آخر وہی ہؤا نا جس کا ڈر تھا ۔ سندس کے منہ پھٹ ہونے میں اگرچہ عنبر کو پہلے بھی کبھی کوئی شبہ نہ تھا لیکن آج تواس نے حد ہی کر دی تھی ۔ آپا کیسے مسکرامسکراکر سب سے باتیں کر رہی تھیں ۔ اپنے گھر اور میاں کی تعریف میں رطب اللسان تھیں ،لیکن اس سندس کی بچی نے اپنی قینچی کی طرح چلتی زبان کو ہمیشہ کی طرح قابونہ کیا اور اپنے منہ پھٹ ہونے کا ثبوت ایک دفعہ پھر دہرایا ۔ آپا کی شکل، اُف! آپا کی شکل ، اس کی بات سن کر شرمندگی سے کیسے سرخ ہو گئی تھی ۔عنبر کا نازک دل تو دھک ہی سے رہ گیا تھا ۔ اگر وہ بر وقت بات کو نہ سنبھالتی تو آپا تو پھر شاید اس چوکھٹ پر قدم بھی نہ رکھتیں اور پھر وہ میاں اور باقی گھر والوں کے سامنے بے قصور ہوتے بھی کتنی شرمندہ ہوتی ۔ پر اس کا احساس سندس کو ہو تب نا !
٭…٭…٭
تبسم باجی جنہیں سارا خاندن ہی نہیں بلکہ سسرالی ، محلہ دار سب ہی آپا کہتے تھے اسم با مسمیٰ تھیں ۔ دھیرے دھیرے گفتگو کرتیں ، دھیمی دھیمی مسکراٹ چہرے پر سجائے وہ سب کو ہی اچھی لگتیں ۔ تعلیم مکمل کرتے وہ درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہو گئیں تھیں ۔ ویسے تو وہ اپنی کالج لائف میں بھی محلہ کے بچوں کو ٹیوشن اورقرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھاتیں کہ پڑھنا پڑھانا ہی گویا ان کا مقصد زندگی تھا ۔ درس کے ساتھ انہوں نے گھر کے قریب ایک اسکول میں بھی ملازمت اختیار کرلی تھی ۔ وہ سکینڈری کلاسوں کو پڑھاتیں ، ان کا بنیادی مقصد بچوں کوصرف تعلیم ہی دینانہیں بلکہ تربیت بھی تھا ، اوروہ اسی مشن کو پورا کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔
اسکول میں پڑھاتے ابھی ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ والدین نے ایک اچھا رشتہ دیکھ کر ان کے ہاتھ پیلے کر دیے اور تبسم آپا مشرقی لڑکیوں کی طرح فرمانبرداری سے سر جھکائے میکہ کی دہلیز پار کرکے شوہر کو پیاری ہوگئیں ۔ وہ شوہر کو محاورتاًنہیں بلکہ حقیقتاً ہی پیاری ہو گئی تھیں ۔ دونوں میاں بیوی میںمثالی محبت تھی اور کیوںنہ ہوتی ، تبسم آپا اپنے سلیقہ ، سگھڑاپے ، خلوص وفاداری ، محبت اور حسن سلوک سے میاں کے دل میں وہ مقام حاصل کر لیا تھا جو کم ہی عورتوں کو حاصل ہوتا ہے ۔ اسی طرح وہ بھی میاں پر پروانہ وار نثار تھیں ۔ خاندان بھر میں دونوں کی ازدواجی زندگی کی مثالیں دی جاتی تھیں ۔ تین بچے تھے جواپنے عادات و اطوار میں والدین ہی پر گڑے تھے ، عنبر ، تبسم آپا کی ننھیالی عزیز تھی۔ تو دوسری طرف اس کا ان سے سسرالی رشتہ بھی تھا ۔ یوںدونوں طرف سے رشتہ داری بن گئی تھی ۔ جو رشتوںکو مزید مضبوط بنا گئی تھی ۔ تبسم آپا سے اس کی ملاقات پہلے تو کبھی کبھی ہی ہوتی تھی ۔ جب وہ اس کی امی کی طرف آئی تھیں ۔ یا پھر خاندان کی کسی تقریب میں ہو جاتی ، لیکن شادی کے بعد چونکہ تبسم آپا ، عنبر کے سسر کی سگی ماموں زاد بہن تھیںاور سسر نے ان کو اپنی بہن بھی بنایا ہؤا تھا لہٰذا مہینہ میںتو ضرور ان کا چکر ، عنبر کی ساس کے پاس لگتا، کبھی اکیلے اور کبھی بچوں کے ساتھ ۔ ان کی خوشگوار زندگی کا اندازہ ہر وقت ان کے چہرے پر چھائے تبسم سے ہوتا ۔ ساس تو اکثر ہی تبسم سے کہتیں ’’ اے تبسم ! ہر وقت ہر کسی کے سامنے اپنے میاںکی تعریفیں نہ کیا کر و ، نہ جانے کسکے دل میں کیا ہو ، نظر بھی لگ جاتی ہے ‘‘۔
’’ ارے بھابھی ، وہ ہیںہی تعریف کے قابل ، آپ پریشان نہ ہوں ، کچھ نہیں ہوتا ‘‘۔
وہ حسب معمول مسکرا تیں۔
’’ خدا کرے ایسا ہی ہو ، ویسے تم اپنے اورگھروالوں سب پر صبح شام ، نظر اتارتی رہا کرو ‘‘۔
’’ بالکل پڑھتی رہتی ہوں ، آپ بے فکر رہیں‘‘۔ وہ پھر مسکرا تیں۔
’’ ویسے تو تم سے کیا کہنا کہ تم ہم سے زیادہ دین دنیا کا علم رکھتی ہو، لیکن جیسے تم سندس کے باپ کی بہن ، ایسے ہی میری بہن، میں نے کبھی تم کو نند نہیں سمجھا ، بس کبھی کبھی دل ڈرتا ہے ۔ اسی لیے کہہ دیتی ہوں ‘‘۔ عنبر جانتی تھی کہ ساس کچھ وہمی بھی تھیں اور تبسم آپا بھی اس سے بے خبر نہ تھیں۔
’’ ارے میری پیاری بھابھی ! بس آپ اللہ سے دعا کرتی رہا کریں ، وہ ہم کو ہمیشہ آباد رکھے ‘‘۔
’’ آمین ‘‘۔ عنبر کی ساس نے خلوص دل سے کہا تھا ۔
٭…٭…٭
تبسم شادی کے بعد ملازمت کو تو خیر آبادکہہ چکی تھیں کیونکہ گھر ان کی پہلی ترجیح تھا ۔ لیکن دین کے فہم اور اپنے متاثر کن انداز بیاںکی بدولت وہ اپنے گھر پر ہفتہ وار درس قرآن رکھتی تھیں ۔محلے کی عورتیں ان کے دروس میںکچھی چلی آتیں ۔ آہستہ آہستہ یہ مقبولیت بڑھتی گئی اور آس پاس کے دیگر محلوں میں سے بھی خواتین آنے لگیں ۔ پھر دیکھتے دیکھتے لوگوںنے انہیںاپنے گھر درس کے لیے بلانا شروع کردیا تھا۔ معاشرتی مسائل کا حل وہ قرآن و سنت کی روشنی میں دیتیں اور بڑے متاثر کن لہجے میں قرآنی احکامات بیان کرتیں ۔ خواتین پر ان کی باتیں بڑی اثر انداز ہوتیں ساتھ ان کی شخصیت کا سحر بھی انہیں جکڑ دیتا ۔ اسی دوران وہ تین بچوں کی نعمت سے بھی سرفراز ہو گئیں ۔ لیکن انہوں نے گھر ، بچوں اور اپنی مصروفیات میں توازن رکھا ہؤا تھا ۔ اسی طرح شادی کو پندرہ سال گزر گئے۔ ان کی بڑی بیٹی تیرہ سال کی تھی پھر دونوں بیٹے بالترتیب دس اور آٹھ سال کے تھے جب آپا کے میاں ہارٹ اٹیک میں زندگی کی بازی ہار بیٹھے ۔
