البلاذری نے لکھا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں صرف پانچ ایسی خواتین تھیں جو لکھنا پڑھنا جانتی تھیں ۔ ان میں حفصہ بنت عمرؓ( ام المومنینؓ)، ام کلثوم بنت عقبہ ، عائشہ بنت سعاد ، کریمیہ بنت مقداد اور الشفاء بنت عبد اللہ اوزاری شامل تھیں ۔ اس فہرست میں درج آخری نام، ان خاتون کا ہے جنہوں نے حضرت حفصہؓ کو پڑھایا تھا اور نبی اکرمﷺ نے اپنی شادی کے بعد بھی انہیںاس تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی ۔ حضورؐ کی تمام ازواج میں حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ صرف پڑھ سکتی تھیں۔ تاہم حضرت حفصہ ؓ نے جو تعلیم حضرت الشفا سے حاصل کی تھی ، وہ در اصل اسلام میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ بعد ازاں خواتین کی ایک نامزد صحابیہؓ نے آنحضرتؐ سے درخواست کی کہ آپ خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے علیحدہ سے بندو بست فرما دیں اور آنحضرت ؐ نے ایسا ہی کیا۔
قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیت(سورہ العلق :۹۴:۱) نازل ہوئی وہ حصول علم کے لیے ہدایت ربانی کا شاہکار ہے ۔ سورہ الممتحنہ(۲۰:۱۲) میں بھی جہاں خواتین سے بیعت لینے کا ذکر ہے ، اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت اہم نکتہ شامل فرمایا کہ عورتوں کے لیے لازم ہے کہ وہ معروف میں آپ کے حکم کی تابعداری کریں گے ۔ اس کی رو سے عورتوں کے لیے آنحضرتؐ کا اتباع اور پیروی فرض ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ حصول علم کریں ۔پس ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے دین یعنی حصول علم کی ایک پیاس مردو عورت، ہر دو اصناف میں پیدا کردی کہ نہ صرف وہ بہت سے معاملات امہات ؓ المومنین سے پوچھتے تھے بلکہ خواتین تک براہ راست اللہ کے رسولؐ سے بھی اپنے معاملات پر راہنمائی حاصل کرتی تھیں ۔
ضمن میں ہمیں صحیح مسلم کی ایک حدیث حضرت عائشہؓ کی روایت سے ملتی ہے کہ ’’ قریش کی عورتیں کتنی اچھی ہیں کہ دین سیکھنے میں شرم و حیا کا خیال نہیں رکھتیں اور کبھی عار محسوس نہیں کرتیں دین سیکھنے کے بارے میں ‘‘۔ (مفہوم) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں جو حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ہی مروی ہے کہ جب قرآن کا نزول ہو رہا تھا تو خواتین نے اس کی عبارت اور معنی و مضمرات کو سیکھنا شروع کردیا تھا کہ وہ جان سکیں کہ حلال،جائز کیا ہے اور حرام ( ناجائز ) کیا ہے ۔(مفہوم)
اسلام چونکہ ایک نظام حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے ، اسلامی شریعت نے نہ صرف ایک انسان کی زندگی بلکہ اجتماعی زندگی کے مختلف ادوار جس میں ذاتی صفات ، اخلاقیا ت ، خاندانی روابط ، سوشل اور معاشی معاملات ، شہریوں کے حقوق اور فرائض، سیاسی ، عدالتی ، نیزصلح وجنگ کے قوانین ، تعلیم اور عبادات، غرضیکہ تمام زندگی کے بارے میں رہنمائی دی گئی ہے ۔ ایسے حالات میں یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے انسانی زندگی کے ایک اہم ترین شعبہ تعلیم و تربیت اور وہ بھی تعلیم نسواں کو نظر انداز کیا ہوگا ؟ مسلم معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا یہ تقاضا ہے کہ معاشرے کے تمام ارکان کو ان معاملات کا علم ہو جن کے مطابق انہوں نے زندگی بسر کرنی ہے !
امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات در اصل زمانہ ،وقت ، عہد یا صنف کی پابند نہیں ۔ پس تمام مسلمان مرد اور عورتوں کو حصول علم بطور فریضہ کے حاصل کرنے کا پابند کیا گیا ہے چاہے اس کے حصول کے لیے انہیں دور دراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے !
رسولِ خداؐ نے مسلمان خواتین کی تعلیم کا اہتمام فرمایا ، اس ضمن میں ان کو فجر اور عشاء کی نمازوں میں خاص کر مسجد نبوی میں جا کرنماز پڑھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔ مزید خواتین کو جمعہ اور بالخصوص عیدین
کے موقع پر اجتماعی نماز میں شرکت کی تاکید فرمائی ۔ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سی خواتین نے رسولِ خداؐ کو جمعہ کے روز قرآن کی تلاوت سے قرآن کو ازبر یاد کیا ( بخاری، مسلم ) کئی مواقع پر آپؐ بذاتِ خود ، خواتین کے اجتماعوں میں تشریف لے جاتے اور انہیں دینی امور کی تعلیم کے علاوہ ،عورتوں کی اپنی درخواست پر ان کی تعلیم و تربیت کے لیے علیحدہ سے بھی ایک دن کا تعین فرمایا کہ بالعموم دیگر تمام اوقات میں آپؐ کے ارد گرد صحابہ کرامؓ موجود رہتے تھے اور یوں عورتوں کو علیحدہ سے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع نہ ملتا تھا ۔ اس مقصد کے لیے آپؐ نے اکثر مختلف اصحاب کو بھی نامزد فرمایا کہ وہ خواتین کے پاس جا کر انہیں تعلیم سے سر فراز فرمائیں ۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے خواتین کو عیدین کی نماز میں شرکت کی تاکید فرمائی حتیٰ کہ حائضہ خواتین کو بھی عید کی اجتماعی دعا میں شریک ہونے کی تاکید کی۔
