۲۰۲۳ بتول مارچحساب کتاب - بتول مارچ ۲۰۲۳

حساب کتاب – بتول مارچ ۲۰۲۳

’’ماما! میری فیئرویل میں ایک منتھ رہ گیا ہے۔ساری فرینڈز اپنی تیاری شیئر کر رہی ہیں۔میرا کچھ بھی نہیں آیا اب تک‘‘۔
سوہا نے روٹھے سے انداز میں ماں سے کہا جو قلم اور نوٹ بک لیے کچھ لکھ رہی تھیں۔
’’ٹھیک ہے بیٹا،اپنی لسٹ بنا لو،پیسوں کا اندازہ ہو جائے گا تو چلتے ہیں ایک دو دن میں‘‘۔
یہ ان کی عادت تھی کہ کوئی لین دین ہو،دعوت ضیافت ہو، تعلیمی اخراجات ہوں یا گھریلو بجٹ،ہر کام منصوبہ بندی سے کرتیں۔ان کی اس عادت سے ان کے شوہر ہاشم بہت خوش اور مطمئن تھے۔ہاشم سعودیہ میں ایک مستحکم کمپنی میں اچھے عہدے پر تھے۔سال میں خود تو ایک بار پاکستان آتے لیکن دوران سال بچوں کے تعلیمی شیڈول کو دیکھتے ہوئے انہیں سعودیہ بلا لیتے تھے۔بچے شہر کے مہنگے تعلیمی اداروں سے منسلک تھے۔بے فکری،کھلے ہاتھ کا خرچ،اپنے ہی جیسے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا۔ ان کے طرز رہائش اور انداز و اطوار میں مغربی رنگ نمایاں ہونے لگا تھا۔ دو بیٹوں کے بعد آنے والی سوہا گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ اسٹائلش ملبوسات، زیبائش کے لوازمات،بہترین سیل فون،سہیلیوں کا سرکل سب ہی کچھ اس کی پسند کے مطابق ہوتا۔فیصل کو شاپنگ کی سن گن ملی تو اس نے بھی نئی جینز اور ہیئر جیل وغیرہ کی ضرورت ظاہر کر دی۔پروگرام تو بن گیا لیکن مسز ہاشمی شدید فلو کی لپیٹ میں آگئیں۔ہفتے بھر میں طبیعت سنبھل گئی تھی لیکن کمزوری باقی تھی۔سوہا کا اصرار تھا کہ اب شاپنگ کر لی جائے۔ ناہید کہنے لگیں۔
’’لیکن ابھی مجھے بہت گھمانا پھرانا نہیں بس جلدی کر لینا‘‘ سوہا کو خیال آیا۔
’’وہ ہے نا مال میں حامد صاحب کی‘‘ینگز چوائس‘‘۔وہ برانڈڈ کلیکشن اور سیلیکٹڈ جیولری رکھتے ہیں۔اکثر ہماری پسند کی چیزیں مل جاتی ہیں وہاں سے‘‘۔
’’ٹھیک ہے پھر وہیں چلیں گے۔‘‘
پھر دوسرے دن کا پروگرام طے پا گیا۔
٭٭٭
خوش حال،متوسط اور لوئر مڈل طبقے پر مشتمل ملی جلی آبادی میں کئی منزلہ جدید شاپنگ مال بڑی شان سے نمودار ہؤا تھا۔جہاں متمول افراد سامان آرائش و زیبائش،دیدہ زیب ملبوسات،قسم قسم کے مشینی سامان،کچن کے لوازمات ٹرالیوں اور خوب صورت شاپنگ بیگز میں بھر بھر کے لے جاتے وہاں کم آمدنی والے مہنگائی کے مارے لوگ تفریح کی غرض سے جاتے اور اپنے سادہ اور پر مشقت طرز زندگی میں کسی لگژری آئٹم کا پیوند لگا کر اپنے تئیں معیار زندگی کو کھینچ تان کر بلند کرنے کی کوشش کرتے اور مزید حسرتیں پال کر شاپنگ مال سے باہر آجاتے۔