آپا کی تو سچ مچ دنیا ہی اُجڑ گئی تھی۔ دوران عدت اور اس کے بعد بھی عنبر جب بھی آپا کے گھر ان سے ملنے گئی، آپا کی ویران صورت اس کو تڑپا دیتی ۔ وہ تبسم جو ان کی شخصیت کا حصہ تھا نہ جانے کہاں کھوگیا تھا۔ دکھ ، غم ان کے چہرے اور شخصیت پر ثبت ہو گیا تھا ، چاہنے والے ہمدرد ، غمگسار میاں کی اچانک موت، نا قابل برداشت غم تھا ۔ سال ہونے کو آرہا تھا لیکن آپا کودیکھ کر لگتا ان کا غم تازہ ہی ہے ۔ والدین ، بھائی بہن ان کو سنبھالنے اورغم بانٹنے کی پوری کوشش میں تھے لیکن بے سود ، آپا کا کھویا ، کھویا غم زدہ چہرہ ، اجڑا ویران وجود، خاموش لب ، با آواز بلند حال دل سناتے ۔ پھر ایسے ہی حالات میں تبسم آپا کی والدہ کو ان کی کسی ہمدرد نے یہ مشورہ دیا کہ تبسم آپا کی دوسری شادی کر دی جائے۔
’’ ہائیں ؟‘‘ امی جان تو بری طرح سٹپٹا گئی تھیں ۔ ’’ ارے تبسم ابھی تک صدمے سے باہر نہیں آئی وہ یہ سن کر مجھ سے ہی نہ بگڑ جائے گی؟‘‘ اور کیا کوئی اُسے بچوں سمیت قبول کر لے گا ؟‘‘
’ ’ دنیا سے اچھے لوگ ابھی ختم نہیں ہوئے اور تبسم سے آپ بات کر یں ، ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے ۔ بیس کی تھی جب شادی ہوئی تھی ۔ یقینا کوئی بھلا مانس اُسے مل جائے گا ۔ جو نہ صرف اُسے بلکہ بچوں کو بھی رکھ لے گا، اس کا غم بھی بٹ جائے گا ، گھر بار کی مصروفیات دوبارہ سے شروع ہوں گی تو غم بھلانے میں مدد ملے گی ۔ اب آپ کے گھر سارا دن سوچوں میں گم ، کمرے میں پڑی رہتی ہے ۔ بچوں کو بھی جیسے تیسے دیکھتی ہے ‘‘۔ خاتون درست تجزیہ کر رہی تھیں ۔
’’ ہوں کہتی تو ٹھیک ہو‘‘۔ امی متذبذب تھیں ’’ میاں کے بعد ظاہر ہے ہم اُسے اکیلے بچوں کے ساتھ تو نہیں چھوڑ سکتے تھے لہٰذا یہاں لے آئے ۔ وہ اپنے گھر کو بھی بہت یاد کرتی ہے ۔ آخر خوشگوار یادیں وابستہ ہیں اس کی …‘‘ امی بھی افسردگی سے کہہ رہی تھیں ۔
’’تبسم مجھے بھی بہت پیاری ہے ، اس کو ایسا اجڑا دیکھ کر میرا بھی بڑا دل کٹتا ہے ۔ مجھے وہ اپنی چھوٹی بہن ہی کی طرح عزیز ہے ، آپ اُسے منائیں ، سمجھائیں ، تاکہ وہ دوبارہ زندگی کو جیے۔‘‘
