ہم کھڑے ہیں منتظر
آنے والے وقت کے
لائے گا جو ساتھ اپنے سر خوشی
آج ہم میں سے ہر اک تنہا ہے کتنا
ذات کے الجھائو میں کھویا ہؤا
ذات کے اس پار کیا ہے دیکھ ہی سکتا نہیں
سوچتا ہے زندگی بے کیف ہے
کس قدر نا مطمئن ہے یہ ہماری نسلِ نو
گھل گئی ہے روح میں گہری تھکن
سانس ہے الجھا ہؤا
ہر اندھیرے میںچھپی ہوتی ہے لیکن روشنی
کل انہی جذبوں سے ابھرے گی سحر امید کی
پھیل جائے گا شفق پر چار سو رنگِ نشاط
لہلہائیں گے چمن میں ہرطرف رنگین پھولوں کے علم
آئے گی وہ صبح فردا وہ سحر امید کی
اپنے دامن میں لیے تازہ بہاروں کی مہک
صبح کا تارہ نئی امید لے کر آئے گا
یاس کے بادل چھٹیں گے
چار سو چھائے