خریداری کے اسی مرکز میں حامد صاحب کی شاپ تھی۔ان کے والد کی ایک چھوٹی سی کپڑے کی دوکان تھی۔انہوں نے بڑی محنت سے بچوں کو پڑھایا لکھایا لیکن کاروبار میں صرف حامد نے دلچسپی لی۔کامرس کے مضامین کی تعلیم حامد کے بہت کام آئی۔اب وہ مال میں بہترین لوکیشن کی شاپ کے بلا شرکت غیرے مالک تھے۔لڑکے اور لڑکیوں کے جدید تراش خراش کے برانڈڈ ملبوسات،لیڈیز اور جینٹس میک اپ اور پرفیوم کارنر،دیدہ زیب جیولری اور وہ سب کچھ جو آج کا نوجوان طبقہ پسند کرتا ہے ان کی شاپ میں موجود تھا۔جدید تشہیری انداز کے استعمال نے’’ینگز چوائس‘‘ کو نوجوان گاہک کے لیے پرکشش بنا دیا تھا۔فیشن کیٹلاگ بکس

ریک میں سجی ہوتیں،اندرونی دیوار پر درمیانے سائز کی اسکرین پر نازو انداز دکھاتے ماڈلز متحرک رہتے،اسٹائلش ملبوسات سے آراستہ شیشوں کی دیواروں سے جھانکتی قد آدم ڈمیز گویا گاہک سے سرگوشی کر رہی ہوتیں۔حامد کو نوجوانوں سے ان ہی کے انداز میں ڈیل کرنے کا ہنر بھی خوب آتا تھا۔جلد ہی دوکان پر آنے والا ان کا پرانا گاہک بن جاتا۔
کبھی کبھی دوکان کے دونوں سیلز بوائے ایک ساتھ ہی چھٹی کر بیٹھتے تو انہیں خود ہی دوکان کھولنا پڑتی۔وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔بند دوکان کو کھولنے اور از سر نو ترتیب دینے میں کافی وقت لگ جانے کے بعد وہ کاؤنٹر پر بیٹھ گئے۔
اچانک انہیں باہم تکرار اور زور زور سے بولنے کی آوازیں آنے لگیں۔ باہر آکر دیکھا تو چند دوکانوں کے بعد کونے کی دوکان پر کچھ ہجوم نظر آیا۔کراکری کی اس دوکان کے نئے مالک ظفر قریشی کو مال میں آئے تین ماہ ہوئے تھے۔حامد لڑائی جھگڑوں سے دور رہنے والے آدمی تھے لہٰذا دور سے ہی دیکھنے لگے۔وہاں ظفر قریشی کی آواز گونج رہی تھی۔ جانے کیا تاثیر تھی ان کی بات میں کہ سب خاموش سے ہو گئے تھے۔اس خاموشی میں حامد کو ان کے جملے دل پر اترتے محسوس ہورہے تھے۔حامد نے اپنی لاکھوں کے سامان سے سجی دوکان پر نظر ڈالی اور….پھر نظر شرمسار ہو کر پلٹ آئی تھی۔
اسی اثنامیں ان کی دوکان پر دو خواتین آگئیں اور وہ ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔انہوں نے جو لباس پسند کیا وہ ایک ڈمی پہنے کھڑی تھی۔گاہک خواتین کا مطلوبہ سائز اسٹاک میں نہیں تھا لیکن ڈمی پر تھا اور اب ڈمی پر سے ہی انہیں اتار کے دینا تھا۔آج تو سیلز بوائے بھی نہ تھے اور انہیں خود ہی یہ کام کرنا تھا۔گاہک خواتین کے سامنے نسوانی خدو خال پر مبنی پولی تھین کی ڈمی پر سے لباس اتارتے ہوئے پہلی بار ان کے ہاتھ کانپے تھے۔گاہک خواتین کے لیے بھی یہ ایک نازیبا منظر تھا جسے دیکھنے سے بچنے کے لیے انہوں نے دوکان کے دیگر کارنرز کی طرف توجہ مبذول کر لی تھی۔
