۲۰۲۱ بتول ستمبرتہذیب ہے حجاب -بتول ستمبر ۲۰۲۱

تہذیب ہے حجاب -بتول ستمبر ۲۰۲۱

ٱدنیا کا ہر مذہب اپنی ایک تہذیب رکھتا ہے اور اس تہذیب کے تناظر میں ہی مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حل تلاش کیے جاتے ہیں۔الحمدللہ ہمارا دین ایک مکمل تہذیب ہمیں دیتا ہے۔ جس کے اصول و ضوابط متعین ہیں۔ایک پاکیزہ سوسائٹی کیسے قائم ہوگی۔ صرف ہمیں احکامات ہی نہیں دیے گئے بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصولوں کی روشنی میں ایک پاکیزہ سوسائٹی ہمیں قائم کرکے دکھائی۔
ہم کہیں کہ یہ اصول و ضوابط خاص اس دور کے لیے تھے آج ان احکامات میں ترمیم وتبدل کی ضرورت ہے تو معاذ اللہ انسان کو تخلیق کرنے والا کیا یہ نہ جانتا تھا کہ قیامت تک حضرت انسان میں کیا کمزوریاں پیدا ہوسکتی ہیں؟اور کیا ان کے حل نہ بتائے ہوں گے؟ سورۂ الملک میں ارشاد ہے:
’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا‘‘۔
ہم ان اصول و ضوابط پر عمل نہ کریں،خود فساد کے بیج بوئیں،من چاہا لائف اسٹائل اپنائیں یعنی نیم کے درخت بو کر آموں کی خواہش رکھیں تو وہی فساد پیدا ہوگا جس کا سامنا اس وقت ہماری سوسائٹی کر رہی ہے۔خواتین پر تشدد کے پے در پے واقعات سامنے آرہے ہیں اور پھر سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ مدینہ جیسی اسلامی ریاست میں یہ کیا ہو رہا ہے؟سوال تو یہ بنتا ہے کہ کیا مدینے کی اسلامی ریاست والی تہذیب ہم نے اپنائی ہے؟
وہ باحیا معاشرہ ایک باحیا تہذیب کا پیدا کردہ تھا۔ہم حجاب کو سر پر پہنا جانے والا کپڑا خیال کرتے ہیں،یہ کہہ کر کہ حیا تو دل میں ہوتی ہے، اپنے باحیا لباس واطوار کے خیال سے بے گانہ ہوجاتے ہیں، اورالزام جنس مخالف کو دیتے ہیں کہ حیا ان کی نظروں میں ہونی چاہیے۔
یہ بات ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ حجاب محض سر پہنا جانے والا ایک کپڑا نہیں ہے بلکہ یہ ایک تہذیب کا نام ہے ۔وہ تہذیب جس کی صورت گری بہت وضاحت سے قرآن کی سورہ نور میں کر دی گئی ہے۔قرآن کے احکامات پر عمل کیا جاتا تبھی ہم ایک پاکیزہ سوسائٹی قائم کرتے۔ لیکن اگر ہم اِس تہذیب کے بجائے اُس تہذیب کے خوگر ہوں جو دنیا کی غالب تہذیب ہے اور پھر وہی سماج جنم لے جو مادر پدر آزاد ہے تو کیسے کہیں کہ اسلامی ریاست کہاں ہے……عورت تشدد کی زد میں ہے۔
تشدد بجائے خود بری چیز ہے چاہے مرد مرد پر تشدد کرے یا مرد عورت پر۔جنگل کا قانون ہے کہ طاقتور کمزور پر تشدد کیا کرتا ہے۔عورت چونکہ مرد کے مقابلے میں کمزور ہے اس لیے عموماً مرد کے تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔سوال یہ ہے کہ عورتوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ جتنی حقوق انسانی کی تنظیمیں عورت کے حقوق کے لیے شور کر رہی ہیں،جتنی بھی حقوق نسواں کے لیے اقوام متحدہ کی سطح سے لے کر ملکی سطح تک قانون سازی کی جارہی ہے، اس کے نتیجے میں تشدد بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔جرم پر سزا نہیں ملتی مگر میڈیا پر شہرت مل جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جتنا واویلا مچ رہا ہے اتنے ہی یہ واقعات بڑھ رہے ہیں۔
بات سمجھنے کی ہے کہ کیا سارے مرد ساری عورتوں پر تشدد کر رہے ہیں؟
توکیا عورتوں اور مردوں کی الگ بستیاں بسا دی جائیں؟ عورتیں عورتوں کے ساتھ رہیں اور مرد مردوں کے ساتھ….. کیونکہ یہ فضا بنائی جا رہی ہے کہ مرد قابل نفرت ہے……یہ مرد اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں گھروں میں رکھا جائے……نہ وہ ہمارے سماج کا حصہ ہوں۔

