بتول دسمبر ۲۰۲۰زوجین میں سمجھوتہ - بتول دسمبر ۲۰۲۰

زوجین میں سمجھوتہ – بتول دسمبر ۲۰۲۰

سمجھوتہ کے معنی ہیں ایک دوسرے کو سمجھ لینا اور اسی کو مفاہمت کہا جاتا ہے۔ سمجھوتہ یک طرفہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، دونوں طرف سمجھوتے کا میلان موجود ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے تو اس بات پہ سمجھوتہ ضروری ہے کہ دونوں باہم افہام و تفہیم کے ساتھ ایک دوسرے کے مزاج عادات و اطوار ، سے شناسائی کروائیں گے ۔ بہت ساری چیزیں ہمیں اس وقت ناگوار بلکہ ناقابل برداشت لگتی ہیں جب وہ اپنی الگ پہچان رکھتی ہوں مگر جب وہ دوسری اشیاء سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں تو ایک نئ، مختلف خوشگوار اور قابل قبول شے بن جاتی ہے۔ روزمرہ زندگی میں اس کی مثالیں جا بجا نظر آتی ہیں۔مثلاً کھانے پینے کی اشیاء میں مختلف چیزوں کا استعمال مناسب مقدار میں کیا جاتا ہے تو وہ مزے دار ڈش بن جاتی ہے۔صرف سرخ مرچ یا دیگر مصالحے الگ الگ کون پھانک سکتاہے؟کیا سالن کی لذت دوبالا کرنے والے ان مصالحوں کو الگ الگ کھا کر لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے؟یہ گمان رکھ کر کہ سب چیزوں نے پیٹ میں ہی جانا ہے۔ مصالحے اصل میں ڈالے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ ایک چیز کو دوسرے سے ملا کر بہتر چیز پیش کی جائے۔ایک مصالحے کے مضر اثرات کی دوسری چیز سے إصلاح ہوجائے اور معتدل ہوجائے یہی سمجھوتہ اور مفاہمت ہے ۔ ازدواجی زندگی کی مزے دار ڈش سے لطف اندوز ہونے کے لیے مزاجوں کے مصالحے الگ الگ نہ پھانکے جائیں بلکہ کس کڑواہٹ یا تیزی ترشی کو کس چیز سے معتدل کیا جا سکتا ہے اس کی مشق کرنا چاہیے ۔
رشتہ تلاش کرتے ہوئے’’ کفو‘‘کی تلقین اسی لیے کی گئی ہے کہ باہم انسانی کمزوریوں اور خوبیوں کے امتزاج کے ساتھ سمجھوتے کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟
قرآن پاک میں بھی زوجین کے درمیاں تعلق کو خوشگواری سے استوار رکھنے کی یہی کلید بتائی گئی ہے۔اور بے شک یہ زوجین کے لیے برابر نصیحت ہے مگر مخاطب مرد کو کیا گیا ہے۔اس لیے کہ وہ’’ قوام‘‘ بنایا گیا ہے ۔ قوام کا سیدھا سادھا مطلب ہے ازدواجی زندگی کو مضبوطی سے قائم رکھنے کا بنیادی ستون شوہر ہے ۔گھر کے معاملات کواس کے مضبوط حصار میں دیا گیا ہے وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا( سورہ النساء 19)
اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح رہن سہن رکھو،اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم (اس کی)کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ نے اسی میں بہت سی بھلائی رکھ دی ہو۔ یہ نصیحت واضح کرتی ہے کہ مرد کا اخلاق اعلی ہونا اس کی شان مردانگی ہے۔
