پروفیسر خواجہ مسعود۔راولپنڈی
چمن بتول اکتوبر 2022ء پر اپنے تاثرات قارئین کی نذر کر رہا ہوں ۔ امید ہے پسند کیے جائیں گے ۔ سب سے پہلے تو میں مجلس ادارات ’’ چمن بتول ‘‘ اور لکھاری خواتین کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ اس دفعہ شائع ہونے والے سارے افسانے بلا شبہ شاہکار افسانے ہیں اور بہت معیاری ہیں ۔ اس طرح دوسرے مضامین بھی بہت اچھے ہیں ، یہ شمارہ ایک یاد گار شمارہ کہا جا سکتا ہے ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ اس دفعہ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا اداریہ رُلا دینے والا ہے۔ آپ نے سیلاب کی تباہ کاریوں اور سیلاب میں گھرے مجبور ، بے بس اور بے یارو مدد گار لوگوں کی حالت زار کا درد ناک نقشہ پیش کیا ہے ۔
’’ رب کی جنت‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا جنت الفردوس کے بارے میں ایک خوبصورت مضمون ۔ آپ نے جنت کا اتنا پیارا نقشہ پیش کیا ہے کہ بے اختیار دل چاہتا ہے کہ پوری سعی کر کے جنت کے حقدار بن جائیں۔’’لباس پردہ پوشی ہے ‘‘(ندا اسلام) اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے لباس سے ستر پوشی مقصود ہے ، اس سے تکبر کا ہرگز اظہار نہ ہو۔ بے شک بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے ۔
’’ سیرت نبی ؐ کے حیرت انگیز واقعات‘‘( ڈاکٹر مقبول احمد شاہد ) ہمارے پیارے رسول پاکؐ کی زندگی کے ایمان افروز واقعات و معجزات اس مضمون میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں ان خوبصورت واقعات کاسلسلہ ابھی جاری ہے ۔
’’سیرت نگاری کی اہمیت‘‘( ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی)اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ سیرت نبیؐ پر جتنی کتب لکھی گئی ہیں اور کسی ہستی پر اتنی کتب نہیں لکھی گئیں ۔ آپ ؐ کی ساری زندگی قرآن پاک کا عملی نمونہ تھی ، سیرت کی کتب میں لکھے گئے تمام واقعات و حالات سچے اورمبنی بر حقیقت ہیں اور ہر زبان میں سیرت نبیؐ پر کتب موجود ہیں ۔
حبیب الرحمن صاحب کی غزل سے ایک منتخب شعر :
داستانِ غمِ دل سن کے کہاں ممکن تھا
درد کا سیلِ رواں آنکھوں میں روکے رکھنا
اسماء صدیقہ کی خوبصورت نظم ’’ احساس ابھی تک زندہ ہے ‘‘ کے چند مصرعے:
مایوس نہ ہونا لاچارو
تعمیر کی ایسی صورت میں احساس ابھی تک زندہ ہے
اموات کے بے بس ریلے میں اک آس ابھی تک زندہ ہے
عشرت زاہد کی نظم ’’ زمین پر فرشتے ‘‘ سے منتخب اشعار:
گرج چمک اور برستے بادل پہاڑ پانی اگل رہے تھے
وہ تند ریلے جو بہتے بہتے ہر ایک بستی نگل رہے تھے
بہت سے آنگن ، بسے ہوئے گھرپلک جھپکتے اجڑ رہے تھے
’’ تم سے کیا کہیں جاناں‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ نے نہایت سنجیدہ اور آج کے تشویش ناک ماحول پر کہانی لکھی ہے کہ کس طرح بعض شریف گھرانوں کی بیٹیاں شوبز کی چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنی ساری روایات کو بھول جاتی ہیں ۔ یہ ہمارے موجودہ معاشرے کا المیہ ہے ۔ اس میں سوشل میڈیا کا بھی بہت کردار ہے ۔ یہ جملے قابل غور ہیں ۔’’ جب انسان سے حیا رخصت ہو جاتی ہے تو اچھے برے کی تمیزہی ختم ہو جاتی ہے بلکہ برائی اس کے لیے پر کشش بن جاتی ہے ۔‘‘
