’’سچ سچ بتائو ایمن کیا واقعی تمہاری ساس، نندیں اچھی ہیں ؟‘‘ سارہ امتیاز نے اپنی دوست اور کزن ایمن سے سوال کیا۔
’’ہاں بہت سوں سے تو اچھی ہی ہیں ‘‘۔ایمن نے جواب دیا ۔
’’ تمہیں تنگ تو نہیں کرتیں ؟اصل میں تمہاری شادی میں تمہاری ساس راضی نہیں تھیں اپنی بھانجی کو لانا چاہتی تھیں ، اس لیے پوچھا ہے‘‘۔ سارہ نے اپنی کزن کو وضاحت کی۔
’’ تنگ تو ہم میں سے ہر کوئی ہر کسی کو اپنے اپنے ظرف کے مطابق کرتا ہے ۔ پتہ نہیں میں انہیں کتنا تنگ کرتی ہوں گی ۔ دو مختلف مزاج کے لوگ ایک جگہ پر رہنا شروع کردیں تو ایک دوسرے کو سمجھنے میں دیر تو لگتی ہے ‘‘۔ ایمن نے بہت جلد پریشان ہو جانے والی چچا زاد بہن سارہ کوتسلی دی جس کی شادی کومحض دو ماہ تین دن ہوئے تھے ۔ اب بھی اس کے چہرے پر بہت سی داستانیں تحریر تھیں اور ایمن اسے بخوبی سمجھ رہی تھی۔
’’ اصل میں میری شادی ہوئی تو اپنوں میں ہی ہے مگر دورپار کی رشتہ داری ہے نا تو مجھے بہت سے مسائل ہیں کیا تمہاری ساس تمہیں کھانا پکانے میں بھی تنگ کرتی ہیں جیسے مجھے … سر پر سوار ہو کے گوبھی اور بھنڈی تک کا شوربہ بنوا دیتی ہیں ‘‘۔ سارہ رونکھی ہوئے بولی۔
ایمن مسکرائی ۔’’ نہیں اتنا تنگ تو نہیں کرتیں میری ساس۔ بلکہ…‘‘ وہ سانس لینے کو رکی اور توقف کے بعد بولی … اس سے زیادہ ہی کرتی ہیں ۔ وہ آلو گوشت کا سالن ہو یا شلجم گوشت کا ، مجھے سبزی ہی دیتی ہیں ان کا خیال ہے کہ ساری توانائی تو شوربے اور سبزی میں منتقل ہو جاتی ہے میں اگر بوٹی نہ بھی کھائوں تو کوئی ہرج نہ ہوگا ‘‘۔
’’ اوہ … ویری بیڈ…‘‘ سارہ کا رنگ فق ہو ٔ۔’’آپ انہیں کچھ نہیں کہتیں ؟‘‘ تھوک نگلتے ہوئے اس نے سوال کیا ۔
’’ نہیں … اب میں کچھ نہیں کہتی شروع میں تو برا بھی لگتا تھا وضاحت بھی کرتی تھی ، غلط بات کی نفی بھی کرتی تھی ۔ مگر پھر میں نے نتیجہ یہ نکالا کہ اگر ایک فریق آپ کو چڑا نے یا ہرانے کے لیے ایسی اوچھی حرکتیں کر رہا ہے تو وہ آپ کا وضاحتی بیان کیوں سنے گا ؟ اس کا تو مقصد پورا ہو جائے گا جو دل آزاری وہ پہنچانا چاہتا ہے پہنچا کے اسے مسرت ہی ملے گی۔ تو آپ ہی اپنا راستہ بدل لیں ۔ دل آزاری کے لیے ضروری تو نہیں کہ سسرال سے ملے وہ تو آپ کو اپنے پیاروں سے اپنے سگے رشتہ داروں سے بھی مل سکتی ہے ۔ تو بس جیسے ان کی برداشت کر لیتے ہیں ان کی بھی کر لیں اور وہ رد عمل مت دیں جو ان کو روحانی مسرت عطا کرے ۔ اپنی کھال میں اور اپنے حال میں مست رہیے ۔ بس‘‘۔ ایمن نے اپنی تین سالہ شادی شدہ زندگی کا نچوڑ پیش کیا۔
