جب اردو محاورے وجود میں آ رہے ہوں گے تب نہ کوئی عالمی سیاست تھی نہ ہی دنیا نے گلوبل ولیج کی شکل اختیار کی تھی ۔ اُس وقت دلوں کودہلانے کے لیے سپر پاورز کے تنازعات بھی سامنے نہیں آئے تھے اور نہ ہی سائبر کرائمز کی ہنگامہ خیزیاں موجود تھیں ۔ محاورہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے تخلیق ہؤا تو کچھ عرصہ بعد لنکا میں سب باون گز کے مارکیٹ میںآگیا ۔ گویا بات صرف سری لنکا تک پہنچی ۔ پھر آیا ترکی کانمبر ۔ اردو لفظ ترکی زبان کا ہے جس کا مطلب ہے لشکری زبان ۔ بہرحال بہت عرصے سے ترکی دیکھنے کی خواہش دل میں تھی اوروہ بھی بہت سے مضبوط دلائل کے ساتھ ۔ صرف ایک پہلو مزاحم تھااوروہ تھا زبانِ یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم۔
جوعوامل ہمیں ترکی لے کر آئے ان میں سر فہرست حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار کی زیارت کرنا تھا ۔ ترکی سلطنت عثمانیہ کا مرکز رہ چکا ہے۔ خلافتِ عثمانیہ نے دنیا کے بڑے حصے پر صدیوں حکومت کی جو عالم اسلام کا ایک کامیاب دور تھا ۔ پچھلے دنوں ٹی وی سے دکھائی جانے والی ارطغرل سیریز نے بھی عوامی حلقوں میں ترکی کی شہرت کردی تھی ۔اس کے علاوہ ترکی شاید وہ قریب ترین ملک ہے جہاں کرونائی دور میں ویزا حاصل کرنا نسبتاً آسان تھا ۔ یوں بھی کرونا کے عالمگیر حالات کے پیش نظر بیشتر ممالک نے 15دن کے قرنطینہ کی شرط بھی مسافروں پر عائد کر رکھی تھی جبکہ ترکی نے یہ شرط عائد نہیں کی تھی ۔
تازہ ترین دلیل یہ بنی کہ رجب طیب اردگان جو ترکی کے صدرہیں ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو جانتے ہوئے خواہش پیدا ہوئی کہ اپنا برادر ملک ہم بھی دیکھیں ۔ انہی دنوں ڈاکٹر قدیر خان کے کالم نے بھی ترکی کے سفر کو مزید مہمیز دی جس میں محسن پاکستان نے ترکی کے قابل فخر صدر رجب طیب کے حوالے سے بہترین معلومات شیئر کیں مثلاً یہ کہ وہ حافظ قرآن اور باعمل مسلمان ہیں ۔ مسجد آیا صوفیہ کے افتتاح کے موقع پر ان کا خوش الحانی سے قرأت کرنا پوری دنیا میں مشہور ہؤا ۔ عالم اسلام کی بھرپورترجمانی کرنے میں رجب طیب کبھی پیچھے نہیں رہے۔ عرب اسرائیل تنازعہ ہو، مسئلہ کشمیر ہو یا روہنگیا کے مسلمانوں کی بے دخلی کامعاملہ ہو، موصوف نے مسلمانوں کا موقف بہت بھرپور اور مصلحتوں سے بالا تر ہو کر پیش کیا۔
عقیدت اور احترام کے جذبات لیے ہم کراچی سے استنبول روانہ ہوئے۔ گزشتہ ایک سال سے دنیا بھر میں کووڈ 19 کے حملوں پہ حملے جاری ہیں ۔ دنیا کے بیشتر ممالک لاک ڈائون کی لپیٹ میں ہیں ۔ لاکھوں لوگ اس وبا کی نذر ہوکر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں ۔ ان حالات میں تقریباً ایک سال بعد ہم کراچی ائیر پورٹ دیکھ رہے تھے جہاں ہُو کاعالم پایا ۔ وہ رونقیں چہل پہل اور گہما گہمی غائب ۔ یہاں کی تو راتیں بھی جاگتی تھیں پتہ نہیں چلتاتھا کہ اس وقت دن ہے یا رات ۔ مگر اس بار خاموشی اور سناٹا تھا ۔ فلائٹیں محدود کردی گئی تھیںتومسافروں کی تعداد بھی کم رہ گئی ۔ائیر پورٹ کے دیگر شعبے اور ان میں کام کرنے والے ملازمین بھی بس گنتی کے نظر آرہے تھے گویا رونق کو گہن لگ گیا ہو۔ بہر حال یہ بھی حقیقت ہے کہ کرونا کی لپیٹ میں آنے والے ممالک میں مسلم ممالک کی تعداد تھوڑی ہی ہے مسلمانوں پر اللہ کا کرم ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں متاثرین کی تعداد بہت کم ہے ۔ لازم ہے کہ ہم دل سے الحمد للہ کا اقرار کریں۔