’’ مجھ سے زیادہ کون چاہے گاکہ وہ دوبارہ سے زندگی کی خواہشوںاور امنگوں میں حصہ لے ‘‘۔ امی کے چہرے پرپھیکی مسکراہٹ آئی۔
’’ ویسے آپا ، میری نظرمیں ایک رشتہ ہے ، کہیں تو بات چلائوں؟‘‘ خاتون نے سر گوشی میں کہا۔
’’ اب ہتھیلی پر سر سوں نہ جمائو، مجھے پہلے تبسم کو سمجھانے تو دو‘‘۔ امی ان کے اتنی جلدی کرنے پر فوراً بولیں ۔
’’ہاں ہاں آپ سوچ لیں ، سمجھ لیں ، تبسم کو بھی زندگی کے نشیب و فراز سمجھائیں ، اس کے پاس تو ماشاء اللہ دین کا علم بھی ہے وہ توہم اور آپ سے زیادہ واقف ہے۔ بیوہ کا نکاح تو شریعت میں بھی ‘‘۔خاتون کے لہجے میں خلوص ہی خلوص تھا ۔
وہ تو یہ کہہ کر اوررشتے کی کچھ تفصیلات بتا کر چلی گئیں لیکن امی کوسوچ میں ڈال گئی تھیں۔
٭…٭…٭
امی اور تبسم آپا کی بہنوں نے تبسم کے انکار کو اقرار میں بدل کر ہی دم لیا۔
’’ آخر کب تک اس طرح دنیا سے منہ موڑے بیٹھی رہو گی ۔ بچوں کے لیے تم کو اس دنیا اور دنیا کے لوگوں کا سامنا کرنا ہی پڑے گا اوردوسری شادی کوئی گناہ نہیں ، جرم نہیں ، جو تم اتناشدید رد عمل دکھا رہی ہو ‘‘۔ یہ تبسم کی بڑی بہن تھیں جوشاید تہیہ کر کے ہی بیٹھی تھیں ۔’’ یہ میں نے کب کہا لیکن کیااپنے بچوں کے ساتھ میں ایک اچھی زندگی نہیں گزار سکتی ؟‘‘ تبسم آپا ناراضی سے کہہ رہی تھیں۔
’’بالکل گزار سکتی ہو لیکن ‘‘۔ تبسم کی بہن نے چند لمحوں کا توقف کیا ’’ ایک مضبوط سہارابھی ساتھ ہو، اپنی چھت ہو تو یہی زندگی بہترین بھی ہو سکتی ہے اور منور صاحب کے ساتھ تمہاری زندگی بہت اچھی نبھے گی ، اس کا مجھے یقین ہے‘‘۔
’’ کیا مطلب ؟‘‘ تبسم نے پوری آنکھیں کھول کر بہن کو دیکھا۔
’’میں اور بھائی جان منور صاحب سے مل کر آئے ہیں ۔ خدیجہ خالہ نے ہمیں اس رشتے کا بتایاتھا ‘‘۔
تبسم آپا کی بڑی بہن نے آہستہ آہستہ پوری تفصیلات بہن کو بتائیں ۔ امی بھی وہیں بیٹھی تھیں اوردل ہی دل میں تبسم کے راضی ہو جانے کے لیے دعا گو تھیں۔
’’ اوہ ! تو یہاں پوری تیاری ہے ‘‘۔ تبسم آپا کا لہجہ نہ چاہتے ہوئے بھی ناگوارہؤا۔
’’ دیکھو تم ہمیں غلط نہ سمجھو ، میں ، امی اور بھائی جان تمھارا بھلا چاہتے ہیں ‘‘۔
’’ میں اور میرے بچے بہت بھاری ہو گئے آپ لوگوں کے لیے، یہ کہیں نا ‘‘۔ تبسم نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور دوپٹہ چہرے پر رکھ کر سسکنے لگیں۔
