تین سال کی اندھی ، گونگی اور بہری بچی کو کیسے مارا جانا ہے اس کا فیصلہ آج کی آخری میٹنگ میں ہونا تھا جس کے لیے میٹنگ ہال میں موجود تمام لوگ نیوز چینل کے مالک وایڈیٹر منتظر تھے۔
ایک ہفتہ قبل چینل کے پی آر او ( پبلک ریلیشن آفیسر) ایک چھوٹے سے شہر کے مقامی اخباری رپورٹر کوچینل کے دفتر میں لے آیا تھا ۔ پی آر او نے ایڈیٹر سے تعارف کرایا تھا … ’’ سر ! یہ اپنے شہر کی سنسنی خیز خبروں کی اطلاع ہمیں دیتے رہتے ہیں ۔ کسی کسی سٹوری پر ہماری ٹیم ورک بھی کرتی ہے ۔ بٹ سر … اس بار جو یہ سٹوری لائے ہیں اس میں آپ کی اجازت لازمی ہے ‘‘۔
وہ مقامی اخباری رپورٹ جو خبریں کم اور اشتہارات زیادہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا ، سیدھے سادے اور مقامی لوگوں کو بلیک میل کرنا بھی اس کا ذریعہ آمدنی تھا ۔ جسے کسی جوڑے کو پبلک پارک میں عشق کرتے ہوئے دیکھ لیا تو خبر چھاپنے کی دھمکی دے کر روپے وصول کر لیے ۔ ادھر سال بھر سے اس نے ایک نیا پیشہ اپنایا تھا ۔ مشہور خبر یا چینلز کے لیے خبروں کی دلالی کرنا ، وہ کچے مال کی طرح چینل کو خبر دیتا تھا، جس کو چینل کی ٹیم اپنی فیکٹری میں شاندار پراڈکٹ بنا کر مارکیٹ میں اتارتے تھے اور ٹی آر پی وصول کرتے تھے۔
اس بار اخباری رپورٹ جو کچا مال لایا تھا اس پر ٹیم کے ساتھ خود ایڈیٹر بھی حیران تھا لیکن چینل کی گرتی ہوئی ٹی آر پی کو دیکھتے ہوئے ایڈیٹر نے یہ کہتے ہوئے اجازت دے دی کہ کچھ فیصلے دل سے نہیں دماغ سے کرنے چاہئیں کیونکہ اوپر والے نے بھی دماغ کو دل سے ایک فٹ اوپر ہی رکھا ہے۔
اخباری رپورٹر نے ایڈیٹر کو بتایا تھا … میرے شہر میں پچیس سال کی ایک عورت بیوہ ہو گئی ہے جس کی ایک تین سال کی اندھی ، گونگی اور بہری لڑکی ہے ۔ وہ عورت اپنے پرانے عاشق سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ عاشق بھی اس پر جان دیتا ہے ۔ ہر محبت کی کہانی میں عاشق و معشوق کے درمیان کوئی نہ کوئی دیوار ضرور حائل ہوتی ہے ۔ امیری ، غریبی ، ذات پات، خاندانی دشمنی وغیرہ لیکن یہاں مسئلہ اس اندھی بچی کا تھا ۔ عاشق کا کہنا تھا کہ میں اندھی بچی نہیں رکھوں گا ۔ ان دونوں نے کوشش کی کہ کوئی رشتے دار یا دوست بچی کو گود لے لے مگر ناکام رہے ۔ سرکاری وغیر سرکاری ، لاوارث و یتیم بچوں کے لیے تنظیم نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب ماں زندہ ہے تو ہم بچی کو نہیں لیں گے … تب ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ بچی کو مار دیا جائے ۔ وہ عاشق میرے دوستوں میں سے ہے ، میں نے انہیں مشورہ دیا … ’’ اگر تم اس بچی کو مار نا چاہتے ہو تو کیوں نہ اس کی موت سے فائدہ اٹھائو‘‘۔