’’مگر میں تو برداشت نہیں کر پاتی ۔ ان دو ماہ میں برداشت کر کرکے میرا حوصلہ ختم ہو رہا ہے ۔ مجھے لگتا ہے میں اعصابی مریضہ بن رہی ہوں ۔ کچھ بھی تو اپنی مرضی کا نہیں ۔ آپ تو شکر کریں اللہ نے بڑاکرم کیا شادی کے دوسرے سال آپ الگ ہوگئیں ۔ بھلے ایک ہی گلی میں گھر ہیں مگر بہت سے جوائنٹ فیملی والے مسائل تو اب ختم ہو گئے ہوں گے ‘‘۔ سارہ کے اندر دو ماہ کی داستان غم کا لاوہ ابل رہا تھا جسے ایمن مسلسل ٹھنڈی ٹھنڈی باتوں سے بہنے نہیں دے رہی تھی ۔مگراس کے سوال پر اس نے لب کشائی کی ۔
’’ سارہ جی در سے در اور گھر سے گھر ملا ہو تو واقعی کچھ مسائل حل ہو جاتے ہیں اور کچھ نئے بھی تو پیدا ہو جاتے ہیں ۔ مثلاً رفیعہ بھابھی نے جب سے ڈرائیونگ سیکھی ہے وہ روزانہ سہ پہر پانچ بجے جب انس بھائی گھر آتے ہیں تو پندرہ بیس منٹ کے بعد وہ بچے کے ہاتھ دودھ کا برتن مجھے بھیج دیتی ہیںکہ دودھ والا آئے تو میرے برتن میں بھی ڈلوا لیجیے اور کبھی کبھار فون کر دیتی ہیں کہ میکے جا رہی ہیں دودھ ڈلوا لینا۔ ایک آدھ دن کے لیے تو یہ نیکی کا کام ہے لیکن روزانہ یہ ڈیوٹی سر انجام دینا جب آپ کو یہ علم بھی ہو کہ وہ اے سی چلا کے بیڈ روم میں کوئی اچھا سا ڈرامہ یا فلم دیکھنے میں مصروف ہیں اور آپ ان کے لیے سروس انجام دیں ۔ بہت مشکل ہے ‘‘۔
’’واقعی؟ ایمن کیا واقعی؟‘‘ سارہ کے دیدے پھیل کے پھٹنے کو تھے۔
ہاں تو ایک آدھ دفعہ ہی گھر سے باہر ہوتی ہیں وگرنہ تو گھر میں ہی ہوتی ہیں ‘‘۔ ایمن نے بتایا۔
’’ پھر آپ دودھ ڈلوا دیتی ہیں ؟‘‘ سارہ وحشت سے بولی۔
’’ایک دودھ ڈلوانا کیا ، کبھی لمبی نیند لے کے اٹھیں گی ، انس بھائی کے گھر آنے سے دس منٹ پہلے ذرا سا سالن دینا ۔ کبھی دودھ ڈلوانا کبھی گھر سے نکلتے ہوئے اچانک یاد آئے گا ۔اوئے یار ایمن، مجھے تو یاد ہی نہیں رہا ۔ امی نے کام سے بلایا تھا ۔ کوئی ایمرجنسی ہے تمہاری تو چادریں پریس کی ہوئی ہیں جلدی سے ایک چادر تو نکالنا میں رومی کو بھیج رہی ہوں ۔ فون کال بند کرنے سے پہلے انہیں ایک کپ چینی ، یا دو پیاز ۔ یا لہسن کی ایک گٹھی یا کچھ بھی منگوا نا ہمیشہ یاد رہتا ہے ‘‘۔ایمن زخمی مسکراہٹ چہرے پر سجا کے بولی ۔
’’ تو آپ انکار کردیا کریں ۔ آپ کو برانہیں لگتا ؟ توبہ ہے ویسے کتنی محبت جتلاتی نظر آتی ہیں ۔ مجھے تو ایسے لوگ زہر لگتے ہیںبلکہ زہر سے بھی بدتراُف۔‘‘۔ سارہ نے کراہت سے کہا ۔