’’ہائی وے ۔۸۰‘‘ ( شاہین کمال ۔ کیلگری) بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے اسلامی ملکوں کو کیسے تاخت و تاراج کرتی ہیں اس حقیقت کو آشکارا کرتی ایک کہانی ۔ یہ جملے قابل غور ہیں ’’ اس جنگ میں جو لقمہ اجل بنے کیا ان کا کوئی نعم البدل ہے؟ اس رستے ناسور کا کوئی مداوا ہے؟ اب تو ان کے منتظر محبتوں سے لبریز دل بھی دھڑک دھڑک کر خاموش ہو چکے ہوں گے کہ وہ خطہ زمین اپنے حصے کی قیامت بھگت چکا ‘‘۔
’’ کہ جس دن جگمگائے گا شبستان‘‘( عالیہ حمید ) ایک پیاری سی سکول کی بچی کی ناگہانی موت کی درد ناک کہانی ۔ پڑھ کے بے اختیار آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے عنوان بھی زبردست رکھا گیا ہے ۔
’’پری‘‘ ( حمیرا بنت فرید)۔ مختصر لیکن زبردست کہانی ۔ یہ کہانی سمجھاتی ہے کہ کس طرح ٹی وی ڈرامے ہم پر اور ہمارے بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ، ان کاگلیمر ہمیں پر کشش لگتا ہے ۔
’’اک ستارہ تھی میں ‘‘( اسماء اشرف منہاس) سلسلہ وار کہانی کا آغاز دلچسپ ہے ۔ ایک شہری لڑکی کی ایک دیہات میں ایک خستہ حال سکول میں پوسٹنگ ہوتی ہے اُسے وہاں عجیب و غریب ماحول سے واسطہ پڑتا ہے ۔ دیکھیں آگے آگے کیا ہوتا ہے۔
’’ مرد حُر سید علی گیلانی ‘‘افشاں نوید صاحبہ کا سید علی گیلانی کو ایک زبردست خراجِ تحسین ۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ وہ جن کی پاٹ دار آواز مردہ دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن کرتی تھی۔کشمیرکے وہ مرد ِحُر جو دشمن کے لیے لوہے کی چٹان ثابت ہوتے ۔ جو بھارتی سورمائوں کو للکار تے تھے ۔ وہ کڑی دھوپ میں ایک گھنا اور ٹھنڈا سایہ تھے ، ایسا سایہ جس سے راہِ حریت کے مسافر تا قیامت آسودگی پاتے رہیں گے ‘‘۔
’’کرایہ دار‘‘( طیبہ یاسمین ) کرایہ داروں کی زندگی کے بارے میں ایک دلچسپ تحریر ، کہ کرایہ دار لڑھکتے پتھر کی مانند ہوتے ہیں کبھی یہاں تو کبھی وہاں انداز ِتحریر بے حد شگفتہ ہے ۔
’’ سکینہ جی کا ڈائٹ پلان‘‘( نبیلہ شہزاد) سمارٹ بننے کے لیے اچھا ڈائٹ پلان سمجھایا گیا ہے لیکن عمل شرط ہے ۔ کھانے کے شوقین کہاں باز آتے ہیں ۔
’’ اسرارِ قدرت کے تعاقب میں ‘‘ ( آمنہ راحت) سکاٹ لینڈ کے خوبصورت پہاڑی علاقوں کی سیر کا احوال۔ سکاٹ لینڈ کی خوبصورت جھیلیں ، وادیا ں ، آبشار، جھرنے پہاڑی نظارے دنیا بھر میں مشہور ہیں ۔ یہ خوبصورت جملہ لکھا ہے ’’ آنکھوں میں وہ حسین مناظر ہمیشہ کے لیے جا بسے اوریادوں کی مالامیں چند اورموتیوں کا اضافہ ہو گیا ‘‘۔ اتنی حسین منظر کشی کی ہے کہ لگتا ہے ہم خود بھی ان نظاروں میں گھوم رہے ہیں۔
’’ دو ہی راستے ہیں ‘‘ (آسیہ عمران ) اس مفید مضمون میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں خبر دار کیا گیا ہے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر ان فکر انگیز جملوں میں کیا ہے ’’ ٹیلے کے نیچے دبی زچہ ، کیچڑ آلود زندگی کی اولین سانسیں لیتا نوزائدہ بچہ ، ہر سو رقص کرتی موت اور پانی کا وسیع قبرستان ، ہر سو اشکبار ویران آنکھیں ، بے بسی ، حسرتیں ، درد ناک مناظر ، زندہ لاشیں یہ سب سراپا سوال ہیں کہ کس کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش کریں ‘‘۔
