عید کے لیےخریدی سلیم شاہی جوتیاں گھروں میں رکھی رہ گئی تھیں ،اور نرم و نفیس جوتیاں پہننے والوں کے آبلوں سے خون رس رہا تھا۔کمخواب کے دبیز جوڑے ٹرنک میں دھرے رہ گئے تھے اور دھول مٹی میں غبار آلود پسینہ پسینہ وجود لیے نفوس ایمان کے سہارے منزل کی جانب گامزن تھے
تقسیم کے فورا ًبعد تاریخ کی عظیم ہجرت کا عمل شروع ہوچکا تھا۔مسلمان اپنے بھرے پرے گھروں پر حسرت بھری نگاہ ڈال کر آزادی کی حقیقی منزل پاکستان جانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کیا امیر کیا غریب سب کی آرزوؤں کا مرکز اور مٹی پاکستان تھی ۔کچھ علاقوں میں نسل در نسل ساتھ رہنے والے مسلمان اپنے ہندو پڑوسیوں کے بارے میں خوش گمان بھی تھے ،جو غیر جانبدار بنے دم سادھے گھروں میں بیٹھے تھے، البتہ ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں نے قیمتی ساز و سامان زیور نقدی پہلے سے تیار رکھا ہؤا تھا ۔ انھیں اندازہ تھا کہ کسی لمحے بھی ان کے نکلنے کا وقت آ سکتا ہے۔مسلم اکثریت کے بہت سے وہ علاقے بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے تھےجہاں مسلمان اس اطمینان سے بیٹھے ہوئے تھے کہ اب ہم پاکستان کا حصہ بننے جارہے ہیں۔سب سے تکلیف دہ واردات ان علاقوں کے مسلمانوں کے ساتھ ہوئی جو اپنے گھروں اور جائیدادوں کو چھوڑنے کے لیے اس بنا پر آمادہ نہیں تھے کہ ان کا پڑوسی ہندو سے برسوں پرانا ساتھ ہے اور وہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری لے چکا ہے،ان کی ماؤں کو اپنی ماتا اور بہنوں کو اپنی بہن کہتا ہے ۔اس لیے اسے محفوظ تصور کیا گیا ۔
دہلی میں پہاڑ گنج کا علاقہ چاندنی چوک کی وجہ سے مشہور تھا ، ہمارے والد صاحب مبارک علی اپنے والد احسان علی والدہ،اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے ،ان دنوں ریڈیو کی خبروں سے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہورہا تھا ۔لیکن اس محلے میں مسلمان نہ صرف فن پہلوانی میں ماہر تھے بلکہ اکھاڑوں میں ہونے والا ہر مقابلہ ان کے نام فتح کا پیغام لاتا تھا،رائفل، کارتوس اور تلواریں بھی ہر ایک کے پاس موجود تھیں ۔کچھ نہ کچھ تیاری پر تکیہ کیے بیٹھے تھے کہ اچانک پو پھٹتے ہی گولیوں کی بوچھاڑ نہ جانے کس سمت سے آئی کہ درودیوار چھلنی ہو گئے ۔
دادی بتاتی ہیں کہ اس وقت انھوں نے چاول دم پررکھے تھے کہ دادا باہر سے دوڑتے ہوئے آئے اور ضروری سامان ایک پوٹلی میں باندھنے کا کہہ کر چھت پر چلے گئے ۔دادی نے کچے پکے چاول تولیے میں لپیٹ لیے ،بھنےہوئے چنے اور پانی کے ساتھ زیور، دادا کے سونے کے کاروبار کا سونا بھی رکھ لیا۔ محلے میں ہر مسلمان گھر سے باری باری اذانیں دی جارہی تھیں ۔مسلمان چھتوں پر سے جوابی کارروائی میں فائر کھولتے تھے،لیکن وہ محدود ایمونیشن کو خرچ کرنے میں محتاط تھے ۔