عربی ادب کا قصہ ہے کہ ایک غلام ایک ایسے مالک کے پاس تھا جو خود میدے کی روٹی کھاتا تھا،اور اس کو بے چھنا آٹا کھلاتا تھا۔تو یہ چیز اسے ناپسند لگی ،اس لیے اس نے بیچنے کی درخواست کی تو آقا نے اسے بیچ دیا۔
اس کو ایسے شخص نے خریدا جو بھوسی کھاتا تھا اور اسے کچھ بھی نہیں کھلاتاتھا۔غلام نے اس کو بھی بیچنے کی درخواست کی چنانچہ اس شخص نے بھی اس کو بیچ دیا۔
اب کے اس کو ایسے شخص نے خریداجو خود کچھ نہیں کھاتا تھا،اور اس کا سر مونڈ کر رات میں اسے بٹھاتا اور دیوَٹ( شمع دان) کی جگہ اس کے سر پر چراغ رکھتا۔ وہ اس کے پاس ٹھہر گیااور بیچنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ غلام فروش نے کہا، تو کس وجہ سے اس مالک کے پاس اتنی مدت اس حال میں راضی رہا؟ غلام کہنے لگا،مجھے اندیشہ ہؤا کہ اس مرتبہ کہیں مجھے کوئی ایسا شخص نہ خرید لے جو چراغ کے بجائے میری آنکھ میں بتی ڈالنے لگے۔
اس مذکور قصے میں عدم قناعت کے نقصان کو بتایا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کی خواہش میں غلام کی مصیبت بڑھ گئی۔سو جو حاصل ہے ہم اس پر قناعت کر لیں۔
قارئین ہمارے ساتھ ہؤا تو یہی کچھ لیکن ہم مہربان آقا کی نہیں خوب سے خوب تر مہربان ملازمہ کی تلاش میں تھےاور ہر نئ ملازمہ کے آنے پر پچھلی کو یاد کیا کرتے۔
اماں ہماری پرانی ملازمہ ہیں ،صرف کپڑے دھویا کرتی ہیں۔ اور اب اتنی بزرگ ہوگئی ہیں کہ ان سے کام لیتے شرم آتی ہے۔ بھائی نے اماں سے کئی اک بار کہاکہ آپ کو جو اجرت ملتی ہے وہ گھر بیٹھے مل جائے گی اب نہیں آیا کریں۔مگر اماں کا ہم سے انس و محبت کا یہ حال کہ کہنے لگیں ’’تم لوگوں کو دیکھے بغیر ہفتہ مشکل سے گزرتا ہے۔ جب تک دم میں دم ہے کپڑے تو میں ہی دھو کر پہناؤں گی‘‘۔
دوسری ملازمہ کو رکھا بھی تو اماں نے ٹکنے نہیں دیا۔ جب گھر کی خواتین نے معاش میں حصہ لیا تو صفائی برتن کے لیے بھی مددگار کی ضرورت پیش آئی۔ لیکن میرے گھر کی خواتین صفائی کے حوالے سے بہت کانشس ہیں۔ ڈھیر سارے صفائی کے برش ہیں ، روزانہ شو میٹس دھلتے ہیں، سلیپرتک برش سے رگڑے جاتے ہیں۔پہلے ڈسٹنگ پھر سیٹنگ پھر صفائی بلکہ صفایا،سو اکثر صفائی ملازمہ سے نہیں نبھی۔
ایک ادھیڑ عمر خاتون دستیاب ہوئیں۔ کام بلاشبہ اچھا لیکن نخرہ شدید تھا۔ ہم نے اپنے لالچ میں نخرے بھی خوب اٹھائے، سہہ نہ سکیں بے وفائی کر گئیں۔ ایک ہیر صاحبہ ملیں ،کام درمیانہ لیکن فرمائشیں اتنی کہ چکرا دیا ۔ہر وہ اپلائنسز جو ہمیں میسر تھا وہ انہیں بھی اپنے گھر درکار تھا۔اک دن کسی نئی مشینری پر زچ ہو کر میں نے کہا یہ تو ابھی ہم نے بھی نہیں برتی۔
اس سے کھینچا تانی رہی ،ایک دن وہ محترمہ بھی زیادہ صفائی کا طعن (نفسیاتی )دے کر چلتی بنیں۔
صفائی والی اکثر ہمیں چھوڑ کر گئیں ،ہم نے کسی کو بھی اپنی رحم دلی سبب رخصت نہیں کیا۔
پھر زندگی میں زارینہ آئیں۔ کوئی فرمائش نہیں کوئی نخرہ نہیں ،جو دو راضی برضا ،لیکن کام …. پوچھیں !ایک خاتون ہو کر اتنا پھوہڑ پن! بہت وقت محنت خرچ کر کے بھی نتیجہ ڈھاک کے تین پات۔یہی سوچا کہ پہلے والی کا کام تو اچھا تھا۔ہر ماسی کے دور میں ہمیں اس سے مختلف طرح کی شکایات رہیں جیسا کہ اوپر درج ہیں۔نئی کے آنے پر جانے والی کی خوبیاں نظر آتیں۔سو عربی قصے سے نصیحت لیتے زارینہ پر صبر کرتے ہیں ، ورنہ….