’’ مطلب ؟‘‘ عاشق نے جلدی سے پوچھا۔
’’ دیکھو ! جب تم بچی کو ختم کر رہے ہو گے تو کوئی مشہور نیو زچینل اپنے چھپے کیمرے میں قید کر کے ٹی وی پر دکھا دے گا … کوئی کمپنی اس پروگرام کو سپانسر کرے گی ، تب کمپنی کا بزنس بڑھے گا، چینل کی ٹی آر پی بڑھے گی اور تمہارا بینک بیلنس بڑھے گا ‘‘۔
’’ مگر اس طرح تو ہم سماج اور قانون کے مجرم ہو جائیں گے ۔ اس میں سزا سے کون بچائے گا …‘‘
بچی کی ماں نے خوف ظاہر کیا۔
’’ اس کی فکر مت کرو۔ اس طرح کی سکرپٹ تیار کی جائے گی کہ تم پر آنچ نہ آئے… اور ویسے بھی پبلک کو چاہیے سنسنی خیز خبریں ، جس کو وہ بعد میں کسی نئی خبر کی وجہ سے بھول جاتے ہیں ‘‘۔
پھر ایک میٹنگ میں بچی کے ماں باپ کی ایڈیٹر سے ساری باتیں طے ہو گئی تھیں لیکن یہ طے نہیں ہو پار رہا تھا کہ بچی کو مارا کیسے جائے اس لیے چینل کے ایڈیٹر نے چینل کے تینوں سکرپٹ رائٹرز کو بلا کر ہدایت دی تھی کہ اس سٹوری پر ایسی سکرپٹ تیار کریں جس سے یہ لوگ بچ جائیں۔
اور آج کی آخری میٹنگ میں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ کس رائٹر کی سکرپٹ پر ٹیم کام کرے گی یعنی بچی کو کیسے مارا جانا ہے اور بچی کے ماں باپ کو کیسے بچایا جانا ہے۔
اس میٹنگ میں وہ بہت بے چینی سے ایڈیٹر کا انتظار کر رہے تھے۔ اس وقت میٹنگ میں بچوں کے لیے کھلونے بنانے والی کمپنی کے ایم ڈی بیٹھے ہوئے تھے جن کی کمپنی اس پروگرام کو پیش کرے گی ۔ یتیم و بے سہارا بچوں کے لیے فلاح و بہبود کا کام کرنے والی تنظیم ’’ معصوم کی آواز‘‘ کی صدر موجود تھیں جو پروگرام ٹیلی کاسٹ ہونے کے بعد ’’ مظاہرہ ‘‘ کرکے یہ مانگ کریں گی کہ مجرموں کو جلد سے جلد گرفتار کر کے سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ بال کلیان سمیتی کے صدر بھی موجود تھے جو بعد میں چینل پر اعتراض کریں گے جس کے لیے ان کو ایک سپیشل ٹاک شو میں ڈسکشن کے لیے بلایا جائے گا ۔ اس بحث میں ماہر نفسیات ، ماہر سماجیات اور ماہر قانون وغیرہ بھی موجود ہوں گے ۔ اس ٹاک شو میں کون کون سے مدعے اٹھائے جائیں گے یہ ابھی طے ہونا تھا … لیکن اس سے پہلے یہ طے ہونا تھا کہ بچی کوکیسے مارا جائے … میٹنگ میں ان لوگوں کے علاوہ تینوں سکرپٹ رائٹر، اخباری رپورٹر ، بچی کے ماں باپ ، چینل کا کیمرہ مین اور چینل کے ایڈیٹر کاپی آر او موجود تھے۔