ایسے نازک وقت میں جری مسلمانوں نے گھروں سے نکل کر اپنی تلوار سے کئی حملہ آورہندوؤں کو واصل جہنم کیا ۔ان میں ہمارے دادا احسان علی بھی تھے جو بتاتے تھے کہ کئی ہندو اور سکھ حملہ اور ان کی تلوار کی زد میں آئے۔تلواریں ٹوٹ گئیں تو مسلمانوں نے فن پہلوانی کو آزمایا ۔ایک جتھے کو پسپا کر کے گھروں کو لوٹے تھوڑی دیر بعد ہی حملہ آوروں اور ایمونیشن کی مزید کمک پہنچ گئی ۔ جب کہ گھروں میں جوابی کارروائی کی جگہ رفتہ رفتہ خاموشی نے لے لی تھی ۔ہندوؤں اور سکھوں کو اندرونی حالات کا بخوبی اندازہ ہو چکا تھا ، چوک چوراہوں پر فاتحانہ قہقہوں کے بیچ اعلان کیا جارہا تھا کہ سب باہر نکل کر خود کو ہمارے حوالے کر دو ۔
یہ فیصلہ کن گھڑی تھی ،مسلمانوں کے لیے اب دو ہی راستے بچے تھے یا تو لڑتے ہوئے یقینی شہادت کو گلے لگا لیں یا خود کو بے رحم دشمن کے
حوالے کر دیں ۔لیکن بچوں اور عورتوں کی حفاظت کے سوال پر مسلمان کسی صورت سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں تھے۔ ایسے میں دادا نے ایک ایڈونچر سے بھرپور انوکھا فیصلہ کیا کہ تقدیر پر راضی رہتے ہوئے تدبیر کو آزمایا جائے ۔گھر میں موجود ہتھوڑا اور کدال اٹھائی اور گھر کی اس دیوار کو توڑنے لگے ۔جہاں مسلمانوں کے گھر برابر برابر تھے۔بچے ان کی تدبیر جان کر پر جوش ہو گئے تھے، اور والدین کے مدد گار بنے ہوئے تھے، مٹی جھاڑتے اور اینٹیں ہٹاتے ہوئے سب کے لبوں پر کلمہ شہادت جاری تھا ، برابر والے گھر میں قابل گزر سوراخ ہو گیا تو انھوں نے پہلے خود جھانک کر جائزہ لیا ۔معلوم ہؤا دیوار توڑنے کی آواز سے نہتے اہل خانہ خوفزدہ ہو گئے تھے ،انھیں تسلی سے منصوبے سے آگاہ کیا اور اس کے برابر والی دیوار توڑ کر قابل گزر سوراخ کیا ۔اسی طرح نہ جانے کتنے گھروں کی دیواریں توڑ کر اہل محلہ کا قافلہ بن گیا ۔
یہ قافلہ اگلے محلے کے گھر کی دوسری جانب سے باہر نکلا ۔مردوں کے ہاتھوں میں تلواریں اور چھریاں چاقوکے سوا سب نہتے تھے ۔ قافلہ بھرے پرے گھروں سے ہاتھوں میں پوٹلی کے برابر سامان لیے انجانی منزل کی جانب گامزن تھا ،کسی نے رہنمائی کر دی تھی کہ مسلمانوں کا کیمپ کہاں بنایا گیا ہے ۔باہر ایک عالم افراتفری تھا ۔گھنٹوں اور میلوں کے اس پیدل سفر میں راستے بھر حملہ آوروں کی ٹولیاں ٹکراتی رہیں ۔شہداء کی بے گوروکفن لاشیں چھوڑ کر زخمیوں کو گھسیٹتے ہوئے یہ قافلہ بھوک پیاس سے بلکتے بچوں اور عفت مآب ماؤں، بہنوں بیٹیوں کو حفاظتی حصار میں لیے ہوئے چلا جارہا تھا ۔72 رمضان المبارک کو پاکستان آزاد ہؤا ۔عید قریب تھی ، اس کی تیاری میں خریدی گئی سلیم شاہی جوتیاں گھروں میں رکھی رہ گئی تھیں ،اور نرم و نفیس جوتیاں پہننے والوں کے آبلوں سے خون رس رہا تھا۔کمخواب کے دبیز جوڑے ٹرنک میں دھرے رہ گئے تھے اور دھول مٹی میں غبار آلود پسینہ پسینہ وجود لیے نفوس ایمان کے سہارے منزل کی جانب گامزن تھے ۔ہر دم سنورے ،تیل کنگھی چوٹی کیے بال بکھرے اور چیکٹ ہو چکے تھے ۔جو سر کسی نے ننگے نہیں دیکھے تھے وہ اس وحشتناک ماحول میں بھی ڈھکے ہوئے تھے ۔
