بشریٰ تسنیم۔ ملتان وسط فروری میں بتول کا دیدار نصیب ہؤا۔ اداریہ حسب معمول اہم خبروں اور حالات پہ معتدل تجزیہ تھا۔الطاف فاطمہ کا افسانہ’’پھول اور پتھر ‘‘ واقعی بہترین انتخاب تھا ۔ قانتہ رابعہ کے افسانے کے اختتام پہ سوچ ’’احساس محاسبہ‘‘نکتے پہ جامد ہوگئی ۔ رسالہ ابھی زیر مطالعہ ہے ۔ ان سب قارئین کا بہت شکریہ جو محشر خیال میں یا فون، واٹس ایپ کے ذریعے ’’گوشہِ تسنیم‘‘کے کالم پہ پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ وہ سب’’ محشر خیال‘‘ میں بھی رسالے پہ اپنے تاثرات ارسال کیاکریں تو اچھا لگے گا۔ اس مرتبہ بتول میں تصویروں والا تجربہ اچھا ہے اگر چہ تصویریں بہت واضح نہیں تھیں ۔ خواجہ مسعود صاحب کی غیر حاضری محسوس ہوئی ،امید ہے خیریت سے ہوں گے ۔ پروفیسر خواجہ مسعود ۔راولپنڈی ’’ چمن بتول ‘‘ ماہ فروری 2022 کا ٹائٹل وادیٔ کشمیر جنت نظیر کے ایک خوبصورت منظر سے مزین ہے وہاں لکڑی کے گھر پانی کے اندر کھڑے ہوتے ہیں اور لوگ کشتیوں کے ذریعے گھر تک آتے ہیں۔ ’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ صائمہ اسما کا ایک فکر انگیز تبصرہ آپ نے صحیح کہا ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی اور گوادر میں مولانا ہدایت الرحمن کی سر براہی میں پر امن دھرنے نے ثابت کر دیا ہے کہ مطالبات تشدد کے بغیر بھی منوائے جا سکتے ہیں ۔عزیزہ انجم کی ایک خوبصورت نظم بھی اداریہ میں شامل ہے۔ ملکی سیاسی رہنمائوں کے بارے میں آپ کے یہ جملے بڑے زبردست ہیں ’’ اس ملک کی تقدیرصرف وہی لوگ بدل سکتے ہیں جن کی اپنی تقدیر اس ملک سے وابستہ ہو ۔ جن میں صلاحیت ہو اور امانت و دیانت بھی ۔جن کے پاس اس ملک کے لیے خواب بھی ہوں اور ان کو تعبیر دینے کا عزم بھی ‘‘۔ کاش ہمارے سیاسی لیڈران اصولوں کو اپنائیں ۔ ’’ اللہ کی رحمت‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ نے اپنے اس بصیرت افروز مضمون میں بیان کیا ہے کہ اللہ کی رحمت بے پایاں ہے اور پوری کائنات میں پھیلی ہے ۔ یہ جملے بڑے خوبصورت ہیں ’’بض اوقات انسان کانٹوں پر سوتا ہے مگر اللہ کی رحمت سے یہ کانٹے پھول بن جاتے ہیں … رزق کی فراوانی بھی اللہ کی ر حمت ہے ‘‘کبھی اللہ کی صفت رحم ہی ہے جس پر سارا نظام ِ عالم قائم ہے ۔ ’’ رسول اللہ ؐ کی زندگی چند درخشاں پہلو‘‘ڈاکٹر محمد آفتاب نے رسول پاکؐ کے سراپا کا نہایت سچا اور حسین منظر پیش کیا ہے ۔ آپؐ کی سیرت کے مختلف پہلوخوبصورت انداز میں بیان کیے ہیں ۔ مثلاً آپ کا لباس، ذوق مزاج طرزِ گفتگو آپؐ کا اعلیٰ اخلاق ، طرزِ تعلیم ، آپ ؐ کی زندگی نہایت سادہ تھی۔ازواج مطہرات کے ساتھ اور اپنے بچوں کے ساتھ آپؐ کا حسن سلوک بے شک اعلیٰ ترین نمونہ ہے ۔ ’’ امت کی ایک بیٹی ‘‘ افشاں نوید صاحبہ نے ایک ایسی خاتون کی کہانی بیان کی ہے جس نے خود حاضر ہو کر رسول پاکؐ کے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کیا ۔ لیکن اسے مہلت دے دی گئی کہ بچہ جننے کے بعد سزا دی گئی ۔ آفریں ہے اس خاتون غامدیہ پر کہ بھاگی نہیں اور اپنے آپ کو رجم کے لیے پیش کر دیا ۔ رسول پاکؐ نے اس کے بارے میں فرمایا ’’ اس کی توبہ ایک عظیم توبہ ہے جو اس نے اپنی جان کا کفارہ دے کر دی ہے ، کیا تم اس سے افضل توبہ کا تصور کر سکتے ہو ‘‘۔ پھر اس خاتون کا جنازہ آپؐ نے خود پڑھایا۔ ’’ خطہِ جموں و کشمیر کل اور آج‘‘ (ڈاکٹر فوزیہ نذیر لون) وادی کشمیرکی تاریخ تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے خطہ کشمیر کی تاریخ حملہ آوروں سے بھری پڑی ہے ۔ زمانہ قدیم میں یہاں ہندوئوں کی حکومت تھی پھر کئی سالوں تک مسلمانوں کی حکومت قائم رہی ۔ پھر انگریزوں نے اپنے مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں صرف ایک لاکھ پونڈ میں فروخت کر دیا ( چہ ارزاں فروختند!) اس طرح اس خطے پر ظالم ڈوگرہ راج قائم ہو گیا۔ جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانا شروع کردیا ۔ پھر اس وادی میں تحریکِ آزادی شروع ہوئی ۔شیخ محمد عبد اللہ اور غلام عباس نے آزادی کی تحریک کی رہنمائی کی ۔ تقسیم ہند کے بعد ہندوستان وادی کشمیر پر قابض ہو گیا ۔ کچھ حصہ ہمارے مجاہدین نے آزاد کرالیا جو آج آزاد کشمیر کے نام سے قائم ہے 1986سے کشمیر کے مسلمان اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ہندوستان کی آٹھ لاکھ فوج وہاں موجود ہے جو نہتے کشمیری نوجوان اور بچوں پر گولیاں چلاتی ہے خواتین کی بے حرمتی کرتی ہے ۔ لیکن کشمیری مسلمانوں کے جذبہ جہاد کودبایا نہیں جا سکتا ۔ انشاء اللہ ایک دن کشمیر آزاد ہوگا ۔ حصہ نظم و غزل:بنت مجتبیٰ میناؔ کی خوبصورت نظمیں ’’ اب نہیں تاب سفر ‘‘ ’’ اور کیوں نہیں تاب سفر ‘‘ شامل ہیں گویا جواب آں غزل ہے: اے دلِ زار ٹھہر اک ذرا صبر تو کر وہ رہا نجمِ سحر شب گزرتی ہے ابھی حبیب الرحمٰن صاحب کی غزل سے ایک منتخب شعر: محبتوں کا سمندر تو بے کنارہ ہے کہ چاہتوں کی بھی ہوتی ہیں انتہائیں کیا شمیم فاطمہ کی غزل سے ایک منتخب شعر: کیسے غم ِ حیات کے بندھن کو توڑ دے یوں جیتے جی کسی کو کوئی کیسے چھوڑ دے ’’بہتات‘‘ اسما صدیقہ کی دلوں پہ تاثر چھوڑتی ہوئی ایک خوبصورت نظم ؎ خوابوں کے کچھ پھول کھلے تھے اور رستے پر خار بہت تھے چارہ گر لاچار بہت تھے ’’ مولا دل بدل دے ‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ کا لکھا ہؤا ایک منفرد فسانہ یہ قانتہ رابعہ صاحبہ کا کمال ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کا اصل چہرہ پیش کیا ہے ۔ لیکن اس لڑکی کا انجام درد ناک ہؤا۔ ’’ رب نے بنا دی جوڑی ‘‘ ( نبیلہ شہزاد) جوڑے واقعی آسمانوں پر بنتے ہیں اور زمین پر نبھائے جاتے ہیں ۔ اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح لڑکے والوں اور لڑکی والوں دونوں کو اپنی پسند کے رشتے مل جاتے ہیں ۔ د
