چاند کا چمکنا دمکنا اپنی جگہ، شاعروں کا اپنے محبوب کو چودھویں کے چاند سے تشبیہ دینا اور اس کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے درمیان قلابے ملانا بھی اپنی جگہ، لیکن اس حقیقت سے کوئی بندہ بشر انکار نہیں کر سکتا کہ آسمان کا اصل حسن تو تارے ہیں۔ یوں بھی کہا جاتا ہے کہ حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی رشتے کی آنکھ کا حسن یا تارا بننا کوئی آسان کام نہیں۔ خاص کر بہو کے لیے ساس کی آنکھ کا تارا بننا جو کہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ آئیے آج ہم آپ کو اس مشکل اور جان جوکھوں میں ڈالنے والے کام یعنی ساس کی آنکھ تارا بننے کے چند آسان اور مفید گر بتاتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں جب آپ اپنی ساس کی آنکھ کا تارا ہوں گی تو پورے گھر کا حسن بھی آپ ہی ہوں گی۔
1 ۔صبح سویرے آنکھ کھلتے ہی دوڑ کر ساس کے کمرے کی طرف جانا ہے نہ صرف زبان سے سلام کرنا ہے بلکہ آگے بڑھ کر ان سے زور دار جپھی (گلے ملنا) بھی ڈالنی ہے لیکن اتنی زور سے نہیں کہ اس بیچاری کا سانس ہی بند ہو جائے اور اگلی صبح تمہارے سلام کرنے سے پہلے ہی چھپ جائے۔
2۔ بزرگوں کو صبح جلد ہی بھوک لگ جاتی ہے دوسرا انہوں نے ناشتے کے بعد صبح والی دوائی لینی ہوتی ہے۔ انہیں صبح صبح ضرور کچھ کھانے کے لیے دیں۔ چاہے چائے کے ساتھ سوکھے پاپے ہی کیوں نہ ہوں۔ یاد رکھنا ان کی چائے میں پتی کم ہی ڈالنی ہے ورنہ انہیں زیادہ نیند نہیں آئے گی اور آپ اپنی امی سے دو گھنٹے فون پر جنت میں پہنچانے والی باتیں نہیں کر سکیں گی کیوں کہ ان کی عقابی نگاہیں تمہاری نگرانی کریں گی۔
3۔ انہیں ناشتے کے ایک گھنٹہ بعد کوئی نہ کوئی موسمی پھل ضرور کھلائیں۔ بھئی اس میں آپ کا ہی فائدہ ہے جب ان کے جسم میں سارے وٹامن پورے ہوں گے تو یہ تندرست و توانا رہیں گی۔صحت مند ساس قسمت والوں کو ملتی ہے۔ یہ تمہاری آدھے سے زیادہ گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں گی۔ بس امی جی کی ہمت کی داد دے کر اور تعریف کے تین چار مسکے لگا کر کریں اپنی نیندیں پوری۔ امی جی بھی خوش اور آپ بھی تازہ دم اور تن آسانی میں۔
4۔ ساس جی اگر گھر کے کام کاج کے قابل نہیں تو کوئی بات نہیں۔ ان کا جنم دیا گیا وہ بیٹا تو تمھارے پاس ہے ناں جس معصوم کو اس کے کھوٹے نصیبوں نے تمہارا شوہر بنا دیا ہے، اس سے اپنی میٹھی میٹھی زبان کی میٹھی چھری چلا کر جتنا مرضی گھر کا کام کروائیں لیکن یہ کام ساس کی نظر سے اوجھل ہونا چاہیے ورنہ اگر اس کی ممتا والی حس جاگ گئی تو وہ اپنے بیٹے کو مردانگی کا سبق بھی پڑھا سکتی ہے۔اگر خدانخواستہ بیٹے کو گھر کا کام کاج کرتے ماں کی نظر پڑ گئی تو فورا ًساس کی اپنے بیٹے کی اتنی اچھی تربیت کرنے کی خوب تعریف کریں بلکہ اتنی تعریف کریں کہ اگلی بار امی جی اپنی نگرانی میں بیٹے سے گھر کے سارے کام کروائے۔