چلتے چلتے تیسرا دن ہو چکا تھا ۔ہر کچھ فاصلے پر دم بھر کو رکتے اور پھر چل پڑتے۔ پانی کا ذخیرہ ختم ہونے کو تھا،دادی نے ادھورے پکے کچے چاول نکال کر سب کو بانٹے،کسی نے اس بےسروسامانی کے عالم میں چنے نکالے، چند دانے ہر ایک کے ہاتھ پر رکھے جو سب کی دن بھر کی خوراک تھے ۔ان میں روزہ دار بھی تھے،جنھوں نے ان ہی چنوں سے روزہ کھولا ۔بالآخر وہ وقت بھی آگیا کہ طے یہ ہوا بچی کچھی خوراک اور پانی کے چند گھونٹ صرف بچوں اور عورتوں کو دیئے جائیں گے۔اچانک کسی نے خوشی اور جوش سے نعرہ تکبیر اللہ اکبر بلند کیا ۔سامنے مسلمان پناہ گزینوں کا کیمپ نظر آگیا تھا ۔
یہاں پہنچ کر ایک طویل لائن لگی ہوئی تھی، آگے دیگیں رکھی تھی اور کھانا تقسیم کیا جارہا تھا ۔یہ دیکھ کر ہی جان میں جان آگئی ۔دس سالہ ہمارے والد صاحب مبارک علی اور دادی سردار خانم اکثر اس وقت کا خاص طور پر ذکر کرتے تھے کہ جب سب لوگ لائن میں لگ کر کھانا لے رہے تھے والد صاحب کو بھی کہا گیا کہ کھانے کے لیے لائن میں لگیں۔لیکن لائن میں لگنے کی بجائے وہ ایک طرف چل دیے تھوڑی دیر بعد واپس آئے تو قریبی درخت کے بہت سے بڑے بڑے پتے ان کے ہاتھ میں تھے ۔ایک پتہ انھوں نے بچوں کے سامنے خود کھایا اور باقی بیوی بچوں کے ہاتھ پر رکھ دیئے کہ ہم کھانا مانگ کر اور ہاتھ پھیلا کر نہیں کھائیں گے،اوپر والا ہاتھ اچھا ہوتا ہے نیچے والا نہیں ۔یہ بات بیوی بچوں کی سمجھ میں آگئی ۔اور چند گھونٹ پانی سے یہ پتے سب نے کھا لیے اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔کسی نے مڑ کر ان دیگوں کی طرف نہیں دیکھا جن میں موجود خوراک اس وقت دنیا کی سب سے بڑی نعمت معلوم ہورہی تھی ۔اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے کیسے بہتر ہے کا ایسا یقین بچپن سے دادا نے بچوں کے ذہن میں بٹھایا ہؤا تھا کہ کسی نے نہ کوئی احتجاج کیا اور نہ ہی سوال
اٹھایا۔
کیمپ سے قافلے اسٹیشن کی جانب روانہ ہونے لگے۔ایسے میں اچانک بھگدڑ مچتی کہ ہندو سکھ حملہ آور ہو گئے ہیں ،اس افراتفری میں کتنی ماؤں سے ان کے لعل بچھڑ گئےجنھیں وہ پاگلوں کی طرح بھاگتے ہوئے لوگوں کے بیچ ڈھونڈتی رہیں ۔آزادی کے اس سفر میں شہادت یا بچھڑ جانے والے کتنے ہی چاند چہرے آنکھوں میں بسائے بے قرار روتی بلکتی مائیں دور تک پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتی ہوئی قافلوں کے ساتھ روانہ ہو گئیں، کیوں کہ بچھڑ جانے والوں کے انتظار میں قافلے رک نہیں سکتے تھے،کیوں کہ رکنا پورے قافلے کی موت کو دعوت دینے کے برابر تھا، اس لیے دلوں پر پتھر رکھ کر یہ سب لوگ اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گئے ، راستے میں سکھوں کے ایک بڑے جتھے نے انھیں گھیر لیا، جان کے بدلے مال کا مطالبہ کیا گیا، دادی نے اپنے کئی تولے سونے کے جڑاؤ زیورات اور دادا کا سونا ان کے سامنے زمین پر پھینک دیا۔ باقی قافلے والوں نے بھی جان کی قیمت زیورات دے کر ادا کی۔
