۲۰۲۲ بتول جونخود اعتمادی - بتول جون ۲۰۲۲

خود اعتمادی – بتول جون ۲۰۲۲

انسان کے اندر خود اعتمادی ہو تو وہ ایک کامیاب اور مثالی شخصیت مانا جاتا ہے۔ اپنی ذات پہ بھروسہ یا اپنی قابلیت کا یقین خود اعتمادی کہلاتا ہے۔ لیکن درحقیقت خود اعتمادی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ہمت اور حوصلہ اور پختہ خیال ہے جو کسی بھی چھوٹی یا بڑی مہم کو سر انجام دینے کے لیے کسی فرد میں پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ منزل کی طرف اٹھنے والا پہلا قدم ہے۔ بےشک انسان کی قوتِ ارادی کو دوام اور ثبات بخشنے والی صفت ’’توکل علی اللہ‘‘ ہے۔
’’پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں‘‘۔ (آل عمران: 159)
دراصل خود اعتمادی کا وصف’’اعتماد علی اللہ‘‘ سے نشوونما پاتا ہے۔
اگر قرآن و حدیث کی رو سے دیکھیں تو خود اعتمادی دراصل اللہ تعالیٰ پہ توکل کرنا ہے۔ انسان کی ہر وہ سوچ جو اسے کسی عمل پہ ابھارتی ہے وہ توکل علی اللہ سے حُسنِ عمل میں تبدیل ہوتی ہے۔
توکل علی اللہ وہ قرآنی صفت ہے جس کی بدولت ایک نہتّا شخص پوری قوم سے اپنا آپ منوا لیتا ہے۔ اور اس سے قربِ الٰہی کی مزید راہیں روشن ہوتی ہیں۔ مثلاً اپنے رب سے حسنِ ظن اور اس کی معیت کا زندہ احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ رب کے وعدے پہ یقینِ کامل مومن کو دنیا کی ہر شے سے بے نیاز کر دیتا ہے اور ہر خوف سے مبرا کر دیتا ہے۔
خود اعتمادی اور توکل علی اللہ کی عمدہ مثال قرآن مجید میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں موجود ہے۔
جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی والدہ کو حکم دیتے ہیں کہ اس ننھی جان کو تابوت میں ڈال کر دریا میں چھوڑ دیں۔ ساتھ ہی موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا اعتماد بڑھانے کے لیے یہ خوشخبری بھی دی جاتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ضرور واپس لوٹائے جائیں گے۔
والدہ موسیٰ علیہ السلام کا اپنے رب پہ توکل، وعدے پہ یقین اور اس کے فیصلے پہ حسنِ ظن انہیں ایک مضبوط بہادر ماں بنا دیتا ہے۔
’’ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی رہ اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج غم نہ کرنا، ہم یقیناً اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں‘‘۔ (القصص: 7)
اسی طرح جب موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا معجزہ ظاہر ہوتا ہے تو وہ فطری طور پر ڈر جاتے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کا اعتماد ان الفاظ میں بحال کرتے ہیں:
’’اور (حکم دیا گیا کہ) پھینک دے اپنی لاٹھی، جونہی کہ موسیٰؑ نے دیکھا کہ وہ لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا (ارشاد ہوا) موسیٰ ؑ، پلٹ آ اور خوف نہ کر، تو بالکل محفوظ ہے‘‘۔ (القصص: 31)
جب موسیٰ علیہ السلام ایک نادانستہ قتل اور اظہارِ بیان میں کمزوری کی وجہ سے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں تو اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
’’ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سَطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیرووں کا ہی ہوگا‘‘۔ (القصص: 35)
اور جب جادوگر اپنی رسیاں ڈالتے ہیں تو موسیٰ علیہ السلام خوف محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خود اعتمادی اس انداز میں

بڑھاتے ہیں:
’’ہم نے کہا مت ڈر، تو ہی غالب رہے گا‘‘۔ (طہ، 68)
پھر اس تربیت کا ثمرہ دیکھیں، جب اللہ رب العزت موسیٰ علیہ السلام کو سمندر کے درمیان گزرنے کا حکم دیتے ہیں تو موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو خوف محسوس ہوتا ہے کیوں کہ آگے سمندر اور پیچھے فرعون اور اس کی فوج ہے۔ موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کا اعتماد بلند کرنے کے لیے ان کو یقین دلاتے ہیں کہ:
’’ہرگز نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے وہ ہماری راہنمائی کرے گا‘‘۔ (سورہ الشعراء، 62)
اسی طرح پوری سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم توکل علی اللہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ربانی صفات سے بھری ہوئی ہے۔
کوہِ صفا کے اعلان سے شروع ہونے والا توکل علی اللہ، ایسی خود اعتمادی دیتا ہے کہ شعب ابی طالب، طائف کا واقعہ، ہجرت، غارِ ثور سے لے کر سب غزوات میں اپنے اوجِ کمال کو پہنچتا ہے۔
توکل علی اللہ سے پیدا ہونے والی خود اعتمادی کے بارے میں ایک چھوٹی سی بات سمجھنے کی بھی اشد ضرورت ہے وہ یہ کہ تمام اچھائیاں ایک زنجیر کی طرح آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ اسی طرح تمام برائیاں ایک زنجیر کی طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ آپ پستی کی طرف جانا شروع کریں گے تو گہرائیوں میں گرتے چلے جائیں گے۔ اپنا سفر بلندی کی طرف رکھیں گے تو کبھی نہ کبھی آسمانوں کی بلندیوں سے بھی آگے نکل جائیں گے۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ آپ نے قرآن مجید کی کوئی ایک آیت پڑھی اور آپ کے اندر فوراً توکل علی اللہ یا خود اعتمادی جاگ گئی۔ خود اعتمادی کی پہلی سیڑھی وہ ’’علم‘‘ ہے جہاں سے قرآن مجید نازل ہونے کی ابتدا ہوتی ہے۔ اور ایسا علم جس کی بنیاد توحید ہو اور توحید کے اقرار کے بعد دین و دنیا کا علم حاصل کرتے رہنے کا ایسا شوق جو کبھی رکے نہیں۔ یقیناً علم کے ساتھ آپ کے اندر گہرا شعور آتا ہے۔ اس بات کا شعور کہ ہر انسانی جان اہم ہے، ہر ذی روح کو موت آنی ہے، اور ہر نفس کا حساب ہونا ہے۔
پھر کچھ آگے بڑھیں تو قرآن مجید ہمیں ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کا سبق دیتا ہے۔ جہاں پر سب سے زیادہ خود اعتمادی اور توکل علی اللہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ کتنا علم یا کون سی عمر درکار ہے جس سے آپ کے اندر کی جھجک ختم ہو سکے اور آپ بااعتماد ہو کر حق کو پیش کر سکیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں گرتے وہی مثال ہے مسلمان کی، تو مجھ سے بیان کرو وہ کون سا درخت ہے؟‘‘ لوگوں نے جنگل کے درختوں کا خیال شروع کیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے دل میں آیا وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے شرم کی (اور نہ کہا)، پھر لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ بیان فرمائیے، وہ کون سا درخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ کھجور کا درخت ہے‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا، پھر میں نے یہ (واقعہ) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا: ’’اگر تُو کہہ دیتا کہ وہ کھجور کا درخت ہے (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا) تو مجھے ایسی ایسی چیزوں کے ملنے سے زیادہ پسند تھا‘‘۔
اس واقعہ سے دو اور باتیں معلوم ہوئیں کہ صرف علم سیکھنا کافی نہیں ہے بلکہ بزرگوں اور اہلِ علم کی محفل میں جانا اور اچھی صحبت اختیار کرنا اور گفتگو میں شریک ہونا بھی اہم ہے اور پھر، ان مجالس میں اپنی رائے کا بلا جھجک اظہار کرنا بھی پسندیدہ ہے۔ اس کی مثالیں ہمیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محفلوں میں نظر آتی ہیں۔ جہاں صحابہ و صحابیات کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم بلا جھجک سیکھتے اور سکھاتے تھے۔