اسلام میں طبقہ نسواں کی تعلیم و تربیت ایک ایسا اہم موضوع ہے جس پر ڈھیروں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ۔ پیغمبر اسلام اس ضمن میں اس حد تک دلچسپی رکھتے تھے کہ آپؐ نے والدین اور شوہروں کو مکلف ٹھہرایا کہ وہ اپنے بچوں ( لڑکوں اور لڑکیوں) اور بیویوں کوزیور تعلیم سے آراستہ کریں ۔ ( ابو دائود ، بخاری)۔ ابو دائود نے اپنی کتاب کے باب طب میں اور امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں روایات درج کی ہیں کہ آنحضرت ؐ نے خواتین کولکھنے کی تربیت کی تاکید فرمائی۔
یہاں ہم ان خواتین کا تذکرہ کریں گے جنہوں نے اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں اسلامی تعلیمات نہ صرف خود سیکھیں بلکہ دوسری خواتین تک بھی ان تعلیمات کو پہنچایا۔
اسلامی شریعت کی نا بغۂ روز گار خواتین
اسلامی تاریخ کے دور اولین میں متعدد ایسی خواتین نے دینی تعلیم میں اس قدر مہارت حاصل کرلی تھی کہ متعدد صحابہ کرام ؓ بھی ان کے تبحر علمی کے معترف ہو گئے تھے ۔ ابن قیم کے بقول ایسے صحابہ کرامؓ جن کی روایات فتاوی مدون ہوگئے تھے اور آج بھی موجود ہیں ۔ ان کی کل تعداد ۱۳۰ تھی جس میں صحابیات ؓ بھی شامل تھیں۔ ان میں سے سات حضرات ایسے ہیں جن کی فتاوی،آرا اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر انہیں مرتب کیا جائے تو ابن حزم کے بقول ان میں سے ہر ایک بڑی ضخامت کی کتاب بن جائیں گے ۔ ان سات نابغۂ روز گار ہستیوں میں حضرت عائشہ صدیقہؓ شامل ہیں جبکہ دوسرے اصحابؓ میں حضرت عثمان ، حضرت علی اور عبد اللہ بن مسعود شامل ہیں ۔
دوسرے گروہ میں وہ اصحاب ؓ شامل ہیں کہ ان کی آرا اور فتاوی کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا جا سکتا ہے اور اس میں حضرت ابو بکر ؓعثمان اور ام سلمہ ؓ شامل ہیں ۔ تیسرا گروہ ان اصحاب ؓ پرمشتمل ہے جنہوں نے بہت کم فتاوی روایات کی ہیں اور ان میں ام عطیہ ؓ ، حضرت حفصہؓ، حضرت ام حبیبہ ؓ ، حضرت صفیہؓ ، لیلاؓ بنت قیم ، اسماؓ بنت ابو بکر ؓ ام شریک ؓ خولہ بنت تویت ، ام درداءؓ عاتکہ ؓ بنت زید ، سہلہؓ بنت سہیل ، حضرت جویریہ ؓ ، حضرت میمونہ ؓ، حضرت فاطمہ ؓ بنت قیس، ام سلمہؓ ، حضرت فاطمہ ؓ ، زینب ؓ بنت ام سلمہ ، ام ایمن ؓ ، ام یوسف ؓ اور غامدؓ… یہ تمام خواتین ہیں ( اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو ) ۔ اس طبقے میں اسلام کی وہ مایہ ناز خواتین شامل ہیں جن کے فتاوی اور آرا نہ صرف اس قدر مستند اور اعلیٰ علمی و دینی حیثیت کے حامل ہیں کہ ان کو دیکھتے ہوئے متعدد جید صحابہ کرامؓ نے نہ صرف اپنی آرا سے رجوع کرلیا بلکہ ان خواتین کے خیالات و آراء کو از خود اپنے طور پر اختیار کرلیا۔
یہاں ہم ان جلیل القدر خواتین میں سے امہات المومنین اور چند صحابیات کا تذکرہ کریں گے۔
ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ
امہات المومنین کے زمرے میں اولیت کے شرف میں سب سے پہلے حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ہیں کہ رسول خدا پر ایمان لانے میں انہیں اولیت کا شرف حاصل ہے اور یوں وہ طبقہ نسواں کے لیے فضیلت و بزرگی کا ایک ایسا انمول نمونہ ہیں جن پر یہ طبقہ قیامت تک کے لیے فخر کر سکتا ہے ۔ اگرچہ سیدہ ؓ سے بہت زیادہ روایات احادیث مروی نہیں تاہم نزول وحی کی بابت تمام تر معلومات ہمیں سیدہؓکے اقوال سے ہی ملتی ہیں ۔ نیز سیدہ ؓ نے جس طریق پر شادی کے بعد ، آنحضرتؐ کی خدمت سر
انجام دی اور جس طرح اپنی تمام تر دولت ، آپؐ کے قدموں میں ڈال دی اور جس انداز میں نبوت کے آغاز میں شعب ابو طالب میں قیدو بند کے دن گزارے ، وہ سب امت مسلمہ کی تاریخ کا ایک ایسا سنہرا باب ہے جس کی مثال قیامت تک کے لیے اعزاز کاباعث رہے گی ۔ محسوس ہوتا ہے کہ نبوت کے ابتدائی ایام میں ،اللہ کی مشیت میں اپنے رسولؐ کی دلجوئی اور جس خدمت کی ضرورت تھی تاکہ آپ کا رنبوت کی تکمیل میں ہمہ تن مصروف ہو سکیں وہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو سیدہ ؓ کی شکل میں خاص طور پر فراہم کردی جس کا اظہار آپؐ نے اپنی احادیث میں کیا اور سیدہ ؓ کی خدمات کو سراہا۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ
امہاتؓ المومنین میں سب سے کم عمر کی نہایت ذکی اور فہیم ذات حضرت عائشہؓ کی ہے جنہوں نے اپنی کم عمری کے باوجود ، رسولؐ خدا سے سب سے زیادہ اکتساب فیض کیا اور اسے رسول ؐ خدا کی رحلت کے بعد بھی ایک طویل عرصہ تک پہنچانے کا شرف حاصل کیا ۔ اس سے معترضین کے اس اعتراض کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے کہ مختلف عمروںاور سماجی طبقات کی ازواجؓ مطہرات کی زندگی موجودہ روشن اور ترقی یافتہ دور کی خواتین کے لیے کسی طور بھی مفید نہیں ہو سکتی!