اس مصیبت سے نکل کر پیدل یہ قافلہ مسلسل دو روز چلتا رہا، بھوک، پیاس، نیند تھکن سے چور ایک نسبتا پُر امن جگہ پڑاؤ ڈالا ۔کسی نے یاد دلایا آج کا دن بڑا ہی مبارک اور شکرانے کا ہے ،علی الصبح قافلے والوں کو یاد آیا آج سے پہلے تو وہ یہ دن کبھی نہ بھو لے تھے، خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کسی نے کہا ،آج تو میٹھی عید ہے نا!ہر سال خوشیوں کی سوغاتیں ساتھ لانے والی…بچوں کے لیے رنگ برنگے غباروں ، کھلونوں اور ہر ایک سے عیدی وصول کر کے جیبیں گرم کرنے والی…گرم گرم شیر خرمہ اور مٹھائیاں… پکوان …یاد تو ہر ایک کو آیا لیکن زبان پر شکر کے کلمات تھے ۔یاد بھی کیا کرتے! آج کی عیدتو خاک بسر عید تھی،کتنوں کے لیے یہ عید سعید نہیں عید شہید تھی ۔
جیسی بھی تھی عید تو عید تھی ۔خاک کی صفوں پر نمازی عید کی نماز کی تیاری کر رہے تھے،اللہ کی کبریائی کا اعلان ہو رہا تھا،تکبیرات نے سماں باندھ دیا تھا،ماحول سے خوف وہراس کے بادل رفتہ رفتہ چھٹنے لگےحمد و تسبیح نے دلوں اور ماحول پر سکینت طاری کر دی تھی،نماز کی نیت باندھ لی گئی ، سب عید کی ایک خاص کیفیت کو محسوس کر رہے تھے کیوں کہ جیسا بھی تھا ، آج عید کا دن تھا، خوشی کا تہوار…آرزؤوں اور امنگوں کی قوس و قزح کا حسین امتزاج … پژمردہ چہروں پر بھی آزادی کی پہلی عید کا تصور خوشیوں کے تروتازہ گلاب کھلا رہا تھا، جمعتہ الوداع کو پاکستان آزاد ہؤا اور اس کے دو روز بعد آزادی کی فضامیں پہلی عید منائی گئی ۔
آزادی کی یہ پہلی عید بھی نرالی عید تھی۔ ابھی نماز عید کی تکبیریں بھی پوری نہیں ہوئی تھیں، ابھی لوگ دوڑ دوڑ کر صفوں میں شامل ہو رہے تھے ، جبینیں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کو بیتاب تھیں ،خون آلود پیشانیاں خاک پر دھری تھیں کہ اچانک اس نہتے عید کے اجتماع پربہت منظم اور وحشیانہ انداز میں حملہ ہو گیا،نمازیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جانے لگا۔کچھ ہی دیر میں ہر طرف وحشت کا یہی کھیل شروع ہو گیا، ہر طرف سے مسلمانوں کے نماز عید کے اجتماعات پر حملوں اور قتل عام کی خبریں آنا شروع ہو گئیں۔مشرقی پنجاب اور اس سے ملحقہ ریاستوں پٹیالہ،کپور تھلہ، فرید کوٹ اور بہار میں آن کی آن میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا،عورتوں کو اغوا کر کے ان کے جلوس نکالے جارہے تھے،بچوں کو سنگینوں کی نوکوں پر اچھالا جا رہا تھا۔
یہ تھا آزادی کی عید کا پہلا دن!