’’ برا تو لگتا تھا لیکن پھر میں نے دو ایک نکات سامنے رکھے ۔ پہلا یہ کہ اوپر والا ہاتھ ہمیشہ نیچے والے سے اچھا ہوتا ہے ۔ تو اگر اس طرح ایک دو پیاز یا لہسن کی گٹھی دینے سے میں ’’اچھی‘‘ قرار دی جا رہی ہوں تو اس میں کیا ہرج ہے ویسے بھی تو ہم سارے کام لوگوں کی نظر میں اچھا بننے کے لیے ہی کرتے ہیں ۔ ہر کام میں لوگوں کی تعریف ہی پیش نظر ہوتی ہے تو ایک آدھ کام اگر اوپر والے کی نظروں میں… اچھا قرار دے تو کرنے میں کیا ہرج ہے اور دوسری بات یہ کہ ہمارے رزق میں یاد رہے رزق صرف اشیائے خوردو نوش کو نہیں کہتے بلکہ ہمارا وقت، ہماری صلاحیت ہمارا مال سب کچھ رزق میں شامل ہے اور بحیثیت مسلمان ہمارا پکا عقیدہ ہے کہ ہمارے رزق میں کچھ نہ کچھ حصہ ہمارے عزیز و اقارب کا بھی اللہ نے مقرر کیا ہے ۔ تو بات تو مشکل ہی تھی مگر جب مجھے سمجھ میں آگئی کہ بھابھی اپنا حصہ ہی لے کے جاتی ہیں میرا نہیں ۔ تو بس مجھے اب برا نہیں لگتا ۔ شرح صدر ہو گیا ہے‘‘۔ ایمن کی بولتے ہوئے آنکھوں کی چمک سارہ کو خیرہ کر رہی تھی۔
’’ لیکن یہ تو بہت مشکل ہے اس میں تو بہت من مارنا پڑتا ہے …‘‘ سارہ بوکھلائی ۔
’’ہاں تو سارہ زندگی بذات خود مشکل چیز ہے۔ میرے لیے تو شروع دنوں میں بے حد مشکل تھی جب آنٹی کی شعلہ بار نظریں زہر اگلتی زبان مجھے ہر وقت خوف زدہ رکھتی تھی ، شادی سے تیسرے دن مجھے تھتھے کی بیٹی، کہنا شروع ہو گئی تھیں حالانکہ تم جانتی ہو میرے ابو ہکلے نہیں بس بچپن میں ضرور ہکلا کے بولتے ہوں گے ۔ آنٹی جب مجھے زچ کرنا چاہتی تھیں تو کہتی تھیں ’’ تھتھوں کے گھر والی ‘‘ ۔ اس پر میری روح اندر تک چھلنی ہو جاتی ۔ میں بہت روتی تھی مگر کچھ عرصہ کے بعد اللہ نے ہی آنٹی کا منہ بند کیا بلکہ مجھے اللہ نے منع کر دیا ۔ ایمن سر گوشی میں بول رہی تھی ۔ سارہ چوکنی ہو گئی اس کو احساس تھا کہ اب کچھ خوفناک سا ہونے والا ہے‘‘ ۔ ایمن نے آنسو کا ننھا سا قطرہ انگلی کی پور سے پونچھا۔
’’ جب آنٹی آئے دن یہ لفظ کہنے لگیں انکل کے روکنے سے رکیں نہ میرے کہنے سے تو ٹھیک پانچ ماہ کے بعد ان کے ہاں چار نواسیوں کے بعد نواسہ پیدا ہؤامگر اس کا اوپر والا ہونٹ اور تالو کٹا ہؤا تھا۔ سائنس ایسے بچوں کو جو بھی نام دے جو بھی وجوہات بیان کرے، میرا دل چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ یہ تمہارے باپ کو تھتھا کہنے کا نتیجہ ہے ۔ آنٹی دن رات بیٹی کو روتا دیکھتیں ، بچے کا چند ماہ پہلے علاج مکمل ہؤا سرجری سے بظاہر سب کچھ درست ہو گیا ہے مگر اندر ہی اندر سے آنٹی شرمندہ تو ہوئیں مگر میں بہت لرز کے رہ گئی … میں نے بددعانہیں دی تھی لیکن جس طرح حالت اضطرار میں بندے کی آنکھ سے نکلا آنسو ، زبان سے نکلا حرف، آسمان کی طرف اٹھی نظر دعا بن جاتی ہے تو مظلوم کی آہ، اس کا کچھ نہ کہنا بھی بددعا ہی ہوتا ہے … اور میں بہرحال روزقیامت بد دعا دینے والوں میں شامل نہیں ہونا چاہتی … آنٹی نے بھی چار چھ ماہ مکمل پرہیز کیامجھے اذیت دینے سے مگر انسان ہے تو بندہ بشر ہی ، ماضی اور اوقات دونوں بھول جاتا ہے اذیت کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال ہی لیتا ہے …‘‘ ایمن کی دائیں آنکھ سے آنسوئوں کی لڑی ٹوٹ رہی تھی ۔
