’’علی کوریڈور سے گزر رہا تھا اور اْس کے ہاتھ میں مزیدار چاکلیٹ کا کاغذ تھا۔ سچ بتاؤں تو میرے منہ میں پانی بھر آیا۔ سوچا کہ وہ ابھی آئے گا اور میرا منہ کھول کر ریپر اندر ڈال دے گا مگر یہ کیا اْس نے وہ کاغذ ہوا میں اچھال دیا اور یہ جا وہ جا ۔وہ وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔ مزید یہ کہ اْس نے پیچھے مڑ کر میرا رال ٹپکاتا چہرہ بھی نہ دیکھا۔ افساس صدا افسوس!!!”
’’اچانک میری نظر دور کینٹین سے نکلتے عادل پر پڑی۔ وہ شوارمے کا کاغذ اْتار رہا تھا۔ اْمید کی ایک کرن جاگی… شاید آج یہ ہی میرے دن کا پہلا نوالہ بن جائے۔ مگر شاید اْس کا راستہ بھی میری اْمیدوں کی طرح طویل ہو چکا تھا۔‘‘
’’اللہ اللہ کر کے اْس نے اپنے قدم میری طرف بڑھائے مگر یہ کیا…اْس نے وہ کاغذ بجائے میرے حوالے کرنے کے، میرے برابر میں پھینک دیا۔ اْ سے کوسنے کودل چاہا مگر صرف یہ سوچ کر جانے دیا کہ شاید وہ میرے موٹے سے پیٹ کو نہیں پہچانتا ہو۔‘‘
’’ اب مجھے بہت شدّت سے بھوک کا احساس ہو رہا تھا۔ میدان سے گزرتے ہر بچے پر میری نظر تھی۔ آج میں بہت بھوکی تھی۔ کسی نے بھی میرا استعمال نہیں کیا۔ سب نے کچرے کو میرے باہر پھینک دیا ،شاید یہ سوچ کر کہ میں خود ہی اٹھا کر کھا لوں گی، مگر افسوس وہ جو سمجھے، غلط سمجھے۔‘‘
’’ میں ہر قسم کی گندگی اپنے اندر سمو سکتی ہوں مگر کچرا اْٹھا کر اپنے اندر ڈالنے کی ہمت نہیں رکھتی ۔‘‘
’’ خیر میں نے پھر سے امید کا دامن پکڑا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میری نظر سارم پر پڑی جو چپس کا پیکٹ پکڑے انہماک سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ مجھے اْس پر بڑا پیار آیا۔ پورا پیکٹ ختم کرنے کے بعد اس نے میرے برابر میں موجود کیاری میں ریپر ڈال کر وہاں سے دوڑ لگا دی۔ یکدم مجھے اس پر بہت غصہ آیا۔میں نے پیچھے سے اسے للکارا۔
’’کیا میں تمھیں شو پیس لگتی ہوں جو تم مجھے دیکھ کر چلے گئے۔‘‘
سارا دن بھوکی رہنے کے بعد مجھے اِس بات کا شدّت سے احساس ہوا کہ یہ بچّے میری افادیت کو نہیں پہچانتے، اسی لیے وہ مجھے استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔
صرف اسی بات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے میں نے کہ اہم فیصلہ کیا کہ میں بچوں کے میگزین میں اپنی سارا دن بھوکی رہنے کی داستان بھیجوں گی تاکہ سب بچے آئندہ میرا خیال رکھیںاور کچرا ہمیشہ میرے اندر ہی ڈالیں تاکہ میں بھی بھوکی نہ رہوں اور ماحول بھی صاف رہے۔
’’ تو بچو! کیا آپ وعدہ کرتے ہیں کہ آپ میرا خیال رکھیں گے؟‘‘
٭…٭…٭