’’خدا کے لیے تبسم ، ایسا خیال تو بھولے سے بھی تم دل میں نہ لانا ‘‘۔ بڑی آپا لپک کر تبسم کے قریب گئیں ۔’’ اچھا ادھردیکھو، تمہاری اس بات سے امی کے اوپر کیا گزر گی،ذرا ان کی شکل دیکھ لو ‘‘۔ تب تبسم نے دوپٹہ سے آنکھیں رگڑ کر ماں کو دیکھا اور بُری طرح شرمندہ ہوئیں ۔ امی جان تو بت بنی بیٹھی تھیں لگتا تھا بے روح جسم بیٹھا ہے ۔
’’ امی ، امی ! مجھے معاف کر دیں ، میرا یہ مطلب نہ تھا ، لیکن میں بھی کیا کرو؟‘‘ تبسم بے بسی سے ان کے گھٹنوں کے پاس جا کر بیٹھ گئیں اور گود میں سر رکھ کر نئے سرے سے چہرہ بھگونے لگیں ۔ تب امی نے کانپتے ہاتھوں سے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔
’’ تم اورتمہارے بچے امی کو بہت عزیز ہیں تبسم ‘‘۔ بڑی آپا نے سنجیدگی سے پھر بات شروع کی ‘‘۔
ٹھیک ہے تم یہاں اطمینان سے رہو، تم پر کوئی زور ، زبردستی نہیں ، لیکن اس رشتہ پر ٹھنڈے دل سے سوچنا ۔ منور صاحب نفیس آدمی ہیں ۔ تین بچے ہیں ، ایک بیٹا ، بیٹی شادی شدہ ہیں ، بیٹا باہر رہتا ہے ۔ چھوٹی بیٹی اسکول میںپڑھتی ہے۔ ان کی پہلی بیوی حیات ہیں لیکن معذور ہیں ۔ منور صاحب کی والدہ بوڑھی ہیں ۔ ان کی بہنیں چاہتی ہیں کہ منور صاحب کی شادی کردی جائے تاکہ گھر ، دوبارہ سے گھر لگنے لگے ، کسی کو سہارا بھی مل جائے اور گھر بھی بے ترتیب نہ ہو ۔ گھر کا نظام بہت درہم برہم ہے ، شادی شدہ بیٹی جب پندرہ دن بعد میکہ آتی ہے تو وہ بیچاری کچھ دیکھ لیتی ہے ‘‘۔
’’ آپ آخر یہ سب مجھے کیوں سنا رہی ہیں ؟ میرا کیا واسطہ ؟‘‘ تبسم بُری طرح چڑ گئی تھی۔
’’ میں صرف اس لیے سنا رہی ہوںکہ اللہ نے عورت میں حسن انتظام کی خوبیاں رکھی ہیںاورایک سمجھدار عورت ہی گھر کو بخوبی چلانے کا ہنرجانتی ہے ۔ اس گھر میں اگرچہ تین خواتین ہیں ، لیکن ایک بوڑھی، ایک کم سن اور ایک معذور …‘‘
’’ تو میں ان تینوں کوجاکر سنبھالوں؟ ان کی آیا بن جائوں؟‘‘ تبسم نے جھلاکر کہا۔
’’ آیا نہیںبلکہ مالکن…‘‘
’’ بڑی آپا ! پلیز‘‘۔ تبسم نے آپا کی بات کاٹی دی ’’ آپ مجھے سوچنے کا وقت دیں ‘‘۔ آخرکار تبسم نے تھک ہا رکر کہااور آپا ان کاہاتھ تھپتھپا کر باہر چلی گئیں۔
پندرہ دن کی سوچ بچار کے بعد تبسم نے دل پر جبر کر کے بڑی آپا کو ’ہاں‘ کردی تھی جس پرگھر بھر نے سکون کا سانس لیا تھا ۔ ایک مہینہ بعد ہی سادگی سے نکاح کی مختصر تقریب کے بعد تبسم منور صاحب کے گھر آگئیں۔