سیدہ صدیقہؓکو آنحضرتؐ کی احادیث اور اسوۂ حسنہ کو امت تک پہنچانے کا ایک خصوصی مقام حاصل ہے ۔ سیدہ ؓ نے اپنی بیشترا حادیث کی روایت براہ راست پیغمبر خدا سے کی ، پھر آپؓ نے حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت عمرؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور دیگر صحابہ کی وساطت سے روایت کی ۔ آپ کی مروی کل احادیث کی تعداد ۲۲۱۰ ہے جو نہ صرف احادیث کی متعدد کتب میں روایات کی گئی ہیں بلکہ وہ صحیح بخاری اور مسلم میں بھی شامل ہیں جو احادیث کی مستند ترین کتب ہیں۔
سیدہ صدیقہ ؓ کو تمام لوگوں میں روایت حدیث میں وہ اعزاز حاصل ہے کہ آپؓ نے آنحضرت ؐسے براہِ راست اکتساب علم کیا اور جس مقام تک معدودے چند صحابہ کرام ہی پہنچ پائے ۔ بہت سے صحابہؓ نے آپ ؐ کی حینِ حیات میں اور بعد میں آنے والے اہل علم نے سیدہ ؓ کے قرآن و حدیث کے علم و فضل کو سراہا ۔ سیدہؓ کے ایک شاگرد خاص (بھتیجے) عروہ بن زبیر ؓ کا یہ کہنا ہے کہ ’’ میں نے کسی کو بھی سیدہ ؓ کے فہم قرآن سے زیادہ فہیم نہیں پایا ۔ آپ ؓ کو فرائض اسلام( علم وراثت) کا علم حاصل تھا ، سنت رسول کو سب سے زیادہ جانتی تھیں ۔ نیز شاعری اور عرب کے ادبی لٹریچر پر بھی آپؓ کو بہت دستگاہ اور عبور حاصل تھا ۔ مزید برآں ، سیدہ ؓ کو عربوں کے انساب(Family Lineage )کا بہت علم تھا ( جو اس زمانے کی ایک اہم معاشرتی ضرورت تھی کہ یہ امر عزت و وقار کا ضامن سمجھا جاتا تھا )۔ سیدہ ؓ کو متعدد ایسے فیصلوں اور مقدمات کا بھی علم تھا جو آنحضرتؐ نے فرمائے ۔ حتیٰ کہ آپ کو انسانوں کے علاج معالجہ کے علم سے لگائو تھا ‘‘… یہ ایک شاگرد اور بھتیجے کا خراج تحسین ہی نہ تھا بلکہ ایک صحیح ترین علمی کا بیان بھی ہے اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ عروہؓ بن زبیر ؓ سیدہ صدیقہؓ کی روایات کو ضبطِ تحریر میں بھی لاتے تھے۔
امام زہری کا قول ہے کہ اگر تمام لوگوں کی روایات میں دیگر ازواج مطہرات کی روایات بھی اس میں شامل کرلی جائیں تو حضرت عائشہؓ کی روایات ان سب سے زیادہ ہیں ۔( حاکم جلد چہارم:۱۱) انہوں نے مزید کہا کہ ’’ میں کسی ایسی خاتون سے آگاہ نہیں جو امت میں سب سے زیادہ اور بالخصوص طبقۂ نسواں میں سیدہ ؓ سے زیادہ علمی معلومات کی حامل ہو۔( بحوالہ مولانا جلال الدین عمری۲۰۰۸ء) ترمذی میں موسیٰ بن طلحہ سے روایت ہے کہ ’’ میں نے سیدہ عائشہؓ سے زیادہ کسی کو عربی شاعری اور ادب کا ماہر نہیںدیکھا ۔( مستدرک جلد چہارم:۱۱) حضرت عائشہؓ کو علم الفرائض ( علم میراث) میں بہت زیادہ درک حاصل تھا کہ جید صحابہ ؓ کرام کو بھی کبھی ایسے کسی معاملے میں الجھن پیش آتی تھی تو وہ سیدہ صدیقہؓ سے رجوع کرتے تھے ۔
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بیرون مدینہ سے اکثر خواتین ، سیدہ صدیقہؓ سے اسلامی تعلیمات کے حصول کے لیے آیا کرتی تھیں ۔ سیدہؓ کو قرآن اور سنت کا اس قدر زیادہ علم اور فہم حاصل تھا کہ متعدد جید صحابہؓ کرام( حضرت عمر ؓ، عبد اللہ بن عمرؓ ، اور ابوہریرہؓ)
آپ کی رائے کی روشنی میں اپنے خیالات اور رائے سے رجوع کر لیتے تھے ۔
اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ سیدہ ؓ نے براہِ راست آنحضرتؐ سے اکتساب علم کیا تھا ۔ اور حضورؐ کے اس دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد طویل عمر (۵۰ سال) تک امت کی رہنمائی فرماتی رہیں ۔ لوگ سیدہ ؓ سے مختلف امور میں رہنمائی حاصل کرتے تھے اور بعد ازاں دوسرے لوگوں تک پہنچاتے تھے ۔ یہ بھی کہا جاتا کہ شریعت کے ایک چوتھائی احکام سیدہ ؓ کی وساطت سے امت کو حاصل ہوئے ہیں ۔ ( ابن حجر ، فتح الباری ، جلد ہشتم :۸۲،۸۸)۔ ابن حجر نے کم از کم ۸۸ افراد کے نام بھی گنوائے ہیں جنہوں نے احادیث کا علم حضرت عائشہؓ سے سیکھا اور بعد میں سیدہ ؓ کے حوالہ سے اسے آگے روایت کیا۔ ایسے لوگوں میں جید صحابہ کرام از قسم عمرو بن العاصؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ اور عبد اللہ بن زبیر ؓ شامل ہیں جو اس زمانے کی نمایاں سیاسی شخصیات بھی تھے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیاسی امور کے لیے علم دین کی کس قدر اہمیت ہے ۔ ایک آج کا دور ہے کہ ایک وزیر با تدبیر ایک سورت بھی صحیح پڑھنے سے قاصر ہوتا ہے !
