۲۰۲۳ بتول اگستغزل - حبیب الرحمٰن

غزل – حبیب الرحمٰن

نہ ہم نے کھلتے گلاب دیکھے نظر نہ شکلِ ببول آئی
عجیب منزل تھی جس کی راہوں میں گرد دیکھی نہ دھول آئی

لکھے تھے قسمت میں اس کی شاید نشاط کے صرف چند جھولے
وگرنہ خواہش درختِ جاں کی تمام شاخوں پہ جھول آئی

جو چند اچھے سمے مقدر سے میری جھولی میں آ گرے تھے
انھیں بھی ظالم یہ دشمنِ جان موت جا کر وصول آئی

یہ سچ ہے میں زندگی کے ہاتھوں کئی برس پہلے مر چکا تھا
اے موت اب میری جان لینے تو آئی ہے تو فضول آئی

جو شرک و تثلیث و بت پرستی کی رد میں اخلاص میں اتاری
اُس آیتِ لم یلد کی لوگو سمجھ میں وجہِ نزول آئی

نہیں تھا جب میری آنکھوں، چہرے، جبیں پہ غم کا کوئی تاثر
تو پھر کوئی آہ میرے اندر سے ہو کے کیسے ملول آئی

مجھے تو لگتا ہے زندگی بھی فقط کوئی ایک دائرہ ہے
دنوں میں جس کے نہ عرض دیکھے نہ کوئی شب مثلِ طول آئی

عجب ہے بے کیفیت کا عالم میں ہوکے بھی جیسے میں نہیں ہوں
خدارا اے زندگی مجھے تو بتا کہاں جا کے بھول آئی

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here