لیا۔ہر سطح کے درس قرآن آن لائن شروع ہوگئے تھے ۔ محلے کی مسجد کا ایک دروازہ گلی میں کھلتا تھا ۔اس کے ذریعے کبھی کبھی داخل ہوتے تو وہاں وہی رونق نظر آتی ……گویا پابندی رکاوٹ نہ تھی۔
یوں ہی روزے گزر رہے تھے کہ آخری عشرے میں لاک ڈاؤن ختم کردیا گیا اور شہروں کے درمیان مسافرت شروع ہوگئی تو عظمیٰ آپا بھی واپس آگئیں۔لیکن وہ آتے ہی غسل کر کے اعتکاف میں بیٹھ گئیں ۔جبران میاں نے اعتکاف کے متعلق تازہ تازہ بیان سنا تھا لہٰذا خوب دلچسپی دکھائی۔ ان کی کوشش ہوتی کہ افطار و سحر میں ان کی ٹرے لے جانے کا فریضہ انجام دیں کہ کوئی بات ہوسکے مگر وہ آئیسولیشن کی سختی سے پابندی کر رہی تھیں ۔اعتکاف ایک طرح کی شرعی آئیسولیشن ہے مگر جس میں معتکف سے ملاقات پرویسی پابندی نہیں ہوتی۔
آخر کا رعید آگئی !!
نہ کسی کو عید ملنے آنا تھانہ کہیں جانا تھامگر پھر بھی عید تو عید ہے! سب کهانے کے کمرے میں چہک رہے تھے۔عظمیٰ آپا میر محفل بنی ہوئی تھیں ۔
’’بڑی پھپھو آپ نے اعتکاف میں سب سے زیادہ کس کو یاد کیا ؟ ‘‘ یہ ماہا تھی۔
’’اپنے موبائیل کو ‘‘۔ جواب سن کر بچہ پارٹی معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگی۔
’’ہاں تو سب کچھ اسی میں ہے نا! ڈائری ہو یا گھڑی …… تلاو ت ہو یا لیکچر…… ڈائری چیک کرنا ہو حساب کتاب کا کیلکولیٹر، کوئی نقشہ دیکھنا ہو……یا کسی کی یاد آئے تو اس کے میسجز دیکھنا …… سب کچھ تو آف تھا ……بس سب کی یادیں ہی یادیں تھیں۔رات دیر سے چاند کا اعلان ہؤا۔ گیارہ بجے جب موبائیل آن کیا تو معلوم ہؤا کہ بیلنس زیرو اور وائی فائی بیسمنٹ میںتھا اور وہ لوگ سو چکے تھے……صبح اٹھ کر وائی فائی کھلوایا تو ہزاروں میسجز!‘‘
اتنے میں عارف کے موبائیل پر امریکہ سے کال آئی۔ سب سے بڑے بھائی آصف عید کی مبارکباد دے رہے تھے ۔انہوں نے کئی بار عظمیٰ آپا کا پوچھا ۔ان کی گھبراہٹ سے کسی مسئلے کا اندازہ ہورہا تھا
جی آپ آگئیں……جہاز……!
ان کی آواز لڑکھڑانے لگی ……بار بار الحمدللہ پڑھ رہے تھے۔ معلوم ہؤا جہاز کے کریش ہونے کی خبر سن کر پریشان تھے۔عظمیٰ آپا کے بند فون کی وجہ سے اور پریشانی ہورہی تھی۔ جہاز کے ناگہانی حادثے پر سب اداس ہوگئے ۔کئی گھروں میں آج موت کا غم ہوگا!
عید گزری مگر عید ملن کے پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ جبران میاں کو اپنی عیدی کی کمی کا افسوس تھا۔ ساری دنیا کی طرح ان کی معیشت پر بھی کرونا نے ضرب لگاد ی تھی۔بہت سے لوگوں نے امی کے ایزی پیسہ یا ابو کے ایزی لوڈ کے ذریعے عیدی بھیجنے کی آفر کی مگر انہوں نے منع کردیا کیونکہ اس طرح ضبط ہونے کے امکان تھے اور پھر ڈیجیٹل بیلنس کا کڑکتے نوٹوں سے بھلا کیا مقابلہ ؟
عید کے پہلے ہفتے قریبی رشتہ داروں میں کئی انتقال ہوئے ، ایس اوپیز کی پابندی کے ساتھ گھر کے بڑے شریک ہوئے۔وہاں ملاقات میں بچوں کی عیدی وصول ہوئی تو سب نے رقت کے ساتھ ان بزرگان کی مغفرت کی دعا کی جن کے انتقال کے طفیل عیدی بجٹ بحال ہؤا۔
’’کتنے بابرکت لوگ تھے جو دنیا سے گزر گئے‘‘ جبران میاں کے اس سنجیدہ بیان پر سب مسکرا اٹھے!
٭٭٭