ان اصحاب کے علاوہ ایسے لوگوں میں صحابہ کرام ؓ ( ابو ہریرہؓ، ابن عباسؓ اور ابن عمرؓ ) جیسے صاحبان علم بھی شامل تھے جو از خودراویانِ حدیث تھے اور اپنے وقتوں میں فقیہہ کے درجے پر بھی فائز تھے ۔ مزید برآں، اس فہرست میں سعید بن مسیب اور علقمہ بن قیس جیسے تابعین بھی شامل تھے جو اسلامی تاریخ میں مشہور ترین فقیہہ مانے جاتے ہیں۔
ابن احمد حنبل نے حضرت عروہ ؓ بن زبیر جو مدینہ کے ایک مشہور فقیہہ اور راوی حدیث ہیں ۔ نیز قاسم ؓ بن محمد ان دونوں نے حدیث کا علم حضرت عائشہ ؓ سے حاصل کیا ۔ یہ دونوں حضرت عائشہ کے مسلک طریقے سے ہر گز تجاوز نہ کرتے تھے اور اپنے خیالات کو ان حدود و قیود کا پابند رکھتے تھے جو حصول علم میں انہوں نے سیدہ صدیقہؓ سے سیکھے تھے۔ترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ، ایک جید صحابی نے سیدہ صدیقہؓ کی تبحر علمی اور اسلامی شریعت سے آگہی کے بارے میں حضرت عائشہؓ کی تعریف کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’جب کبھی بھی ہم کسی حدیث کے بارے میں کسی اشکال سے دو چار ہوتے تھے تو ہم حضرت عائشہؓ سے رجوع کرتے تھے اور یہ جان کر ( خوش ہوتے ) کہ سیدہ ؓ کو اس کا علم ہوتا تھا ‘‘۔(ترمذی باب فضائل عائشہؓ)۔
سیدہ عائشہ کی قرآن و حدیث کے فہم کے بارے میں معلومات صرف اس حد تک محدود نہیں بلکہ سیدہ ؓ نے متعدد مردوں اور خواتین کو علم دین سکھایا جو بعد میں اسلامی تعلیمات کے فروغ میں علمبردار کی حیثیت اختیار کر گئے ۔ ایسی ایک خاتون عمرہؓ بنت عبد الرحمن تھیں ۔ ابن احمد حنبلی نے ان کے بارے میں یوں تذکرہ کیا کہ ’’ ان کی تربیت حضرت عائشہ ؓ نے فرمائی تھی جو بہت مستند علم کی حامل ، نہایت احتیاط سے زندگی بسر کرنے والی خاتون تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہترین یاد داشت کی دولت بھی اس قدر فراواں ملی تھی کہ ان کی روایات بہت سے اہل علم نے قبول کیں‘‘ ۔
اسی طرح ایک دوسرے عالم ابن حبان نے ان کے بارے میں کہا کہ’’ وہ حضرت عائشہؓ سے مروی روایات کی سب سے زیادہ حامل تھیں ‘‘۔(تہذیب التہذیب جلد ۱۲:۱۲۹)۔اسی طرح قاسم ابن محمد جو تابعین کے دور میں بہت مشہور محدث اور فقیہہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ، نے امام زہری کو کہا کہ ’’ میں تمہارے اندر علم کی ایک خاص پیاس اور لگن محسوس کرتا ہوں ، کیا میں تمہیں ایک ایسے خزینہ کا پتہ دوں جو علم سے لبریز ہے ؟‘‘ امام زہری کے مثبت جواب پر انہوں نے کہا کہ تو جائو اور عمرہ بنت عبد الرحمن کے درس سے باقاعدگی سے استفادہ کرو جس نے حضرت عائشہ ؓ کے علم و فضل سے وافر حصہ پایا ہے ‘‘۔ بعد ازاں امام زہری نے کہا کہ ان کی ہدایت کے مطابق میں نے ان کے درس میں باقاعدہ حاضری دینی شروع کی اور محسوس کیا کہ وہ علم شریعہ کا ایک ایسا بحرذ خار ہیں جو لا محدود وسعتوں کا حامل ہے ۔( تذکرہ الحفاظ جلد اول:۱۰۶)۔ حضرت عمرؓبن عبد العزیز نے محمد بن عبد الرحمن کو لکھا کہ کوئی شخص ان خاتون کے علاوہ حضرت عائشہؓ کی روایات کو بہت زیادہ نہیں جانتا ، انہوں نے ابوبکر بن حزام کولکھا کہ ان کی روایات کو ضبط تحریر میں لایا
جائے ‘‘۔ ( ابن سعاد جلد ہشتم:۴۸۰)۔
درج بالا کے علاوہ ہمیں حضرت عائشہؓ صدیقہ کی ایک اور طالبہ علم کا پتہ چلتا ہے جن کا نام عائشہ بنت طلحہ ہے ۔ وہ حضرت عائشہ کی بھتیجی ، بھانجی تھیں اور اپنی ذاتی علمی قابلیت کی وجہ سے لوگ ان سے خط و کتابت کے ذریعے رہنمائی حاصل کرتے تھے اور ان کی خدمت میں تحائف بھیجا کرتے تھے ۔ سیدہ صدیقہؓ نے انہیں ہدایت کی کہ وہ لوگوں کے خطوط کا جواب دیا کریں اور تحائف کے بدلے میں تحائف بھی۔
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے بھی متعدد احادیث کی روایات ہمیں براہِ راست حضور اکرمؐ سے استفادے کی صورت میں اور چند حضرت ابو سلمہؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے حوالے سے ملتی ہے ۔ اس کے علاوہ ۳۵صحابہ کرام : اور تابعین جس میں مرد اور عورتیں شامل ہیں ، نے بھی سیدہ ؓ سے روایات کی ہیں ۔ ( تہذیب التہذیب جلد ۱۲:۴۵۶) ۔ آپؓ سے کل ۳۷۸، احادیث کی روایت کا ذکر ملتا ہے ۔ ان میں سے تیرہ روایات کو مسلم اور بخاری نے اپنے مجموعۂ احادیث میں ذکر کیا ہے ۔ حضرت ام سلمہؓ کو فقہی معاملات میں بھی درک حاصل تھا ۔ امام زہری کے مطابق ، آپؓ ان صحابیات میں ہیں جو فقہاء کے زمرے میں شامل ہیں۔
ابن حجر نے ان کے بارے میں لکھا کہ ’’ حضرت ام سلمہؓ کو صرف ایک فطری جذبۂ علمی اور قوت فیصلہ ودیعت ہؤا تھا علاوہ ذاتی خوبصورتی کے ۔ مسند احمد بن حنبل میں لکھا ہے کہ مروان( اموی بادشاہ) کو ایک مسئلہ درپیش تھا ۔ اس نے کہا کہ جب امہات ؓ المومنین ہمارے درمیان حیات ہیں تو پھر ہمیں کسی دوسرے سے استفسار کرنے کی کیا ضرورت ؟ اس نے وہ مسئلہ ام المومنین سے دریافت کیا جنہوں نے اس مسئلے کا حل بتا دیا ‘‘۔ ( مسند احمد جلدششم:۳۲۳)۔