خود اعتمادی اس طرح پنپتی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ پر کامل یقین ہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھتا ہو۔ نیز مناسب اسباب اختیار کر کے کام کو حسبِ استطاعت بہتر طور پہ کرنے کے بعد انجام جو بھی ہو اللہ تعالیٰ کے فیصلے پہ راضی رہتا ہو۔
یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ خود اعتمادی کا لفظ استعمال کرنے سے انسان کے اندر فخر و غرور کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور خود پسندی کی طرف

یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ خود اعتمادی کا لفظ استعمال کرنے سے انسان کے اندر فخر و غرور کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور خود پسندی کی طرف رجحان بڑھتا ہے۔’’توکل علی اللہ‘‘ کا لفظ انسان کی فکر کو قرب الٰہی کی طرف متوجہ رکھتا ہے۔
مولانا وحید الدین خان فرماتے ہیں کہ ’’خود اعتمادی بظاہر ایک اچھی صفت ہے، لیکن اجتماعی زندگی میں وہ اکثر مسئلہ پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ جس آدمی کے اندر خود اعتمادی ہو، وہ اکثر شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ سمجھ لیتا ہے کہ کام جو ہؤا ہے، وہ صرف اس کی وجہ سے ہؤا ہے۔ اس بنا پر وہ چاہنے لگتا ہے کہ کام کا سارا کریڈٹ صرف اس کو ملے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اجتماعیت کا ایک پرابلم ممبر بن جاتا ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ اس کو سارا کریڈٹ نہیں مل رہا ہے تو وہ منفی سوچ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اجتماعی زندگی میں جو رول اس کو ادا کرنا تھا، اسے وہ بخوبی طور پر ادا کر سکے۔ اس کے برعکس، توکل علی اللہ یا اعتماد علی اللہ کی نفسیات سے انسان کے اندر ہر قسم کے مثبت اوصاف (positive qualities) پیدا ہوتے ہیں- وہ اجتماعی زندگی کا ایک صحت مند ممبر بن جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں اپنے مطلوب رول کو بخوبی ادا کر سکے‘‘۔( الرسالہ مارچ 2017ء)
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پہ ایمان لانے کے بعد انسان’’مومن‘‘ کہلاتا ہے۔ اب اس کو اپنے رب پہ مکمل بھروسہ ہے۔ اور اس کی ذات و صفات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اپنے رب کی ذات پہ غیر متزلزل ایمان و بھروسہ، مومن کو بھی روحانی طور پر مطمئن بنا دیتا ہے۔ اعتماد علی اللہ ہی وہ دولت ہے جس سے مؤمنین قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود کثیر پہ غالب آجاتے ہیں۔ اور طوفانوں کا رخ موڑ سکتے ہیں۔
آج ہم مسلم معاشرے میں، گھر سے لے کر بڑے اداروں تک، انفرادی و اجتماعی طور پہ بے یقینی و بے اعتمادی کی فضا دیکھتے ہیں۔
کسی بھی قوم میں جب افراد اور مقتدر اداروں میں بے اعتمادی کی فضا مستقل کشاکش کا شکار ہو جائے تو تنزلی کا سفر تیز تر ہو جاتا ہے۔اور جب ایمان والوں کا اللہ رب العالمین پہ بھروسہ اور اعتماد نہ رہے اور وہ مادیت کے سہارے ترقی کا سفر طے کرنے لگیں تو پھر ان کو اپنی ذات پہ بھی اعتماد نہیں نصیب ہوتا۔
یہ بات بالکل بجا ہے کہ توکل میں خود اعتمادی ضرور ہے لیکن ہر خود اعتمادی میں توکل نہیں ہوتا۔ یہ توکل کی نعمت فقط کامل فرائض وسنن کے پابند مسلمان یا جس پر اللہ کی خاص رحمت ہو اس کو حاصل ہوتی ہے۔
کامل مومنانہ شان حاصل کرنے کے لیے قیادتیں، ہماری جماعتیں اور تنظیمیں اور افراد سب تیار ہوں۔ مثبت تبدیلی کا یہ عمل تیز رفتار ہو تاکہ ہم جلد سے جلد حالات کو بہتر بنانے کی صلاحیت سے آراستہ ہوسکیں ؎
جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے، انھیں منزلوں نے پناہ دی
جنھیں وسوسوں نے ڈرا دیا، وہ قدم قدم پہ بہک گئے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here