ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

غزل- بتول مئی ۲۰۲۳

اخلاص و محبت سا وہ پیکر نہ ملے گا
باہر سے ہے جیسا مرا اندر نہ ملے گا
حق گوئی پہ سر کاٹنا ہے کاٹ دو لیکن
تم کو مری آنکھوں میں کوئی ڈر نہ ملے گا
پا کر نہ تجھے جیتے جی مر جاؤںگا، میرا
گر تیرے مقدر سے مقدر نہ ملے گا
ہاں سرمہ لگی آنکھ سا دو رنگ کا موتی
جز اشکِ بتاں ایک بھی گوہر نہ ملے گا
یوں چاہنے والے تجھے مل جائیں گے لیکن
کوئی بھی مرے قد کے برابر نہ ملے گا
ہو جس میں پیاسوں کے لیے دریا دلی بھی
دنیا میں کوئی ایسا سمندر نہ ملے گا
جھک جائے گا ظالم جو ترے جبر سے ڈر کر
شانوں پہ مرے ایسا تجھے سر نہ ملے گا
سکہ، کوئی سونے کا نہ چاندی کا ہوں، مجھ میں
ہاں کھوٹ تجھے ذرہ برابر نہ ملے گا
ہر اک کو سبق رہ سے بھٹک جانے کا لیکن
مل جائے گا کھائے بنا ٹھوکر نہ ملےگا
وہ چاہے تو قارون سے بڑھ کر ہمیں دے دے
ورنہ کسی چوکھٹ سے بھی چوکر نہ ملے گا
واللہ حبیبؔ ہاں یہ ترے در کا بھکاری
اک تیرے سوائے کسی در پر نہ ملے گا

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x