حامد نے کسی صورت گاہک کو فارغ کیا اور بوجھل دل سے اپنے کاؤنٹر پر جا بیٹھے مگر دماغ میں ہلچل جاری تھی۔ بالآخر دوکان جلد بند کرکے گھر جانے کا فیصلہ کرلیا۔ویسے بھی دوسرے دن میلاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے کی عام تعطیل تھی اور بازار تو جلد ہی بند ہو جانے تھے۔
٭٭٭
’’ارے بھئی یہ حامد صاحب کی شاپ کہاں چلی گئی؟‘‘
وہ تینوں مال میں ایک جگہ کھڑے شیشے کی دیواروں والی دوکانوں پر نظریں دوڑا رہے تھے۔بالآخر انہیں ایک دوکان میں حامد صاحب بیٹھے نظر آئے۔وہ ان سلے پارچہ جات کی دوکان تھی جہاں کھلے کپڑے کے تھان بڑی خوبصورتی سے سجے دعوت خرید دے رہے تھے۔انہیں وہ تو نہیں خریدنا تھے پھر بھی وہ دوکان میں داخل ہو گئے۔ انہیں دکان بدلی بدلی لگی۔اتنے میں حامد اپنے پرانے کسٹمرز کو پہچان گئے تھے۔
’’میم!آپ بہت دن بعد آئیں‘‘۔
’’جی ہاں،مگر یہ آپ کی شاپ تو نہیں ہے،ہم تو وہیں آئے تھے‘‘۔ مسز ہاشم نے کہا۔
’’نہیں میم! یہ میری وہی شاپ ہے‘‘۔
وہ سب حیرانی سے نگاہیں دوڑانے لگے۔
’’اصل میں ہم نے سیل آئٹم بدل دیا ہے،نئی سیٹنگ کی ہے‘‘۔ حامد کہنےلگے۔
’’تو کیا اب جینز کرتیاں وغیرہ بالکل نہیں ہیں آپ کے پاس؟آپ کا تو ڈسپلے ہی اتنا ایٹریکٹو ہوتا تھا کہ ہم جلدی پسند کر لیتے تھے۔ کیا سیل نہیں ہو رہی تھی آپ کی ؟‘‘
مسز ہاشمی نے کئی سوال کر ڈالے۔
’’نہیں میم!سیل تو بہت اچھی تھی آج کل تو وہی کچھ پسند کیا جاتا ہے‘‘۔
’’تو آپ نے چلتا ہؤا بزنس چھوڑ کر اتنا رسک کیوں لیا؟‘‘
مسز ہاشمی کے سوال پر حامد صاحب تڑپ اٹھے۔
’’میم!رسک پر تو میں پہلے تھا جس کا مجھے احساس نہ تھا۔ شکر ہے

’’میم!رسک پر تو میں پہلے تھا جس کا مجھے احساس نہ تھا۔ شکر ہے مزید نقصان سے بچ گیا‘‘۔
’’مطلب؟کیا بزنس پارٹنر نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا ہے؟‘‘ مسز ہاشمی نے قدرے افسوس سے پوچھا۔
’’نہیں ایسا بھی نہیں،میرا تو کوئی بزنس پارٹنر نہیں ہے،یہ میرا اپنا بزنس ہے‘‘۔
گفتگو ایسے موڑ پر آ گئی تھی کہ انہیں بات جاری رکھنا پڑی’’آپ ہماری پرانی کسٹمر ہیں تو آپ کو بتا دیتا ہوں‘‘۔
اب بچے بھی قدرے شوق سے سننے لگے۔حامد صاحب کہنے لگے۔
’’ہم سارے دوکاندار ہر سال جشن میلاد نبیؐ مناتے ہیں فنڈنگ کر کے مارکیٹ کو سجاتے ہیں،لائٹننگ کرتے ہیں تو اسی سلسلے کی تیاری تھی کہ نبیؐ کریم کا جشن ہے،دھوم سے منانا چاہیے کہ ایک صاحب اختلاف کرنے لگے،گرما گرم بحث ہو گئی۔اسی دوران وہ کہنے لگے کہ ’تم لوگ سمجھ رہے ہو آقا ؐتمہاری سجاوٹ سے خوش ہوں گے۔کیا وہ نہیں دیکھیں گے کہ ساری مارکیٹ میں ڈسپلے کے نام سے بت سجے ہوئے ہیں۔ایسے لباسوں سے دوکانیں بھری ہوئی ہیں جنہیں پہننے سے نبی نے منع کیا ہے‘‘۔