چینل کے ایڈیٹر کے میٹنگ ہال میں داخل ہوتے ہی وہاں موجود سب لوگ ادب سے کھڑے ہو گئے ۔ ایڈیٹر کے پیچھے ان کی پرسنل سیکرٹری اپنے ہاتھ میں موبائل کان سے لگائے کسی کو سمجھا رہی تھی کہ ’’ سر ابھی میٹنگ میں ہیں بعد میں بات کر لیجیے گا ‘‘۔ مس سیکرٹری اس وقت گھٹنوں سے اوپر گلابی سکرٹ اور سفید ٹاپ کے اوپر لال ہی کوٹ پہنے ہوئے تھی ۔ اس کے بال کھلے ہوئے تھے ۔ وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔
مس سیکرٹری گزشتہ سال مس انڈیا کے مقابلہ حسن میں تیسرے نمبر پر آئی تھیں ۔ چونکہ وہ قیامت کا جسم رکھنے والی ایک پرکشش حسینہ ہے اسی کے دم پر وہ شو بزنس کے دنیا میں نمبر ون بننے کی خواہش رکھتی ہیں اس لیے وہ چینل کے ایڈیٹر کی پرسنل سیکرٹری بننے کو تیار ہوئی تاکہ کسی فلم یا ٹی وی سیریل میں ٹائٹل رول مل سکے یا کم از کم کسی اچھے ٹاک شو کی اینکرنگ ہی کر سکے ۔
’’ گڈ مارننگ ایوری باڈی‘‘ ایڈیٹر نے ایک پیشہ وارانہ مسکراہٹ تمام لوگوں پر اچھالتے ہوئے اپنا لیپ ٹاپ رکھا ۔ ایڈیٹر کے اشارے پر سب لوگ بیٹھ گئے ۔ ایڈیٹر نے بچی کی طرف نگاہ ڈالی جو اپنی ماں کی گود میں بیٹھی جانے کیا ’’ دیکھ ‘‘ رہی تھی ؟ نہ جانے کیا ’’ سن ‘‘ رہی تھی ؟ کچھ سوچ کر ایڈیٹر نے بچی کی ماں سے کہا … ’ ’میڈم آپ ذرا میٹنگ روم میں انتظار کریں ، ہم ابھی آتے ہیں ‘‘۔ ماں بچی کو لے کر باہر چلی گئی۔
پہلے رائٹر نے بنا وقت گنوائے کہا … ’’ سر میری رائے میں بچی کی موت جتنی درد ناک ہوگی ہمیں اتنی اچھی ٹی آر پی ملے گی اس لیے میں نے اس طرح کی سکرپٹ تیار کی ہے کہ سر بچی کے ماں باپ اس کے پیدائشی اندھے ، گونگے اور بہرے پن سے عاجز و پریشان ہیں ، ایک دن باپ جھنجھلا کر بے پناہ غصے میں بچی کی آنکھیں نکال دیتا ہے ۔ ماں بھی اس کے بہرے پن سے عاجز ہو کر سوئٹر بننے والی سلائیاں اس کے کان میں گھسیٹ دیتی ہے جس سے بچی مر جاتی ہے۔
’’ آپ کا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا مسٹر رائٹر ! یتیم و بے سہارا بچوں کی تنظیم ’’ معصوم آواز ‘‘ کی صدر چیخ پڑیں … آپ بالکل وحشی ہو گئے ہیں ۔ آپ تین سالہ پیدائشی اندھی بچی کے ساتھ ایسا سلوک کیسے کر سکتے ہیں ؟‘‘
چینل کے ایڈیٹر نے صدر محترمہ کی تائید کی … ’’ آپ ٹھیک کہتی ہیں ۔ آخر ہم انسان ہیں کوئی وحشی نہیں ‘‘۔اس طرح سکرپٹ نمبر ایک رد کردی گئی۔
دوسرے رائٹر نے کہا … ’’ سر! میرے سکرپٹ کے مطابق جس وقت میاں بیوی آرام کر رہے ہوتے ہیں تو عین اسی وقت بچی رونے لگتی ہے۔بس بچی کے بے وقت رونے پر باپ بے قابو ہو کر غصے میں بچی کو اٹھا کر دیوار پر دے مارتا ہے ۔ بچی وہیں تڑپ تڑپ کر سسک سسک کر مرجاتی ہے‘‘۔
’’ لیکن آپ کے کیمرہ مین صاحب ان کے بیڈ روم تک کیسے پہنچ گئے ؟ کیا یہ کوئی مشہور نیتایا ابھینیتا ہیں ‘‘۔ کھلونے بنانے والی کمپنی کے ایم ڈی نے اعتراض جتایا… اور پھر پبلک یہ سوال کرے گی کہ آخر چینل کو کیسے پتہ چلا کہ بچی کو مارا جانا ہے ‘‘۔