تبسم اپنے ساتھ اندیشوں، خوف اور مستقبل کے منفی تاثر کی جس پوٹلی کو لے کر یہاںآئیں تھیں ۔ وہ سب ان کی توقعات کے برعکس نکلا ۔ منورصاحب درمیانی عمر کے اچھی صحت کے خوش اخلاق آدمی تھے چند سال پہلے بیوی ایک حادثے میں ٹانگوں سے معذور ہو گئیں تھیں ۔ ٹھیک سے بول اور سن بھی نہیں سکتیں تھیں ۔ ان کے پاس رات دن کی ایک نرس رکھی ہوئی تھی ۔ بڑی بیٹی کی پچھلے سال ہی شادی ہوئی تھی جس کے بعد ہی سے گھر کی ابتر صورتحال ہوگئی تھی ۔ چھوٹی بیٹی ابھی آٹھویں کلاس میںتھی ۔ جو گھر سنبھالنے سے قاصر تھی ۔ اسی طرح ان کی والدہ بھی اپنے جوڑوں کی تکلیف کی وجہ سے زیادہ چلنے پھرنے سے مجبور تھیں ۔ گھر میں اگرچہ کئی ملازم تھے ۔ لیکن چونکہ ان کی نگرانی کرنے والا کوئی نہ تھا لہٰذا سب اپنی من مانی کرتے ۔ منور صاحب کا بنگلہ اگرچہ خوب صورت تھا لیکن ایک مالکن کا خواہشمند تھا اور جب اسے مالکن میسر آئی تو یہی گھر گھر کہلانے لگا ۔ منورصاحب ایک چلتے ہوئے کاروبار کے مالک تھے ۔ تبسم کے اوپر ان کی توقع کے بر خلاف کام کا کوئی بوجھ نہیںپڑا تھا ۔گھر میں ہر کام کے لیے نوکر تھے ۔ صفائی ستھرائی کے لیے ،باورچی خانے کے معاملات کے لیے بھی عورت تھی جو کھانا بناتی، روٹی پکاتی ، منور صاحب کی پہلی بیوی جنہیں تبسم ، باجی کہتیں ، ان کے لیے اور اماںجی کا پرہیز ی کھانا بناتی، گھر میں ڈرائیور، چوکیدار ، اندر باہر کے کام کے لیے ایک لڑکا ، غرض تبسم کے ذمہ صرف نگرانی تھی اور انہوں نے یہ ذمہ داری بڑی احسن طریقے سے نبھانی شروع کردی تھی۔
بہت جلد سب، ان کے اور ان کے حسن اخلاق کے گرویدہ ہوگئے تھے۔ منور صاحب ، ان کے بچے، والدہ اور تو اور ان کی معذور بیوی بھی جب تبسم کا محبت بھرا لمس محسوس کرتیں تو آہستہ سے مسکرا دیتیں ۔ تبسم بھی آہستہ آہستہ زندگی کی طرف لوٹ آئی تھیں ۔ وہ ڈر ، خوف ، دوسرے شوہر کا بچوں سے سلوک ، جیسے وسوسے دل سے دھیرے دھیرے سرک گئے تھے ۔ پھر جب ایک دن انہوں نے میاں سے اجازت چاہی کہ ان کے پرانے ساتھی اور محلے دار ان کو اپنی طرف درس کے لیے بلانا چاہتے ہیں توانہوں نے کھلے دل سے اجازت دے دی۔
ایک دفعہ پھر، تبسم آپا اپنے دلنشین لہجہ میں خواتین کو زندگی گزارنے اور قرب اللہ سے روشناس کرانے لگیں ۔ لیکن شادی کے بعد ایک تبدیلی ان میں یہ ضرور آئی تھی کہ جب وہ مرد کی دوسری شادی کی ضرورت و اہمیت پر بھی روشنی ڈالتیں ۔ معاشرے کی بہت سی برائیوں کا حل وہ مرد کی دوسری شادی کو قرار دیتیں ۔ وہ تمام لڑکیاں اورخواتین جن کی عمریں اچھے رشتوںکی آس میں بڑھتی جا رہی ہیں ۔ یا بیوہ اور مطلقہ خواتین جو والدین کے گھر بیٹھی ہیں ۔ اگر معاشرے کے ایسے مرد حضرات جو مالی ، ذہنی ، جسمانی اور اخلاقی لحاظ سے دوسری شادی افورڈ کر سکتے ہیں انہیں اور ان کی بیویوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شوہروں کو بخوشی اس کی اجازت دیں تاکہ دوسری لڑکیوں کے بھی گھر بس جائیں اور ان کے والدین کو بھی سکون اور اطمینان حاصل ہو کیونکہ اس کی اجازت ہمارا مذہب بھی دیتا ہے اور یہ بہت سے مسائل کا حل بھی ہے ۔ان کی یہ باتیں کسی کو اچھی لگتیں اور کسی کو نہیں ، کوئی سن کر خاموش ہو جاتا اور کوئی اس کے برعکس اختلاف بھی کرتا ۔ بہر حال یہ سلسلہ چل رہا تھا ۔
٭…٭…٭
آج کافی دنوں بعد تبسم آپا عنبر کی ساس کے گھر آئی تھیں ۔ چہرے پر نرم مسکان لیے ، جو ان کی شخصیت کا خاصہ تھی ۔ آج تو سندس بھی آئی ہوئی تھی ۔ سندس ، عنبر کی چھوٹی اور لاڈلی نند تھی جس کی ابھی سال بھر قبل ہی شادی ہوئی تھی ۔ اس کا سسرال ، تبسم آپا کے پرانے محلے کی طرف تھا۔ ادھر اُدھر کی باتیں ہو رہی تھیں ۔ سندس جو تبسم آپا سے بے تکلف تھی ، بڑی بے تکلفی سے گفتگو ہو رہی تھی ۔ آج اتفاق سے عنبر کی ساس گھر پر نہ تھیں لیکن عنبر نے آپا کو روک لیا تھا تاکہ امی آنے والی ہیں آپ مل کر جائیے گا ۔ یوں وہ تینوں گپ شپ کر رہے تھے ۔ بڑے اچھے ماحول میں باتیں ہو رہی تھیں ۔ جب اچانک ہی سندس نے موضوع بدلا تھا ۔
’’ ارے آپا ، آپ نے جو پچھلے ہفتے ہمارے محلے میں اعتدال اور توازن پر درس دیا تھا، خواتین بڑی متاثر تھیں ‘‘۔
’’ ہاں بیٹا ! لوگ آج کل اس روش کو چھوڑے بیٹھے ہیں یا تو افراط میں مبتلا ہیں یا تفریط کی طرف ، بس توجہ دلانا مقصود تھی ‘‘۔ وہ انکسار سے بولیں ۔
’’ اور دوسری شادی کی ضرورت پر آپ نے خوب زوردیا ‘‘۔
’’ ہاں یہ بھی آج وقت کی ضرورت ہے ‘‘۔ آپا نے سر ہلایا۔
’’ تو کیا ضروری ہے آج ہر مرد ، دوسری شادی کرے ؟‘‘ سندس نے پوچھا۔
’’ بیٹا میں نے ہر مرد کی بات نہیں کی ، صرف ان مردوں کی جو دو بیویوں کے درمیان انصاف کر سکیں ۔ مالی طور پر مضبوط ہوں تاکہ دو گھر بحُسن و خوبی چلا سکیں ‘‘۔ آپا کا لہجہ نرم تھا جبکہ سندس کا انداز و لہجہ بدلا تھا ۔
’’ آج کی مہنگائی اور حالات میں جبکہ ایک گھر ہی چلانا مشکل ہے تو پھر بھلا دو دو گھر کیسے چل سکتے ہیں ؟ آپ خواتین کو دوسری شادی کی اجازت دینے پر اُکسا رہی ہیں ۔ مرد بے چارا تو دو گھروں کی ضروریات پوری کرنے میں ہی گھن چکر بن جائے گا ‘‘۔ سندس کی زبان چل پڑی تھی۔