’’ اُف ایمن … تم کتنا کچھ برداشت کر چکی ہو … تم نے کبھی چچی اماں کو یا کسی کو بتایا کیوں نہیں ؟ ہم سب تو تمہیں دنیا کی خوشحال ترین خاتون تصور کرتے ہیں‘‘ ۔ سارہ نے دونوں کانوں کو ہاتھ لگایا ۔
’’تو اس سے کیا ہو جاتا سوائے غیبت کے ‘‘ ایمن نے ناک سے مکھی اڑائی۔
سارہ پھُس پھُس کر کے ہنسی پھٹے غبارے کی طرح’’ تو اب بھی تو غیبت ہی ہو رہی ہے ۔ اب کیا ہو رہا ہے ؟‘‘
’’نہیں بہنا غیبت اسے نہیں کہتے ،جہاں آپ دکھڑا روتے ہیں ! جہاں آپ سنانا پڑ ہی جاتی ہیں،کہتے ہیں ، جہاں آپ میکے کے لیے عادتاً دوسروں سے کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرتے ہیں… اور’ اللہ معاف کرے بات تو کہنا پڑ ہی جاتی ہے ‘ سے فقرہ شروع کرتے ہیں ۔ اگر آپ کو کوئی ٹوک دے تو آپ ’میں تو کچھ مسائل ڈسکس کر رہی تھی‘ کا بودا سا جواز پیدا کرتے ہیں ۔ آپ دل کا غبار بلکہ گند نکالتے ہیں … اسے غیبت کہتے ہیں ، تم نے اپنی نئی شادی شدہ زندگی کے لیے مجھ سے رہنمائی طلب کی ، جس نے جو کچھ تمہیں بتایا اس میں سب سے پہلے میری نیت تمہاری اصلاح کی ہے ۔ یہ واقعات میں نے اس سے پہلے کسی سے بیان کیے نہ آگے ارادہ ہے تو یہ غیبت کیسے ہو گئے ! اور ایک اور بات دھیان میں رکھنا جب تم ہر ایرے غیرے سے سسرال کے دکھڑے روئو گی تو اس دن ہونے والا نقصان بتا دے گا تم غیبت کر رہی تھیں یا نہیں ۔ اس دن تمہارے دل کی بے سکونی غیبت کی گواہ بن جائے گی ‘‘۔
’’ لیکن انسان ہونے کے ناطے بات تو بندہ کر ہی لیتا ہے !‘‘ سارہ پریشانی سے بولی۔
ایمن دکھ سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔’’ کیا سیدہ خدیجہ ؓ سے زیادہ دکھ کائنات میں کسی نے برداشت کیے ! پہلے شوہر سے جوان بیٹے کی شہادت ،خاندان کا سوشل بائیکاٹ غمی خوشی میں شرکت سب ختم۔ شیر خوار بچوں کو اور جو ہوں بھی بڑھاپے کی اولاد ، بھوک سے سسکتے بلکتے دیکھنا آسان کام ہے ؟ کسی سے یہ رونا رویا انہوں نے ؟مجھے تو سیرت کی پندرہ کتب پڑھ کے ایک شکایت شکوہ نہ ملا اور تن من دھن کی قربانیاں دے کے مدینہ کی بادشاہت ان کے شوہر ﷺ کو ملی تو وہ دنیا سے تشریف لے جا چکی تھیں ۔ آئوٹ پٹ یا سراہے جانے ، صلہ کی تمنا سے بے نیاز !