کیونکہ وہ تیزاب پھینک دیتے ہیں، وہ زخمی کرتے ہیں، وہ تشدد کرتے ہیں،سرعام عزت کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔لہٰذا اس قابل نفرت مخلوق سے علیحدگی ہی بہتر ہے۔
اگر سوچ کا یہی انداز ہے تو ہم جنس پرستوں کے لیے راہ ہموار اسی طرح ہوتی ہے۔دنیا بھر میں جو ہم جنس پرستی کے قوانین پاس ہو رہے ہیں ان کو جلا ملے گی اور دنیا ہم جنس پرستوں کی دنیا بن جائے گی۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جو مرد تشدد کر رہے ہیں ان کا تناسب معاشرے میں کتنا ہے؟ایسے مردوں کی ،ان بیمار ذہنوں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟اس کا مطلب ہے معاشرے میں جہالت موجود ہے، ڈپریشن اور فرسٹریشن موجود ہےاور اس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ اب ماہرین سماجیات و نفسیات بیٹھیں اور سوچیں کہ معاشرے کو جہالت سے نکالنے کا راستہ کون سا ہے؟ڈپریشن اور فرسٹریشن میں دھکیلنے والے عوامل کون سے ہیں جن کو دور کرنا چاہیے؟
اگر مردوں کی جنونیت سامنے آرہی ہے تو مردوں کےلیے تعلیم اور تربیت کا انتظام کیا جائے۔ان کو تعلیم و روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔جس معاشرے کے مرد دن بہ دن ناکارہ اور بیمار ذہن ہونے لگیں ، اس معاشرے کی بقا خطرے میں ہے۔کیونکہ قانون فطرت کے تحت عورت کمزور ہے مرد قوی ہے اور عورت اپنے دفاع کے لیے مرد کی طرف ہی دیکھتی ہے۔ملک کا دفاع بھی مرد کرتے ہیں خاندان کا دفاع بھی۔
عورت اور مرد ایک دوسرے کے خلاف دو متحارب گروہ نہیں ہیں بلکہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔قرآن نے انہیں لباس جیسی چیز سے خوب صورت تشبیہ دی۔وہ مل کر ایک خوبصورت خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں جو سماج کی اکائی ہے،جہاں بچے پروان چڑھتے ہیں اور معاشرے ترقی کرتے ہیں ۔
معاشروں کو صنفی طور پر تقسیم کر دینا،عورتوں کو مردوں کے خلاف کھڑا کرنا ، جرائم کو مشتہر کرنامثبت طرز عمل نہیں ہے۔ جرم کرنے والامجرم ہوتا ہے، عورت یا مرد نہیں۔ لہٰذا نفرت تشدد سے کی جائے کسی صنف سے نہیں۔نہ ہی تشددکو کسی صنف کے ساتھ مختص کیا جائے۔خود عورت بھی عورت پر تشدد کرتی ہے، تشدد میں معاونت کرتی ہے، تشدد پر ابھارتی ہے۔ اور مرد مردوں پر بھی تشدد کرتے ہیں۔
اسلامی شریعت میں عورتوں سے جڑا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا اسلام نے حل پیش نہ کیا ہو۔ اللہ نے عورتوں کی بھی حدود مقرر کر دی ہے اور مردوں کی بھی۔احکاماتِ حجاب دونوں اصناف کے لیے ہیں۔ پہلے مردوں کو نظر نیچی کرنے کا حکم ہے اور پھر عورت کو خود کو ڈھانپنے کا۔مردوں کے لیے بھی حدود مقرر کر دی گئی ہیں۔نکاح کے موقع پر جو آیات پڑھی جاتی ہیں اس میں لڑکے اور لڑکی دونوں کو خدا کا خوف دلایا جاتا ہے۔
اللہ کے ہاں مردوں کی قوامیت کی بنیاد پر ان کی سزا میں کوئی کمی نہیں ہوگی بلکہ جواب دہی ہوگی کیونکہ قوامیت محض برتری نہیں ذمہ داری ہے۔یہ ایک عورت کی خوش نصیبی ہے کہ اللہ نے اس کے لیے چار پہر ے دار شوہر، بیٹا، باپ،بھائی کی صورت میں پیدا کیے جنہیں اس کی حفاظت کا ذمہ دار بھی بنایا اور کفالت کا بھی۔عورت گھر کی ملکہ ہے، ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے تو بیٹیوں کی پرورش پر جنت کی بشارت۔
آئیں اسلامی تعلیمات کو عام کریں کہ یہی شاہ کلید ہے!
٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here