۲۰۲۲ بتول اگستبندروں کی توبہ - بتول اگست ۲۰۲۲

بندروں کی توبہ – بتول اگست ۲۰۲۲

’’مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان اتنا بھی پریکٹیکل اور محب وطن کیسے ہو سکتا ہے جتنا کہ محترمہ تسنیم عبدالقدوس ہیں ،استغفراللہ ،حد ہی ہو گئی ویسے ‘‘ نیلم نے ناک منہ چڑھاتے ہوئے اپنی اردو کی نئی ٹیچر کی شان میں کلمات ادا کیے۔
’’واقعی آنٹی ،نیلم بالکل صحیح کہہ رہی ہے۔ بلکہ سچ پوچھیں تو اس سے بھی زیادہ ،جب سے وہ ہمارے کالج میں آئی ہیں سارے کالج میں ان کی ذات کو ہی ڈسکس کیا جاتا ہے ۔عجیب سی عادتیں ہیں…. چلیں جی دوپٹہ سے چوبیس گھنٹے سر ڈھانپنا ،اپنی چیسٹ کو کور کرنا تو سمجھ میں آتا ہے اسلامیات کی منزہ عباسی بھی اسی طرح کی ہیں ویل کرنے والی…. دس سال کا بچہ بھی گزر جائے تو منہ ڈھانپ لیتی ہیں، مالی بابا تک سے پردہ کرتی ہیں ۔لیکن یہ تو بھئی ان سے سات ہاتھ آگے ہیں ،کوئی انڈین فلمیں نہ دیکھے انڈین فلمسٹاروں کو ڈسکس نہ کیا جائے کوئی بسنت یا ہولی کی بات نہ کرے اور تواور ہماری جی آر نے بولتے ہوئے چنتا کا لفظ بول دیا توبہ توبہ انہوں نے اس کا جو کریا کرم کیا جو شامت بلائی اللہ ہی معاف کرے ‘‘نیلم کی دوست عالیہ نے کہا ۔
’’اور عالیہ !مما کو یہ تو بتاؤ انہیں روزانہ نوٹس بورڈ پر پاکستان کی محبت میں شعر لکھنا کبھی نہیں بھولتا اور قائد اعظم کے لیے تو وہ جان بھی دینے کو تیار ہیں‘‘دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے استہزائیہ انداز میں کہا ۔
عالیہ کی آنٹی اور نیلم کی مما خود کرینہ کپور ،اکشے کمار کی دیوانی تھیں وہ بھی بہت دلچسپی سے بچیوں کی گفتگو سن رہی تھیں کہ عالیہ ایک دم چیخی ۔
’’آنٹی ،ایک بات تو بتانا ہی بھول گئی۔ وہ خود تو شلوار قمیض ہی پہنتی ہیں سٹوڈنٹس کو بھی پابند کرتی ہیں کہ وہ یہی پھٹیچر لباس پہنا کریں ، اردو بولا کریں، اردو بغیر ملاوٹ کے ،ایک لڑکی نے کہیں کالج فنکشن میں انڈین گانے پر ڈانس کرلیا….اوئے ہوئے ہوئے…‘‘،نیلم اور عالیہ نے بیک وقت کانوں کو ہاتھ لگائے۔
’’وہ ٹھنڈی ٹھنڈی بیزتی خراب کی اس نمانی کی کہ بس…. چوبیس منٹ کا نان سٹاپ لیکچر دیا اسے پاکستان کی محبت پر کہ کیا بتائیں ، آخر میں تو بس رونے ہی لگ گئی تھیں‘‘۔
’’اچھا چلو چھوڑو دفع مارو ،کیا باتیں لے کربیٹھ گئی ہو تم دونوں!‘‘
اتنی سینس تو بہرحال تھی ان میں کہ اب بات استاد کی بے ادبی تک پہنچ رہی ہے ،وہ خود بھی کسی دور میں گلی محلے کے سکول میں پڑھاتی رہی تھیں تو استاد کی بے ادبی انہیں کسی صورت بھی قبول نہیں تھی۔
