۲۰۲۲ بتول جولائیثقافت - بتول جولائی۲۰۲۲

ثقافت – بتول جولائی۲۰۲۲

موبائل پر نمبر ملا کر حال احوال بتا کر انہوں نے بڑی امید کے ساتھ لائن پر موجود مہک سے پوچھا۔ ’’آپ کے کام کا کیا بنا ؟ ‘‘ کچھ دیر مہک کی بات سنتی رہیں پھر مایوس سا اللہ حافظ کہا اور کال ختم ہو گئی ’’ چلو کہیں نہ کہیں سے مل ہی جائے گا چرخہ‘‘ پھر یکدم خیال آیا کہ مس افشین سے’’چکی‘‘ کی بابت پوچھ لوں انہیں کال کی بجائے پیغام لکھ کر واٹس ایپ کر دیا اور حیران کن حد تک جلد ہی جواب آگیا ۔ ’’جی چکی کا انتظام ہو گیا ہے، کل ملازم بھیج کر خالہ شکیلہ کے یہاں سے اٹھوا لیں،کافی بھاری ہے ‘‘۔ جواب سن کر ذرا سا مطمئن ہو گئیں مگر خیال پھر مس مہک کی جانب چلا گیا کہ ان سے کام نہیں ہو سکا۔ اتنے میں مس مبین کی کال آگئی۔ ’’ہاں مبین تو بہت ایکٹو ہے جس کام کی ذمہ داری اٹھا لے کر ہی لیتی ہے‘‘ انہوں نے موبائل سکرین کو امید بھری نگاہوں کیساتھ دیکھتے ہوئے سوچا۔ پھر جو کال ریسیو کی تو پتہ چلا کہ مدھانی و کڑھتنی کا انتظام بھی ہو گیا ہے۔ اور یہ کہ مبین صبح آتے ہوئے سکول وین میں لے بھی آئے گی۔ چلو یہ بھی ہو گیا اور اب زرا مس زاہرہ کلثوم کو بھی یاد کروا دوں ۔ انہیں پیغام لکھ ہی رہی تھیں کہ سکرین کے اوپر ان کا واٹس ایپ پیغام چمکنے لگا انہوں نے پیغام کھول کے فوراً پڑھا۔ ’’السلام علیکم میم ۔ محلے سے دو عدد حقے مل جائیں گے ایک مٹی کا اور ایک سٹیل قسم کا ہے لیکن نالیں دونوں کی لمبی اور پانی کے پائپ جیسی ہیں‘‘۔ سکول کے لیے کونسا ہونا چاہیے ‘ ۔ ’’دونوں‘‘ جواب کے ساتھ انہوں نے ایک سرخ گالوں والا ایموجی بھیجا۔ ’’جی ٹھیک ہے ۔ ایک تو صبح ملے گا مگر ایک کلچرل ڈے پر ہی مل سکے گا ‘‘ زاہرہ کا جواب آیا ۔ ’’کیوں ؟وجہ ‘‘ انہوں نے مصنوعی خفگی سے کہا ۔ ’’میم ! ان کی اماں جی (دادی) حقہ شوق سے اور باقاعدگی سے پیتی ہیں ‘‘۔ زاہرہ نے بھی جواب کے ساتھ بتیسی والا ایموجی بھیج دیا ۔ اوکے ۔ اب کے انہوں نے پھر شرمیلا سا ایموجی ہی بھیجا ۔ کال ختم ہونے کے بعد باقی کے کاموں کا جائزہ لیا ۔ پھر انہیں یاد آیا کہ لالٹین کے بارے میں پوچھنا ابھی باقی ہے اس کے لیے بھی مس صائمہ کو پیغام لکھ کے واٹس ایپ کر دیا ۔ کچھ اشیاء بچوں نے لے کے آنی تھیں سو وہ کل سکول میں ہی پوچھا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی ابھی کلچرل ڈے کے لیے کچھ دن باقی ہیں۔ دراصل وہ اپنے سکول میں بنجابی ثقافت کے دن کی تیاری کر رہی تھیں جس کے بارے میں حکومت کا آرڈر تھا کہ بچوں کو اس ثقافت سے آگاہ کیا جائے جس کی روایات اب ختم ہوتی جا رہی ہیں اور کچھ ختم ہونے کے قریب ہیں۔وہ اس آرڈر پر بھی اچھے طریقے سے عملدرآمد کرنا چاہتی تھیں اور یہ چاہتی تھیں کہ ہمیشہ کی طرح ان کاسکول اس دفعہ بھی باقی سکولوںسے اچھا کام کرے۔ اس دن کی تیاری کے لیے انہوں نے اساتذہ کی میٹنگ کال کی، مشورے لیے،کام تقسیم ہوئے اور سب اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں لگ گئے۔ اب جناب کوئی ریڈیو لا رہا ہے تو کوئی پرانی آڈیو ویڈیو کیسٹس، کوئی تہبند اور دھوتی لا رہا ہے تو کوئی دادی کے ہاتھ کی کڑھائی کی ہوئیں دو سوتی،چار سوتی چادریں گھر کی پیٹیوں سے نکال کر لا رہا ہے تو کوئی گول تکیے چودھری کی چارپائی کے لیے اور حقہ ،پرانی طرز کی میز ، چھینکا، (بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والے محاورے والا ) پرانی کڑھائی کے نمونوں والی بیڈ شیٹس، پراندے ،پرانے طرز کے تولیہ سٹینڈ، مٹی کے رنگ برنگے برتن اور بہت تلاش بسیار کے بعد ایک ٹیچر کے گھر سے لالٹین مل گئی جس کا رنگ روپ گئے زمانوں کی چغلی کھا رہا تھا ۔ سب اس لالٹین کے گرد ایسے اکٹھے ہو گئے جیسے بچے بندر کا تماشہ دیکھنے ۔ سب اپنے اپنے بچپن کی یادیں لالٹین اور مٹی کے دیے سے جوڑنے لگے کہ جب مٹی کا تیل ڈال کر چھوٹا سا ڈھکن بند کرتے اور جب سائڈ والی ہک دائیں بائیں گھما کر لالٹین کی روشنی کم زیادہ کرتے اور سب سے زیادہ ڈانٹ اس کے اوپری گول حصہ پر لگی ہک کو اٹھا کر اس کا شیشہ باہر نکالنے پر پڑتی۔ لالٹین کو چاندی رنگ کا سپرے کرنے کے بعد اس کے فرانسیسی شیشے کو چمکایا گیا تو ملکہ وکٹوریہ سی دکھنے لگنی۔ وہ دوسرے سکولوں کی خبر بھی لے رہی تھیں کہ وہاں کیسا کام ہو رہا ہے ۔ اور یہ فکر بھی کہ کسی اور کا کام ان سے بڑھ کر تو نہیں۔ کھانے پینے کے سٹال جن میں گول گپے ،دہی والی چاٹ، سموسے جبکہ مہمانوں کے لیے مکئی اور باجرے کی روٹی، ساگ، مکھن اور لسی پیش کی جائے گی۔ پھر باری آئی ہاتھ کی بنی اشیاء کی۔ بچے ماچس کی تیلیوں ، آئس کریم کی سٹکس اور کولڈ ڈرنکس کے پائپوں کی مدد سے گھر ، جھولے، پنکھیاں، بیڈز،گڑیا کے کھلونے اور دیگر بہت سی چیزیں بنا بنا کر لانے لگے، مٹی کا چولہا ،ا نگیٹھی اور مٹی کا گھر جس میں پلاسٹک کا ٹریکٹر کھڑا کیا گیا تھا،صحن میں چونترہ اور اس پر سجائے برتن،ایک طرف چھوٹا سا جھاڑو اور بیرونی دیوار کے ساتھ بکری اور گائے کھڑی کی گئی تھیں۔ صحن کے بیچوں بیچ درخت اور اس کے سائے میں چارپائی۔۔ گھر کی کچی چھت پر ایک مرغ بانگ دینے کو تیار کھڑا تھا۔ اسٹیج پروگرامز کے لیے گڈی گڈے کی شادی، روائتی گیمز (کوکلہ چھپاکی ، اونچ نیچ کا پہاڑ، لکا چھپی، گوٹ گیند،نیلی پری آنا،خانہ خانہ)روائتی فنکاروںکی پیروڈی، معاشرتی روائتوں پر مبنی خاکے (پھوپھو راضی کرنا ، دادا جی آگئے، سکول کیسے جائیں، مل کر کھائیں) پرانا کلاس روم اور استاد،پرانی شادی، ورائٹی ڈریس شو فائنل کیے گئے۔ بچوں نے گڈی گڈے کی شادی کے لیے بری، زیور ، میک اپ بکس اور ڈولی تیار کی۔ پرانے زمانے کے استاد صاحب کے لیے پگ ، تہبند ،کھسہ اور حقے کا انتظام کیا گیا۔ بچوں کو پرانی نظم ’’ک
الیے تموڑیے کالے کپڑے پانی ایں ۔ لوکاں نوں ڈرانی ایں ‘‘ یاد کروا کر اسے پڑھتے ہوئے تحتی خشک کرنا سکھایا گیا اور پرانی لوری ’’ الڑ بلڑ باوے دا ، باوا کنک لیاوے دا ‘‘ یاد کروائی گئی۔ انور مسعود کی پنجابی نظم ’’جنت‘‘ پر ٹیبلو تیار کیا گیا جبکہ ساری دنیا کو ہنسانے والے کامیڈی کے بادشاہ امان اللہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کی پیروڈی تیار کی گئی۔ ورائٹی ڈریس شو کے لیے دولہا دلہن، ہیر رانجھا ،سوہنی مہینوال ، عارف لوہار،نورجہاں ،منی بیگم، سلطان راہی، مصطفیٰ قریشی، فقیر ، ونگاں چڑھانے والی ،گجرات کے تین ہیروز میجر عزیز بھٹی، میجر شبیر شریف ، جنرل راحیل شریف اور پس منظر میں ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘‘ ، مصور پاکستان اقبال اور سب سے آخر میں پنجاب کی مٹیالی دھرتی کو اپنے خون پسینے سے سر سبز و شاداب کر دینے والے کسان اور اس کی بیوی ، ہاتھ میں برما ،درانتی اور چنگیر پنکھی لیے آئیں گے۔اور پس منظر سے پنجابی میں اناؤنس کیا جائے گا کہ یہ وہ محنتی لوگ ہیں کہ جن کی کھیتوں سے محبت آپ کے گھر میں کبھی اناج کو ختم نہیں ہونے دیتی۔ فیصلہ کیا گیا کہ فقیر اسٹیج سے نیچے اتر کر مہمانان گرامی سے مانگے گا اور چوڑیوں والی انہیں ونگاں چڑھا لو کی آواز دے کر چوڑیاں بیچے گی۔ چودھری کی حویلی صحن میں بنائی جائے گی۔جہاں وہ حقہ پیتے اپنی پنچائیت لگائے بیٹھا ہو گا ۔ مہمان خصوصی کو ساگ ،مکئ اور مکھن چودھری کی حویلی میں کھلایا جائے گا۔ باہر سڑک تک وہ گاڑی میں آئیں گے جبکہ سڑک سے سکول تک تانگے پر سفر کرایا جائے گا۔ چودھرانی بن سنور کر کڑھی ہوئی چادر بچھی چارپائی پر بیٹھی ہو گی۔ اس کی نوکرانیاں صحن میں مدھانی کڑھتنی پر لسی اور چرخے بیلنے پر دھاگہ بٹ رہی ہوں گی۔ ثقافتی اشیاء کی نمائش کے لیے کمرہ سجایا جائے گا اور مہمانان گرامی کی آمد پر بیرونی گیٹ پر پنجاب کی شان ڈھول بجایا جائے گا۔ یہ سب تیاریاں جاری تھیں، مگر چرخہ ابھی تک کہیں سے نہ ملا تھا ۔ کئی جاننے والوں کو پوچھا گیا۔ہر جگہ سے یہی جواب آیا کہ چرخہ کچھ دن پہلے تک تو تھا مگر پھر جلا دیا ۔ جلائے جانے کی بات ناقابل برداشت تھی۔ آہ پرکھوں کی نشانی جلا دی۔ آہ ۔ ایک جاننے والے نے بتایا کہ ہیڈ مرالہ کے ایک نواحی قصبے میں ان کے رشتہ داروں کے ہاں چرخہ موجود ہے ۔ بہت خوشی ہوئی سن کر ۔ اور یہ سن کر خوشی بڑھ گئی کہ وہ ایک شادی میں شرکت کے لئے وہاں جا رہے ہیں بس پھر کیا تھا ،ان کوخصوصی تاکید اور درخواست کی گئی کہ چرخہ ان سے ہر صورت مانگ لائیں۔ ان کے جانے کے بعد ان کی واپسی کا انتظار کیا جانے لگا۔ مگر وہ واپسی پر کوئی اچھی خبر نہ لائے ۔ کہنے لگے کہ جن بزرگوں کا چرخہ تھا ان کے پوتیوں پوتوں نے اس چرخے کو سجا اور سنوار کر ان کی نشانی کے طور سینے سے لگا رکھا ہے۔چرخہ نہ ملنے کا قلق ضرور تھا مگر کیں نہ کہیں اندر سکون بھی ملا کہ ایسے بچے بھی ہیں جو والدین کی نشانیوں کو حرزِ جاں بنا کر رکھتے ہیں۔ لو جی اب دوبارہ چرخے کی تلاش شروع ہوئی ۔ اور بھی کافی جگہوں سے پتہ کروایا مگر نہیں ملا ۔ باقی سب تیاریاں عروج پر تھیں بس یہی ایک چرخہ نہ ملنے کی فکر تھی انہیں۔ سب آ فس میں اس پر ڈسکس کر رہے تھے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے ، بحث جاری تھی کہ ملازمہ چائے لے کر اندر آئی اس کے کانوں میں چرخے کی تلاش کی بات پڑی تو کہنے لگی کہ چرخہ تو مجھے کسی نے بالن کے طور پر استعمال کرنے کے لیے دیا تھا۔ سب نے چونک کر دیکھا ۔ انہوں نے فوراً پوچھا کہ جلا تو نہیں دیا ؟ جواب آیا ’’نہیں‘‘۔ سب نے شکر ادا کیا اور چرخہ سکول منگوا لیا گیا ۔ بس اب جو چرخہ سکول آیا تو کیا اساتذہ کیا بچے سب اس کے گرد ایسے اکٹھے ہو گئے جسے وہ مکہ مدینہ کی زیارت کر کے آیا ہو ۔ سب اسے محبت بھری نگاہوں سے دیکھ بھی رہے تھے اور اس کو چلانے کے طریقے بھی بتا رہے تھے۔چرخہ گرد سے اٹا ہوا تھا اور رنگت اڑی ہوئی تھی ۔ سائیڈ کی سوراخ والی لکڑیاں اور ان سے گزرنے والی سلاخ غائب تھی۔ دھاگہ بھی گرد سے اٹا ؛ پہیے کے گرد ایسا لپٹا ہوا تھا کہ کاٹ کر الگ کرنا پڑا ۔ اب جناب اس چرخے کی مرمت اور صفائی،لیپائی کا کام شروع ہؤا ۔ ملازم نے لکڑیاں تراش کر سوراخ کیے اور بازار سے لوہے کی سلاخ بنوا کر لایا ۔ براؤن اور کالا پینٹ ہو کر جب دھاگہ اس کے پہیے سے گزار کر سلاخ کے اوپر سے گزارا گیا اور پہیے کے ہینڈل کو پکڑ کر گھمایا گیا تو اس کی کانوں میں رس گھولتی گوگھ نے مسحور کردیا ۔ چرخہ کوئی معمولی چیز نہ تھی یہ بیتے ہوئے وقتوں کی کپڑے کی ایک چھوٹی سی مل تھی۔ اب چرخہ مل گیا تھا مگر اس بار مقابلہ سخت تھا۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ کیا گرلز کیا بوائز سب سکولز میں کم و بیش یہی تیاریاں چل رہی ہیں۔ماسٹر صاحبان نے تو گھڑ سواری۔کشتی،کبڈی،اکھاڑہ اور لاچہ کھسہ پہن کر خقے بھی منگوا رکھے ہیں۔ اب ثقافت تو ایک جیسی ہے ۔تو تیاری بھی ایک جیسی ہو گی ناں …..وہ یہ سوچ کر خود کو تسلی دے لیتیں ۔ سب کام تکمیل کو پہنچے ۔ اسٹیج پروگراموںکی تیاری دیکھی گئی۔ انہیں ایک بار ریہرسل کروائی گئی۔غلطیاں درست کروائی گئیں۔ ترتیب بتائی گئی۔ پروگرام کی اناوئسمنٹ پنجابی میں کروانے کا فیصلہ ہؤا۔ معزز مہمانان گرامی کو خوش آمدید نہیں بلکہ ’’جی آیاں نوں ‘‘کہا جائے گا۔ مائیک کے انتظامات کی ذمہ داری سلمان ( سکول کا ملازم )کو دی گئی۔ وہ سب تیاریاں مکمل کروا کر گھر کو روانہ ہوئیں اور جا کر کچھ دیر آرام کے لیے لیٹ گئیں۔ اور سوچنے لگیں کہ ایسا کیا منفرد کام کروایا جائے جو سب سے الگ ہو اور وہ اس بار بھی بازی لے جائیں۔ شام کے وقت موبائل کی
گھنٹی بجنے پر اسے پکڑا ۔ سکرین پر سلمان کا نام تھا ۔ ’’ہیلو…. جی سلمان….‘‘ انہوں نے کہا ۔ ’’جی میڈم! میں نے آپ کو بتانا تھا کہ سکول کا مائیک سسٹم مکمل نہیں ہے ۔ ایمپلی فائر تو ٹھیک ہے مگر مائیک کام نہیں کر رہا ‘‘۔ سلمان نے اطلاع کی ۔ ’’اوہ…. اب کیا کرنا ہے ۔ اس وقت مرمت ہو جائے گا ؟ ‘‘ انہوں نے فکر مندی سے پوچھا ۔ ’’میڈم کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ میں مائک مرمت کے لیے دے دیتا ہوں مگر آپ کی اجازت ہو تو کیوں نہ کل دن کے لیے مائیک پاس والی مسجد سے بھی منگوا لیں تاکہ کوئی مسئلہ نہ بنے‘‘ سلمان نے مشورہ دیا ۔ ’’پاس والی مسجد سے ؟‘‘ انہوں نے بھنویں اچکائیں۔ انہیں یاد آیا کہ سکول سے نکل کر موڑ مڑتے ہی ایک مسجد آتی تھی جس کے سامنے سے گزرتے ہوئے انہیں مسجد کے صحن میں بیٹھے ہل ہل کر سیپارہ پڑھتے ہوئے بچے نظر آتے تھے۔ وہ ہمیشہ سوچا کرتیں، یہ ان پڑھ غریب لوگ…. اپنے بچوں کو سکول کی تعلیم دلوانے کی بجائے مسجدوں اور مدرسوں کے حوالے کردیتے ہیں، اسی لیے ان کے حالات نہیں بدلتے، اب بھلا اس تعلیم کا کیا فائدہ! ’’ ہاں ہاں کیوں نہیں ضرور منگوا لو ۔ یہ تم نے بہت اچھا مشورہ دیا ‘‘ انہوں نے قدرے بیزاری سے کہہ کر موبائل بند کر دیا مگر ساتھ ہی ذہن میں جھماکہ سا ہؤا ۔ ’’مس…..جد! ‘‘ پھر انہیں اپنا بچپن یاد آیا، آبائی گاؤں کا چکر لگتا تو یہ وہاں دیکھا ہؤا معمول کا نظارہ تھا۔عصر کے بعد گاؤں کے باہر کچی سڑک پر بچوں کا کھیلنا اور قاری صاحب کو آتا دیکھ کر مسجدکو بھاگنا،مسجد کے احاطے میں وضو کرتے اورپھر سیپارہ لے کر صفوں پر بیٹھتے بچے دور ہی سے نظر آتے تھے۔ ایک طرف سب بچیاں دوپٹے اوڑھے اور دوسری طرف سب بچے رنگ برنگی ٹوپیاں پہنے اونچی آواز میں قرأت کرتے۔ کبھی کبھار قاری صاحب کی ڈانٹ بھی سنائی دیتی۔نماز کے لیے ان کی صف بندی کروانا، قرآن کی سورتیں یاد کروانے کے لیے انعام کا لالچ دینا، جمعہ کا دن ہوتا تو نماز جمعہ کی خصوصی تیاریاں۔ ان کے والد بتاتے کہ کانونٹ کے لیے شہر جانے سے پہلے وہ بھی اسی مسجد سے پڑھے تھےاور کئی سورتیں ان کو اب تک اسی وجہ سے یاد تھیں۔ نماز کی عادت تو چھوٹ گئی مگر جمعہ پڑھنے کا جو سبق قاری صاحب نے گھٹی میں ڈال دیا تھا وہ اب تک ان کےمعمول میں شامل تھا۔ وہ ساکت سی ایک کرسی پر بیٹھ گئیں اور اپنے سر پر ایک چپت لگائی۔ ’’جب میں تیاریاں کروا رہی تھی تو تم گھاس چرنے نکل گئے ؟‘‘ انہوں نے اپنے دماغ سے بات کی ۔ شرمندگی ہٹی تو آنکھوں میں چمک در آئی اور اپنی سب سے چست سٹاف ممبر کو کال ملا کر مسجد ،مدرسہ اور سیپارے سینے سے لگائے بچے اور قاری صاحب بھی ورائٹی ڈریس شو کا حصہ بنانے اور کھیتوں کے بیچوں بیچ ایک کچی مسجد کا ماڈل بنانے کا مشورہ دیا۔ساتھ رننگ کومنٹری کی ہدایت کی جس میں یہ تذکرہ ہائی لائٹ ہو کہ مسجد مدرسے ہمارے گاؤں کے ماحول کا خوبصورت حصہ ہی نہیں بلکہ ہمارے مذہب کی تعلیم کو فروغ دینے میں کتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں، انہی کی وجہ سے ہمارا دینی ورثہ نئی نسلوں تک منتقل ہوتا ہے۔ دوسری طرف سے’’فوری تعمیل ہو گی‘‘ کا جواب آیا۔ کلچرل ڈے آیا اور گزر گیا۔ اور اگلے دن ضلعی آفیسر کی کال آ گئی ۔ ’’ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آپ نے الگ کر دکھایا ….. محترمہ پورے ضلع کا کلچرل پروگرام ایک طرف اور آپکا مسجد مدرسہ اور قاری ایک طرف….. ہمیشہ ایک نئی سوچ دے جاتی ہیں…. بے شک مذہب ہمارے پنجاب کا بنیادی کلچر ہے ۔ اس طرف باقی سکولز کا دھیان نہیں گیا‘‘۔ اور وہ دل میں خدا کا شکر ادا کر رہی تھیں جو ہمیشہ کوئی اچھوتا خیال ان کے دماغ میں وحی کر دیتا ہے۔ ٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here