ترکی میں آج ہمارا پہلا دن ہے ۔ استنبول ایر پورٹ بڑا ، خوبصورت اور جدید طرز کا ہے ۔ ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہی خوبصورت قدرتی مناظر ، پارک ،مساجد اور معیاری سڑکوں کاجال دکھائی دیتا ہے بیشمار فلائی اوور اور انڈرپاس شہر کی شان دوبلا کرتے ہیں ۔ بات پھر وہیں پر پہنچتی ہے کہ باصلاحیت اورمخلص قیادت نے ترکی کوترقی یافتہ بنانے اور ٹورسٹ کے لیے پر کشش بنانے کے لیے زبردست محنت کی ہے ۔ یہاں تعلیم اور صحت کابجٹ دفاع کے بجٹ سے زیادہ ہے ۔ یہاں استاد کی تنخواہ ڈاکٹر کی تنخواہ کے برابر ہے ۔ ترکی کے معاشی حالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے سالوں میں 47ارب ڈالر کا بجٹ خسارہ تھا وہ خسارہ ختم کیا ۔ ساتھ ہی ورلڈ بینک سے حاصل شدہ قرضے کی ادائیگی بھی کی اور آج ملکی خزانہ 150ملین ڈالر کا اضافہ ظاہر کررہا ہے ۔ صنعتوں اور برآمدات میں نمایاں کامیابی ہوئی ہے ۔ بجلی ملک کے 98فیصد گھروں میں پہنچ چکی ہے ۔ ترکی کی یونیورسٹیوں میں قرآن و حدیث کی تعلیم دوبارہ شروع ہوچکی ہے۔ حجاب پہننے پرپابندیاں اٹھالی گئی ہیں ۔ ایر پورٹ سے ہمارے ہوٹل پہنچنے تک جتنے بھی سائن بورڈز اور بینر دکھائی دیے وہ ترکی زبان میںتھے مگر رسم الخط انگریزی تھا ۔ خبر گرم ہے کہ ترکی نصاب میں عثمانی رسم الخط کو واپس لایا جا رہا ہے جو در اصل عربی رسم الخط ہے ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا :
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا توکیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
رجب طیب اردگان آپ کو پر خلوص جدوجہد اور جذبۂ ایمان کی پاسداری کرنے پر عقیدت اور احترام کے ساتھ ہدیہ تبریک!
استنبول شہر جدت اور قدامت کامجموعہ ہے یعنی جدید تعمیرات کی حامل عمارتیں ۔ آسمان کو چھوتے ٹاور ، میلوں طویل انڈر پاس اور شاہکار فلائی اوور جہاں ایک طرف ترقی کی شاہراہوں کا مژدہ سنا رہے ہیں تو دوسری جانب قدیم عمارتیں ، اینٹوں سے بنی سڑکیں اپنے قدیم ہونے کا اعلان کرنے کے باوجود اچھی حالت میں برقر ارکھی گئی ہیں ۔ کراچی شہرکے چند سال پہلے کے تعمیر شدہ فلیٹوں کی طرح نوحہ کناں نہیں کہ اب گرے کہ تب گرے۔کوڑا کچرا ، غلاظتوں کے ڈھیر ہم نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھنا چاہے مگرمایوسی ہوئی ۔ دیواریں اوربل بورڈ اشتہارات اورفضولیات سے پاک ملے ۔ ترکی پہنچ کر ’’ اپنے پن‘‘ کا احساب ہوتا ہے جہاں پانچوں وقت اذان فضا میںگونجتی ہے ۔ ہرتھوڑے فاصلے پرمساجد موجودہیں ۔
ہماری اپنے حکمرانوں سے گزارش ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور د یگر مغربی ممالک کی تقلید کرنے اور رول ماڈل بنانے کے بجائے ترکی کا مطالعاتی دورہ کریں کہ قدامت کوکیسے محفوظ رکھا جاتا ہے اورجدت کے زمینی حقائق کوکیسے اپنایا جاتاہے بس ضرورت ہے کچھ کرڈالنے کی لگن اورخلوصِ نیت کی !
٭…٭…٭