’’ بیٹا ! بات پھر اعتدال کی آ جاتی ہے ، آج آسائشات نے ضروریات کی جگہ لے لی ہے ۔ہماری خواہشات کی کوئی حد نہیں ۔ ہم اپنی خواہشات پر کنٹرول کریں گے ، قناعت کی زندگی بسر کریں گے تو ہمارے مرد بھی پریشان نہ ہوں ‘‘۔
’’ آپ نے اس سے پہلے فاخرہ آنٹی کے گھر بھی ، آخر میں دوسری شادی پر زور دیا تھا ‘‘۔ سندس نے ایک اور حوالہ دیا ۔ ’’ آپ کو پتا ہے کچھ خواتین اس پر ناراض بھی ہوئیں ‘‘۔
’’ کس پر ؟‘‘ آپا سمجھیں نہیں ۔
’’ یہی دوسری شادی کی اجازت پر ‘‘۔
’’ میرا کام تو بیٹا ، توجہ دلانا ہے ، سمجھنا یا نا سمجھنا تو لوگوں کا کام ہے ۔ میں توازن خواتین اور لڑکیوں کی ہمدردی اور بھلائی میں کہتی ہوں جو والدین کی دہلیز پر بیٹھے بیٹھے ہی عمرگنوا دیتی ہیں یا پھر چور دروازے تلاش کرنے لگتی ہیں ۔ جب اللہ نے ہمیں ایک بہتر آسان راستہ بتا دیا تو پھر اس پر عمل کرنے میں ہمارا ہی بھلا ہے ‘‘۔ آپا کے لہجے کی نرمی تو قائم تھی لیکن اب عنبرکو سندس کا اس طرح بحث کرنا ذرا اچھا نہ لگا ۔ وہ اس کی پھپھو تھیں ، عمر ، رتبہ ، مقام ہر طرح سے لائق احترام ۔ لیکن سندس… اس کو بھلا کون سمجھاتا اب وہ مزید ان سے سوال کر رہی تھی اور پھر وہی ہؤا۔ سندس کی تیزی سے چلتی زبان سے وہ جملہ بھی ادا ہو ہی گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا ۔
’’ آپ جو اب دوسری شادی کی طرف پر زور د ے رہی ہیں اسے معاشرتی ضرورت سمجھ رہی ہیں اور بڑھتی عمر کی لڑکیوں کے مسائل کا حل اس میں سمجھتی ہیں تو اس معاشرتی ضرورت کا خیال آپ کو پہلے کیوں نہ آیا ؟‘‘ سوال چبھتا ہؤا تھا ۔
’’ کیا مطلب؟‘‘ آپا برُی طرح چونکی تھیں ۔
’’ میرا مطلب ہے کہ یہ مسئلہ اور ضرورت تو پچھلے کئی سالوں سے ہے ، تو آپ نے اس کا حل اس وقت کیوں نہ دیا جب شکیل پھوپھا حیات تھے اور آپ ان کے ساتھ بڑی اچھی زندگی گزار رہی تھیں … آپ بھی شکیل پھوپھا کو دوسری شادی کی اجازت دے کر کم از کم ایک لڑکی کو تو مسائل سے نکال سکتی تھیں … یہ خیال آپ کو اب ہی کیوںآیا ؟‘‘
سندس اپنی بڑی بڑی آنکھیں معصومیت سے پھیلا کر ، آپا سے پوچھ رہی تھی اور دوسری طرف عنبر، اس کا تو مانو یہ سوال سن کر لمحہ بھر کو سانس ہی اٹک گیا تھا ۔ اس نے فوراً سندس کو گھورا اور نا محسوس انداز میں اس کے گھٹنے پر دبائو ڈالا اور اسے مزید کوئی سوال کرنے سے روکا ۔ لیکن دوسری طرف آپا کا چہرہ سندس کے سوال پر سرخ ہو گیا تھا ۔ انہوں نے بمشکل اپنے اوپر کنٹرول کیا تھا اور جلدی سے چائے پی کر روانہ ہو گئی تھیں۔٭