دو چار دنوں میں بات بھول بھلا گئی ،کون سی تسنیم عبدالقدوس اور کون سا حب الوطنی کا دورہ ۔وہ تو اچانک انہیں کالج میں جانا پڑ گیا۔شادی سے پہلے ان کے معاشی حالات گئے گزرے ہی تھے ،شادی کے بعد میاں پونڈز اور یورو میں مالا مال کر رہا تھا تو فطری طور پر ان میں دولت استعمال کرنے کی خو بو پیدا ہو گئی ۔سٹیٹس اور برانڈز کونشس تو شروع سے ہی تھیں، آئی پیڈ یا آئی فون کا سب سے جدید ماڈل خاندان میں ان کے پاس ہی پہنچتا تھا ۔کھاڈی رنگ رسیا سے عاصم جوفا اور زینب چھوٹانی تک کے برانڈ تک پہنچنا جتنا خوشگوار مرحلہ تھا اس سے بھی زیادہ لوگوں کو ان کے حوالے سے جانچنا ان کی مالی حیثیت کا اندازہ لگانا۔
چونکہ وہ کالج کےمستقل ڈونرز میں سے تھیں تو ان کی ہر مرتبہ خوب آؤبھگت ہوتی۔ اب بھی وہ بڑی ادا سے ٹانگوں پر ٹانگ رکھے کچھ لیکچررز کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھیں کہ کالج میں ایک دھان پان سی عورت نما لڑکی اندر آئیں۔
وہ گو مگو کی کیفیت میں تھیں کہ اسے لڑکیوں کے گروہ میں شامل کریں یا خواتین کے ،دوبارہ اس کی طرف دیکھا تو عالیہ کی آنٹی،نیلم کی مما مسز شہزاد انجم ….ایک دم ہکلا گئیں ۔
اس اندر آنے والی میں کوئی رعب دبدبہ یاکچھ نہ کچھ ایسی چیز ضرور تھی کہ وہ مرعوب ہو گئیں ۔
’’مسز شہزاد انجم! یہ ہماری اردو کی نئی لیکچرار ہیں تسنیم عبدالقدوس صاحبہ ! مس یا میڈم کا لفظ انہیں اپنے لیے مناسب نہیں لگتا تو بس محترمہ کہہ لیتے ہیں ‘‘۔سوشیالوجی کی عذرا نورین نے تعارف کروایا۔
تسنیم عبدالقدوس کا نام سنتے ہی انہیں نیلم اور عالیہ کی اس دن کی گفتگو یاد آگئی۔ اس سے قبل کہ وہ کوئی رسمی سا فقرہ کہتیں وہ خود ہی ان کے قریب بیٹھ گئیں۔
’’بات یہ نہیں کہ مجھے میڈم یا مس کے لفظ سے دشمنی ہے۔ اصل میں ہماری اپنی زبان میں بہت خوب صورت الفاظ موجود ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے پرائی چیزوں کو اپنی زبان میں شامل کرنے کی ؟ میں جس بات کے خلاف ہوں وہ یہ ہے کہ ہم دوسری زبان یا دوسری تہذیب اور رسم و رواج کو اپنی زندگی میں شامل کرتے ہیں اور اس پر احساس برتری محسوس کرتے ہیں ۔ایک تفاخرانہ انداز ہوتا ہے۔ جو جتنے اچھے لب و لہجہ میں انگریزی بولتا ہے اس کو اتنا ہی سراہا جاتا ہے ،کیوں بھئی ؟ کیا ہم اپنے طور طریقے یا رسم و رواج میں کنگلے ہیں ؟ نہیں ناں ! تو پھر خواہ مخواہ کیا ضرورت ہے۔ اگر کوئی آپ کی زندگی میں مداخلت کرتا ہے تو آپ اس پر غصہ کرتے ہیں اسے اپنی نجی زندگی میں مداخلت قرار دیتے ہیں اور یہی معاملہ ہماری رسموں ،ہماری زبان ہماری تہذیب میں ہو تو اسے مداخلت نہیں سمجھتے بلکہ احساس تفاخر پیدا ہوتا ہے مجھے بتائیے یہ ہی تو احساس کمتری نہیں ہے کیا؟‘‘
بات ٹھاہ کر کے مسز شہزاد انجم کے دل پر لگی اور جو بات دل کو متاثر کرے تو ظاہری بات ہے دماغ کے دروازے کھڑکیاں بھی کھل جاتے ہیں۔
انہوں نے تائید میں سر ہلایا اور یہ بھی بتایا کہ ان کا تذکرہ اس ملاقات سے پہلے ہی ہوچکا ہے ۔
’’وہ کیسے ؟‘‘ حیرت سے انہوں نے مسز شہزاد انجم کی طرف دیکھا ۔
