رمضان کریم کے اختتام پر مساجد میں تراویح کے موقع پر اور حلقہ ہائے دروس میںترجمہ یاتفسیر کے اختتام پردعائیہ تقاریب منعقد ہونے سے ایک نورانی سماں بندھ جاتاہے ۔
قرآن مجید کےہر نسخے کے اختتام پرایک ’’دعا‘‘ درج ہوتی ہے ۔معوذتین کے بعد اس دعا کا ورد کر کے ہم نئے قرآن کی تلاوت کا آغاز کرتے ہیں۔
آج ہمارے حلقے میں دعائے ختم قرآن تھی ۔ ہم سب شرکاء محفل نے اجتماعی طور پر ختم قرآن کی دعا پڑھی ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے ۔
’’ اے اللہ میری قبر کے اندر مجھے جو وحشت ہو گی اسے میرے لیے مانوس کر دے ۔ اے اللہ مجھ پر اس قرآن عظیم کی بدولت رحم فرما۔ اس کو میرے لیے امام، نور ،ہدایت اور رحمت بنا دے ۔ اے اللہ مجھے یاد کرادے جو کچھ میں اس میں سے بھول جائوں اور مجھےسکھا دے اس میں سے جو میں نہیں جانتا اور مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اسے پڑھتا ہوں۔ رات اور دن کے اوقات میں اور اے تمام جہانوں کے پروردگار ! اس قرآن کو میرے حق میں دلیل اور گواہ بنا دے ‘‘۔
کتنی پیاری یہ دعا ہے جس کو ہم اکثر فہم کے بنا ہی پڑھ لیتے ہیں ، ایک معنی کاجہان پوشیدہ ہے اس دعا میں جو قرآن کے نسخوں کے اختتام پر درج ہوتی ہے ۔
اللھم انس وحشتی فی قبری
’’ مولا قبر کی وحشت کو میرا مونس بنا دے ‘‘۔ وحشت بھلا کب مونس ہو سکتی ہے ؟ہاں ! اس وقت جب زندگی میں قرآن مونس ہمدم رہا ہو۔ قبر کی وحشت بھی ہمارے لیے وحشت ہی نہ رہے گی اگر قرآن کے ذریعے اس قبر کی روشنی کا اہتمام کیا ہوگا ۔ اس جملے کے بعد کی پوری دعاکا نچوڑ یہی جملہ ہے کہ قبر جو وحشت کا گڑھا ہے وہ ہمارے لیے مونس ہو جائے ۔ ہمیں اس وحشت کے گھر سے انسیت ہوجائے ۔ جیسے اپنے چاہنے والوں کے گھروں سے انس ہوتاہے ۔آگے بڑھیں۔درج ہے۔
اللھم ارحمنی بالقرآن العظیم
اے اللہ مجھ پر اس قرآن کی بدولت رحم عطا فرما۔ قرآن نے اپنے تھامنے والوں کے ساتھ رحم کا ایسا معاملہ کیا کہ گلہ بانوں کو دنیا کا امام اور انسانیت کا گلہ بان بنادیا ۔جہالت میں ڈوبے انسانوں سے ایک پاکیزہ تہذیب متعارف کرائی ، انہیں کل کا کل ایک نئے سانچے میںڈھال دیا ۔ حامل قرآن ہو کر وہ معزز ہو گئے اور ہم تارک قرآن ہوکر خوار ہو گئے ۔ ایسی ویسی خواری کہ الجھی گتھیوں کا کوئی سرا ہاتھ ہی نہیں آتا۔ اب اگر پستی و ذلت سے نجات کا کوئی راستہ ہے تو وہی ہے جس کی طرف نبی پاکؐ نے اشارہ فرمایا تھا ۔’’بے شک اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن مجید ) کے ذریعے کچھ لوگوں کو عزت اور سر بلندی عطافرمائے گا اور کچھ لوگوں کو پستی اورذلت سے دو چار کرے گا‘‘۔ (مسلم)
تاریخ امم یہی بتاتی ہے کہ جب قومیں الہامی تعلیمات کو تھام لیتی ہیں تو’’ انی فضلتکم علی العٰلمین کا فرمان ان کے حق میں جاری ہوتا ہے ان کو دنیا میں بھی فضیلت کا منصب جلیلہ حاصل ہوتاہے ( البقرہ47) اور جب قومیں کتاب الٰہی سے رو گردانی برتتی ہیں تو۔
’’ ان پر ذلت و مسکینی مسلط کردی گئی اوروہ اللہ کے غضب میں گھر گئے ‘‘۔( البقرہ 61)
اس کتاب کی یہ شان ہے کہ جس امت کی طر ف یہ قرآن بھیجا گیا وہ امت وسط اور خیر امت قرار پائی۔
اگرہم چاہتے ہیںکہ قرآن کے ذریعے ہم پر رحم کیا جائے تو دلوں کی سختی کو قرآن کی آیات ہی نرمی سے بدل سکتی ہیں شرط صرف یہ ہے کہ ہم قرآن کی دنیا میں شعوری طور پر داخل ہوں اس کا فہم حاصل کریں ، اس سے ہدایت کے لیے رجوع کریں۔