جس میں سے خوشیوں کے سارے رنگ کالی ماتا کے پجاریوں اور کرپانیں اٹھائے سکھوں نے نوچ لیے تھے اور اسے اپنے خونی ہاتھوں سے لہور نگ قبا پہنا دی تھی۔ جس نے چنگیز اور ہلا کو کی وحشت کو شرما دیا تھا۔
اس روز ہلال عید نے بھی سیاہ بادلوں میں اپنا منہ چھپا لیا ۔تیز بارش شروع ہو گئی گویا اس روز چشم فلک بھی جی بھر کر روئی کہ آج اس کے آنسو تھمتے نہ تھےیا آنسو پونچھنے کی کسی میں تاب نہ تھی ۔چند ہفتوں کے اندر اندر پانچ لاکھ بے گناہ مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔
تاریخ آج انگشت بدنداں تھی کیوں کہ تاریخ میں آزادی کی اس سے بڑی قیمت شاید ہی کسی دوسری قوم نے چکائی ہو، تاریخ کے اوراق میں اس کی مثال کہیں موجود ہی نہیں تھی ، قربانیوں کی لازوال داستانیں نظریاتی مملکت کے بطن سے جنم لے رہی تھیں ۔
خون ریزیوں کی خبریں جب مسلم اکثریت والے صوبوں میں پہنچیں تو قدرتی امر تھا کہ وہ بدلہ لینے کی قدرت رکھتے تھے اور قریب تھا کہ وہ اپنے علاقوں کے ہندوؤں پر ٹوٹ پڑیں ایسے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک اپیل شائع کی جس کے الفاظ یہ تھے کہ میں خدائے عظیم سے دعا کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے دامن پر وہ بد نما داغ نہ لگے جس کا مظاہرہ مظلوم مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کر کے بہار میں کیا گیا ہے، ہمیں تہذیب و شرافت کو کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مسلمانوں پر جو مظالم ہو رہے ہیں اس سے ہمارا کلیجہ چھلنی ہو رہا ہے لیکن ہم مسلم اکثریت والے صوبوں میں بے گناہوں کو مار کر اپنا دل ٹھنڈا نہیں کریں گے میں مسلمانوں سے بزور اپیل کروں گا کہ وہ جہاں بھی اکثریت میں ہوں غیر مسلموں کی جان اور مال کی حفاظت کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہو کریں۔ اقلیت والے صوبوں میں مسلمانوں پر مظالم توڑے گئے ہیں، جو بے گناہ مسلمان شہید یا زخمی ہوئے ہیں یا جو مال و اسباب لوٹا گیا ہے ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی وہ سمجھ لیں کہ انھوں نے پاکستان اور آزادی کے لیے اپنا حق ادا کر دیا ۔ عظمت کردار کا ایسا نمونہ مردان حر کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے ، بمبئی، یوپی، بہار اور پھر دہلی میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس کا عشر عشیر بدلہ بھی ہندوؤں اور سکھوں سے نہ لیا گیا۔
در حقیقت پاکستان بننے کی تاریخ انگریزوں اور ہندؤوں کی سازشوں اور مسلمانوں سے ان کی بد عہدیوں کی تاریخ ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی عیاریوں اور انگریز سے ان کے اتحاد سے عبارت ہے۔ جب ان دونوں نے یہ جان لیا کہ وہ مسلمانوں کو آئینی طور پر شکست نہیں دے سکتے تو انھوں نے فسادات کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی ، ان کا واضح ہدف مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا تھا جب کہ مسلمانوں کی ساری جدو جہد ایک ایسے خطہ زمین کے لیے تھی جس میں وہ اسلامی اقدار اور اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں اور اس عظیم مقصد کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار تھے اور آج وہ موقع آگیا تھا کہ قوم کا بچہ بچہ ’’لے کے رہیں گےپاکستان بٹ کے رہے گا ہندستان اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ کے نعرے پر کٹ مرنے کے لیے تیار تھا۔