موجودہ ملازماؤں میں یاسمین خوب تعریفیں کرتی ہے۔ جانے
منہ پر کرتی ہے یا حقیقت میں بھی۔ہم اس سے اچھے پیش آتے ہیں۔ تعریفوں کے سبب اسے بمقابلہ زارینہ نوازا خوب جاتا ہے۔میں کہتی ہوں زیادہ مکھن نہ لگایا کرو تو یاسمین نے ہمارا موازنہ دوسری مالکن سے کرتے ہوئے اپنی کہانی سنائی۔ اسی کی زبانی سنیے ۔
کہتی ہے کہ جہاں وہ دوسری جگہوں پر کام کرتی ہے اسے ایک سیکنڈ فارغ بیٹھنے نہیں دیا جاتا ۔
’’مالکن کی طرف سے اتنے احکام ملتے ہیں۔یہ اور یہ کردو اور جب موقع ملے تو وہ فلاں کام بھی کردو۔فرصت کے وقت میں ایسا ہوجائے تو بہتر ہوگا۔جاتے جاتے یہ کرتی جاؤ۔اتنے کام کہتی ہیں کہ میں چکرا جاتی ہوں لیکن مجبور ہوں۔آپ لوگوں کی طرح اپنے دسترخوان پر بٹھا کر کھانا نہیں کھلاتے۔انہیں ہماری نظر لگنے کا بھی خوف ہوتا ہے۔ہم سے کھانے پینے کی اشیا چھپاتے ہیں، ہمیں دیکھتے ہی ان پر کپڑا ڈال دیتے ہیں۔ تازہ کھانا نہیں دیتے،بیمار ہوجائیں تو علاج معالجہ نہیں کرواتے۔ہم بے شک غریب لوگ ہیں لیکن اپنے ہاتھ سے کماتے ہیں تو اچھا بھی خرید کر کبھی کھا لیتے ہیں۔ ہمیں وہ امیر خود سے زیادہ ندیدے نظر آتے ہیں‘‘۔
یہ بتاتے وہ دل برداشتہ نظر آئی۔ یاسمین کی یہ سب گفتگو سن کر میں نے اسے تسلی دینے کے لیے لفظ جمع کیے۔
’’یاسمین کیا تمھیں معلوم ہے؟جب ہمارے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو انسان انسان کی غلامی میں اس طرح تھا کہ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پاؤں میں بیڑیاں ڈالے لوہے کےجنگلے میں مقید ہو کر بکا کرتا تھا۔ جیسے ہم جانور منڈی سے جانور خریدنے جاتے ہیں،سمجھ لو اس وقت کا انسان جو غلام حیثیت میں تھا،وہ یوں تھا گویا انسانی ڈھانچے میں کسی نہایت پست قسم کے جانور کی روح پھونک دی گئی ہو۔تاجر ہاتھ میں کوڑا تھامے بازار میں اس کی بولیاں لگاتا، بال پکڑ کر زور دار جھٹکے دے اس کا سر اٹھا کر خریدنے والے کو دکھاتا۔ خریدار بھی بے رحمی سے اس کی ناک پر انگوٹھا رکھ کر اس کا منہ کھولتا دانت چیک کرتا۔سمجھ آتا قیمت ادا کر کے خریدتا ورنہ بےکار کہہ کر چھوڑدیتا۔ان غلاموں کے مصائب بھی ایسے تھے کہ یہ اک دوسرے سے بھی ہمدردی کرنے سے قاصر تھے۔انہیں لگتا تھا کہ ان کا آپسی بھی ہمدردی انس کارشتہ نہیں ہے۔غلام جو آپس میں رشتے دار ہوتے انہیں اک دوجے سے جدا بھی کیا جاتا تو بھی انہیں رنج کا حق نہیں تھا۔جبکہ یہ جذبات تو حیوانوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے یہ جذبات بھی کچلتے تھے۔ خود پر اتری مصیبتوں سے بے نیاز رہتے۔ایسی زندہ لاش بن کر زندگی گزارتے جو احتجاج کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