کیونکہ قابل رشک و ہ نہیں جن کو دنیا میں اعلیٰ معیار زندگی نصب ہؤا ہے بلکہ قابل رشک وہ ہیں ۔’’ رشک جائز نہیں مگر دو طرح کے آدمیوں پر ۔ ایک وہ جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا وہ دن رات کے اوقات میں قرآن پڑھتا، پڑھاتا، سیکھتا اورسکھاتااور دوسرا وہ آدمی جس کو اللہ نے مال دیا ، وہ دن اور رات کے اوقات میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے( متفق علیہ)
واجعلہ لی اماما و نوراً وھدیً ورحمۃً
اس کو میرے لیے امام، نور ، ہدایت اور رحمت بنا دے ۔ قرآن مجید کو جب ہم امام بنانے کی دعا مانگ رہے ہیں تو اس قرآن کو انفرادی و اجتماعی زندگی میں امام بنانے کی منصوبہ بندی بھی کریں۔امام کی تقلید کی جاتی ہے اس کے پیچھے چلا جاتا ہے ۔ پیش قدمی نہیں کی جاتی ۔ اپنی آزادی سے دستبردار ہونا پڑتا ہے امام کی اقتدا میںقرآن نور تب ہی بنے گا جس کو امام بنایا ہوگا جہاں روکا ہو گیا رک گئے ہوں گے ، جہاں چھوڑنے کو کہا گیا ترک کردیا ۔ جس کا حکم دیا فوری لاگو کرلیا ۔’ سمعنا واطعنا‘ زندگی کی تہذیب تھی۔
جنھوں نے قرآن کو اپنی زندگیوں کا امام بنایا قرآن نے جواباً انہیںدنیا کا امام بنا دیا ۔ جو قرآن کے پیچھے چلے دنیا ان کے پیچھے چلی ۔ کیونکہ یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ ’’ الکتاب‘‘ صرف یہی جو اقبال نے کہا کہ :
ایں کتابے نیست چیزے دیگراست
سورہ یونس نے مومنین کو یہ بشارت دی کہ نور ، ہدایت اور رحمت صرف یہی کتاب ہے ’’ لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے ۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے اے نبیؐ کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہر بانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی ، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے ، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں (یونس57-58) ۔
اس کی رحمت کے دامن میں آنے کے لیے لازم ہے کہ اس کو اپنا رہبر اور رہنما مان لیں پھر دیکھیں زندگی میں اعمال صالحہ کی جو بہار آنی شروع ہوگئی تو سماج میں خیر کی کھیتی لہلہانے لگے گی۔ امن و آشتی کا ، سماں ہو گا کہ غیر مسلم بھی اسلام کے سایہ عاطفیت میں آنے کو بے چین ہوجائیں گے ۔
اللھم ذکرنی منہ مالیست
’’اے اللہ مجھے یاد کرا دے جو کچھ میں اس میں سے بھول جائوں‘‘
قرآن کو یاد کرنا مومن کی زندگی کا وظیفہ ہوتا ہے ۔ قرآن کے علم سے زیادہ نافع کی دنیا کا کوئی علم نہیں ۔ یہ دولت زبردستی کسی کو نہیں دی جاتی۔ قرآن کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کی شعوری کوشش اور اس کا اہتمام کریں ۔ حکیم الامت نے اس طرف توجہ دلوائی۔
برخود از قرآں اگر خواہی ثبات
در ضمیر ش دیدہ ام آبِ حیات
ترجمہ: اگر تجھے دوام و ثبات مطلوب ہے تو قرآن سے خوشہ چینی کر، میں نے دیکھا ہے کہ اس میں آبِ حیات ہے۔
وعلمنی منہ ماجھلت
’’ اور مجھے سکھا دے اس میں سے جو میں نہیں جانتا‘‘