نئے سرے سے لوگوں نے ہمت پکڑی اور بچے کھچے قافلے کو جمع کیا گیا ۔ریلوے اسٹیشن پہنچے ۔اسٹیشن کے کیمپ میں ہر طرف سے ہزاروں مسلمانوں کے قافلے کیمپ میں پہنچ رہے تھے ۔سب کی حالت دگرگوں تھی۔ والد صاحب نے بتایا کہ جب وہ کیمپ میں پہنچے تو وہاں بھی کھانا آیا تو منتظمین نے لوگوں کی قطار یں بنوائیں تا کہ بدنظمی پیدا نہ ہو ۔
سب کے ہاتھوں میں برتن تھے اور وہ اپنی باری پر کھانے کے منتظر تھے۔ دادی نے دادا کو یہاں کھانا لینے کے لیے کہا۔ دادا ایک بار پھر کھانے کی تقسیم کی جگہ پہنچے ۔ یہ منظر دیکھ کر انھوں نے پہلے اپنے ان ہاتھوں کو دیکھا جنھوں نے ہمیشہ دوسروں کو دیا ہی تھا لیا کبھی نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے بچوں کو بھی نصیحت کرتے تھے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے لیکن آج وہ اور لوگوں کی طرح مال و اسباب اور جینے کے سارے سازوسامان سے بھرا پرا اپنا گھر بار چھوڑ کر صرف تن ڈھانپنے کے کپڑوں میں ملبوس یہاں موجود تھے، جو گاندھی خاندان کا زیور بنایا کرتے تھے۔ وہ ہجرت کی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے مفادات سے مقدم جانتے ہوئے نکلے تھے۔اتنے مصائب برداشت کر لینے کے بعد وہ ہاتھ پھیلا کر خود کو بوجھل کرنا نہیں چاہتے تھے ۔وہ قطار سے خالی ہاتھ لوٹ آئے ۔ پھر کہیں سے کچھ پکانے کا سامان لائے اور دادی نے اس سے میٹھی گولیاں تیار کیں جسے فروخت کر کے کھانے کا انتظام کیا گیا ۔ ان کی دیکھا دیکھی کیمپ میں اور لوگوں نے بھی اپنا پیٹ پالنے کے
لیے کچھ کھانے کی چیزیں تیار کرنا شروع کر دیں، کوئی مٹھائی بنا رہا ہے اور اسے اپنے لڑکوں کو فروخت کرنے بھیج رہا ہے جہاں وہ ’’بمبئی کی مٹھائی ریل میں بیٹھ کے آئی‘‘کہہ کرآوازیں لگا کر فروخت کر تے تھے۔
جلد ہی خبر آئی کہ یہاں سے منزل کی جانب کوچ کی تیاری ہے۔پورے ایک ماہ کے طویل انتظار کے بعد پاکستان جانے والی ٹرین میں آخر کار ان کے قافلے کی باری آگئی۔لوگوں کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے تھے،تکبیر کے نعروں سے فضا گونج رہی تھی ،اب سارے دلدر دور ہونے کا وقت آگیا تھا ۔وہ اپنی حقیقی آزادی کی منزل پاکستان پہنچنے کے لیے بیتاب تھے ، ٹرین اسٹیشن پر روانگی کے لیے تیار کھڑی تھی ، چند لمحوں میں ہی ٹرین مسافروں سے کھچا کھچ بھر گئی کہ اس میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی ، جب ٹرین میں جگہ نہ رہی تو لوگ ریل کے ڈبوں کی چھتوں پر سوار ہونے لگے۔ ریل کی آخری سیڑھی تک مسافروں سے بھر گئی ، انجن نے روانگی کی وسل بجائی اور اب ٹرین چند لمحات میں منزل کی جانب سفر آغاز کے لیے تیار تھی کہ اچانک ہماری دادی کو احساس ہؤا کہ ان کا بڑا بیٹا حبیب الرحمن ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی انھوں نے دادا کو آگاہ کیا، دادا دادی اور بچوں نے زور زور سے بیٹے کا نام پکارا کہ شاید کہیں ہجوم میں دبکا ہوا ہو ۔جب یہ یقین ہو گیا کہ ان کا بیٹا ریل میں سوار ہی نہیں ہؤا تو انھوں نے فوری طور پر اس ٹرین سے اترنے کا فیصلہ کر لیا۔ زادراہ تو نہ ہونے کے برابر تھا، بس بچوں کا ہاتھ پکڑ کر وہ نیچے اتر گئے۔ پیر زمین سے لگتے ہی وسل بجاتی ریل چل پڑی اور جس کے انتظار میں پورا مہینہ وہ کیمپ میں صبح و شام ٹرین کی آمد کا شدت سے انتظار کرتے رہے وہ تیزی سے ان کی نظروں سے دور ہو نے لگی۔
