This Content Is Only For Subscribers
’’ بہت بہت شکریہ سر !‘‘ عامر صاحب سے رقم لیتے ہوئے اصغر کے چہرے پر بے انتہا شکر تھا ۔’’ بڑی مہر بانی ۔‘‘
’’ لیکن اصغر ، قرضے کی واپسی ہر ماہ آپ کی تنخواہ میں سے بیس فیصد کٹوتی کی صورت میں ہو گی‘‘ عامر صاحب نے یاد دہانی کرائی۔
’’ جی سر مجھے علم ہے ‘‘ اصغر سلام کرتا ہؤا کمرے سے نکل گیا۔
٭…٭…٭
’’ شکر ہے شائستہ ، اللہ نے بڑا کرم کیا ‘‘اصغر نے رات کو بستر پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا ۔ گو کہ ہر مہینے کا آخر دونوں میاں بیوی کے لیے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا اور تنخواہ کی کٹوتی ان مشکلات میں اضافہ ہی کرنے والی تھی لیکن ایسے وقت میں جب کہ بیٹی کی شادی سر پر تھی ، رقم کا انتظام ہو جانا ، اس وقت بہت غنیمت لگ رہا تھا۔
’’ میں کل ہی جا کے فرنیچر کا آرڈر دے آتا ہوں ‘‘ اصغر نے شائستہ سے اپنے فیصلے کی تائید چاہی۔
’’ ہاں بالکل۔ اب ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ‘‘شائستہ نے ہاتھ سے چادر ٹھیک کرتے ہوئے جواب دیا۔
کمرے کے باہر کھڑی ، ماں باپ کی باتیںسنتی شیبا کے چہرے پر قوس و قزاح کے رنگ بکھر گئے ۔ شادی میں بس ایک ماہ ہی تو رہ گیا تھا ۔ وہ اپنے کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ گئی لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ غربت کے ماحول میں آنکھ کھولنے والوں کو جہاں بچپن سے ہی اس بات کا ادراک ہو جاتا ہے کہ آسائشوں کی خواہش تو کیا ، خواب دیکھنا بھی ممنوع ہے، وہاں جانے کب اور کیسے شیبا کے دل میں آرزو مچلنے لگی۔
اس نے اپنے کمرے کا جائزہ لیا ۔ بیڈ کی فارمیکا جگہ جگہ سے اُکھڑی ہوئی تھی ۔ گدا بھی کئی جگہ سے دب چکا تھا ، جس پر شیبا کے علاوہ اس کی دوچھوٹی بہنیں آڑی ترچھی سو رہی تھیں۔ صحن میں کھلنے والی واحد کھڑکی پر ڈلے کئی مرتبہ کے دُھلے پردے اپنی آب و تاب کھو چکے تھے ۔ پرانا پنکھا شور زیادہ کرتا اور ہوا کم دیتا تھا ۔ دیوار پر ٹنگا ، بیچ سے چٹخا آئینہ ، آڑا ترچھا عکس ہی دکھا پاتا ۔ شیبا اور اس کی بہنوں کو اپنا آپ ایک قد آور آئینے میں دیکھنے کا بڑا ارمان تھا ۔ کونے میں رکھی ایک واحد کرسی جس کی ایک ٹانگ زبردستی جوڑ کے رکھی گئی تھی ۔ اس کے علاوہ چھوٹے سے کمرے میں کسی اور چیز کی گنجائش نہ تھی ۔
شیبا نے کروٹ لی اور زبردستی آنکھیں بند کرلیں اس کی نظروں کے سامنے اب ایک خوبصورت کمرے کا منظر گھوم رہا تھا ۔ اس کے پسندیدہ گہرے بادامی رنگ کا بیڈ جس کے کناروں پر باریک سنہری پٹی اس کو مزید دلکش بنا رہی تھی ۔ یہی سنہری بیل سنگھار میز کے بڑے بیضوی آئینے کے چاروں طرف جگمگا رہی تھی۔