ونوں نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر مل گئی ۔ ’’ توبہ صرف توبہ ‘‘ (شاہدہ ناز قاضی) ایک سبق آموز کہانی، کہ غرور اور تکبر انسان کو لے ڈوبتا ہے ۔ اس چودھرانی نے غرور اور تکبر کیا احساس ندامت ہؤا تو خود بھی توبہ کی اور دوسروں کو بھی توبہ کی نصیحت کرتی رہی۔ ’’ گواہی‘‘ ( عالیہ حمید) غریب اور لاچار انسانوں کا کوئی مدد گار نہیں بنتا ۔ تگڑے لوگ گھر میں گھس کر اسے اور اس کی ماں کو زدو کوب کر گئے لیکن پولیس نے پرچہ بھی انہی کے خلاف کاٹا اور ملزم آزاد پھرتے رہے ۔ نہ جانے ہمارے ملک سے یہ نا انصافی کب ختم ہو گی ۔ ’’ مسافتیں ‘‘(شہلا خضر) ایک زبردست کہانی ، امریکہ کی چکا چوند دنیا ہمارے نوجوانوں کو بہت پر کشش نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں وہاںایک کھوکھلا ، تصنع اور خود غرضی سے اٹا بے راہ رو معاشرہ ہے ۔ وہاں پاکستانی والدین اپنی اولاد کے لیے بہت فکر مند رہتے ہیں ۔ کاش ہمارے نوجوان سنبھل جائیں۔ ’’ ماسی جنتے‘‘( مدیحۃ الرحمن)گھر گھر میں سارے محلے کی خبریں پھیلانے والی ماسیوں کی فطرت کی عکاسی کرتی ہوئی ایک کہانی۔ لیکن جب اپنی ہی بیٹی پر بن آئی تو خود پریشان ہوئی۔ ’’ پھول اور پتھر‘‘ ( الطاف فاطمہ) مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی حالت ِ زار کے تناظر میں لکھی ایک خوبصورت کہانی جو دلوں پر گہرا تاثر چھوڑتی ہے ۔ یہ جملے بڑا گہرا تاثر چھوڑتے ہیں ’’ اندھیری راتوں کو لرزتے دل کے ساتھ یہ دعا کرتی ہوں ، تیرے آسمان کے تاروں کی خیر ۔ میرے ان بچوں کی خیر کرنا جن کی روشن پیشانیوں کا تصور کر کے ہی میں نے سہانی وادی کے خود’’ پھولوں اور پتھروں کو چوما تھا ‘‘ ’’ میرا مرکز محبت میرا ویلنٹائن ‘‘( شہنا زرئوف) ایک مثالی خاوند اور ایک مثالی بیوی کی رو داد … اگر اسلامی طرز پر زندگی گزاری جائے تو میاں بیوی کے درمیان ویلنٹائن سے بڑھ کر محبت پیدا ہو سکتی ہے ، ایک وفا شعار بیوی کے لیے اس کا ویلنٹائن اس کا اچھا خاوند ہی ہوتا ہے۔ ’’ شہد کی مکھی‘‘ ( فریدہ خالد) شہد کی مکھیوں ان کی زندگی اور ان کے طریقہ کار کے بارے میں ایک نہایت مفید اور معلوماتی مضمون ہے ۔ شہد کی مکھیاں سائنسی طریقہ سے اپنا کام احسن طریقے سے انجام دیتی ہیں ۔ ان کے تیار کیے ہوئے شہد میں ہمارے لیے شفا ہے یہ قرآن کا فرمان ہے۔ ’’ بچوں میں ذیابیطس‘‘شوگر کی بیماری کے بارے میں ایک مفید معلوماتی مضمون ہے ۔ اس کے علاج کے بارے میں بھی ہدایات ہیں ۔ ’’ باتوں سے خوشبو آئے ‘‘ (حنا سہیل جدہ) پھولوں کی خوشبو دل کو بھاتی ہے اسی طرح کچھ انسانوں کی بھی اپنی خوشبو ہوتی ہے ۔ جس سے سارا گھر ، سارا خاندان مہکتا رہتا ہے خاص طور پر والدین اور بزرگوں کی خوشبو! گوشہ ِ تسنیم ’’ محبت کے رنگ‘‘ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ نے ویلنٹائن ڈے پر ایک اچھا کالم لکھا ہے ۔ محبت سے تو اسلام بھی نہیں روکتا لیکن خدا سے محبت رسول پاکؐ سے محبت اور حلال رشتوں کی محبت ، یہی محبت کے اصل رنگ ہیں ۔ مغرب نے تو محبت کے تصور کو پراگندہ کر کے رکھ دیا ۔آخر میں چمن بتول ، ادارہ بتول اور قارئین کے لیے نیک خواہشات۔ ٭…٭…٭ ’’ چمن بتول‘‘ کا سالِ نو جنوری 2022 کا شمارہ ملا ۔ گہرے مطالعہ کے بعد تبصرہ پیش خدمت ہے ۔ سب سے پہلے ٹائٹل پر نظر پڑی ۔ گہرے سرخ رنگ کا گلاب کا پھول موسم بہار کی آمد کی نوید سنا رہا ہے لیکن اسے دیکھ کر مجھے ایک شاعر کا غم میں ڈوبا شعر یاد آگیا ۔ نہ کہہ ساقی بہار آنے کے دن ہیں یہ زخم دل کے چھل جانے کے دن ہیں ’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا حسب روایت فکر انگیز تجزیہ، آپ کا یہ جملہ ہمارے ملک میں سیاست کے کھیل کی کتنی زبردست عکاسی کرتا ہے ’’ بد قسمتی سے ہماری سیاست جھوٹ ، فریب ، انتقام ، دھوکہ ، مفاد پرستی اور بے ضمیری کا ملغوبہ بن چکی ہے ‘‘ اسے کہتے ہیں کوزے میں دریا کو بند کرنا ۔سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کی مغرب نواز پالیسیوں پر بھی آپ نے بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ آپ کے یہ جملے خصوصاً قابل غور ہیں ’’ خصوصاً سعودی عرب کی مقدس سمجھی جانے والی سر زمین پر فلم ایوارڈ کی تقریب کی میزبانی اس کا تقدس پامال کرنے کے مترادف ہے۔ ریاض میں بھارتی فلمی ادا کاروں کے شو کے مناظر بھی تکلیف دہ تھے ‘‘۔ان سب نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی ۔ کاش سعودی عرب کے حکمران اس سر زمین کے تقدس کو پامال نہ ہونے دیں۔ ’’ سچ اور جھوٹ‘‘( پروفیسر امینہ سراج) اس مضمون میں جھوٹ کی قباحتیں وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں کہ جھوٹ اخلاق رذیلہ میں سب سے بُری اور قابل مذمت چیز ہے ۔ جھوٹ سے خاندان اور معاشرے میں فساد برپا ہو جاتا ہے ۔ ’’ ہماری گفتگوہماری پہچان‘‘ ( عبد المتین) زبان ہمارے کردار کی آئینہ دار ہوتی ہے اس کا استعمال ہمیں نہایت احتیاط کے ساتھ کرنا چاہیے اس مضمون میں گفتگو کرنے کے آداب بخوبی سمجھائے گئے ۔ بڑے سچ کہتے ہیں ’’ ایک چپ سو سُکھ‘‘ ’’مدینے کا تاریخی پس منظر‘‘( ڈاکٹر ممتاز عمر ) وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح اوس خزرج قبائل اور پھر بعد میں یہودی اس شہر میں آباد ہوئے کیونکہ یہودیوں کو یقین تھا کہ ایک دن نبیؐ آخرالزماں اس مقدس شہر کو اپنا مسکن بنائیں گے۔ ’’ سمندر کے ساتھ پیاسا گوادر‘‘ ( ثمینہ سعید ) گوادر کے بارے میں ایک دلچسپ معلوماتی مضمون ہے ۔ گوادر مستقبل کی ایک عظیم بین الاقوامی بندر گاہ ہو گی لیکن افسوس یہاں کے باشندے بنیادی انسانی سہولتوں سے بھی محروم ہیں ۔ ’’ اس کا شکریہ ‘‘ شمیم فاطمہ صاحبہ نے حمدو نعت کا خوبصورت امتزاج پیش کیا ہے ایک منتخب شعر : اس کا احسان ہے ہم کو تیری اُمت میں رکھا شکر ہ