انسان کو جن وملک پر جو برتری دی گئی اس کی وجہ ’’ علم‘‘ تھا ۔ بچہ ابھی شعور کی دنیا میں قدم بھی نہیں رکھتا کہ ہم اس کے گلے میںبستہ لٹکا کر اسے ’’ طالب علم‘‘ہونے کا احساس دیتے ہیں ۔ وہ زندگی کے سولہ ، اٹھارہ سال دنیاکے علوم و فنون کو سیکھنے کے لیے عمر کا بہترین حصہ خرچ کرتا ہے ۔ قرآن مجید ہماری ترجیحات میں کس درجے پر ہے ؟ سولہ ، اٹھارہ سال جن تعلیمی اداروں میں بہت وسائل خرچ کر کے سند حاصل کرتے ہیں اس کی واحد غرض یہ ہوتی ہے کہ عزت کاروز گار حاصل کریں۔ دوران حصول سند طالب علموں کو کبھی ، کہیں نہیںبتایا جاتا کہ قرآن ان کی زندگی کا امام ہے ۔ جس طرح دیگر علوم و فنون انہوں نے زندگی میں ترجیح اول سمجھ کرحاصل کیے ہیں اسی طرح قرآن کا سیکھنا ایک مسلمان بچے کی اولین ضرورت ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں نہ معاشرتی علوم کا کوئی تانہ بانہ قرآن سے جوڑا جاتا ہے نہ سائنسی علوم کا ۔ جہل جس علم سے مٹ سکتا ہے وہ قرآن ہے ۔ جتنے بڑے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طالب علم ہوتے ہیںوہ قرآن کی لا علمی کی بنا پرجہل کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاںمارتے اور مغرب میں اپنے لیے رول ماڈل تلاش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
وارزقنی تلاوتہ انا الیل و آناالنھار
’’ مجھے توفیق دے کہ میں اسے پڑھتا رہوں رات اوردن کے اوقات میں حضرت انس بن مالک ؓ سےروایت ہے کہ نبی پاک ؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ انسانوںمیں سے کچھ لوگوں کو اپنے مقربین میںشامل کر لیتا ہے جو قرآن کو اپنا لیتے ہیں وہ اللہ کے مقربین اورخاص بندے بن جاتے ہیں ( احمد ، نسائی) آپؐ نے فرمایا جس شخص نے قرآن پڑھا اور روز اس کی تلاوت کرتا رہا اس کی مثال ایسی ہے جیسی مشک سے بھری ہوئی زنبیل کہ اس کی خوشبو چار سومہک رہی ہے اورجس شخص نےقرآن پڑھا لیکن وہ اس کی تلاوت نہیں کرتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک سے بھری ہوئی بوتل جسے ڈاٹ لگا کربند کردیاگیا ہے ‘‘۔( ترمذی شریف)
یہ وہ ہیں جنہوں نے اپنی قیمتی زندگیاں ایک قیمتی مشن یعنی قرآن کو پڑھنے ، پڑھانے ، سمجھنے سمجھانے اور اس کے پیغام کو پھیلانے کے مشن کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔
قرآن کی تلاوت کرنے والے کو اپنے رب سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے جب بار بار رات اوردن کے اوقات میں قرآن کی تلاوت کریں گے تو قرآن میں چھپے ہیرے اورجواہرات ہم پر آشکار ا ہوں گے ۔ جو کچھ لوگ دنیا سے سمیٹ رہے ہیں یہ قرآن دنیا بھر کی دولت ًسے بہتر اور افضل ہے ۔ اگرکسی کو اللہ رب کریم نے قرآن کے علم جیسی دولت سے نوازا اور وہ مال و اسباب میں اپنے سے زیادہ لوگوں کودیکھ کر ان پر رشک کرتا رہا تو درحقیقت اس شخص نے قرآن کی قدرو منزلت ہی نہ پہنچائی۔ قرآن کے لیے جس کا سینہ کھل گیا اس کو خیر کثیر عطا کی گئی ۔ جنت کی ابدی اور لازوال نعمتوں کی طرف ہمیں قرآن بار باربلاتا ہے ۔
’’ اے ایمان والو! اللہ اور اس کا رسول ؐجب تمہیں بلائیں تو ان کی اس دعوت کو قبول کرو جس میں تمہارے لیے زندگی کا سامان ہے ‘ ‘ (انفال24)۔
ہمارے اسلاف نے قرآن کو اپنی تنہائیوں کا رفیق بنایا ہؤا تھا ۔ جوں جوں امت قرآن سے بے نیاز ہوتی گئی اللہ کی زمین فتنہ اور فساد سے بھرتی چلی گئی ۔ دل سوز سے خالی رہتے ہیں آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں۔ کہنے کو میں اک اک جلسہ میں پڑھ پڑھ کرسنایا جاتاہوں۔
واجعلہ لی حجۃ یا رب العالمین
