بتولمحشر خیال -بتول جنوری ۲۰۲۱

محشر خیال -بتول جنوری ۲۰۲۱

پروفیسر خواجہ مسعود ۔راولپنڈی
’’چمن بتول‘‘ شمارہ دسمبر2020 سامنے ہے سب سے پہلے نیلے، پیلے ، اودے،سبز رنگوں سے مزین سر ورق دل کو بھاتا ہے۔
’’ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ صاحبہ نے کرونا کی بڑھتی ہوئی وبا پر بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے ، اس کے بعد آپ نے سقوط ڈھاکہ پرمختصر لیکن جامع تبصرہ پیش کیا ہے ۔ آپ کے یہ جملے غور کے لائق ہیں ’’سقوط ڈھاکہ ایک ایسی المناک داستان ہے کہ جب تک سینے سے باہر نہ آجائے سینوں کو چیرتی رہتی ہے اور دلوں پر آبلے ڈالتی ہے ‘‘۔
’’ قرآن کی اثر انگیزی ‘‘( ڈاکٹر مقبول احمد شاہد) نے خوب لکھا ہے ’’ قرآن جس زبان میں نازل ہؤا وہ اس کے ادب کا بلند ترین اور مکمل ترین نمونہ ہے ۔ کلام اتنا اثر انگیز ہے کہ کوئی زبان دان آدمی اسے سن کر سر دُھنے بغیر نہیں رہ سکتا حتیٰ کہ یہ کلام سن کر مخالف کی روح بھی وجد کرنے لگتی ہے ‘‘۔
’’ رسولؐ اکرم کی حکمت تبلیغ‘‘ ( الماس بن یاسین امان اللہ)اس مضمون میں رسول پاکؐ کی تبلیغ اسلام کے چیدہ چیدہ اصول واضح کیے گئے ہیں ۔ مثلاًاصول تدریج، حکمت، عمدہ نصیحت، مجادلہ حسنہ، نرم بات، تالیف قلوب، شفقت ونرمی، پر حکمت انداز تلقین، آپ نے یہ جملہ بھی خوب لکھاہے ’’ صرف مذہب اورعقیدہ دنیا میںانقلاب برپا نہیں کر سکتا بلکہ اس کے ساتھ کردار کا عملی نمونہ بھی ضروری ہے ‘‘۔
’’یادیں اور باتیں ‘‘ شاہدہ اکرام سحر کی خوبصورت نثری نظم ، دل کی اداسی اجاگر کرتی ہے
’’ تحریک پاکستان ، بنگال کے تناظر میں ‘‘(سید ابو الحسن)اس مضمون میں تحریک پاکستان کے پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندو سارے ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے تھے لیکن انگریزوں نے قائد اعظم کی لیڈر شپ میں ان کے اس مذموم مقصد کو پورا نہیں ہونے دیا لیکن انگریزوں نے تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کی اور ہندوئوں کا ساتھ دیا ۔ اس طرح مسلم اکثریت کے صوبے بنگال کو اور پنجاب کو غیرمنصفانہ طریقے سے تقسیم کردیا گیا ۔بعد ازاں شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان کے خلاف جذبات ابھارنے میں کلیدی کردار ادا کیا اوراس طرح بنگلہ دیش بن گیا جو ہماری تاریخ کا ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔
’’حبیب الرحمن ‘‘کی غزلوں سے منتخب اشعار:
نکالیں منزلوں تک سلسلہ خود پرانے راستوں پر کیوں چلیں ہم