ے اُس نے ہمیں حلقہ رحمت میں رکھا نجمہ یاسمین یوسف صاحبہ کی خوبصورت غزل سے دو اشعار اوڑھنے روز نکلتی ہے رِدا زخموں کی زندگی تیرا تو پتھر کا جگر لگتا ہے جانے کب بحرِالم کس کو کہاں لے ڈوبے اب تو ہنستے ہوئے یہ سوچ کے ڈر لگتا ہے ذکیہ فرحت صاحبہ کی فکر انگیز غزل سے ایک شعر: اس شہادت گاہِ الفت میں قدم رکھتا ہے جو پھر وہ پالیتا ہے تحفہ کوثرو تسنیم کا اسماء صدیقہ صاحبہ کی آزاد شاعری میں ایک اچھی نظم: ہر منظر میں سلگا جیون پریت کی آشا پریم کا بندھن سوُنا سُونا دل کا آنگن ریزہ ریزہ خواب کا مدفن ’’ آزمائش‘‘ ( شاہدہ اکرام) یہ کہانی بتاتی ہے کہ ہمیں بے جا توہمات سے گریز کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ پر یقین کامل رکھنا چاہیے ۔ وہی بچہ جس کے بارے میں لوگ توہمات کا شکار تھے بڑا ہو کے ایک اعلیٰ نیورو سرجن بنا۔ ’’ محبت ماں کا بوسہ ہے ‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ شک کی گرہ اچھے تعلقات میں دراڑ ڈال دیتی ہے ۔ رشتے تو اعتماد سے قائم رہتے ہیں ۔ قابل ذکر جملے ’’ دکھ ہی امر ہوتے ہیں خوشیاں تو پل بھر ہوتی ہیں ان میں اگر اذیت اور شک شامل ہو جائے تو زندگی بوجھ بن جاتی ہے ‘‘۔ ’’ مُنا‘‘ حبیب الرحمن صاحب کی لکھی ہوئی کہانی سقوط ڈھاکہ کا المیہ اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے ۔ جب مدتوں اکٹھے رہنے والے مسلمان ہمسائے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ۔ بنگالی ، غیر بنگالی کا نعرہ لگایا گیا لیکن جب دلوں کے رشتے جڑ جائیں تو پھر ایسے اتفاقات ہوتے ہیں ۔ ’’دو آنکھیں‘‘( شہلا خضر) سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں لکھی گئی ایک المناک کہانی ،بنگلہ دیش بنا تو پھر ایک دفعہ خون کی ہولی کھیلی گئی لیکن اب کے مسلمانوں نے مسلمانوں کا خون بہایا ۔یہ ہماری تاریخ کا ایک درد ناک باب ہے ۔ ’’ اعتبار وفا‘‘ ( مدیحۃ الرحمن)بعض اوقات غلط فہمیاں اعتبار وفا کو گہنا دیتی ہیں لیکن جب بد گمانی کے بادل چھٹ جاتے ہیں تو موسم پھر شفاف اور حسین ہو جاتا ہے یہ ایک ایسی ہی با وفا بیوی کی کہانی ہے ۔ اعتبار ٹوٹنے پر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے لیکن جب غلط فہمی دور ہوتی ہے تو سب ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ ’’ تاریک‘‘( عائشہ ناصر ) یہ بھی اس درد کی کہانی ہے جب بنگالی مسلمان غیر بنگالی مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو گئے ۔ یہ جملے رلا دیتے ہیں ’’ امینہ کی ماں حیرت سے جواں سال منیب کو دیکھ رہی تھی جو اسے خالہ کہتا نہ تھکتا تھا امینہ کی ماں روتی کر لاتی بیٹیوں کو لے کر گھر سے باہر نکل آئی … ایک انجانے دیس کی جانب رواں دواں تھی اس کا اپنا دیس اس کے لیے پرایا ہو چکا تھا‘‘۔ ’’ پلا دے اوک سے ساقی‘‘ ( ڈاکٹر زاہدہ ثقلین ) ڈاکٹر صاحبہ نے نہایت دلچسپ انداز میں سمجھایا ہے کہ فاسٹ فوڈ اور کوک وغیرہ ہماری صحت کے لیے بہت مضر ہیں ہمیں سبزیاں ، پھل زیادہ کھانے چاہئیں ، واک کرنی چاہیں ، فاسٹ فوڈ سے بچوں کو حتی الامکان پرہیز کرائیں ۔ ’’ ارمان ‘‘( ربیعہ ندرت) ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ۔ جب ماں باپ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو بعض بد قسمت بیٹے اور بہوئیں انہیں بوجھ سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ انہیں والدین نے ساری عمر قربانیاں دے کر پروان چڑھایا ہوتا ہے ۔ یہ جملے خوبصورت ہیں کہ تنہائی سے تنگ ہماری ماں کے کمرے میں جب ایک چڑیا داخل ہو گئی تو ماں اس سے یوں مخاطب ہوئی ’’ خوش آواز چڑیا کیسی ہو ؟باہر کا موسم کیا ہے ؟ کیا دھوپ پہلے جیسی چمکیلی ہے ، کیا ہوائیں اب بھی مشکبار ہیں ؟ کیا چاندنی اب بھی چھن چھن کر زمین پر آتی ہے ؟ کیا رنگ برنگے پھول اپنے حسن اور خوشبو کے ساتھ اب بھی جلوہ آرا ہیں ؟‘‘ ’’ آوا گون‘‘ ( عاطف ملک) بتایا گیا ہے کہ ہم کتنے بھی صاف شفاف کام کرنا چاہئیں مصلحتیں ہمیں غلط کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ’’ باقی سب‘‘( آسیہ عمران) آپ نے اس مضمون میں سمجھایا ہے کہ ہر مشکل وقت اللہ پر پختہ ایمان رکھنا چاہیے اور اسی سے گڑ گڑا کر دعا کرنی چاہیے ۔وہ ہمارے سب بگڑے کام سنوار دیتا ہے ۔ ’’ یہ عشق نہیں آساں‘‘ یہ میرا لکھا ہؤا مضمون ہے ۔ اس میں میں نے ایک میگزین کے مدیر/مدیرہ کی مشکلات اور مصروفیات کا ذکرکیا ہے ۔ امید ہے قارئین کو پسند آئے گا۔ ’’ بُرے القاب سے مت پکارو‘‘ ( سعدیہ فیاض) قرآن و حدیث کی رو سے سمجھایا گیا ہے کہ ہمیں دوسروں کے نام نہیں بگاڑنے چاہئیں اس سے ان کی عزت نفس مجروح ہو سکتی ہے ۔ ’’ ڈپریشن کے شکار افراد کی مدد کیسے کی جائے؟‘‘( منزہ انوار) اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ ہمیں ڈپریشن کو ہلکا نہیں لینا چاہیے بلکہ اس کا مناسب علاج کرانا چاہیے صاف ستھری غذا کھائیں ، اچھی عادات اپنائیں ، نماز پڑھیں ، اللہ صحت دے گا ۔ بتول میگزین’’ میری نانی اماں‘‘ میں حفصہ سعید نے اپنی نیک سیرت پیاری نانی اماں کو یاد کیا ہے ۔ واقعی ایسے مہر بان بزرگ زندگی بھر یاد رہتے ہیں ۔ ’’ زمین فریادی ہے ‘‘ میں اسما صدیقہ صاحبہ نے بتایا ہے کہ دھرتی ہماری ماں کی مانند ہے۔ یہ ہمارے لیے اناج ، پھل ، اجناس اگلتی ہے ہمیں اس زمین کو جنت زار بنانے کی سعی کرنی چاہیے۔ ’’ آس کے دیپ‘‘ شاہدہ اکرام کے مجموعہ کلام پر عزیزہ انجم اور افشاں نوید صاحبہ کا خوبصورت تبصرہ … بلا شبہ ان کی شاعری دلوں کو چھو لیتی ہے ۔ بطور نمونہ ان کے دو اشعار جہاں پر تتلیاں جگنو ، جہاں پر کہکشاں چمکے سہانا اک جہاں ایسا یہاں آباد کرتے ہیں گرتے ہی بن جاتے وہ تولعل و گوہر نایاب آنکھوں سے آنسو ٹپکانا اچھا لگتا تھا گوشہ ِ تسنیم’’یاد ماضی‘‘ اب کے ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکا ہے۔ گزرے ہوئے کچھ واقعات انسان کی زندگی پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں ۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ واقعی
انسان اپنے ماضی کی کھوئی ہوئی خوبصورت دنیا کی تلاش میں ہے اور جنت اس کا ماضی ہے … خوش بخت ہیں وہ جو اس مقام ماضی پہ واپس جانے کی تیاری کرتے ہیں ‘‘۔ ٭…٭…٭ شمیم سرور۔وہاڑی میں بتول کی ایک پرانی قاری ہوں،برسہا برس سے بتول ہمارے گھر آ رہا ہے ،میں بہت گہرائی اور تفصیل سے اس کا مطالعہ کرتی ہوں ،اگرچہ میں ایک گھریلو عورت ہوں لیکن شوق مطالعہ ، تعمیری ادب سے دلچسپی ورثہ میں ملی لہٰذا نہ صرف بتول بلکہ ادارہ بتول کی شائع کردہ تمام کتب کا مطالعہ رہا، اب اگلی نسل میں سے بیٹیاں بہوئیں بتول بہت شوق سے پڑھتی ہیں ،بچے بھی علم و ادب کے شوقین ہیں اور پوتے پوتیاں نور بہت شوق سے پڑھتے ہیں ،ان رسائل کی مدد سے کوشش کی کہ خاندان بھر میں علم و آگہی کی شمع روشن رہے ۔کچھ افراد جو خرید نہیں سکتے انہیں میں خود خرید کے پہنچاتی ہوں ۔ بتول کے تمام ٹیم ممبران متواتر محنت اور عمدہ کارکردگی کے لیے داد کے مستحق ہیں ان کے اس قلمی جہاد سے نیکی کا پیغام دور و نزدیک پھیل رہا ہے، تمام ادارتی ممبران کے لیے بہت دعا ہے کہ اللہ اس کام میں برکت عطا فرمائے اور اسے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے آمین ۔ میں بتول میں شائع ہونے والے مواد کے بارےمیں یہ کہنا چاہوں گی کہ تمام مضامین افسانے کہانیاں سب بہت اصلاحی ہوتے ہیں ، اخلاق معاملات میں بہتری اور خاندان کی تربیت اور استحکام اور خواتین کے حقیقی مقام کے بارے میں بہت کارآمد اصول پتہ چلتے ہیں جن پہ عمل کر کے آجکل کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ بچوں کی تربیت کے لیے عملی تجاویز بھی یہیں سے ملتی ہیں اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا درس بھی، قناعت صبر خدا خوفی جیسی اعلیٰ خو بیاں اپنانے کی ترغیب بھی ملتی ہے ۔ اداریہ بھی حالات حاضرہ کے فہم کے لیے بہت مفید ہوتا ہے اگر حکمران نیک نیتی سے یہ اداریہ ہی پڑھ لیں تو اصلاح احوال ممکن ہو سکتی ہے، سب کے لیے بہت دعائیں۔ ٭٭٭