کیا سیدہ عائشہ ؓ پر بہتان سے بڑھ کے کسی پاک باز عورت کو کسی تہمت کا سامنا کرنا پڑا ہوگا ؟ نہیں ناں ! سیرت کی کتب پڑھو ، انہوں نے بس جہاں ضرورت تھی وہیں بات کی ، ہر ایک سے تو نہیں کی !‘‘ ایمن کی آواز شدت جذبات سے پھٹ رہی تھی۔
’’لیکن وہ تو بہت عظیم المرتبت ہستیاں تھیں ، ہمارا ان سے کیا مقابلہ ؟‘‘ سارہ سست آواز میں بولی۔
’’ دیکھا ۔ دیکھا تم نے سارہ ، نفس نے کتنا خوبصورت جاندار جواز پیش کیا ، ارے ان عظیم المرتبت ہستیوں کی پیروی ہی کے لیے ہمیںپیدا کیا گیا ہے ! تم ہرٹ ہوتی ہو ، شکایت کرو ۔ اللہ سے کرو ۔اس کے بندوں سے بھی جو نیت کا کھوٹا نہ ہو کہہ ڈالو ۔ ویسے تم نے دولے شاہ کے چوہے کبھی دیکھے ہیں ؟ ایمن نے بات کا رخ سوال کی طرف موڑ دیا۔
’’ دولے شاہ کے چوہے ؟ دیکھے ہیں مگر کیوں؟ ‘‘سارہ حیران ہوئی۔
’’ مجھے وہ بہت اچھے لگتے ہیں ، آنکھوں سے وہی دنیا دیکھتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں ، کانوں سے وہی سنتے ہیں جو ہم ۔ اسی زمین پر سانس لیتے ہیں جہاں ہم لیتے ہیں مگر کیا کبھی کسی کے برار بھلا کہنے پر سیخ پا ہوتے ہیں ؟‘‘ ایمن نے سوال کیا۔
’’ نہیں ‘‘ بے اختیار سارہ کا وزنی سر انکار میں ہلا۔
’’کسی کو جواب میں گالیاں نہیں دیتے اور کوئی ایک روپے کا سکہ بھی ہاتھ پر رکھ دے تو خوش ہوتے ہیں۔ ماتھے پر ہاتھ لے جا کے شکر یہ ادا کرتے ہیں ، ہم تو ان دولے شاہ کے چوہوں سے بھی بد تر ہیں شاید ، ہمیشہ چن چن کر بری چیز برے رویے کو یاد رکھنے والے۔ ہزار خامیوں پر بسا اوقات ایک خوبی حاوی ہو جاتی ہے ۔ میری ساس جب بھی کوئی اپنا پرایا ان سے اپنی بہو کی بات کرے وہ خم ٹھونک کے میدان میں میری تعریف پر اتر آتی ہیں اور میں اس وقت سوچتی ہوں گھر میں میرے ساتھ کبھی اچھی کبھی بری لیکن لوگوں کے سامنے تو مجھے اچھا کہہ رہی ہیں اگر گھر میں میری ہر وقت تعریف کرتی رہیں اور دنیا والوں کے سامنے مجھے برا بھلا کہیں تو وہ بہتر ہے یا یہ…!‘‘
ایمن کی کام والی چائے کی ٹرالی لینے اندر آئی تو ایمن نے گفتگو روک دی مگر واپسی کے لیے قدم اٹھاتے ہوئے سارہ سوچ رہی تھی ۔ کم از کم سال دو سال زندگی رہی تو اس روحانی خوراک کے سہارے اچھے گزر ہی جائیں گے اور اگر بشر ہونے کے ناطے کبھی ضرورت پڑبھی گئی تویار زندہ صحبت باقی ۔ ایسے ہی تو کہنے والوں نے نہیں کہہ دیا کہ عالموں کی صحبت کا ایک لمحہ عابدوں کی سو سالہ صحبت سے بر تر ہے ۔ اس کے لیے تو بہر حال فی الوقت ایمن ہی عالمہ بھی تھی اور فاضلہ بھی ۔
٭…٭…٭
کیا کیا سمجھا جاتی ہیں قانتہ باجی آپ۔
اللہ تعالی ہمارے لۓ ان باتوں پر عمل کرنا آسان کرے
بہت خوب قانتہ!!
گھروں میں ہونے والی تکلیف دہ باتوں اور منفی رویوں سے مثبت تراشنے کا ہنر قانتہ کو خوب آتا ہے۔