گوشہِ تسنیم ’’ خاموشی جرم ہے ‘‘ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ نے بجا فرمایا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریاں کرہِ ارض پر قانونِ قدرت کی خلاف ورزیوں کی بنا پر ہیں ۔ جنگلات کو بے دریغ صاف کرنا بہت نقصان دہ ہے ۔ ہمیں ایسے نمائندے منتخب کرنے چاہئیں جوعوام کا درد اپنے دلوں میں رکھتے ہوں ۔ یہ جملے قابل توجہ ہیں ’’ در اصل عوام کی خاموشی ہی سب سے بڑا جرم ہے ۔ بے غیرتی کی سب سے بڑی علامت ظلم و زیادتی پہ چپ رہنا ہے ، عوام کو بے بسی اور غلامانہ ذہنیت کو ختم کر کے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ہو گی ‘‘۔
آخر میں ’’ چمنِ بتول‘‘ ادارہ چمن بتول اور قارئین کے لیے نیک دلی تمنائیں اوردعائیں۔
٭…٭…٭
’’چمن بتول ‘‘ شمارہ نومبر2022 زیر مطالعہ ہے ۔ اب کے آرٹسٹ نے بڑی مہارت سے ٹائٹل پہ صنفی مسائل کی الجھنوں کو واضح کیا ہے ۔ یہ معاشرے کا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا فکر انگیز اداریہ جو ہمارے ملک کے حالات حاضرہ کی بہترین عکاسی کر رہا ہے ۔ آپ کے یہ جملے بہت قابل عذر ہیںمعروف صحافی کا اندوہناک قتل ایک ایسا سانحہ ہے جس نے صرف آزادی صحافت کا اور آزادی اظہار کا گلا نہیں گھونٹا بلکہ آنے والے حالات کے بارے میں بھی تشویش اور اندیشوں کی گرداڑا دی ہے ‘‘۔
’’ سیاست میں فیر پلے کا رواج آنے لگتا ، میزان قائم ہوتا ، ضمیر کی آواز اور قلم کی سیاہی آزاد ہوتی ، بندوق اپنی حد کو پہچانتی ، جغرافیائی کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کی بھی حفاظت ہوتی رہتی تو رفتہ رفتہ بہتری آنے لگتی‘‘۔
’’ ہم نے تمہیں جوڑوں میں پیدا کیا‘‘ صنفیات کے بارے میں ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ نے اتنی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ مضمون لکھا ہے کہ مجھے شک ہونے لگا کہ ڈاکٹر صاحبہ پی ایچ ڈی کے ساتھ ساتھ ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی ہیں ۔ آپ نے قرآن و سنت کے حوالے سے بہت اچھی طرح مرد عورت کی جنس اور ٹرانس جینڈر کے بارے میں مفصل روشنی ڈالی ہے بلا شبہ یہ ایک بہترین تحقیقی مضمون ہے ۔
’’ فطرت کیا ہے ؟‘‘( ندا اسلام) صاحبہ فطر ت کے بارے میں ایک اہم مضمون فطرت یعنی وہ خصلتیں جن پر انسان یا جانور پیدا کیے گئے ہیں فطرت کبھی نہیں بدلتی چاند سورج ، ستارے ، سیارے سب اپنی فطرت کے مطابق رواں دواں ہیں اور بچہ پیدا تو فطرت سلیم پر ہی ہوتا ہے ۔
’’ انسانیت اس قعرِمذلت میں کیسے گری‘‘ شگفتہ عمر صاحبہ) اس قبیح فعل کی وجہ سے قوم لوط پر عذاب نازل کیا گیا ۔افسوس کہ آج کے دور میں اکثر غربی ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دے دی گئی ہے ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ اسلامی ممالک کو اس قبیح اور مذموم فعل سے پاک رکھے (آمین) ایک زبردست تحقیقی مضمون۔
اسما صدیقہ کی خوبصورت نعت سے چند سطریں:
تو پھر حیاتِ مصطفیٰ کرے عطا نئی جلا
کوئی کٹھن ہو مرحلہ ، ملے نہ کوئی در کھلا
تو اسوہِ محمدیؐ نظر نظر کا آسرا
شبِ سیہ کے باہم پر بنے سحر کا راستہ