ام ابن قیم کا یہ قول ہے کہ جب کبھی صحابہ کرام ؓ کو کسی مسئلے میں اشکال پیش آتا تھا اور ازواج مطہرات ؓ میں سے کوئی حدیث اس مسئلے کے بارے میں بیان فرما دیتی تھیں تو سب لوگ فوراً تسلیم کرلیا کرتے تھے اور اپنے تمام تر خیالات کو ترک کردیا کرتے تھے ۔(زاد المعاد جلد چہارم:۲۲۱) ۔ سیدہؓ کی مختلف تلامذہ میں آپؓ کی اپنی بیٹی زینبؓ ، اپنے زمانے کی بہت مشہور فقیہہ تھیں ۔ اس طرح ابو صانعہ نے ایک دفعہ کہا کہ ’’ جب کبھی بھی میں نے مدینہ کی کسی خاتون فقیہہ کا ذکر کیا ہے تو میرے ذہن میں فوراً زینب ؓ بنت ابی سلمہ کا خیال آیا … نہ صرف یہ بلکہ اس دور کی تو لونڈیاں ، باندیا ں بھی اس قدر مہارت تامہ اور شریعت کا علم حاصل کر چکی تھیں کہ ام سلمہ ؓ کی ایک لونڈی ( ام الحسن ) خواتین کو درس دیا کرتی تھیں ۔ ( طبقات ابن سعد جلد ہشتم :۳۵۰)
یہاں ہم ام المومنین ؓ کی ایک نہایت اہم اوردور رس رائے کا اظہار بھی کرنا چاہتے ہیں جو آپ ؓ نے بیعت رضوان کے موقع پر دی ۔ اس موقع پر جب رسول اللہ ؐ اپنے صحابہؓ کے ساتھ عمرے کی غرض سے کعبۃ اللہ کا طواف کرنے کا عزم لے کر تشریف لے جا رہے تھے تو کفار مکہ نے آپؐ کو اس سال عمرے کی اجازت نہ دینے کی نہایت کڑی شرط لگا دی جسے آپؐ حکم خدا وندی کے تحت رفع شر اور دیگر حکمتوںکی بنا پر قبول فرما لیا۔ اس پر صحابہ کرام میں غم و صدمہ کی ایک لہر دوڑ گئی اور جب آپؐ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اپنے جانوروں کی قربانی دیں اور حلق کروائیں ( سر کے بال کٹوائیں ) تو حضرات صحابہ ؓ ، اپنی اس حالت مایوسی میں فوری طور پر عمل نہ کر سکے ۔ حضور اکرمؐ اس صورت حال کو دیکھ کر اپنے خیمے میں تشریف لائے اور سیدہ ؓ سے ذکر کیا جس پر ام المومنین ؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ؐ آپ باہر تشریف لے جائیں اور از خود قربانی شروع کریں اوراپنے سر کے بال کٹوائیں ۔ صحابہ کرام ؓ کی شان فدائیت ملاحظہ ہو کہ جونہی انہوں نے آپؐ کو یہ کرتے دیکھا تو فوراً ہی جانور قربان کرنے شروع کر دیے اور ایک دوسرے کے سروں کے بال بھی کاٹنے لگے ۔ (رضوا ن اللہ اجمعین)
ام المومنین حضرت صفیہؓ
امام نووی نے لکھا کہ ’’ ام المومنین حضرت صفیہ ؓ ان خواتین میں سے تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نہایت اعلیٰ علمی صفات سے بہرہ مند فرمایا تھا ۔ ( تہذیب الاسماء وصفات جلد دوم :۳۴۹)مسند احمد میں صہیرہ بنت
حیدر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ حج کی ادائیگی سے فارغ ہونے کے بعد کچھ عورتوں نے حضرت صفیہؓ سے ملاقات کے لیے عزم مدینہ بھی کیا ۔ ہم نے دیکھا کہ کوفہ سے آئی ہوئی خواتین کا بڑا گروہ سیدہ کی خدمت میں پہلے سے موجود تھا ۔ ہم لوگوں نے بھی چند مسائل جن کا تعلق زوجین کے درمیان تعلقات اور حالت حیض سے تھا ، دریافت کیے ۔( مسند احمد جلد ششم :۳۳۸)
امر واقعہ یہ ہے کہ امہات المومنین ؓ کے دروازے ہمیشہ امت کی رہنمائی کے لیے کھلے رہتے تھے ہر اس شخص کے لیے جو دینی امور پر رہنمائی حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ نہ صرف حضور اکرمؐ کی حیات میں بلکہ بعد از وفات بھی فیض کا یہ سلسلہ اسی طرح عام جاری رہا ۔ اس سے بھی حضورؐ کی متعدد ازواج کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ان سب کی ذات والاصفات ، امت کے لیے رہنمائی کے ایک مینار نور کی حیثیت رکھتی تھی۔
ام المومنین حضرت حفصہؓ
سیدہ حفصہ ؓ، حضرت عمر ؓ کی بیٹی تھیں ۔ سیدہ نے نہ صرف آنحضرتؐ سے احادیث کی براہ راست روایت کی ہے بلکہ اپنے والد محترم کے حوالے سے بھی ۔ وہ لوگ جنہوں نے سیدہ کی وساطت سے روایات کی ہیں ان میں نمایاں ترین آپؐ کے بھائی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ، آپ ؐ کے بیٹے حمزہ اور ان کی بیوی بھی ان راویان میں شامل تھے ۔ اسی طرح متعدد دیگر مردو خواتین ام بشاریہؓ انصاریہ ، مطلب بن وداع، حارثہ بن وہاب شامل ہیں ۔ آپؓ سے ۲۰احادیت کی روایت ثابت ہے جس میں چند کو بخاری اور مسلم نے بھی اپنے مجموعوں میں شامل کیا ہے ۔
ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ
وہ ابو سفیان کی بیٹی تھیں اور آپؓ سے ۶۵ احادیث کی روایت حضور اکرمؐسے براہ راست ثابت ہے ۔ آپ ؓ کی بیٹی حبیبہ ، بھائی امیر معاویہ ؓ، ان کے بھتیجے عبد اللہ بن عتبہ ، عروہ بن زبیر ، صفیہ بنت شیبہ اور زینب بنت ابو سلم نے آپؓ سے روایات کی ہیں۔