5۔ اگر گھر میں آپ کے علاوہ اور دیورانی یا جیٹھانی بھی موجود ہے تو کوشش کریں کہ امی جی کے کان کے قریب زیادہ رہیں ورنہ جس کی پھونکیں ان کے کان میں زیادہ پڑیں گی وہی ان کے قریب ہو جائے گی۔ کیونکہ کانوں میں ڈالے جانے والا مٹیریل سیدھا دل میں جاکر بستا ہے۔ اس طرح ان کے دل پر راج کرنے والی ہی گھر پر بھی راج کرتی ہے ۔ ضروری نہیں کہ یہ کانوں میں ڈالے جانے والا مواد جہنم کے داروغوں کو ہیلو ہائے کرنے والا ہی ہو۔ یہ بہشت کے فرشتوں کو سلام کرنے والا بھی ہو سکتا ہے۔
6۔ اگر کوئی نند ہے چاہے شادی شدہ ہو یا کنواری تو بھئی اس نند نامی مخلوق کو ساس سے کم کا درجہ دینا تمہاری کم عقلی کی پہلی نشانی ہے۔ یہ بات دماغ میں بیٹھا لیں کہ نند کی رضا ہی ساس کی رضا کا دروازہ کھولتی ہے۔ اس کے بغیر آپ یہ دروازہ کھولنے کے لیے جتنی مرضی لاتیں، مکے، گھونسے برسا لیں یہ دروازہ کبھی نہیں کھلے گا۔ جب کبھی بازار کی طرف چکر لگے تو نند کے لیے یا اس کے بچوں کے لیے کوئی چھوٹا موٹا تحفہ ضرور خرید لیں اس طرح تمہاری اپنے لیے کی گئی ڈھیروں ڈھیر خریداری پر بھی اعتراض کم ہوگا۔ پیسہ تو ان کے رشتہ دار کی جیب سے جانا ہے تمہارا اس میں کیا نقصان ہے؟ اسی طرح جب اپنے اور ساس کے لیے اکٹھے کپڑے خریدیں تو سارے سوٹ ساس صاحبہ کے سامنے رکھ دیں اور بڑے پیار سے کہیں ’’امی جی!‘‘ ان کپڑوں میں پہلے آپ اپنے لیے پسند کریں۔ ایسا تھوڑی ہو گا کہ وہ اپنی عمر سے مناسبت کے رنگوں کی بجائے تمہارے لال پیلے، تاروں والے چلمل کرتے سوٹ پکڑ لے۔
7۔ اگر ساس جی کا کوئی کنوارہ بیٹا ہے خاص کر سب سے چھوٹا۔ جب بھی گھر میں کوئی اچھی چیز بنے تو ساس کے اس لاڈلے کے لیے پہلے ہی الگ سے نکال کر ان کے ہاتھ میں پکڑا دیں پھر دیکھنا ساس کیسے ہوتی ہیں تم پر خوشی میں نہالو نہال۔
8۔ جب ساس کے مہمان آئیں تو دوڑ دوڑ کر ان کی خدمت کریں بعد میں بے شک اپنے مہمانوں کی خدمت ان سے کروا لیں۔
9۔ ساس کے سامنے سسر کو ہمیشہ کم اہمیت دیں کیونکہ اس سسر جی نے بھی اپنی ساری زندگی ان کی مخالف پارٹی کے لیڈر کے طور پر گزاری ہوتی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ساس کے مقابلے میں سسر ہمیشہ بہوکا ہی طرف دار اور خیر خواہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیٹی اور بہو کے درمیان کم ہی فرق رکھتا ہے بلکہ بعض اوقات تو بہو کو بیٹی پر بھی ترجیح دیتا ہے۔ مگر گھریلو سیاست کا تقاضا ساس صاحبہ ہی کی طرفداری، تعریف و توصیف کرنا ہے۔
10۔ بس ایسی بن جائیں کہ ساس کا جہان تمہاری موجودگی میں روشن ہو اور تمہاری غیرموجودگی ان کے لیے اندھیرنگری کا سماں پیدا کرے۔ تمہارا ملنا انہیں شاداب کر جائے اور تمہاری دوری کا غم ان کے فربہ وجود کی چربی پگھلا دے۔
لیکن اپنی زندگی میں ایک شق یہ بھی شامل کر لیں کہ اگر اس ساری جدوجہد کی کامیابی کےلیے اپنے رب کی نصرت چاہتی ہو تو اس کی رضا کے حصول کی نیت بھی ساتھ شامل کرلیں۔
٭ ٭ ٭