لیکن ابھی یہ سب سوچنے کا وقت نہیں تھا ۔ان کا چودہ سالہ بیٹا آخر کہاں بچھڑ گیا تھا ،وہ کس حال میں ہے،اس وقت وہ اسے کہاں ڈھونڈیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی ۔ اسی تلاش میں شام ڈھلنے لگی ۔ شام ڈھلی تو دشمنوں کے حملے کے خطرات بھی سروں پر منڈلانے لگے، درختوں کے گہرے سایے کسی آسیب کی مانند دکھائی دے رہے تھے، سامنے سے چند باوردی سپاہی گشت کرتے ہوئے ان کی طرف آرہے تھے، انھوں نے اس پریشان حال خاندان سے پوچھ کچھ شروع کر دی جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں ہیں اور ریل بھی اسی وجہ سے چھوٹ گئی ہے تو سکھ ہونے کے باوجود انھوں نے مدد پر آمادگی ظاہر کردی اس وقت اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا سو وہ ان کے ساتھ چل پڑے۔
راستہ بھر ان سپاہیوں نے ان کی حفاظت کی اور دیگر عملے سے پوچھ گچھ بھی کرتے رہے۔ جب ہی اطلاع ملی کہ ایک اس عمر اور حلیے کالڑ کا انھیں اسٹیشن پر روتا ہوا پریشان حال ملا تھا ، وہ بھی اپنوں سے بچھڑ گیا تھا،اور اسے وہ اگلے اسٹیشن اسی ٹرین میں سوار کرانے لے گئے ہیں ۔ یہ سن کر ان کی امیدیں دوبارہ ماند پڑنے لگیں لیکن اللہ نے انھیں مزید آزمائش سے بچالیا ،وہ لوگ ابھی اسی پریشانی میں شش و پنج کی کیفیت میں تھے کہ سامنے سے ایک سپاہی جو اُن سے مل کر گیا تھا وہ ان کے بیٹےحبیب الرحمٰن کو اپنے ساتھ لا رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ حبیب الرحمٰن ٹرین میں تو چڑھ گیا تھا لیکن غلط ڈبے میں سوار ہو گیا تھا اور جب اسے احساس ہوا کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں ہے تو وہ فورا ًٹرین سے اتر گیا۔
اب انھیں اگلی ٹرین کا انتظار تھا جس کی آمد کی ابھی تک کوئی خبر نہیں تھی۔ نہ جانے جب دوسری ٹرین میں ان کی باری کب آئے گی، وہ چھوٹنے والی ٹرین کے خوش قسمت مسافروں کے دمکتے چہروں کو یاد کر کے اداس ہورہے تھے جنھوں نے کیمپ تک ساتھ نبھایا اور ٹرین سے اترتے ہوئے بھی کہہ رہے تھے کہ بیٹا بھی آجائے گا تم باقی بچوں کی فکر کرو اور پاکستان جانے والی ٹرین نہ چھوڑو۔
کچھ گھنٹے اس غم کو ہلکا کرنے میں گزر گئے،ان سب کی ذہنی رو جانے والی ریل کے ساتھ ہی رواں دواں تھی ۔ اچانک اسٹیشن پر ہلچل سی مچ گئی ،سپاہیوں کے پاس کچھ خبریں تھیں، جنھیں وہ ایک دوسرے تک پہنچا رہے تھے اس وقت ہر ایک عجلت میں تھا، لیکن یہ خبریں وہ کیمپ والوں
سے چھپا رہے تھے ۔لوگ سہمے ہوئے تھے کہ شاید پھر حملہ نہ ہو جائے ۔ لاہور میں میزبانوں نے ٹرین کی آمد کی خبر سن کرخوب انتظامات کروائے تھے۔اطلاع یہ تھی کہ مسافروں کی بہت بڑی تعداد روانہ ہو چکی ہےاس لیے دو سو کھانے کی دیگیں پکوائی گئی تھیں، کیمپوں میں رہائش کا بدو بست ہو چکا تھا، پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کی تیاری ہو چکی تھی ، دلوں سے دل اور گلوں سے گلے ملنے کو بیتاب تھے۔
اور جب ٹرین کی آمد کی خبر ملی تو پلیٹ فارم نعرہِ تکبیر سے گونج اٹھا ۔ لیکن جواب میں کوئی نعرہ بلند نہ ہوا،شاید وہ لوگ تھکن سے چور گہری نیند کے خمار میں تھے ۔یا وہ سب منزل پر پہنچنے کی سرمستی میں مدہوش ہو چکے تھے۔ ٹرین کی رفتاررفتہ رفتہ دھیمی ہوتی گئی۔بالآخر وہ رک گئی ۔شاید یہ ٹرین غلطی سے خالی آگئی تھی ۔
لوگوں نے دروازے کو دھکا لگا کر کھولا تو اصل ماجرے کا انکشاف ہوا ۔ اس خاموش ٹرین میں ایک مسافر بھی زندہ موجود نہیں تھا۔ ساری ٹرین بہتے لہو اور شہیدوں کی لاشوں سے پٹی پڑی تھی!