’’گھنگرو کی جھنکار ‘‘ (شاہدہ اکرام صاحبہ) خواجہ سرائوں کی زندگی کے مختلف انداز بڑے اچھے طریقے سے اس کہانی میں دکھائے گئے ہیں ۔ واقعی اس طبقے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔
’’ دشتِ تنہائی‘‘ دل پر گہرا اثر کرنے والی آسیہ راشد صاحبہ کی ایک زبردست کہانی ۔ یہ کہانی ہمیں سبق سکھاتی ہے کہ ہمیں کسی بھی انسان کی کبھی تضحیک نہیں کرنا چاہیے ۔ خاص طور پر ایسے افرادکا مذاق نہیں اڑانا چاہیے کہتے ہیں ان کی بد دعا لگ جاتی ہے ۔
’’ بھید‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ کے قلم سے ایک منفرد انداز میں لکھی گئی دل کو چھو لینے والی کہانی کہ حساس والدین کے دل پر ایسے بچوں کی پیدائش پر کیا گز رتی ہے ۔ آپ کی تحریروں میں دلی کے اہلِ زبان باسیوں کے لب و لہجے کی چاشنی ملتی ہے ، مزہ آتا ہے پڑھ کر ۔
’’ کچرے میں کلی‘‘ ( سمرہ ملک ) جنسی شناخت سے محروم بچے کے بارے میں ایک خوبصورت کہانی کہ کس طرح اس بچے نے ہمت نہ ہاری ، زمانے اور نا مساعد حالات کا مقابلہ کیا ، والدین کی حوصلہ افزائی اور سر پرستی میں ایک نارمل زندگی گزاری اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹربن گیا ۔ یہ کہانی عزم و حوصلے کی ایک بہترین مثال پیش کرتی ہے ۔
’’ بس سٹاپ‘‘ ( طلعت نفیس صاحبہ ) یہ بھی ایک عزم و حوصلہ کی داستان ہے کہ کس طرح محنت کر کے ایک خواجہ سرا نے اپنا مقام بنایا بلکہ ایک اور انسان کو سیدھی راہ دکھائی۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ وہ بس سٹاپ کی سیڑھیاں اترتے ہوئے بولا‘‘ اور ہاں میرے استاد نے مجھے ایک بات اور بتائی کہ اللہ نے کوئی انسان بے مقصد نہیں بنایا یہ کہہ کر وہ جس متانت سے آیا تھا اسی سنجیدگی سے واپس مڑ گیا‘‘۔
’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘ (اسما اشرف منہاس) سلسلہ وار کہانی اب دلچسپ ہوتی جا رہی ہے ۔ شہر سے گئی ہوئی سلیقہ شعار لڑکی پون نے ایک خستہ حال دیہاتی سکول کی حالت سنوارنے کا عزم کر لیا ۔ اب ایک نیک سیرت خاتون بڑی بی کے پاس اسے رہائش بھی مل گئی ۔ دیکھیے اب آگے کہانی کیا رخ اختیار کرتی ہے ۔
’’ عمل قومِ لوطؑ اور آج کے مسلمان‘‘ تزئین حسن صاحبہ کا ایک زبردست تحقیقی مضمون ہے آپ نے نہایت جرأت سے کام لیتے ہوئے ایک انتہائی حساس موضوع پر بہت ریسرچ کے بعد یہ مفید اور معلوماتی مضمون تحریر کیا ہے ۔ یہ لعنت انتہائی قبیح اورمذموم ہے ، اسی وجہ سے قومِ لوط پر درد ناک عذاب نازل ہؤا ۔ بے شک یہ امت کے لیے ایک بڑا فتنہ ہے۔
’’نادرہ خان کی کہانی ‘‘(عابدہ فرحین صاحبہ ) ہیجڑا کمیونٹی کی حالت زار کے بارے میں ایک فکر انگیز تحریر یہ جملے بہت قابل غور و فکر ہیں ’’ ہم اپنے ہی گھر میں اجنبی اور غیر سے ہو جاتے ہیں ۔ زمانے کی ایک انوکھی مخلوق کے طور پر جب سب کی نظریں برداشت کرنا پڑتی ہیں … ہم اپنے گھر والوں کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں اور ان کی اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے ہم اپنا گھر بار چھوڑ جاتے ہیں مگر ہمارے اس دکھ کو کوئی نہیں سمجھتا‘‘۔