یہ سب تو ممکن تھا جاناں خود سے بچھڑ ا جا سکتا تھا
لیکن تیری چاہت سے منہ کیسے پھیرا جا سکتا تھا
اس ماہ شاعرات کی غیر حاضری محسوس ہوئی ۔
’’ داستان‘‘ ( عالیہ حمید ) ایک جذبات میں ڈوبی کہانی۔ہماری فوج کے جوانوں اورافسروں میںوطن کی خاطر جان قربان کرنے کے جذبے کو مرکزی خیال بنایا گیا ہے ۔
’’اک شام آئی اور ‘‘(قانتہ رابعہ) عورت سرا سر قربانی کا نام ہے۔ پہلے والدین کی خدمت کرتی ہے ، شادی کے بعد خاوند کی خدمت ، بچوں کی پرورش ، گھر کی دیکھ بھال، اپنی صحت سے بے خبر….. ایک دن دنیا سے چلی جاتی ہے ۔ انہی حالات کی عکاسی کرتی ہوئی کہانی ہے۔
’’ آنکھ کا تارا‘‘( نصرت یوسف) بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں بعض ظالم لوگ بیٹی کی پیدائش پر ناراض ہوتے ہیں ۔ انہیں کون سمجھائے کہ بیٹی تو آنکھ کا تارا ہوتی ہے ۔ دل کا سرور ہوتی ہے ۔
’’ نا سمجھ‘‘( شہلا خضر) میاں بیوی کے نازک رشتہ پر ایک خوبصورت کہانی شادی کے بعد میاں بیوی کو ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے اور آپس میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جھگڑے تو زندگی کو اجیرن بنا دیتے ہیں۔
’’ ایسا بھی ہو سکتا ہے ‘‘ ( نبیلہ شہزاد) اگر ساس اچھی ہو اور بہو بھی تو دونوں میں بالکل ماں بیٹی والا رشتہ قائم ہو سکتا ہے اور گھر جنت بن جاتا ہے یہی امکان بیان کرتی ہے ۔
’’ سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ‘‘( ڈاکٹر فائقہ اویس) ڈاکٹر صاحبہ کی یہ تحریر پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سعودی عرب میں ڈاکٹری کے ساتھ ساتھ وہاں کے کھانوں کا بھی گہرا مشاہدہ کرتی رہی ہیں ۔سعودی کھانوں اور مشروبات کا ایسے دلچسپ انداز میں ذکر کیا ہے کہ بے اختیار یہ کھانے چکھنے کودل چاہتا ہے ۔
’’ ک کرونا ق قانتہ‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ کا یہ مضمون پڑھ کے ہمارے دلوں سے بھی کرونا کا خوف دور ہو گیا جس بہادری سے کرونا کو شکست دی اُسے پڑھ کر قارئین کا حوصلہ بھی بلند ہو گا۔
’’دعائوں کی چھائوں‘‘ (فریحہ مبارک) ساس اور بہو کا رشتہ جب ماں اوربیٹی کے رشتے میں ڈھل جائے تو پھر ایسی خوشگوار یادیں زندگی کا سرمایہ بن جاتی ہیں ۔ یہ جملے بڑے خوبصورت لکھے ہیں ’’ والدین کے سامنے عاجزی سے جھکے رہنا ، ان کی خدمت کرنا اور پھر ان کی دعائیں لینا….اور ایک دن احساس ہوتا ہے کہ یہ دعائیں ہر آنے والے دن میں استقبال کرتی ہیں ‘‘۔
’’ تحفہ بلائے جان‘‘ ( بنت شیروانی ) ایک مزیدار مضمون ہے ۔ کھانے پینے کےشوقین خواتین و حضرات کوجب ڈائٹنگ کا شوق چڑھتا ہے تو ان کا کیا حشر ہوتا ہے اس کا دلچسپ احوال ہے ۔
’’ اے کاش میں ہوتی‘‘( سارہ عادل) ایک دلچسپ ہلکا پھکا مضمون ہے لیکن آخر میں یہ جملے بڑے سنجیدہ ہیں ’’ اے کاش میں فلاں بہن کی طرح حساس ہوتی ، بہن جیسی خلق کی خدمت کر پاتی ، بردبار ہوتی ، صاحبِ ایمان ہوتی ، نرم و شفیق ہوتی اور اور…..‘‘
’’ معروف مصنفہ غزالہ عزیز صاحبہ سے ایک ملاقات‘‘( آسیہ راشد) ایک درد دل رکھنے والی صاحب قلم ہستی کے ساتھ ملاقات کا احوال لکھا ہے ۔ ایک شاندار خاتون کا شاندار انٹرویو ہے لیکن ذرا مختصر ہے ۔
’’ انار‘‘( فریدہ خالد) انار کے بارے میں ایک دلچسپ تحقیقی مضمون ہے۔ آپ نے انار کے بے شمار فوائد گنوائے ہیں ۔ یہ کینسر ،شوگر ، بلڈ پریشر اور امراض قلب میں مفید ہے ، رنگ نکھارتا ہے ، وزن کم کرتا اور یہ تو جنت کا پھل ہے ۔
’’ کرونا پھر سے‘‘( ڈاکٹر فلزہ آفاق) کرونا کے دوبارہ پھیلائو سے بر وقت خبر دار کیا گیا ہے ۔
گوشہ ِتسنیم’’ زوجین میں سمجھوتہ‘‘( ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ) ڈاکٹر صاحبہ اس دفعہ ایک ماہر نفسیات اور ماہر اخلاقیات کے روپ میں نظر آتی ہیں ۔ آپ نے واضح کیا ہے کہ زوجین میں سمجھوتہ کے لیے میاں بیوی کا ایک دوسرے کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ برداشت کرنا اور ایک دوسرے سے تعاون کرنا ضروری ہے ۔ دیکھ کر شادی کرنا بہتر ہے ۔ رسول پاک ؐ کا پیارا فرمان مد نظر رہے کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں خلق کے لحاظ سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں سے بہترین اور مثالی سلوک کرتا ہے ۔
’’ زندگی بدل دینے والی باتیں‘‘( حافظ محمد نعیم عابد) اس مختصر تحریر میں بڑے کام کی باتیں بتائی گئی ہیں ۔
سب قارئین کی خدمت میں نیا سال مبارک! اللہ کرے یہ سال ہمارے ملک پاکستان اور ساری دنیا کے لیے خوشیوں اور امن کا پیغام لائے ( آمین)۔
٭ ٭ ٭
نسیم راشد۔ کراچی
بتول دسمبر2020پڑھا۔ قانتہ رابعہ صاحبہ کی روداد’’کاف کروناکاف قانتہ‘‘پڑھ کر بڑا مزا آیا۔اتنابے ساختہ انداز ہےکہ ہنسی آگئی۔قانتہ صاحبہ کی تو میں ویسے ہی مداح ہوں مگر افسانوں کے ساتھ مزاح بھی بہت خوب ہے۔
ڈاکٹر فائقہ اویس صاحبہ کے مشاہدات’’سعودی عرب میں رہنےکا تجربہ‘‘ بہت ہی پسند آئے۔ سعودی معاشرے کے حوالے سے کافی غلط فہمیاں دور ہوئیں۔ دلچسپ اور معلوماتی سلسلہ ہے۔اسی طرح دوسر ے ممالک کے حوالے سے بھی مشاہدات شامل کیے جانے چاہئیں۔
فریدہ خالد صاحبہ کے مضامین کا انتظار رہتا ہے۔بتول کے سب سلسلے اپنی اپنی جگہ اہم اور مجھے پسند ہیں۔اللہ تعالیٰ بتول کی ساری ٹیم کی کوششوں کو قبول فرمائے۔

٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here