یہ خبر سنتے ہی لاہور اسٹیشن پر کہرام مچ گیا، شہیدوں کی کھلی آنکھیں سوال کر رہی تھیں کہ کیا ان کی منزل آگئی ؟جس کی خاطر سالہا سال انھوں نے جدو جہد کی اور منزل پر پہنچ کر ، انھوں نے اپنی جانیں بھی وار دیں، میزبانوں کے ہاتھوں میں پھولوں کے ٹوکرے دھرے کے دھرے رہ گئے، پکوانوں کی دیگیں ٹھنڈی ہو گئیں ، جو ہاتھ آنے والوں کی خدمت کے لیے بیتاب تھے وہ اب ان کی قبروں کی کھدائی میں مصروف تھے۔ جو گلاب کے پھولوں کے ہار آزادی کے متوالوں کے گلوں میں ڈالے جانے تھے ،جو پتیاں ان کے شاندار استقبال میں نچھاور کی جانی تھیں ، وہ اب ان شہیدوں کی قبروں پر ڈالی جارہی تھیں ۔
جی ہاں !یہ تھا آزادی کی صبح کا ایک منظر!!
یہ داستان بیان کرنے کا مقصد نئی نسل کے سامنے یہ ثابت کرنا تھا کہ حصول پاکستان کے لیے لوگوں نے کس طرح آگ اور خون کے دریا پار کیے، خدا را یہ الفاظ محاورہ نہیں ہیں اس کے پیچھے اتحاد تنظیم اور یقین محکم کے اصول کار فرما تھے ، آج بھی ان ہی اصولوں کے تحت چل کر ہمارا بیڑا پار ہوگا، ان شاء اللہ ۔
داستان کا مختصر اختتام یہاں ہوتا ہے کہ اسٹیشن پر جو خبر چھپائی جارہی تھی وہ اسی ٹرین پر حملے کی تھی یہ روح فرسا خبر سماعتوں پر بجلی بن کر گری ، دل اس صدمے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ وہ جس ٹرین میں سوار ہوئے تھے وہ شام کے پھیلتے سایوں میں ایک ویران جنگل میں روک لی گئی تھی اور مسافرں سے بھری ہوئی پوری کی پوری ٹرین گاجر مولی کی طرح کاٹ دی گئی تھی۔ ٹرین کے آگے رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں اور اسلحہ اور تلواروں سے مسلح ہندو اور سکھ ٹرین میں داخل ہو گئے اور چن چن کر ایک ایک کو شہید کر دیا گیا تھا، کوئی زندہ نہیں بچا تھا، پاکستان کی بنیادوں میں ان شہید مسافروں کا لہو بھی موجود ہے جو بڑی تعداد میں ٹرینوں میں سوار تھے اور منزل کی طرف گامزن تھے کہ راستوں میں ہی انھیں بے دردی سے شہید کر دیا گیا ، لیکن ان کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نےشرف قبولیت یوں بخشا کہ یہ ٹرینیں پاکستان کے لیے ہندوؤں کی اذیت پسند ذہنیت کے مطابق آخری حربے کے طور پر آزادی کا تحفہ کہہ کر روانہ کردی جاتیں اور اس طرح ان شہیدوں کو پاکستان کی مٹی نصیب ہو جاتی۔
ہمارے دادا کا خاندان کیمپ سے اپنے ایک عزیز کے گھر چلا گیا اور حالات کچھ ماہ بعد جب معمول پر آئے تو ان میں سے کچھ لوگ پاکستان منتقل ہو گئے ۔
یہ داستان سفر آزادی سنانے والے اب ایک ایک کر کے رخصت ہو چکے ہیں ۔سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی یہ سچی داستان آزادی دراصل نئی نسلوں کا ہم پر قرض ہے ۔اسی سوچ کے ساتھ اسے منتقل کیا جارہا ہے ۔
٭ ٭ ٭
یہ ٹرینیں پاکستان کے لیے ہندوؤں کی اذیت پسند ذہنیت کے مطابق آخری حربے کے طور پر آزادی کا تحفہ کہہ کر روانہ کردی جاتیں۔