’’ لیس الذکر الانثیٰ‘‘ ڈاکٹر صائمہ اسما صاحبہ کے قلم سے نکلا ہؤا صنف کے موضوع پر دلچسپ مضمون ۔ شگفتہ پیرائے میں نہایت سنجیدہ باتیں کہہ دی گئی ہیں ۔ یہ جملے توجہ کے طالب ہیں ،جدید ماحول سے منسلک مسائل بھی ہیں جن میں کاموں کی تقسیم کا خط دھندلا سا گیا ہے ۔ تو نئے حالات میں ایڈجسٹ کرلینا گناہ نہیں ہے۔ عورت ہو یا مرد انسان بننا اصل اہمیت رکھتا ہے ۔ہم عورت کو عورت اور مرد کو مرد بنانے کے چکر میں کہیں ان کا انسان ہونا بھلا ہی نہ دیں ‘‘۔
’’صنفی شناخت کا بحران کیوں ؟‘‘( افشاں نوید صاحبہ ) صنف کے سنجیدہ مسئلے پر ایک بہترین کالم جو ہمیں غورو فکر کی دعوت دیتا ہے یہ جملے ہماری خصوصی توجہ کے مستحق ہیں ’’ جنس تبدیل کرانا تو دُور کی بات ہے اسلام میں تو عورتوں کو مردوں کی محض ظاہری مشابہت یا مردوں کی عورتوں سے مشابہت پر سخت وعیدیں ہیں ۔ کجا کہ ایک اسلامی معاشرے میں تبدیلی جنس کو قانونی تحفظ دیا جائے ‘‘۔
’’ سنہری دور اور تین بہنیں ‘‘ ( مسرت جبیں صاحبہ ) بتایا گیا ہے کہ یہ افراد بھی تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں با عزت مقام بنا سکتے ہیں۔ حکومت اورمعاشرے کو چاہیے کہ ان کی سر پرستی و رہنمائی کریں ۔
گوشہ ِتسنیم’’ جیسے چاہو جیو‘‘ اب کے ڈاکٹر صاحبہ کا کالم بھی اسی صنفی مسئلے پر ہے حکومت سے کہا کہ خدارا ایسے قوانین نہ بنائے جائیں جو شریعت اسلامی سے متصادم ہوں ۔
ادارہ ’’ چمن بتول‘‘ مبارک باد اور خراج تحسین کا مستحق ہے کہ اتنے اہم مسئلے پر ایک جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے خاص نمبر شائع کیا ہے ۔ امید ہے حکام اور ارباب اختیار پر اس کا ضرور اثر پڑے گا ۔
’’ چمن بتول‘‘ ادارتی بورڈ ، جملہ سٹاف و قارئین کے لیے نیک خواہشات کے ساتھ اجازت۔
٭…٭…٭
آمنہ بلوچ ۔ کوٹ ادو
ڪصنفی شناخت نمبر نکالنے کا بہت بہت شکریہ یہ کام آج سے بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا تاکہ لوگ اس برائی سے آگا ہوتے ۔ سب افسانے اور’’ ابتدا تیرے نام‘‘ سے لے کر آخر تک تمام رسالہ دل کو چھونے والا تھا۔
ایک مظلوم طبقے کے متعلق اتنا تو ہمیں اب معلوم ہؤا اور یہ جان کر اور بھی دُکھ ہؤا کہ ان میں سے کچھ کے ساتھ غلط عمل بھی کیا جاتا ہے ۔ عمل ِ قوم لوط کی برائی اور اس کی سزا جواللہ کی طرف سے دنیا و آخرت میں مقرر کی گئی ہے اس کے متعلق اور بھی لکھنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ آج مدرسہ ہو سکول ہو یا کالج ، ایک ماں کے بقول خوبصورت لڑکا ہر جگہ خطرے میں ہے۔
تزئین حسن صاحبہ کا ’’ عملِ لوط اور آج کا مسلمان‘‘ نے واقعی آنکھیں کھول دیں ، اگلی قسط کا شدت سے انتظار رہے گا ۔ عابدہ فرحین صاحبہ کی ’’ نادرہ خان کی کہانی اور سنہری دور اور تین بہنیں ‘‘ سبھی کہانیوںنے بہت متاثر کیا ۔ ان بہنوں کے متعلق میں نے بھی سنا ہے شاید یہ وہی ہوں ۔ ڈاکٹر میمونہ حمزہ کا مضمون ’’ ہم نے تمہیں جوڑوں میں پیدا کیا ‘‘ اس میں مخنثوں کے متعلق شرعی معلومات پہلی بار معلوم ہوئیں ان کا بہت شکریہ ۔قول نبی’’ فطرت کیا ہے ‘‘ندا اسلام صاحبہ کا اور’’انسانیت قعرِ مذلت میں کیسے گری‘‘ شگفتہ عمر صاحبہ کا مضمون بھی معلومات میں اضافہ کا باعث بنا ۔ ان سب لوگوں کا جنہوںنے افسانے اور دیگرکالم لکھ کر اپنی بات ہم تک پہنچائی بہت بہت شکریہ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے ۔
٭ ٭ ٭