اور اے تمام جہانوں کے پرور دگار اس قرآن کو میرے حق میں دلیل اور گواہ بنا دے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن حجت( دلیل یا گواہ) ہمارے حق میں بنے گا یا ہمارے خلاف روزحشر جب حساب کتاب کیا جا رہا ہوگا توقرآن مجید گواہ بن کر کھڑا ہوگا۔وہ ایک آئینہ ہوگا کہ ہم نے زندگی کےروز و شب کتنے قرآن کے سائے میں بسر کیے ۔ جس نے قرآن کے حقوق ادا کرنے سے بے نیازی برتی ہو گی روز حشر قرآن اس کے خلاف وکیل استغاثہ بن کرآئے گا۔
قرآن ہمارے حق میں دلیل اس وقت بنے گا جب ہم اس میںتفکر اورتدبر کے ساتھ اس کے حقائق اورحکمتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ القارعہ‘‘ اور’’ القدر‘‘ جیسی چھوٹی چھوٹی سورتوں کوسوچ سمجھ کر پڑھنا اس سے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں کہ ’’ البقرہ‘‘ اورآل عمران جیسی بڑی بڑی سورتیں پڑھ جائوں اورکچھ نہ سمجھوں۔
حضرت عمر فاروقؓ کی دعا کے یہ درج ذیل انمول الفاظ بتا رہے ہیں کہ قرآن کو اپنے حق میں دلیل اور محبت بنانے کی سعی پورے شعور سے کی جائے ۔
ترجمہ:’’ خدایا میری زبان تیری کتاب میں سے جو کچھ تلاوت کرے مجھے توفیق دے کہ میں اس میں غورو فکر کروں ،خدایا ! مجھے اس کی سمجھ دے ۔ مجھے اس کے مفہوم و معانی کی معرفت بخش اور اس کے عجائبات کوپانے کی نظر عطا فرما ۔ جب تک زندہ رہوں مجھے توفیق دے کہ میں اس پر عمل کرتا رہوں ، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ‘‘( آداب زندگی ، مولانا محمد یوسف اصلاحی)۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں ۔’’ قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد انسانوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور گم کردہ راہ اعمال کی اصلاح اور درستگی ہے‘‘( الفوز الکبیر)۔
بلا شبہ قرآن انسان کے ظاہر و باطن کی ایسی تعمیر کرتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوجائے ۔ یہ بندگی رب کا راستہ انسان کی پوری زندگی پر پھیلا ہؤا ہے۔
’’محمدؐ معراج کی بلندی پر پہنچ کر پھر اس دنیائے رنگ و بو میں لوٹ آئے ۔ تاریخ کے منجدھار میں قدم رکھا اوراس نور سے جو اسے حاصل ہؤا تھا تنگ و تاریک دنیا کو منور کرنے کی کوشش کی ۔
انہوں نے صرف اپنے سینہ کو گنجینہ انوار نہیں بنایا بلکہ پورے عالم کو روشن کرنے کی جدوجہد کی ۔ ایک نیا انسان بنانے ، ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنے ، ایک نئی ریاست قائم کرنے اور تاریخ کوایک نئے دور سے ہمکنار کرنے میں مصروف ِ جہاد ہو گئے۔
قرآن زمانے کے چلن کو تبدیل کرنا چاہتاہے ، وہ ایک نیا نظام قائم کرنا چاہتاہے ۔ دلوںکی دنیا میں بھی انقلاب اور انسانی معاشرے میں بھی انقلاب ۔ وہ ا صلاحی انقلاب جس کے نتیجے میں خدا سے بغاوت ختم ہو اور اس کی بندگی کا دور دورہ ہو ، برائیاں سرنگوں ہو جائیں اور نیکیوں کوغلبہ حاصل ہو، خدا کے منکر اور اس سے غافل قیادت کے مقصد سے ہٹا دیے جائیں اوراس کے مطیع اور فرماں بردار بندےزمانے کی باگ دوڑسنبھال لیں۔
’’یہ ہے نزول قرآن کا مقصد اوریہی ہے انسانیت کی نجات کا راستہ‘‘۔( پروفیسر خورشید احمد)
یقیناً اس قرآن کو دلیل اور گواہ بنانے کے راستہ میں شعب ابی طالب بھی آئے گی اور طائف کی وادی سے بھی گزرنا ہوگا ۔
رمضان کے ماہ مبارک میں غزوہ بدر کا میدان بھی سجے گا اور فتح مکہ کی صبح بھی طلوع ہوگی۔ بس ضرورت ہے قرآن سے اپنے ٹوٹے ہوئے تعلق کودوبارہ استوار کرنے کی ۔ ختم قرآن کومذکورہ دعا کوپورے شعور اور دل کی گہرائیوں سے پڑھنے کی۔ تب فرشتے ہماری بھی دعائوں پر آمین کہنے کو اتریں گے۔
٭ ٭ ٭