کھڑکیوں پر پڑے سرخ پھولوں والے بادامی پردے جن کے اطراف باریک سنہری لکیریں ان کے حسن میں اضافہ کر رہی تھیں ۔ چار دن پہلے جو صرف ایک خواب تھا ، اب حقیقت کا روپ دھارنے لگا تھا ۔ جاگتی آنکھوں کے خواب جانے کب سے نیند کی آغوش میں لے گئے ۔
٭…٭…٭
رخصتی میں صرف تین دن باقی تھے گرمی اور حبس کا زور بھی ٹوٹنے لگا تھا ۔ٹھنڈی ہوائیں ، بادلوں کی آنکھ مچولی اور ہلکی ہلکی پھوار نے موسم کو بے حد خوشگوار کر دیا تھا ۔ شیبا بہت خوش تھی ۔ اپنی شادی سے زیادہ اس کی اپنے ’’ فرنِشڈ کمرے ‘‘ کا خیال نہال کیے دے رہا تھا۔شادی کے ہنگاموں میں وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور رخصتی کا دن آ پہنچا۔
’’ کس قدر کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ خیریت سے رخصتی ہو جائے ‘‘، پھوپھی رضیہ کو اپنے کپڑوں کی بہت فکر تھی۔ وہ جلد سے جلد کیچڑ پانی سے بچ کر بارش برسنے سے پہلے اپنے گھر پہنچ جانا چاہتی تھیں۔
حسین موسم نے شیبا کی سکھی سہیلیوں کو اور بھی شوخ کر دیا تھا ۔ وہ
ساون کے گیت گاتی جاتیں، ساتھ شیبا کو بھی چھیڑتی جاتیں ۔والدین کو بھی موسم کے تیور دیکھ کر کھانے کا انتظام کر کے جلد سے جلد رخصتی کی فکر ہونے لگی۔
دلہن کو الوداع کہتے وقت ہی ٹپ ٹپ بارش کی موٹی موٹی بوندیں برسنے لگی تھیںماں ، باپ کے چہرے پر آنسو تھے یا بارش کی بوندیں ، کچھ اندازہ نہ ہو سکا ۔
خیریت کے ساتھ رخصت ہو کر شیبا سسرال پہنچ گئی۔ رسومات کے بعد جب سب کمرے سے چلے گئے تو شیبا نے سر اٹھا کر کمرے کا جائزہ لیا ۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا اس نے سوچا تھا ۔ سکون و طمانیت کی لہر اس کے سینے میں اتر گئی ۔ اس نے گہرا سانس لیا مگر پھر آہٹ ہونے پر جلدی سے سر جھکا کے بیٹھ گئی ۔ ٹین کی چھت پر بوندوں سے جیسے جلترنگ سے بج رہے تھے ۔ جن کے سنگ شیبا کے دل کے تار بھی نغمہ سر ا تھے۔
٭…٭…٭
تین دن سے لگا تار بارش ہو رہی تھی۔ کبھی ہلکی ، کبھی گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار برسنے لگتی۔ پہلے کیچڑ پانی سے نالاں مگر اب تو گلیاں ، نالیاں پانی سے بھر کر پریشانی کا سبب بن رہی تھیں ۔ پانی کی سطح میں روز بروز اضافہ ہو تا جا رہا تھا ۔ پانی رس رس کراب تو گھروںمیں داخل ہونے لگا تھا۔
’’ اماں ! صحن میں پانی بڑھتا جا رہا ہے ‘‘ شیبا نے روہانسی ہوتے ہوئے اپنی ساس سے کہا ۔ اس کے مہندی لگے پائوں اب مکمل ڈوبے ہوئے تھے ۔ گھر والے بالٹی بھر بھر کر غسل خانے میں ڈال کر پانی کم کرنے کی کوشش میں لگے رہے لیکن جب باہر سے پانی مستقل اندر چلا آ رہا ہو تو کم کیسے ہوتا ۔