’’اتنے میں میری کسٹمر آ گئیں اور میں ان کو ڈیل کرنے لگا۔ان کی ڈیمانڈ پر مجھے ایک ڈمی پر سجا لباس اتار کر دینا پڑا۔خیال آتا رہا میری دوکان میں بھی تو وہی کچھ ہے جسے نبیؐ کریم نے ناپسند کیا ہے۔مجھے اک جرم کا احساس ہوتا تھا بس پھر میں نے سیل آئیٹم بدل دیا‘‘۔
پہلی بار فیصل نے گفتگو میں حصہ لیا۔
’’انکل!آپ نے تو سب کچھ چینج کر لیا مگر باقی ساری شاپس میں تو یہ ہی کچھ سیل ہو رہا ہے ہم آپ سے نہیں تو کہیں اور سے لے لیں گے‘‘۔
’’تو بیٹا! وہ آپ کی مرضی ہے مگر میں مطمئن ہوں کہ نبیؐ کریم کے سامنے شرمندگی سے بچ جاؤں گا۔میرے پاس بیسٹ کاٹن ورائٹی ہے آپ چاہیں تو اس میں سے پسند کر لیں‘‘۔
مگر سوہا اور فیصل نے باہر قدم بڑھا دیےتھے۔مسز ہاشمی بھی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں’’جب ضرورت ہوگی تو آپ کی شاپ پر ضرور آئیں گے‘‘۔
وہ دوکان سے باہر آ تو گئیں لیکن حامد صاحب کی باتوں نے ان کے اندر کی عورت کی سوئی فطرت کو جگا دیا تھا۔غیر ارادی طور پر انہوں نے اپنا دوپٹہ کھلے بازوؤں پر پھیلا لیا۔اس وقت مال میں گاہکوں کی زیادہ چہل پہل نہیں تھی۔بچے ان سے چند قدم آگے جا رہے تھے۔سوہا کی ہائی ہیل کی ٹک ٹک فارغ بیٹھے دوکانداروں کو متوجہ کر رہی تھی۔سیاہ کیپری میں سے جھانکتی پنڈلیوں کی دمکتی جلد پر بہت سی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ اچانک چلتے چلتے اس کا توازن قدرے بگڑا جسے اس نے جلد ہی سنبھال لیا تھا مگر چار قدم پیچھے چلتی مسز ہاشمی نے بچشم خود دیکھا کہ دوکانداروں نے آپس میں نظروں کا تمسخرانہ تبادلہ کیا اور ایک نے تو باقاعدہ کہا۔
’’ذرا سنبھل کے گڑیا‘‘
اور سوہا سب کچھ شان بے نیازی سے نظر انداز کرتی ہوئی آگے ہی آگے بڑھتی چلی جارہی تھی۔یہ منظر دیکھ کران پر طرح طرح کے احساسات نے بیک وقت یلغار کر دی… غصہ، دکھ، افسوس، پشیمانی…. انہوں نے بے دلی کے ساتھ بچوں کو ان کی من پسند خریداری کروائی اور گھر کی راہ لی۔
شاپنگ سے واپس آکر وہ ہمیشہ خرچ کیے ہوئے پیسوں کا حساب کتاب کرتی تھیں۔آج بھی وہ حساب کتاب کر رہی تھیں مگر آج کا حساب کچھ مختلف تھا۔وہ سوچ رہی تھیں کہ جس انقلاب نے ان کے دل پر دستک دی ہے اب اسے اپنی اولاد میں برپا کرنے کےلیے انہیں کتنی محنت اور وقت درکار ہوگا؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here