افسوس کہ ان غلاموں کی جسمانی طاقت سے راحت بھی لی جاتی اور ان خدمت گزاروں سے نفرت بھی کی جاتی۔وہ تمام تمدنی حقوق سے محروم تھے، سماج میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا۔پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آئے اور تمام انسانیت پر اتنا بڑا احسان کیا کہ اب قیامت تک کوئی انسان دوسرے انسان کا تمام عمر جسم و جان کا مالک نہیں بن سکتا۔آج دیکھو تم ہماری ملازمہ ہو۔میں پرائیویٹ ادارے میں جاب کرچکی بہن سرکاری ادارے میں ہے لیکن ہم کسی انسان یا ادارے کے جز وقتی ملازم ہیں۔کوئی ہم جیسا انسان ہم پر ایسا اختیار نہیں رکھتا کہ ہم انسانیت کے درجے سے ہی نکل جائیں۔نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اک دم نہیں لیکن بڑے حکیمانہ انداز میں اور انسانیت نواز قوانین کے ذریعے اس وقت کے معاشرے کو غلاموں کی آزادی پر آمادہ کیا دور غلامی کو ختم کیا۔ان کی آزادی کی صورت یہ نکالی کہ بہت سے سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ غلام کی آزادی رکھ دیا۔ظہار کا کفارہ ،قسم کا کفارہ ،قتل خطا کا کفارہ ،روزے کا کفارہ غلام آزاد کرنا تھا۔سورج چاند گرہن کےوقت غلام آزاد کرنے کا اجر۔غلام کے ساتھ کسی زیادتی کے سبب اسے آزاد کرنے کا بے پناہ اجر وثواب رکھ دیا۔سمجھو ان کے آنے سے کائنات اس زمانے کے اپنے محور پر الٹی گھوم گئی۔غلاموں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے کسی آقا کی نگاہ میں محبت و توقیر رحمت و شفقت دیکھی۔غلام ان کے آگے اپنے والدین کی محبت کو ہیچ پاتے تھے‘‘۔
یاسمین کی آنکھیں آقاؐ کی اس خوبصورت تسلی سے بہنے لگیں۔ ’’واقعی آپ ؐنے ہم غربامحکوموں کے احساس و جذبات کا بھی کتنا خیال
رکھا۔ان کی بدولت جو آزادی مجھے میسر اس پر اللّٰہ کا شکر ہے۔‘‘وہ شکر کے کلمات کہتی رخصت ہوئی۔
اک رشتے دار خاتون نے ہمارا رویہ دیکھ کر کہا’’ ملازمہ کا ستیاناس مارا ہے‘‘۔
ملازمہ اس وقت دسترخوان پر امی کے ہاتھ کے گرم پراٹھے کا ناشتہ کررہی تھی جس کے بعد اسے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا تھا۔کہنے لگیں ’’تمھاری امی ملازمہ وہ مالکن لگ رہی ہے‘‘ اک کہاوت بھی کہی کہ غلام اور چمڑا جتنا گھسو اتنا اچھا۔
میں نے کہا کہ یہ کسی شقی القلب کا قول ہوسکتا ہے۔یہ میرے نبی ؐ کے اسوہ کے خلاف ہے۔آپ ؐنے ملازمین پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔
ایک غریب گھرانے کی بچیاں وحیدہ ،بینش بھی یاد آگئیں جن سے میں نے خدمت لی۔پھر ان کی تعلیم و تربیت کی ،انہیں حروف تہجی کی پہچان نہیں تھی ماشاءاللہ میٹرک کر گئیں۔ بیاہ بھی اپنے دینی سرکل کےطفیل کردیے۔مجھ سے ان کی وفا کے کیا کہنے ،لگتا ہے مرجاؤں گی تو گھر والوں کے بعد وہ روئیں گی۔
میرا خود کا لیکچرر شپ کی ملازمت کا سات سالہ تجربہ خوشگوار تھا۔ادارے کی اونرسے اچھے تعلقات رہے۔دراصل انسانوں کی دنیا میں تلخ تجربات مجبوریوں کے سبب کی جانے والی ملازمت میں پیش آتے ہیں۔
آج غلامی کی لعنت تو ختم ہے۔اس کے باوجود ہم اپنےماتحتوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیں اسے جانچنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں ایک تاکید ماتحتوں کے لیے بھی ہے کہ وفاداری انسان کی اصل خو ہے۔آپ کے باس، اونر ،مالک جو بھی ہوں وہ اگر آپ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتے، جو خود کھاتے وہ کھلاتے جو خود پہنتے وہ پہناتے ہیں تو آپ پر بھی کام محنت اخلاص سے کرنا اور ان سے وفا نبھانا فرض ہے۔
٭٭٭