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں ‘‘بچی کے باپ نے کہا … ’’ پبلک سوال کرتی ہے ۔ اگر چینل کو پہلے سے ہی پتہ تھا کہ بچی کو مارا جانا ہے تو اس نے پولیس کو اطلاع دے کر بچی کی جان کیوں نہیں بچائی‘‘۔
اور ایڈیٹر کے اشارے پر سکرپٹ نمبر دو بھی رد کردی گئی ۔ اب سب کی نگاہیں امید کے ساتھ سکرپٹ نمبر تین پر تھیں ۔ رائٹر نے کہا … ’’ سر! میں نے اس طرح لکھا ہے کہ ہمارے چینل کی ٹیم ریلوے پر ڈاکو منٹری فلم بنا رہی تھی جس کے لیے چینل کے رپورٹر او رکیمرہ مین اپنے چھپے کیمرے کے ساتھ ایک ٹرین کے ایک کمپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہیں ۔ اس کمپارٹمنٹ میں ایک جوڑا اپنی اس اندھی بچی کے ساتھ موجود ہے ، ہم چھپے کیمرے سے ان کی حرکتیں قید کریں گے ‘‘۔
سر! واضح رہے کہ ہم کیمرے کو ایسے اینگل سے رکھیں گے کہ بچی کے ماں باپ کی صرف ٹانگیں ہی دکھیں ، چہرے نہیں … اچانک ہم دیکھتے ہیں کہ وہ شخص جو بچی کا باپ معلوم ہوتا ہے بچی کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیتا ہے ۔ ٹرین اس وقت ایک پل سے گز ر رہی ہے ۔ ان لوگوں کا ارادہ شاید بچی کو ندی میں پھینکنے کا ہوتا ہے لیکن بچی پل کے ایک کھمبے سے ٹکرا کر پل کے اندر ہی گر جاتی ہے ۔
پل پار کرتے ہی ایک چھوٹے ا سٹیشن پر ٹرین رکتی ہے … اس سے پہلے کہ ہم ان کو پکڑیں ، وہ پستول کی نوک پر ہماری پہنچ سے دور ہو جاتے ہیں ۔ کیمرہ مین دوڑ کر اس مقام تک پہنچتا ہے جہاں بچی کو پھینکا گیا ہے، بچی مرچکی ہے … سر ! ہم یہیں سے لائیو ٹیلی کاسٹ کریں گے اور بریکنگ نیوز میں بچی کا کلوز اپ لیا جائے گا … سر! اس خبر کو ہم ربر کی طرح کھینچیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ ایئر ٹائم مل سکے … تب ہم فخر سے کہیں گے یہ نیوز صرف ہمارے پاس ہے ، کسی دوسرے چینل کے پاس نہیں‘‘۔
اس سکرپٹ پر سب خاموش تھے ۔ لگتا تھا سب راضی ہیں۔
بچی کے باپ ( ہونے والے ) کے چہرے پر اس سکرپٹ سے خوف تو تھا مگر بالکل ایسے ہی جیسے کسی نئے ادا کار کی پہلے دن کی شوٹنگ یا پہلی فلم کی ریلیز کے وقت ہوتا ہے۔
ایڈیٹر کے پی آر او نے تجویز رکھی …’’ اگر ہم یہ نیوز چلڈرن ڈے یعنی 14نومبر کو دکھائیں تو زیادہ سنسنی پھیلے گی ۔ آپ لوگوں کاکیا خیال ہے ؟‘‘
اس بات کو سب نے تسلیم کرلیا۔
ایڈیٹر نے تمام لوگوں کی جانب باری باری ایسے دیکھا جیسے جنگی محاذ پر جا رہی ٹیم کے کمانڈر نے پوچھا ہو …’’ کوئی شک؟… کوئی سوال؟‘‘
سب لوگوں کی خاموشی نو سر (No sir)کی صدا بلند کر رہی تھی۔
(فنون141)
٭…٭…٭