جلد ہی پانی کمروں میں داخل ہونے لگا ۔ شیبا نے موٹی سی چادر کی تہہ بنا کر اپنے کمرے کے دروازے کے آگے جمائی تاکہ پانی کو اندر جانے سے روک سکے ۔ لیکن یہ ترکیب بھی زیادہ گار کر ثابت نہیں ہوئی ۔ پانی رس رس کر اندر آتا رہا ۔ شیبا کو پانی ایک دیو کی مانند محسوس ہؤا جو اس کے کمرے میں داخل ہو کر تیزی سے اس کی چیزوں کو ہڑپ کر تا چلا جا رہا تھا ۔ بیڈ کی سنہری بیل دھیرے دھیرے نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔ شیبا غسل خانے سے بالٹی لا کر جلدی جلدی پانی بھر کر کھڑکی سے باہرپھینکنے لگی۔ پندرہ ، بیس منٹ کی انتھک محنت کے بعد اسے اندازہ ہؤا کہ جتنا پانی وہ باہر پھینکنے میں کامیاب ہوئی تھی اتنی ہی رفتار سے پانی کمرے میں اندر داخل ہو رہا تھا ۔ اس نے لمبے ، خوبصورت پردو ں کو نچوڑ کر اوپر کھڑکی میں ٹھونسنا چاہا تو شیبا کو لگا کہ احتجاجاً انھوں نے اپنی چمک اس کے شل ہوتے ہاتھوں میں منتقل کر دی ہے ۔
بارش کے پانی میں ملے گٹر کے پانی کی بدبو کمرے میں بسی نئی لکڑی کی خوشبو اور ادھ مرجھائے پھولوں کی مہک پر حاوی ہوتی جا رہی تھی۔شام ڈھل چکی تھی اور بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ بجلی غائب تھی اور چاروں جانب گھٹا ٹوپ اندھیرا چھانے لگا تھا ۔ شیبا کے اعصاب جواب دینے لگے تھے۔
’’شیبا بس ضروری سامان لو اور چلو ، جب تک پانی نہ نکل جائے ہمیں ماموں جان کے یہاں کچھ دن رُکنا پڑے گا ‘‘، ساجد اپنی نئی نویلی دلہن سے مخاطب تھا ۔
’’ کچھ دن ؟ میرا سب سامان یہاں پانی میں بالکل خراب ہو جائے گا ساجد، میں یہ سب چھوڑ کے نہیں جا سکتی ‘‘، شیبا کی آنکھوں سے باقاعدہ لڑیاں بہنے لگیں۔
’’ بیوقوف نہ بنو۔ برابر گلی میں گھروں میں کرنٹ آگیا ہے ‘‘۔
’’نہیں ، نہیں ‘‘، شیبا کا اپنے فرنیچر کا سوچ کر ہی دل بیٹھنے لگا تھا۔
’’ بارش رُک جائے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا ‘‘، ساجد نے محبت سے سمجھانے کی کوشش کی ۔
’’ چیزوں کو کچھ نہیں ہوگا ۔ کچھ بگڑا تو میں تجھے نیا بنوا دوں گا ‘‘، ساجد کے لہجے میں ہمدردی تھی نئی نویلی دلہن کی آنکھوں میں آنسو اسے کب دیکھنا گوارا تھا ۔ اس کا دل بھی دُکھی تھا پروہ خود بھی بے بس و مجبور تھا۔
’’ نیا ؟‘‘ شیبا کو اپنی اماں کے گھر کا کمرہ یاد آیا جس کے بستر ، کرسی ، آئینے کو بابا ہر سال نیا دلانے کا دلاسہ دیا کرتا تھا ۔ جیسے اس کے لیے نیا بنوانے میں اسے بیس ،بائیس سال لگ گئے تھے۔
شیبا ٹوٹے دل کے ساتھ ساجد کا ہاتھ پکڑے گھر سے باہر نکل آئی۔
بارش کے سنگ اس کے ارمان بھی بہہ چکے تھے۔٭
٭…٭…