حضرت اسما بنت ابو بکر ؓ
اسماءؓ حضرت ابو بکرؓ کی بیٹی اور حضرت زبیر کی اہلیہ تھیں ۔ چونکہ آپؓ حضرت عائشہ کی بڑی بہن تھیں اس لیے آنحضرتؐ کے گھر میں اکثر آنا جانا رہتا تھا اور آپؓ نے متعدد احادیث براہ راست حضور اکرمؐ سے روایت کی ہیں ۔ متعددد صحابہ ، صحابیات اور تابعین نے حضرت اسماء سے روایات بیان کی ہیں ۔ ایسے لوگوں میں آپ ؓ کا بیٹا عبد اللہ بن زبیر ؓ ان کا پوتا عبد اللہ بن عروہ ، عبید بن عبد اللہ ، عبد اللہ بن عباس ، صفیہ بنت شیبہ ، فاطمہ بنت منظر، آپ ؓ کا آزاد کردہ غلام عبد اللہ بن کیان ، آپ ؓ کا پوتا عبید بن حمزہ اور متعدد دیگر لوگ شامل ہیں ۔ آپ ؓسے ۵۷ احادیث مروی ہیں جن میں سے بہت سی مسلم اور بخاری میں موجود ہیں۔
حضرت ام سلیم ؓ
آپؓ حضرت انس کی والدہ ماجدہ تھیں اور جید صحابیات کے زمرے میں شمار ہوتی تھیں ۔ ابن حجر نے لکھا کہ آپؓ ایک مشہور اور نہایت متقی خاتون تھیں ۔ ( تہذیب التہذیب جلد ۱۲:۴۷۲) ۔ امام نووی نے بھی آپ ؓ کی تعریف میں ایسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔ انہوں نے اپنے بیٹے حضرت انس ؓ کو آنحضرتؐ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا ۔
ام درداؓ
حضرت ابو درداؓ، حضور اکرم ؐ کے ایک مشہور صحابی تھے ۔ ان کی زوجہ ام دردا ؓ اس درجہ کی علمی شخصیت تھیں کہ امام بخاری نے ان کے ایک عمل سے استشہا د کیا ہے کہ جب ایک شخص دو رکعت نماز کے بعد کچھ وقفے کے لیے تشہد میں بیٹھتا ہے تو ام دردا ، تشہد میں اس طرح بیٹھا کرتی تھیں جس طرح کہ مرد حضرات بیٹھتے ہیں ۔ امام بخاری نے کہا کہ ام دردا از خود ایک فقیہہ تھیں ، اس لیے ان کا عمل عقلی لحاظ سے اس قابل ہے کہ اس کا اتباع کیا جائے ۔(بخاری )
ام درداؓ کے علمی مشاغل میں انہماک کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بقول عوف بن عبد اللہ کے وہ ایک دفعہ ام دردا کے ساتھ کسی علمی گفتگو میں حصہ لے رہے تھے ۔ جب کافی وقت گزر گیا تو ہم نے
عرض کیا کہ ہم نے آپ کو بہت تکلیف دی آپ کسی حد تک تھک گئی ہوں گی ۔ یہ سن کر انہوں نے جواباً فرمایا کہ میں ہمیشہ رضائے الٰہی کے لیے کوشاں رہتی ہوں اور میں اہل علم کی مجلس میں بیٹھ کر ان سے تبادلہ خیالات کرنے میں کبھی بھی تھکاوٹ محسوس نہیں کرتی ۔ امام نووی نے لکھا ہے کہ بہت سے تابعین نے آپؓ سے فیض حاصل کیا تھا ۔ اسی طرح امام زہری نے بھی ان کے بارے میں کہا کہ ’’ وہ اسلامی فقہ کی ایک ماہر خاتون (فقیہہ) تھیں ، عبادت گزار ایک با اخلاق خوبصورت خاتون جو بہت زیادہ علم و حکمت سے بہر ہ مند تھیں‘‘ ۔(تذکرۃ الحفاظ جلد اول : ۵۰)
فاطمہ ؓ بنت قیس:
فاطمہ بنت قیس ایک ایسی جید عالمہ تھیں کہ ایک بار وہ حضرت عمرؓ اور حضرت عائشہؓ کے ساتھ کسی قانونی نکتہ پر گفتگو کررہی تھیں جو بہت دیر تک جاری رہی تاہم وہ دونوں ان کی رائے کو تبدیل نہ کر سکے اور وہ اپنے موقف پر قائم رہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امت کے بہت سے دیگر اہل علم نے بھی ان کی موافقت کی ۔ امام نووی نے ان کے بارے لکھاکہ ’’ وہ ان چند صحابیاتؓ میں شامل تھیں جنہوں نے ابتدائی دنوں میں ہجرت کی تھی اور وافر عقل و فہم سے بہر ہ مند خاتون تھیں ۔ (تہذیب الاسماء صفات جلد دوم : ۳۵۳) ۔ یہ بتایا گیا ہے کہ اس دور میں بہت سے صحابہ ، ان سے علم حدیث کا درست لیتے تھے جن میں قاسم بن محمد ، سعید بن مسیب تابعی ، عروہ بن زبیر ؓ ، ابو سلمہ بن عبد الرحمن جیسے لوگ شامل تھے۔
ام عطیہؓ
ام عطیہ ؓ ایک ایسی صحابیہ تھیں جنہوں نے جہاد میں حضوراکرمؐ کے ساتھ شرکت کی ۔ امام نووی جیسے جید عالم نے ان کے علم و فضل اور تقویٰ کی تعریف کی ہے۔ ( تہذیب الاسماء وصفات جلد دوم : ۳۶۳)۔ حضرت حفصہ بنت سیرین نے ان سے احادیث کی روایت کی ہے ۔ ان کا تعلق بصرہ سے تھا اور قرآن کی تعلیم بارہ سال کی عمر میں مکمل کرلی تھی ۔ بصرہ کے ایک مشہور قاضی اور فقیہہ نے ان کے بارے میں کہا کہ ’’ میں کسی ایک شخص کو تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا جسے میں حفصہ بنت سیرین پر ترجیح دے سکوں ‘‘۔( تہذیب التہذیب جلد ۱۲:۴۰۹) علامہ ابن عبد البر نے ان کے بارے میں لکھا کہ وہ ان چند خواتین میں سے تھیں جو مردہ کو غسل دینے کا طریقہ جانتی تھیں اور حضور اکرم ؐ کی بیٹیوں کی وفات پر انہیں غسل دیتی تھیں ۔ مردہ کو غسل دینے کے بارے میں جس قدر بھی احادیث مروی ہیں، اس میں ان کی روایت بہت اہم اور مرکزی حیثیت کی حامل ہے ۔ لوگ ان سے مردہ کو غسل دینے کا طریقہ سیکھا کرتے تھے ۔ مزید برآں، بہت سے جید اہل علم نے ان سے احادیث کی روایت کی ہے جس میں اہم ترین انس بن مالک ، محمد ابن سیرین اور حفصہ بنت سیر ین شامل ہیں۔