سمجھوتہ صرف کسی کی ناپسندیدہ عادت کو برداشت کرنے کا نام نہیں ہے یہ تو امر مجبوری بھی ہو سکتا ہے ۔ دراصل اپنے ساتھی کی خوبیوں کو سمجھ لینا، تسلیم کر لینا،قدر کرنا بھی اعلیٰ ظرفی ہے۔اور عالی ظرف مرد کی مردانگی یہی ہے کہ وہ قدر کرنے والا ہوتا ہے۔اگر کسی خاص سانچے میں ڈھلی ڈھلائی بیوی نہیں ملی تو اس میں بیوی کا قصور نہیں ہے مرد کی اعلیٰ ظرفی کا امتحان ہے کہ وہ’’عاشروھن بالمعروف ‘‘کے تقاضے کتنے پورے کرتا ہے؟اور ایک ناپسندیدہ یا اپنے معیار پہ پوری نہ اترنے والی عورت کے اندر کسی خیر کا پہلو کیسے تلاش کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ نے شوہر کو یہ کام بھی سونپا ہو کہ جو خیر میں نے اس عورت میں ابھی ظاہر نہیں کی وہ اس کی کھوج کرے،تلاش کرے اس کی جستجو بھی کرے ویسے بھی مرد میں عورت کے بارے میں تجسس اور اس کو ’’فتح‘‘کرنے کا جذبہ ہر عمر میں موجود رہتا ہے۔اپنی ایک بیوی کی شناخت اور پہچان مکمل کرنا چاہیں تو ساری عمر کے لیے ایک بیوی ہی کافی ہے۔عورت جسمانی،ذہنی ، جذباتی اور روحانی ہیئت میں ایک گہرا سمندر ہے۔اس آبگینے کی خوب صورتی اور فطرت کی عمیق گہرائیتک پہنچنے کے لیے ایک خاص ظرف کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ظرف حکمت سے پیدا ہوتا ہے اور حکمت طلب کرنے سے ملتی ہے اس طلب کے لیے اپنے نفس سے لڑنا پڑتا ہے اور یہی حکمت و دانائی ہے جس کی وجہ سے صالحین کا ساتھ نصیب ہوتا ہے
رَبِّ ھَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ( سورہ الشعراء 83)
اے اللہ! مجھے علم و دانش عطا کر اور نیکو کاروں میں شامل کر آمین
سمجھوتے کو سمجھنا ہو تو گلاب اور اس کے ساتھ لگے کانٹے کی مثال بہترین ہے۔ کانٹے کی موجودگی پھول کی خوشبو اور پیاری بناوٹ اور رنگت کے لیے کسی نے مضر نہیں پائی جس نے گلاب کو شاخ سے حاصل کرنا ہے کانٹے سے سمجھوتہ کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔
مرد اور عورت دو الگ الگ وجود ہوتے ہیں مگر جب میاں بیوی کے رشتے میں باندھے جاتے ہیں تو ایک ایسے سکے یا نوٹ کی مانند ہوجاتے ہیں جس کی وقعت، اہمیت اور قدرو قیمت برابر ہوتی ہے اگر چہ سکے یا نوٹ کے دونوں رخ پہ الگ تصویر نظر آرہی ہو۔ نوٹ یا سکہ اپنی قدروقیمت میں دونوں طرف سے یکساں اہمیت کا حامل ہے۔زندگی کی مارکیٹ میں دونوں کو یکساں مواقع عطا کیے گئے ہیں کہ اپنی مہلت عمر کے سکے اور صلاحیت سے’’ حیاۃ طیبہ ‘‘ گزار سکیں۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ( سورہ النحل 97)
’’جو بھی کوئی مومن عمل صالح کرے گا وہ مرد ہو یا عورت، ان کو ہم دنیا میں بہترین پاکیزہ زندگی عطا کریں گےاور آخرت میں ان کے اعمال کا بہت اچھا صلہ عطا فرمائیں گے ‘‘۔
سمجھوتے، افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے انسانی تربیت میں مثبت ارتقاء بھی ہوتا ہے۔تحمل، حوصلہ، درگزر اور نفس میں غنا پیدا ہوتا ہے۔
مرد اور عورت ایک ایسی مکمل شے کے دو الگ جزو ہیں جو زگ زیگ کی شکل میں درمیان سےکا ٹ دی گئی ہے نکاح وہ ’’پاس ورڈ‘‘ ہے جس کے نتیجے میں دو الگ وجود یکجا ہو جاتے ہیں۔اب ٹیڑھے میڑھے کاٹے ہوئےدو ٹکڑوں کو ایک مکمل شکل دینے کے لیے انسانی کمزوریوں کے نوکدار کونے دونوں کو چبھیں گے ۔کمال یہ ہے کہ دونوں ٹکڑے اس مہارت سے جوڑے جائیں کہ جوڑ کا پتہ نہ چلے۔ جو جتنی حکمت رکھتا ہوگا اتنا ہی اس کام میں ماہر ہوگا۔ ماہر ہونا بہت بڑی کامیابی ہے اور اس مہارت کے لیے ہمارے سامنے ایک ارشاد نبوی رسولؐ موجود ہے۔
سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے فرمایا اَکْمَلُ الْمَومِنِینَ اِیْمَانًا اَحْسْنُھُمْ خَلْقًا وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِکُمْ ۔ مومنوں میں سے ایمان کے لحاظ سے کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔ اور تم میں سے خلق کے لحاظ سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں سے بہترین اور مثالی سلوک کرتا ہے۔(ترمذی)
اورحسن اخلاق میں ماہر ہونے کی گواہی بیوی سے ہی لی جائے گی۔
اللہ رب العزت نے مرد کو بحیثیت شوہر کے ایک درجہ فضیلت دی ہے اور یہ فضیلت حسن اخلاق کے پیمانہ ربانی پہ پوری اترتی ہو۔ اور اس ایک درجہ فضیلت کی مثال کرنسی نوٹ پہ لکھے ہوئے سیریز نمبر کی طرح ہے۔ جو اعتماد اور نوٹ کے مستند ہونے کی علامت ہے ۔
زوجین میں ہم آہنگی ہونے کی شرط یہ ہر گز یہ نہیں ہو سکتی کہ دونوں زندگی کے ہر مسئلے پہ ایک ہی رائے رکھتے ہوں یا دونوں ایک پیشے سے تعلق رکھتے ہوں جو جوڑے اس حماقت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ زوجین کو ایک دوسرے کی سوچ کے مطابق سو فیصد ڈھل جانا ضروری ہے وہ ایک جبر کی زندگی تو گزار سکتے ہیں خوشگوار زندگی ہر گز نہیں ۔ دونوں کو ایک دوسرے کی انسانی خوبیوں کو تسلیم کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی انسانی کمزوریوں کو دور کرنے میں معاونت کرنا چاہیے۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایک صریحا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے یا کروائے تو دوسرا اپنے سچے موقف پہ ثابت قدمی دکھائے ۔ میاں بیوی میں جو بھی قابلیت و صلاحیت ہے دونوں اس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لگانے کے لیے وسائل و مواقع اور مہلت دیتے ہیں تو یہی ذہنی ہم آہنگی افہام و تفہیم اور سمجھوتہ ہے ۔ میدان عمل دونوں کا الگ ہو سکتا ہے مگر رب کی رضا کا حصول وہ نصب العین ہے جو دونوں کو منزل پہ گامزن رکھتا ہے ۔
زوجین کے درمیاں جو معاہدہ نکاح کی شکل میں ہوتا ہے وہ اللہ رب العلمین کی گواہی میں ہوتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لیے وفا کا عہد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی امانت کا اقرار کرتے ہیں ۔ زوجین اس بنیادی عہد کا پاس رکھتے ہیں تو نکاح کا مقصد باطل نہیں ہوتا اور افہام و تفہیم کے راستے بند نہیں ہوتے ۔ اپنی عزت ،حرمت، عصمت کی پاس داری کی بنیاد ہل جائے تو ازدواجی زندگی کی عمارت کھوکھلی بنیادوں پہ کھڑی ایک گرتی ہوئی دیوار کی مانند ہوتی ہے۔ اسی لیے رب العٰلمین نے عقیدہ توحید کے ساتھ معاشرے کی اصلاح، پاکیزگی اور خاندان کی مضبوطی کے لیے نکاح و طلاق اور جنسی ضبط نفس کا کڑا اور مکمل قانوں وضع کیا ہے ۔ زوجین میں سے کسی ایک کی خیانت پر بہار گلشن کو لمحوں میں ویران کر دیتی ہے ۔
ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریتنا قرةاعين وجعلنا للمتقين إماما ۔آمین
(جاری ہے )

٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here