’’ میری بچی نیلم شہزاد آپ کی سٹوڈنٹ ہے‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ارے واہ آپ نیلم کی امی جان ہیں ،مجھے واقعی یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ‘‘ وہ خوشدلی سے بولیں ۔
اتفاق سے ان کا اگلا پیریڈ فری تھا اور مسز شہزاد انجم کو بھی گھر جانے کی جلدی نہیں تھی۔ وہ جو کہتے ہیں گھر والا گھر نہیں تے سانوں کسی دا ڈر نہیں ،بس وہ اسی حساب کتاب میں فارغ تھی۔ بہت جلد دونوں میں بے تکلفی ہو گئی۔ گفتگو میں اچانک ہی وہ مقام آگیا جب تسنیم عبدالقدوس کی آواز بھرا گئی۔ان کی آنکھوں میں چمکتا پانی ان کی سچائی کی گواہی کا ضامن تھا اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے وہ بولیں۔
’’میرا بھی جی چاہتا ہے وہ سب کچھ کروں جس کا دنیا میں ہر عورت کا جی چاہتا ہے لیکن میں تو مسلمان ہونے کے ناطے خود بھی پابند ہوں اور دوسروں کو بھی پابند کرنے کی امین ہوں۔ اسے ہی نہی عن المنکر کہتے ہیں ۔اگر یہ نہ کیا تو چلتے پھرتے جیتے جاگتے انسان اپنے دور کے ذہین فطین مالدار، رات کو سوئے تو انسان تھے لیکن صبح انہیں انسانیت کی حالت میں نہیں ملی ،وہ بندر بن چکے تھے….بگڑے ہوئے ذلیل بندر!‘‘
’’ میرے خدایا….بس یہ ربی فرض ان کے لیے اہم نہ رہا تھا کہ وہ خدا کی مخلوق کو برائی سے روکیں ہاتھ پکڑ کر ،زبان سے یا کم از کم دل میں ہی برا سمجھتے ،نہیں سمجھے تو بندر بنا دیے گئے ،توبہ کے دروازے ان پر بند ہو گئے ۔میں ڈرتی ہوں کہیں ہم پر بھی وہ وقت نہ آجائے جلد یا بدیر….حالات تو وہی ہیں چاروں طرف ، پرائی تہذ یب کو چوم چاٹ کر گلے لگانے والے ….آپ بتائیں ایمان سے بتائیں کیا میں ان بچیوں کو جو میری شاگرد ہیں نہ سمجھاوں ؟ انہیں نہ روکوں انہیں کھسماں نوں کھائو کہہ کر شانے اچکا کر نظر انداز کردوں ؟ مجھے ایمان داری سے بتائیں ان میں بری عادتیں زیادہ تھیں یا ہم میں ؟ ناپ تول میں ہم ڈنڈی مارنے کے ماہر ،قوم لوط کی خصوصیات ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں ،فحاشی بدکاری میں ہم آگے، بتائیں ناں!‘‘
وہ بولتے بولتے لمحے بھر کو رکیں ۔
’’مجھے معلوم ہے یہ ستاروں سے سجا نہیں کانٹوں بھرا راستہ ہے۔ دو مجھے ٹھیک سمجھتے ہیں تو چار میری پیٹھ پیچھے مذاق بھی اڑاتے ہیں تو کیا میں اس سے خوفزدہ ہو کر چھوڑ دوں اس مقام تک جانے دوں جب شکلیں مسخ کردی جائیں گی توبہ کے دروازے بند کر دیے جائیں گے پھر….؟ پھر آپ بتائیں کیا بندروں کی توبہ بھی کبھی قبول ہوئی؟‘‘
وہ چھوٹی چھوٹی سسکیوں میں رو رہی تھیں، نہی عن المنکر کا غم ان کے سینے سے سوز کی صورت نکل رہا تھا اور مسز شہزاد انجم کو لگ رہا تھا سب سے پہلے تو یہ سوز انہی کو پگھلائے گا، کہ ان کی رات کبھی کرینہ کپور، اکشے کمار، دیپیکا پڈوکون، انوشکا شرما کی فلمیں دیکھے بغیر نہیں ہوئی تھی۔
٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here