ذیل میں ہم مدینہ کی باسی چند ایسی عام خواتین کا ذکر کریں گے جس سے ہمارے درج بالا اصول اور معیار کے مطابق اندازہ کیا جا سکے گا کہ کسی معاشرے میں پائی جانے والی عام خواتین کس علمی مقام کی حامل تھیں اور وہ معاشرہ کس حد تک علم آشنا بلکہ علم پرور تھا۔
(۱) ام ورقہؓ بنت نوفل
ام ورقہ ؓ بنت نوفل ایک صحابیہ ؓ تھیں ۔ ابو دائود نے لکھا ہے کہ ’’وہ قرآنی تعلیمات سے آگاہ تھیں اور رسول خدا نے انہیں اجازت مرحمت فرمائی تھی کہ وہ اپنے اہل خانہ کی نماز میں امامت کرائیں ۔ یہاں تک اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہو کہ حضرت عائشہ ؓبھی خواتین کی باجماعت نماز کی امامت کراتی تھیں ، عورتوں کی صف میں درمیان میں کھڑے ہو کر(بیہقی اور دار قطنی) ۔ اس سے معترضین کے اس اعتراض کی تردید ہو جاتی ہے کہ کیا خواتین امامت کرا سکتی ہیں ؟
(۲)ام یعقوبؓ
ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے درس و تدریس کے دوران ( جس میں خواتین بھی شریک تھیں ) کسی مسئلے کا ذکر کیا ۔ اس پر ایک خاتون ام یعقوب ؓ جن کا تعلق بنو اسد قبیلے سے تھا ، نے ان سے کہا کہ ’’ میں نے تمام قرآن کا مطالعہ کیا ہے ، مجھے تو کسی ایسے مسئلے کا علم نہیں جو آپ بیان کر رہے ہیں ؟‘‘ اس سے اسلام کے ابتدائی دور میں خواتین
کے علمی انہماک اور قرآن فہمی کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ۔
(۳) یہ ایک بہت مشہور تاریخی اور علمی واقعہ ہے کہ حضرت عمر ؓ کے دورِ خلافت میں انہوں نے مسلم معاشرے میں عام اور غریب لوگوں کو شادی ،نکاح کی ترغیب دینے کے لیے مہر کی رقم پر پابندی لگانے کا عندیہ دیا ( یاد رہے کہ آپؓ کی خلافت تک ریاست ِ مدینہ کے باشندے کافی حد تک خوشحال اور متمول ہو گئے تھے ) اور شادی بیاہ کے لیے مہر کے لیے بہت زیادہ مال و دولت دینے کا رحجان بھی پیدا ہوگیا تھا ۔ اس پر ایک بوڑھی خاتون نے نہایت سختی کے ساتھ ان کی اس رائے سے اختلاف کیا کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبرؐ نے اس امر کی کوئی تحدید نہیں کی تو عمر ؓ کو اس امر کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ مہر کی رقم کی تحدید کریں۔حضرت عمر ؓ نے اس خاتون کی اس دلیل کو قبول کیا یہ کہتے ہوئے کہ ’’ مدینہ کی عورتیں تو عمرؓ سے زیادہ قرآن کا فہم رکھتی ہیں ‘‘۔
(۴) اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان خواتین کو دین سیکھنے اور سکھانے کا جو ذوق و شوق تھا ، اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگائیے جو حضرت عمر ؓ کے قبول اسلام کا سبب بنا ۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے :
اسلام کے ابتدائی دن تھے ۔ مکہ میں اسلام کی دعوت کے لیے یہ دور اس قدر کٹھن اور دشوار تھا کہ رسول اللہ ؐ تبلیغ دین کا کام بہت احتیاط اور چھپ کرصحابہ کرام کے ساتھ مختلف جگہوں اور مکانوں میں بیٹھ کر سرانجام دیتے تھے ۔ اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ نہ ہوئی تھی لیکن مکہ کی فضا اس دن بہت زیادہ جذباتی ہو گئی جب حضرت حمزہؓ نے قبول اسلام کا اعلان کیا اور وہ بھی ابو جہل اور دیگر کفار مکہ کے سامنے صحن کعبہ میں ۔
عمر بھی اس واقعہ سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے ۔ ایک دن گھر سے یہ ارادہ لے کر نکلے کہ آج (نعوذ بااللہ ) حضور اکرم ؐ کو… راستے میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بتایا کہ ان کی اپنی بہن اور بہنوئی بھی مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں ۔ یہ سن کر وہ اور بھی برافر وختہ ہوئے اور ان کے گھر جا پہنچے ۔ دیکھا کہ وہ قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ( ایک صحابی جو انہیں قرآن پڑھا رہے تھے ،ڈر کرچھپ گئے ) ۔ عمر کو دیکھ کر بہن اوربہنوئی نے اوراق قرآن چھپا لیے ۔ عمر نے غصے سے بہن اور بہنوئی کو مارنا شروع کر دیا ۔ تاہم جب انہوں نے اپنی بہن کو زخمی حالت میں روتے ہوئے دیکھا توکہاکہ مجھے وہ کلام دکھائو جسے تم لوگ پڑھ رہے تھے ۔ بہن نے کہا کہ قرآن کے اوراق دیکھنے سے پہلے غسل کرو … مشیت الٰہی کہ قرآن نے اپنا معجزہ نما اثر دکھایا اور وہ جو قتل کرنے کو نکلے تھے جو گھائل ہوگئے اور بقول سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، حضور اکرم ؐ نے جن دو افراد کے قبول اسلام کی دعا کی تھی ، اس دعا کے ’’ مراد ‘‘ بن گئے ۔علامہ اقبال نے اس واقعہ کو خواتین اسلام کی سعی تبلیغ دین میں ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے یہ شعرکہا:
تو میدانی کہ سوز قرأتِ تو
دگرگوں کرد تقدیر عمررا !
