مائدہ سیملبرکت والا سکہ - نور مارچ ۲۰۲۱

برکت والا سکہ – نور مارچ ۲۰۲۱

شہراجمیرمیں ایک مدرسہ تھا جہاں بڑےبڑےامیرافراد کے ساتھ غریبوں کے بچے بھی مفت تعلیم حاصل کرتے تھے ۔اسی مدرسے میں ایک غریب کسان کا بیٹا بھی تعلیم حاصل کررہا تھا ۔ جس کا نام عادل تھا ۔ مدرسے میں اس کی دوستی ایک امیر آدمی کے بیٹےمراد سےہو گئی ۔ دونوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروںکو لوٹ گئے۔
عادل کا گائوں اجمیر سے کافی دور تھا جہاںہندو راجہ کی حکومت تھی عادل نے راجا کے دربارمیں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی مگرکامیاب نہ ہوا اور اپنے گائوں لوٹ آیا اوربوڑھے باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کرنے لگا ۔ ساتھ ہی وہ وقت نکال کر گائوں کے بچوں کومفت پڑھا یا بھی کرتا تھا۔
ماں باپ نے عادل کی شادی کردی شادی کے کچھ عرصہ بعد عادل کےوالدین کا انتقال ہو گیا ۔ اب اس کے دوبچے بھی تھے گزر اوقات مشکل تھی۔
ایک دن اس کی بیوی نے کہا ’’ تمہارے مدرسے میںبڑےبڑے امیرلوگوں کے بچے پڑھتے تھے ۔ تم کسی سے ملو اور اپنی حاجت بیان کرو۔‘‘
عادل کواپنی بیوی کی بات سن کر مراد یاد آگیا ، جس نے جدا ہوتے وقت عادل سے کہا تھا کہ تمھیں کبھی میری مدد کی ضرورت پیش آئے تو بلا جھجھک میرے پاس چلنے آنا۔
عادل نے ہمت کی اورسفرپر روانہ ہو گیا ۔ یہاں آکرعادل کو پتہ چلا کہ مراد توبادشاہ کاوزیر بن چکا ہے ۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوااور اس سے ملنے شاہی محل جا پہنچا ۔ مراد سے ملنا آسان نہیںتھا ۔ عادل کچھ دن اجمیر میں ٹھہرا رہا ۔ تیسرے دن اس کی ملاقات مراد سے ہو گئی مراد اسے دیکھ کربہت خوش ہوااوربڑے پر جوش انداز میںملا ۔ اُسے اپنے مہمان خانے میں ٹھہرایا اور خوب خاطر مدارت کی کھانے پینے سے فارغ ہو کرمرادنے اس کا حال احوال دریافت کیا توعادل نے سر جھکا کر اپنی مشکلات کا ذکرکیا اور کہا ’’ میری کچھ مدد کرو اور میرے لیے کسی ملازمت کا بندو بست کردو ۔ چاہو تو فوج میں سپاہی ہی بھرتی کروا دو ۔‘‘
وزیر نے کچھ دیر سوچا پھر جا کر الماری میں سے ایک چاندی کاسکہ لا کراس کی ہتھیلی پر رکھ دیا اور کہا ’’ اس وقت میرے پاس یہی ذاتی رقم ہے ۔خزانہ ایک امانت ہے اس لیے اس میں سے میں کوئی رقم نہیں نکال سکتا ۔ جہاں تک نوکری کی بات ہے تو فوج میں بھرتی ہونے کے لیے تم کافی کمزور ہو ۔ پھر آنا تو میں کچھ نہ کچھ انتظام کروا دوں گا ۔فی الحال یہ چاندی کا سکہ میری اپنی محنت کی کمائی ہے ۔ یہ تم رکھ لو ۔‘‘ یہ کہہ کرمراد نے عادل کو اپنی دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔
عادل کا دل مراد کے اس سلوک سے بہت خفا ہوا۔وہ مایوسی سے اپنے گائوں کی طرف چل دیا ۔ جب وہ دریا کے کنارے پہنچا تو اس نے دیکھا کہ کچھ مچھیرے ٹوکروںمیںمچھلیاں لیے بیٹھے ہیں اور گاہک کا انتظار کر رہے ہیں ۔ اس کے دل میں آیا کہ چاندی کے سکے سے مچھلی ہی لے لوں کم از کم پیٹ کی آگ تو بجھے گی ۔ اُس نے چاندی کا سکہ مچھیرے کو دیا اور مچھلی خرید کر گھر چلا آیا ۔ اس نے مچھلی اپنی بیوی کودی اور افسردگی کے عالم میں جا کر لیٹ گیا ۔ وہ کافی دیر تک مراد کے متعلق سوچتا رہا اور یوںہی سوچتے سوچتے سو گیا ۔دوسری طرف اس کی بیوی پکانے کے لیےمچھلی صاف کر رہی تھی کہ اچانک اُسے مچھلی کے پیٹ میں کوئی چمکدار چیز نظر آئی اسے صاف کیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو ایک بیش قیمت موتی ہے ۔ عادل کی بیوی نے سوچا کہ اس کا دوست تو بڑا سمجھدار ہے اس نے مچھلی کے پیٹ کے اندر موتی رکھ کر اس لیے دیا کہ راستے میں ڈاکو اُسےلوٹ نہ لیں دوسرا عادل کی انا کو ٹھیس بھی نہ پہنچے ۔خیر، اس نے موتی کو محفوظ جگہ پر رکھ دیا اور مچھلی پکانے میں مصروف ہو گئی ۔ جب وہ لوگ کھانا کھا کر فارغ ہوئے توعادل کی بیوی نے موتی نکال کرعادل کے سامنے رکھ دیا اور اس کے دوست کی خوب تعریف کی عادل یہ سن کر دنگ رہ گیا۔
اُس نے موتی بیوی سے لے لیا ۔ اگلے دن جوہری کودکھانے کے بہانے گھر سے نکلا اور سیدھا مراد کے پاس محل جا پہنچا مراد اُس کے دوبارہ اتنی جلدی واپس آنے پر حیران ہو گیا عادل نے موتی مراد کے سامنے رکھ دیا اور پوراواقعہ بتا دیا مراد یہ سن کر بہت خوش ہوا اللہ کاشکر ادا کیا اور کہا۔’’ میںنے ہمیشہ دیانت داری سے کام کیا ہے اور کبھی بادشاہ کے خزانے میںخیانت نہیں کی اس لیے اس چاندی کے سکے کو جو رزق حلال تھا ، اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت والا بنا دیا ۔‘‘ اس کے بعد مراد اپنے دوست کو بادشاہ کے پاس لے گیا اور وہ موتی پیش کیا ۔ بادشاہ اسے دیکھ کربہت خوش ہوا اور عادل کو سونے کے سکوں سے بھری ہوئی تھیلی انعام میں دی۔
عادل نے اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس آکرخوشحال زندگی بسر کرنے لگا ۔ کچھ عرصہ کے بعد بادشاہ کی ہندو راجا کے ساتھ جنگ ہوئی جس میں ہندو راجا مارا گیا اور علاقہ بادشاہ نے فتح کرلیا ۔ بادشاہ نے اپنے وزیر کی سفارش پر عادل کو اس علاقے کا حاکم بنا دیا ۔ عادل چونکہ پڑھا لکھا تھا اس نے علاقے میں ایسا عمدہ انتظام کیا کہ بادشاہ کے ساتھ وہاں کے لوگ بھی خوش ہو گئے ۔ عادل نے اپنے عزیز دوست سے ایک بات سیکھ لی کہ امانت میں خیانت نہ کرنے کا بڑا اجر ہوتا ہے اور اس چھوٹے سے عمل سے زندگی میں ایسی برکت پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان فکر معاش سے بیگانہ ہو جاتا ہے ۔

مائدہ سیمل

* * *

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here