معزز خاتون کیا تم نہیں جانتیں کہ تمہارے قرآن خوانی کے سوز دروں نے عمر کی تقدیر کو بدل ڈالا ۔ وہ عمر سے فاروق اعظم ؓ خلیفہ دوم بن گئے ۔
(۵) تعلیم نسواں کے عمومی انقلاب ہی کے ضمن میں یہ امر بھی جان لینا ضروری ہے کہ دور اولین کی خواتین نہ صرف کاروبار کرتی تھیں بلکہ حساب کتاب رکھنا بھی جانتی تھیں۔ طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ ایک صحابیہ ؓ ربیعہ بنت معوذ نے کسی دوسری صحابیہ ؓ سے عطر خریدا ۔ ایسی تمام خواتین کی عطر کی بوتلیں بھرنے کے بعد انہوں نے خریدار خواتین سے کہا کہ ’’ اب مجھے اس رقم کی تفصیل لکھوائو جو تمہارے ذمہ واجب الادا ہے ‘‘۔ یاد رہے کہ یہ وہی خاتون صحابیہ ربیعہ بنت معوذ ہیں جن سے رہنمائی لینے کے لیے عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عمر اکثر جایا کرتے تھے ۔ ان صحابیہ ؓ کو اس حد تک احادیث سے آگہی تھی کہ متعدد مشہور فقہا از قسم فقیہہ مدینہ سلمان بن یاسر نے ان سے احادیث کی روایت کی ہے۔ اسی طرح ابو عبیدہ جو عمار ؓ بن یاسر صحابی رسول کے پوتے تھے اور ابن عمر کے غلام نافع ۔اسلام کے اس علمی اور ذہنی انقلاب کے مضمرات کا اس امر سے اندازہ لگائیے کہ حضرت نافع ، امام
مالک کے اساتذہ میں تھے جنہوں نے ایک دفعہ فرمایا کہ ’’ مجھے نافع سے جو روایت حدیث ملتی ہے، میں اسے بغیر کسی چھان بین کیے موطا میں شامل کر لیتا ہوں ‘‘ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس خاتون کاکیا مقام ہوگا جن سے نافع نے اکتساب علمِ حدیث کیا تھا اور جنہوں نے متعدد احادیث کی اُن سے روایت کی ہے ؟ یہاں اس امر کی صراحت ضروری ہے کہ یہ تمام حضرات اپنے اپنے عہد میں بہت مشہور فقیہہ کے حیثیت کی حامل تھے۔
(۶)تعلیم نسواں کی عمومیت کے بارے میں ایک ایتھوپین لڑکی بریرہؓ کا ذکر بھی بہت ضروری ہے جو عتبہ بن ابو لہب( مشہور کافر ) کی باندی تھی جس نے اس کی شادی ایک دوسر ے حبشی غلام سے کر دی تھی۔ حضرت عائشہؓ نے اس جوہر قابل کو خرید کر آزاد کر دیا ۔ آزاد ہونے پر اس نے محسوس کیا ( اسلامی تعلیمات کی برکت کا واضح ثبوت ) کہ اب وہ خود اپنے تمام معاملات ( نجی) کی ذمہ دار ہے تو اس نے اپنے خاوند سے طلاق دینے کو کہا ( یاد رہے کہ اسلام میں کوئی آزاد عورت ، کسی غلام کے رشتہ ازواج میں نہیں رہ سکتی )۔اس کا خاوند مغیث اس کے ساتھ بہت محبت کرتا تھا، وہ مدینہ کی گلیوں میں اس کے پیچھے روتے ہوئے گزرتا جبکہ وہ اس کے ساتھ رشتہ ازواج میں رہنے سے انکار کرتی تھی۔ صحیح بخاری میں ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ خدا اس خاوند کی اپنی بیوی کے لیے جذبات محبت سے بہت متاثر ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ اس خاتون کے جذبات نفرت جو اسے اپنے خاوند سے تھی ۔ پس آپ ؐ نے اس عورت سے فرمایا کہ ’’ اے بریرہ ، خدا سے ڈرو ( اور اس کے جذبات محبت کا خیال کرو ) وہ کل تک تمہارا خاوند تھا اور تمہارے بطن سے اس کا ایک بچہ بھی ہے ‘‘۔ بریرہ نے کہا ’’ اے رسولؐ اللہ کیا آپ مجھے حکم دے رہے ہیں کہ میں اس کی زوجیت میں رہوں؟‘‘ رسول اکرم ؐ نے فرمایا:’’نہیں ، میں صرف اس کے لیے تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں ‘‘۔ اس نے کہا کہ ’’’ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔ اس ایک واقعے سے اس زمانے کی ایک باندی کے فہم قرآن وسنت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ شریعت کے قوانین کو جاننے کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ وہ باندی رسول خدا ؐ کے احکامات اور سفارش کرنے کے درمیان حد فاصل کا علم رکھتی تھی اور یوں اس نے اپنی رائے پر اصرار بھی کیا تاکہ وہ اس پر عمل درآمد کر سکے ۔ اس واقعے کا ایک بہت ہی اہم پہلو یہ ہے کہ رسول اللہ ؐ نے اس باندی کے موقف کو نہایت خندہ پیشانی سے شرفِ قبولیت بخشا۔
استفادہ : طالب ہاشمی ’’تذکار صحابیات ‘‘1998
٭…٭…٭